اب یہ خواہش ہے کہ اپنا ہمسفر کوئی نہ ہو

  • Work-from-home

selfish_man

Senior Member
Oct 14, 2013
779
213
43
29
karachi

اب یہ خواہش ہے کہ اپنا ہمسفر کوئی نہ ہو
جز شبِ تنہا، شریک رہگزر کوئی نہ ہو
رات کے پچھلے پہر کی خامشی کے خوف کو
اس سے پوچھو شہر بھر میں جس کا گھر کوئی نہ ہو

یا چراغ کم نفس کو صبح تک جلنا سکھا
یا پھر ایسی شام دے جس کی سحر کوئی نہ ہو

جل رہے ہیں بام و در اور مطمئن بیٹھا ہوں میں
گھر کی بربادی سے اتنا بے خبر کوئی نہ ہو

جستجو فن کی، متاعِ فن بچانے کا خیال
پتھروں کے شہر میں بھی شیشہ گر کوئی نہ ہو

درد اتنا ہو کہ بول اٹھے سکوت شہرِ جاں
زخم ایسا دے کہ جس کا چارہ گر کوئی نہ ہو

صحبتوں کے خواب دیکھوں رات بھر محسن مگر
صبحدم آنکھیں کھلیں تو بام پر کوئی نہ ہو​
 
Top