@
lovelyalltime
@
nasirnoman @
sherry2112 @
Tooba Khan @
hoorain @
S_ChiragH @
Iceage-TM @
Ideal_man
جناب ابھی تک میرے سوال کا جواب نہیں ملا اور نہ ہی آپ نے بتایا کہ میں نے کب شرعی حلالہ کو حرام کہا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ آپ کی عادت ہے کہ جب کاپی پیسٹ کے لئے کچھ نہ ہو تو جواب نہیں دیتے اور پھر جب کوئی نئی چیز ملتی ہے کاپی پیسٹ کے لئے تو بھاگے چلے آتے ہو اور پوسٹ کر دیتے ہو۔
میں نے کب کہا کہ شرعی حلالہ حرام ہے؟؟؟؟
صحیح بخاری کی جو روایات اوپر بیان ہوئی کیا وہ حلالہ تھا یا نہیں؟
سلام
I LOVE SAHABAH
تمھیں شرم آنی چاہیے ایسی بتایں کرتے ہوۓ
ایک طرف حضور صلی اللہ وسلم حلالہ کو حرام کہ رھے ہیں
اور تم دوسری طرف حضور صلی اللہ کی حدیث کو حلالہ کی طرف منسوب کر رھے ھو
کیا ایک طرف حلالہ کو حرام کہا گیا اور دوسری طرف اس کو حلال کرنے کا جائز طریقہ نکالا گیا
کیا صحیح بخاری کی یہ حدیث حلالہ کو جائز قرار دے رہی ہے
گواہوں کا بیان
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2464
عبد اللہ بن محمد سفیان زہری حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رفاعہ قرضی کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کے پاس تھی انہوں نے مجھے طلاق بتہ یعنی تین طلاقیں دے دیں پھر میں نے عبدالرحمن بن زبیر سے نکاح کرلیا لیکن ان کے پاس کپڑے کے حاشیے کی طرح ہے (یعنی نامرد ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تو رفاعہ کے پاس پھر جانا چاہتی ہے یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تو عبدالرحمن سے اور وہ تجھ سے لطف اندوز نہ ہو لیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور خالد بن سعید بن عاص دروازے پر حاضری کی اجازت کے منتظر تھے خالد نے کہا اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تم اس عورت کی بات نہیں سنتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بآواز بلند بات کر رہی ہے۔
کیا یہ حلالہ ہے
واہ جی واہ میرے بھائی
کیا جب اس عورت نے طلاق کے بعد دوسرا نکاح کیا تو
یہ شرط لگائی تھی کہ مجھے طلاق دے دے گا
میرے بھائی حلالہ ہے ہی یہ کہ شرط پر نکاح کیا جا ے . یہ حرام ہے
اب ناراض نہ ہونا
یہ پورا پڑھنا
اللہ کی قسم
اس تحریر کا مقصد کسی پر کوئی اعترض نہیں بلکہ اصلاح کرنا ہے
[DOUBLEPOST=1367445789][/DOUBLEPOST]
اسلام کے طریقہ طلاق میں مسلم مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ تین طلاقیں تین مرتبہ اس طریقے سے دے کہ حالتِ طہر جس میں اس نے مجامعت نہیں کی، میں ایک طلاق دے اور بیوی کو اسی حالت میں چھوڑ دے اور یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے۔ اگر خاوند دورانِ عدت اسے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے لیکن اگر وہ رجوع نہ کرے اور عدت ختم ہو جائے تو پھر وہ نئے نکاح کے ساتھ اس کو واپس لا سکتا ہے اور اگر شوہر ضرورت نہ سمجھے تو عورت کسی اور مرد کے ساتھ نکاح کرنے کی مجاز ہے اور اگر پہلی طلاق کے بعد شوہر نے اسے دوبارہ اپنی زوجیت میں لے لیا اور پھر دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے اور صلح صفائی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی تو وہ بعد عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق ہے اور عدت گزر جانے کے بعد اگر رکھنا چاہے تو تجدید نکاح ہو گا۔ لیکن اگر تیسری طلاق بھی دے دی تو پھر یہ عورت قطعی طور پر اس خاوند کے لئے حرام ہو جائے گی۔ اب رجوع کا حق ختم ہے۔ عورت عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کر سکتی ہے اور یہ نکاح صحیح شرعی طریقے کے مطابق مستقل بسنے کی نیت سے ہو گا نہ کہ شوہر اوّل کے لئے حلال ہونے کی غرض سے۔۔۔اب اگر اس کا یہ خاوند بھی فوت ہو گیا یا اس نے گھریلو ناچاقی کی بنا پر اسے طلاق دے دی تو یہ عورت اگر دوبارہ شوہر اوّل کی طرف لوٹنا چاہے تو عدت کے بعد اس کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے اور ایسا واقعہ ہزاروں میں سے شاید کوئی ایک آدھ ہوا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کا ذکر سورة البقرة میں فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
''طلاق (جس کے بعد خاوند رجوع کر سکتا ہے) دوبار ہے۔ پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی بیوی کو رہنے دے یا اچھی طرح سے رخصت کر دے۔''
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھااور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات کے بموجب ابتداء ہجرت میں جاہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کے اندر رجوع کرتے رہتے تھے۔ مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہوتا تھااس صورتحال کو روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعی طلاق (جس میں رجوع کی گنجائش ہو) زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہے۔ اس کے بعد (امساک بمعروف)یعنی یا تو عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یا (تسریح یا حسان)یعنی حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مرفوعاً مروی ہے اور ابنِ جریر نے اسی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے تو (او تسریح یا حسان)سے مراد لی ہے کہ دو طلاق کے بعد رجوع نہ کرے حتیٰ کہ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت کو بخود اس سے الگ ہو جائے۔
(ابنِ جریر ، ابنِ کثیر)
''یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب پہلی طلاق کے بعد تین حیض کی مدت ختم ہو جائے گی تو اب عورت آزاد ہو گی۔ وہ جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ مرد کو رجوع کا حق اب ختم ہو گیا۔ ہاں البتہ دونوں عدت کے ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے پھر ملنا چاہیں تو نیانکاح کر کے مل سکتے ہیں لیکن اب دونوں فریقوں کی رضامندی ضروری ہے۔ صرف خاوند کی رضا مندی سے نیا نکاح نہ ہو سکے گا۔''
قرآن مجید میں سورة البقرة کے اندر موجود ہے۔ ملاحظہ کیجئے ارشاد باری تعالیٰ ہے
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو (اگلے) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔ اگر دستور کے موافق آپس میں رضا مندی ہو جائے۔
(البقرۃ ۲۹۹)
اس آیت کریمہ سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ طلاق رجعی جو دو مرتبہ ہے، اس پیریڈ میں اگر عورت کی عدت مکمل ہو چکی ہو اور وہ مرد و عورت دوبارہ آپس میں رضا مندی کے ساتھ بسنا چاہیں تو انہیں نکاح کرنے سے منع نہیں کرنا چاہیے۔ اب اس آیت کریمہ کا شان نزول بھی ملاحظہ فرما لیں تا کہ آپ کی مزید تشفی ہو جائے
''سیدنا حسن بصری سے مروی ہے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کا نکاح ایک آدمی کے ساتھ کیا ۔ اس نے اسے ایک طلاق دے دی (عدت گزر گئی) تو معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن اس سے علیحدہ ہو گئی۔ پھر وہ پیغام نکاح لے کر آیا تو معقل نے انکار کیا اور کہا میں نے اپنی معزز بہن کا نکاح تجھے دیا تھا۔ تو نے اسے طلاق دے دی اب تو پھر پیغام نکاح لے کر آ گیا ہے۔ اللہ کی قسم اب میں تجھے نکاح کر کے نہیں دوں گا اور معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن لوٹنا چاہتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی یہ آیت اتار دی: ''جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو ان کو اپنے (پہلے ) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔'' اس کے بعد معقل رضی اللہ عنہ نے کہا، ہا ں تجھے نکاح کر دیتا ہوں۔''
(بخاری۵۱۳۱، بیھقی ۱۳۸/۷، المعجم الکبیر للطبرانی۴۶۷/۲۰،الجزء الثالث والعشرین من حدیث ابی الطاسر القاضی محمد بن احمد الزسلی ص۲۹، رقم الحدیث۶۵واللفظ لہ)
مذکورہ بالا حدیث صحیح کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ جب عورت کو اس کا شوہر ایک طلاق دے دیتا ہے اور خاوند عدت کے اندررجوع نہیں کرتا تو اختتام عدت کے بعد اگر وہ مرد اور عورت باہم رضامندی سے رہنا چاہتے ہوں تو تجدید نکاح سے دوبارہ اپنا گھر آباد کر سکتے ہیں۔ اسی طرح دوسری مرتبہ کبھی زندگی میں تعلقات کی کشیدگی ہو گئی اور مرد نے اپنی منکوحہ کو طلاق دے دی تو پھر اسی طرح عدت کے اندر رجوع کا حق ہے اور اختتام عدت کے بعد نئے نکاح سے جمع ہو سکرتفگطبتے ہیں۔ یہ دو حق رجعی اللہ تعالیٰ نے (الطّلاق مرّتٰن)میں ذکر کئے ہیں پھر (فان طللّقھا فلا تجل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجا غیرہ)میں تیسری مرتبہ طلاق کے بعد یہ حق ختم کر دیا گیا ہے۔ مفسرین نے اس سے اس بات کی توضیح کی کہ اکھٹی تین طلاقیں دینے سے تینوں واقعی نہیں ہوتیں بلکہ ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔ کچھ حضرات جو اکھٹی تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کرتے ہیں اور پھر اگلی صورت میں جو حلالہ والی بتاتے ہیں ، یہ قابل غور ہے اور مطلوب ہے۔
تین طلاقوں کے بعد۔۔۔۔
قرآن مجید نے تین طلاقیں (وقفہ بعد وقدہ)واقع ہونے کے بعد جو بتایا ہے کہ اب وہ عورت کسی دوسرے مرد سے جب تک نکاح نہ کر لے ، وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوتی۔ اس کی تفسیر تمام مفسرین نے یہی لکھا ہے کہ جس طرح پہلے خاوند کے ساتھ مقصد نکاح کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقل بسنے اور گھر کی آبادی کی نیت سے نکاح کیا تھا، اسی طرح دوسرے مرد سے بھی مستقل بسنے کی نیت سے نکاح ہو نہ کہ نکاح سے پہلے ہی یہ طے کر لیا جائے کہ ایک دو راتوں بعد اس خاوند نے مجھے طلاق دے دینی ہے۔
ہاں پھر وہ بھی اگر اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہو تو کر سکتی ہے۔ اس صورت کو حلالہ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اسی طرح نکاح صحیح کہلائے گا جس طرح پہلے خاوند کے ساتھ نکاح تھا۔ موجودہ کچھ حضرات آج کل اپنے دوسرے طریقے سے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے حلالہ قرار دے رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے، دونوں پر اللہ کی لعنت ہو۔
(مسند احمد۲/۳۲۳، بیہقی۷/۲۰۸، نسائی۶/۱۴۹، ترمذی۱۱۲۰،دارمی۲/۱۹۸، ابودائود۲۰۷۶٠٧٦)
اسی طرح فرمایا حلالہ کرنے والا اُدھار مانگے ہوئے سانڈھ کی طرح ہے۔
(ابنِ ماجہ۱۹۳۶، مستدرک حاکم۲/۱۹۸، بیہقی۷/۲۰۸)
اس مُحلّل (حلالہ کرنے والے )کی تشریح ائمہ لغت اور شارحین حدیث رحمۃ اللہ علیہم کے حوالے سے ملاحظہ کیجئے اور اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ حلالہ کس آفت و مصیبت کا نام ہے۔ حدیث کی لغت کی معروف کتاب الھایہ فی غریب الحدیث والاثر ۱/۴۳۱ پر مرقوم ہے
حلالہ یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے۔ پھر دوسرا آدمی اس عورت کے ساتھ اس شرط پر نکاح کرے کہ وہ اس کے ساتھ وطی کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے تا کہ پہلے کے لئے حلال ہو جائے۔
فقہ کی فقہی اصطلاحات پر شائع شدہ کتاب القاموس الفقھی ص۱۰۰٠مطبوعہ ادارہ القرآن کراچی میں مُحلّل کی تعریف یہ لکھی ہے کہ
مُحلّل سے مراد حلالہ کرنے والا وہ شخص ہے جو مطلقہ ثلاثہ کے ساتھ اس لئے نکاح کرے تا کہ وہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے اور حدیث شریف میں وارد ہے حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے ان دونوں پر اللہ کی لعنت ہو۔
یہی معنی لغت کی مشہور کتب القامو س المحیط٣٧١٣ اور ا لمعجم الوسیط ص١٩٤ پر بھی موجود ہے۔
حلالہ کی تشریح احناف کے مشہور امام اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد محمد بن حسن الشیبانی کی زبانی ملاحظہ کیجئے۔ محمد بن حسن شیبانی اپنی کتاب الاثار رقم ٨٧٨ پر مُحلّل اورمُحلّل لہکی توضیح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں
'مُحلّل (حلالہ کرنے والا) اور مُحلّل لہ(جس کے لئے حلالہ کیا جائے) کا بیان یہ ہے کہ ایک مرد اپنی عورت کو تین طلاقیں دے ۔ پھر چاہے کہ اس کا کسی دوسرے مرد سے نکاح کر دے تا کہ وہ اس کو اس کے لئے حلال کر دے۔
(ص۳۷۹،مترجم ابو الفتح عزیزی، مطبوعہ سعید اینڈ کمپنی کراچی)
یہی معنی اور مفہوم شارح حدیث امام بغوی شرح السنہ ۱۰۱/۹، حافظ ابنِ حجر عسقلانی التلخیص الحبیر ۳/۱۷۱٣، امام ابنِ حزم المحلی، امام عبدالرحمن مبارکپوری تحفہ الاحوذی ۲/۱۸۵ اور علامہ معلّی یمانی سبل السلام میں تحریر فرماتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے عبارات درج نہیں کر رہے۔ یہ ہے وہ حلالہ جسے فقہ میں مختلف حیلوں اور بہانوں سے روا رکھا گیا۔
کیا پہلے سے طلاق لینے کی فاسد شرط کے ساتھ نکاح جائز ہو سکتا ہے؟
حلالہ کے متعلق۱۴ جنوری۱۹۹۶ء کے جنگ اخبار میں ایک مولوی محمد صدیق ہزاروی کا مضمون شائع ہوا جس میں انہوںنے امام ابو حنیفہ کا موقف یہ لکھا ہے کہ
اختلاف کی صورت میں یہ ہے کہ اگر اس شرط پر نکاح کیا جائے کہ دوسرا خاوند اسے طلاق دے دے گا تو کیا یہ نکاح ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ شرط بے کار ہو گی یا نکاح ہی نہیں ہو گا۔ اب اگر یہ نکاح صحیح قرار پائے تو طلاق کے بعد عورت کا پہلے خاوند سے نکاح جائز ہوگا اور اگر یہ نکاح صحیح قرار نہیں پاتا تو عورت پہلے خاوند کے لئے بدستور حرام رہے گی۔ سیدنا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہو گا کیونکہ فاسد شرائط سے نکاح کے انعقاد میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ عبارت من و عن ہم نے نقل کر دی ہے ۔ اب اس کی وضاحت ملاحظہ کیجئے۔ مولوی صدیق ہزاروی نے اس عبارت میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک حلت (عورت کو حلال کروانے ) کی شرط پر نکاح صحیح ہو گا اور یہی بات فقہ کی معتبر کتب کنزالدقائق ص۱۲۶، مع فتح القدیر ۴/۳۴'۳۵ اور دیگر کتب فقہ میں موجود ہے۔ یہ تو آپ نے پیچھے پڑھ لیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرما ن کے مطابق حلالہ کرنے والا اور کروانے والا ملعون ہیں اور حلالہ کرنے والا اُدھار سانڈ کی مانند ہے۔ یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نکاح حلالہ صحیح نہیں بلکہ نکاح فاسد ہے۔ صاحب سبل السلام راقم ہیں
مذکورہ حدیث حلالہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ لعنت کا اطلاق فعل حرام کے مرتکب پر ہی ہوتا ہے اور ہر حرام چیز پر شریعت میں نہی وارد ہے اور نہی فساد کا تقاضا ہے۔
لہٰذا جب حلالہ حرام اور منہی عنہ ہے ، اس لئے یہ نکاح فاسد قرار پاتا ہے ۔ یہی مفہوم دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح حلالہ نکاح فاسد ہے ، زنا اور بدکاری ہے، نکاح صحیح نہیں ہے۔
سیرتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے
''ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ۔پھر اس (طلاق دینے والے آدمی) کے بھائی نے اس کے مشورے کے بغیر اس سے اس لئے نکاح کر لیا تا کہ وہ اس عورت کو اپنے بھائی کے لئے حلال کر دے۔ کیا یہ پہلے کے لئے حلال ہو سکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صحیح نکاح کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدکاری (زنا ) شمار کرتے تھے۔''(مستدرک حاکم ۲۸۰۶،۲/۲۱۷ط، قدیم،۲/۱۹۹، بیہقی۷/۲۰۸، التلخیص الحبیر باب موانع النکاح۱۰۳۹،۳/۱۷۱۔ تحفہ الاحوذی۲/۱۷۵، امام حاکم نے فرمایا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے اور
امام ذہبی نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کی موافقت کی ہے)۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا
''اللہ کی قسم میرے پاس حلالہ کرنے والا اور کروانے والا لایا گیا تو میں دونوں کو سنگسار کر دوں گا۔''
مصنف عبدالرزاق ۲/۲۶۵، سن سعید بن منصور ۲/۴۹'۵۰ بیہقی۷/۲۰۸) فتوے سے بھی ہوتی ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے حلالے کی غرض سے نکاح کیا تھا تو انہوں نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور فرمایا ''یہ عورت حلالہ کے ذریعے پہلے خاوند کی طرف نہیں لوٹ سکتی بلکہ ایسے نکاح کے ذریعے لوٹ سکتی ہے جو رغبت کے ساتھ ہو اور دھوکہ دہی کے علاوہ ہو۔''
(بیہقی۷/۲۰۸،۲۰۹)
اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ
''کہ حلالہ کرنے والا مرد و عورت اگرچہ بیس سال اکھٹے رہیں ، وہ زناہی کرتے رہیں گے۔''
(مغنی ابنِ قدامہ۱۰/۵۱)