قربانی کا تصور اور ہمارا معاشرہ

  • Work-from-home

Hans_Mukh

~~ Catch Me if u Can~~
VIP
Dec 1, 2008
30,406
14,989
713
Logon Ki Soch May



عیدالاضحٰی کے موقع پر ہرسال جو قربانی ادا کی جاتی ہے اس کا تعلق انسانی زندگی سے بہت گہرا ہے وہ صحتمند زندگی کی تعمیر کی علامت ہے مگر موجودہ زمانہ میں قربانی ایک سالانہ رسم بن کر رہ گئی ہے جو ایک بے روح مذہبی روایت کے طور پر زندہ ہے یہی وجہ بنی کے لوگ سال کے مخصوص دنوں میں رسمی طور پر جانور تو ذبح کردیتے ہیں مگر اس کا کچھ بھی اثر ان کی عام زندگیوں میں نظر نہیں آتاـ


قربانی کا عمل اگر زندہ لگن کے ساتھ کیا جائے تو ہمارا پورا معاشرہ بالکل بدل جائے گا۔

قربانی کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے اللہ وحدہ لاشریک نے ارشاد فرمایا ہے کہ!۔۔۔۔

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ

اللہ تک نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ بلکہ اُس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے (سورہ الحج۔٣٧)۔۔۔

یعنی گوشت اور خون جانور کے جسم میں ہوتا ہے جسے ذبح کیا جاتا ہے اور تقوٰی اُس شخص کے دل کی چیز ہے جو ذبح کرنے والا ہے۔۔۔اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کے بظاہر اگرچہ جانور کو اپنے رب کے سامنے پیش کیا جاتا ہے مگر یہ حقیقتا اپنے آپ کو اپنے رب کے سامنے پیش کرنا ہے دوسرے لفظوں میں قربانی جانور کا ذبیحہ نہیں بلکہ خود اپنا ذبیحہ ہے یہ ذبح ہونے والے سے زیادہ ذبح کرنے والے کی تصویر ہے اگر دیکھیں تو یہ خارجی عمل ہے مگر با اعتبار حقیقت وہ ایک اندرونی عمل ہے۔لہذا ایسے شخص کی قربانی صحیح قربانی ہے جس کی ظاہری قربانی اس کی اندورنی قربانی میں ڈھل جائے۔۔۔

یوں تو جانور کو ذبح کرکے آدمی اپنے اس ارادے کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اپنے رب کی خاطر اپنی انا کو ذبح کرے گا۔۔۔ وہ اپنے مفادات کو قربان کرکے سچائی کے طریقے پر قائم رہے گا وہ مصلحتوں کو نظر انداز کر کے اپنے رب کے حکم پر چلنے والا بنے گا۔۔۔ اگر اُس کا اپنا نفس اپنے رب کے راستے پر چلنے میں رکاوٹ بنے گا تو وہ شخص اپنے نفس پر چھری چلادے گا مگر اپنے رب کے راستے سے ہٹنا گوارہ نہیں کرے گا۔۔

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ وحدہ لاشریک نے ارشاد فرمایا ہے کہ!۔۔۔

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ

تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو (سورہ کوثر۔٢)۔۔۔

دیکھا جائے تو یہ آیت اعتبار کے لحاظ سے دین کے اہم پہلوؤں کو اُجاگر کرتی ہے۔۔۔ ایک پہلو عجز وتواضع کا ہے اور دوسرا پہلو ایثار قربانی کا۔۔۔

یہ بات عام ہے کے نماز عجز کی علامت ہے۔۔۔ بین اسی طرح جانور کا ذبیحہ قربانی کی علامت۔۔۔ یہ گویا دو بنیادیں ہیں جن پر پورے دین کی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔۔۔ ایک دوسرے اعتبار سے اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کے اللہ کے مقابلہ میں عجز مطلوب ہے اور بندوں کے مقابلے میں قربانی درکار ہے اللہ بڑا ہے ہم چھوٹے ہیں اللہ دینے والا ہے ہم پانے والے ہیں اللہ آقا ہے ہم اس کے بندے ہیں اس اعتبار سے اللہ کے مقابلے میں واحد چیز جو مطلوب ہوسکتی ہے وہ عجزو تواضع ہی ہے یہاں بندے کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے بے کمال ہونے کو مانے وہ اللہ کے مقابلے میں عاجزی اور فرماں برداری کےطریقے کو اختیار کرے۔۔۔

یوں تو قربانی کا عمل کئی اعتبار سے بندوں سے تعلق رکھتا ہے یہ اس اخلاقی برتاؤ اور انسانی سلوک کا خلاصہ ہے جو قربانی کرنے والے کو اپنے معاشرے کے اندر پیش آتا ہے۔۔۔



 
Top