جو بھی غنچہ تیرے ہونٹوں پر کھِلا کرتا ہے
وہ مری تنگیِ داماں کا گلہ کرتا ہے
دیر سے آج مرا سر ہے ترے زانو پر
یہ وہ رُتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے
یہ وہ رُتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے
میں تو بیٹھا ہوں دُبائے ہوئے طوفانوں کو
تو مرے دل کے دھڑکنے کا گلا کرتا ہے
تو مرے دل کے دھڑکنے کا گلا کرتا ہے
رات یوں چاند کو دیکھا ہے ندی میں رقصاں
جیسے جھومر ترے ماتھے پہ ہلا کرتا ہے
جیسے جھومر ترے ماتھے پہ ہلا کرتا ہے
جب مری سیج پہ ہوتا ہے بہاروں کا نُزول
صرف اک پھول کواڑوں میں کھلا کرتا ہے
صرف اک پھول کواڑوں میں کھلا کرتا ہے
کون کافر تجھے الزامِ تغافل دے گا
جو بھی کرتا ہے محبت سے گلا کرتا ہے
جو بھی کرتا ہے محبت سے گلا کرتا ہے
لوگ کہتے ہیں جسے نیل کنول وہ تو قتیل
شب کو اُن جھیل سی آنکھوں میں کھلا کرتا ہے
شب کو اُن جھیل سی آنکھوں میں کھلا کرتا ہے