ھاے رے میری غفلت و لاپرواہی ، میں زندگی بھر الله و رسول کے حکموں کے خلاف چلتا رہا . میں نے اپنے رشتےداروں ، دوستوں کا خیال رکھا لیکن الله و رسول کے فرمان کا خیال نہیں رکھا . یہاں تک کہ دنیا سے جانے کا وقت آ پہنچا . مجھے اندیکھی راہوں پر سفر کرنا پڑیگا اور میرے پاس سامان-ا-سفر کچھ بھی نہیں . میری طاقت بھی ختم ہو چکی . موت میری تلاش میں ہے . میرے سر پر گناہوں کا کتنا بڑا بوجھ ہے ؟ مجھے کچھ اندازہ نہیں ، لیکن میرے رب کو سب خبر ہے . وہ میرے چھوٹے بڑے سبھی گناہ جان رہا ہے ھاے . افسوس ! میں وہی گنہگار انسان ہوں جو گناہ کرتے وقت دنیا والوں کی نظروں سے بچنے کے لئے دروازے بند کر لیا کرتا تھا ، میں بھول گیا تھا کہ میں لاکھ چھپنے چھپانے کی کوشش کروں ، میرا رب دیکھ رہا ہے . افسوس ، میں نے دنیا والوں سے پردہ کیا لیکن اپنے رب سے شرم نہ آیی .
الٰھی ! میرے حال پر رحم فرما ، مجھے چھوڈ دے . اب تو وقت آ پہنچا کہ اپنے گھر والوں کے سامنے بستر پر پڑا ہوں . نزاع کے وقت میری روح نکل جائے گی ، اس وقت تو موت کی تلخی سے موہں کا مزہ بھی کڑوا ہو جایگا . لیجئے روح نکال لی گیی . اب میری لاش گھر والوں کے سامنے پڑی ہے . وہ مجھے الٹ پلٹ رہے ہیں .انکی آنکھوں سے آنسوجعری ہو گئے، انہونیں میری آنکھیں بند کر دی تاکہ انکو روتا نہ دیکھ سکوں . میرا موہں بھی بند کر دیا . میرے اپنے لوگ میرے کفن دفن کا انتظام کرنے لگے . کسی کو کبر کھودنے کے لئے بھیج دیا گیا . گویا میں اب اپنے گھر میں ہی رہنےکے قابل نہیں رہا . مجھے نہلایا گیا ، سفید کفن میں لپیٹ دیا گیا . لوگ جمع ہو گئے . آواز دی گیی جنازہ تیار ہے ، اٹھایا جائے .چنانچہ لوگوں نے ملکر مجھے میرے اپنے گھر سے جسے میں نے بڑی محنت و شوق سے بنوایا تھا ، بہار نکل دیا . ھاے افسوس ! زندگی کی بھاگ دوڑ میں تو مجھے اس دن کی یاد ہی نہیں آیی . میں ایسے سفر پر روانہ ہوا کہ کوئی سامان-ا-سفر نہیں . چار آدمیوں نے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھایا باقی لوگ مجھے رخصت کرنے کے لئے ساتھ ہو لئے . میرا جنازہ جنازہ گاہ پہنچا . امام صاحب تشریف لاے صفیں درست ہوئی . لوگوں نے میری نماز-ا-جنازہ پڑھا دی . الله مجھ پر رحم فرمایے . لوگوں نے میرے لئے دعا کی . مجھے لیکر قبرستان پہنچے . میرے لئے ایک چھوٹا گھر طیار کیا جا چکا تھا . اتنا چھوٹا گھر کہ اسمیں آرام سے سو بھی نہیں سکتا . لیکن اب وہی میرا گھر ہے . آخری بار میرا چہرہ دیکھکر لوگوں نے مجھے میرے آخری گھر میں اتار دیا . قبر پر مٹی ڈال دی گیی .لوگ مجھے اکیلے چھوڈ کر اداس چہرے لئے واپس لوٹ گئے .
میں اپنے اس اندھیرے گھر میں اکیلا ہوں ، میری معمولی سی تقلیف پر بے چین ہو جانے والے میرے گھر والے مجھے اس بڑی مصیبت میں اکیلا چھوڈ گئے . میری بےبسی ابھی ختم ہی نہ ہوئی تھی کہ اچانک میری قبر میں دو کالے چہرے والے فرشتے آ پہنچے . انکی بھیانک و ڈراؤنی شکل دیکھکر اپنے ہوش کھو بیٹھا .انہونیں مجھ سے سوال کرنا شروع کر دئے . ہے میرے رب !میں انہیں کیا جواب دوں ؟ میرے مولا ! تو نے مجھے جو زندگی اتا کی تھی وہ تو میں نے گناہوں میں گزار دی . الٰھی تیرے سوا میرا کوئی نہیں جو آکر میرا حال پوچھے کہ یہاں کیا بیت رہی ہے .
یہ وہ اٹل حقیقت ہے جو ہم سب کو پیش آےگی ، اسلئے بہتر یہی ہے کہ ہم افسوس کرنے کے بجایے ، نیک اعمال کریں گناہوں سے بچیں الله و رسول کی فرماں برداری کریں تاکہ آخرت میں اسکی رحمتوں کے حقدار بن سکیں . اپنی اس زندگی میں اپنے لئے آخرت کی کچھ تیاری کر لیں
اپنا سمجھ رہے ہو ہر ایک شخص کو اگر
یہ شہر بیوفا ہے ذرا دیکھ کر چلو
جنّت اور دوزخ کی ٹکٹ بکنگ ہے یہ دنیا
عمل دیکر ٹکٹ لے لو ، جہاں جانے کی خواہش ہو
سو جاتے ہیں فوٹ پاتھ پر اخبار بچھاکر
مجدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
الٰھی ! میرے حال پر رحم فرما ، مجھے چھوڈ دے . اب تو وقت آ پہنچا کہ اپنے گھر والوں کے سامنے بستر پر پڑا ہوں . نزاع کے وقت میری روح نکل جائے گی ، اس وقت تو موت کی تلخی سے موہں کا مزہ بھی کڑوا ہو جایگا . لیجئے روح نکال لی گیی . اب میری لاش گھر والوں کے سامنے پڑی ہے . وہ مجھے الٹ پلٹ رہے ہیں .انکی آنکھوں سے آنسوجعری ہو گئے، انہونیں میری آنکھیں بند کر دی تاکہ انکو روتا نہ دیکھ سکوں . میرا موہں بھی بند کر دیا . میرے اپنے لوگ میرے کفن دفن کا انتظام کرنے لگے . کسی کو کبر کھودنے کے لئے بھیج دیا گیا . گویا میں اب اپنے گھر میں ہی رہنےکے قابل نہیں رہا . مجھے نہلایا گیا ، سفید کفن میں لپیٹ دیا گیا . لوگ جمع ہو گئے . آواز دی گیی جنازہ تیار ہے ، اٹھایا جائے .چنانچہ لوگوں نے ملکر مجھے میرے اپنے گھر سے جسے میں نے بڑی محنت و شوق سے بنوایا تھا ، بہار نکل دیا . ھاے افسوس ! زندگی کی بھاگ دوڑ میں تو مجھے اس دن کی یاد ہی نہیں آیی . میں ایسے سفر پر روانہ ہوا کہ کوئی سامان-ا-سفر نہیں . چار آدمیوں نے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھایا باقی لوگ مجھے رخصت کرنے کے لئے ساتھ ہو لئے . میرا جنازہ جنازہ گاہ پہنچا . امام صاحب تشریف لاے صفیں درست ہوئی . لوگوں نے میری نماز-ا-جنازہ پڑھا دی . الله مجھ پر رحم فرمایے . لوگوں نے میرے لئے دعا کی . مجھے لیکر قبرستان پہنچے . میرے لئے ایک چھوٹا گھر طیار کیا جا چکا تھا . اتنا چھوٹا گھر کہ اسمیں آرام سے سو بھی نہیں سکتا . لیکن اب وہی میرا گھر ہے . آخری بار میرا چہرہ دیکھکر لوگوں نے مجھے میرے آخری گھر میں اتار دیا . قبر پر مٹی ڈال دی گیی .لوگ مجھے اکیلے چھوڈ کر اداس چہرے لئے واپس لوٹ گئے .
میں اپنے اس اندھیرے گھر میں اکیلا ہوں ، میری معمولی سی تقلیف پر بے چین ہو جانے والے میرے گھر والے مجھے اس بڑی مصیبت میں اکیلا چھوڈ گئے . میری بےبسی ابھی ختم ہی نہ ہوئی تھی کہ اچانک میری قبر میں دو کالے چہرے والے فرشتے آ پہنچے . انکی بھیانک و ڈراؤنی شکل دیکھکر اپنے ہوش کھو بیٹھا .انہونیں مجھ سے سوال کرنا شروع کر دئے . ہے میرے رب !میں انہیں کیا جواب دوں ؟ میرے مولا ! تو نے مجھے جو زندگی اتا کی تھی وہ تو میں نے گناہوں میں گزار دی . الٰھی تیرے سوا میرا کوئی نہیں جو آکر میرا حال پوچھے کہ یہاں کیا بیت رہی ہے .
یہ وہ اٹل حقیقت ہے جو ہم سب کو پیش آےگی ، اسلئے بہتر یہی ہے کہ ہم افسوس کرنے کے بجایے ، نیک اعمال کریں گناہوں سے بچیں الله و رسول کی فرماں برداری کریں تاکہ آخرت میں اسکی رحمتوں کے حقدار بن سکیں . اپنی اس زندگی میں اپنے لئے آخرت کی کچھ تیاری کر لیں
اپنا سمجھ رہے ہو ہر ایک شخص کو اگر
یہ شہر بیوفا ہے ذرا دیکھ کر چلو
جنّت اور دوزخ کی ٹکٹ بکنگ ہے یہ دنیا
عمل دیکر ٹکٹ لے لو ، جہاں جانے کی خواہش ہو
سو جاتے ہیں فوٹ پاتھ پر اخبار بچھاکر
مجدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے