ايراني پلاؤ ازکرشن چندر آج رات اپني تھي، کيونکہ جيب ميں پيسے نہيں تھے، جب جيب ميں تھوڑے سے پيسے ھوں رات مجھے اپني نہيں معلوم ھوتي، اس وقت رات ميرين ڈرائيو پر تھرکنے والي گاڑيوں کي معلوم ھوتي ھے، جگماتے ھوئے فليٹوں کي معلوم ھوتی ھے ، ايمبسڈر کي چھت پر ناچنے والوں کي معلوم ھوتي ھے ، ليکن آج رات بالکل اپني تھي، آج رات آسمان کے سارے ستارے اپني تھے اور بمبي کي ساري سڑکيں اپني تھيں، جب جيب ميں تھوڑے سے پيسے ھوں تو سارا شہر اپنے اوپر مسلط ھوتا ھوا معلوم ھوتا ھے، ھر شے گھورتي ھے ڈانٹتي ھے، اپنے آپ سے دور بيٹھنے پر مجبور کرتي اوني پتلون سے لے کر خوش نما ريڈيو پروگرام تک ھر چيز کہتي ھے ، مجھ سے دور ھو، ليکن جب جيب ميں ايک پائي نہ ھوتو سارا شہر اپنا بنا ھوا معلوم ھو تا ھے ، اس کے ھر کھمبے پر گويا لکھا ھوتا تھا تعمير کيا گيا برائے بشن ايک قافہ مست صنف، اس دن نہ حوالات کا کارڈ ھوتا ھے نہ گاڑي کي لپٹ ميں آجانے کا، نہ ھوٹل ميںکہانے کا، ايک ايسي وسيع بےفکري اور بے کنار فاقي مستي کا نشہ آور موڈ ھوتا ھے، جوميلون تک پھيلتا چلاجارھے ، اس رات ميں خود نہيں چلتا ھوں اس رات بمبئي کي سڑکيں مجھے اٹھائے اٹھائے چلتي ھيں اور گليوں کے موڑ پر اور بازاروں کے ٹکڑ اور بڑي بڑي عمارتوں کےتاريک کونے مجھے خود دعوت ديتے ھيں ادھر آؤ ہميں بھي ديکھو ھم سے ملو، دوست تم آٹھ سال سے اس شہر ميں رہتے ھوں ، ليکن پھر بھي اجنبيوں کي طرح کيوں چل رھے ھو، ادھر آؤ ھم سے ہاتھ ملاؤ
آج رات اپني تھي، آج رات کسي کا ڈر نہیں تھا، ڈر اسے ھوتا ھے ، جس کي جيب بھاري ھوتي ھے، اس خالي جيبوں والے ملک ميں بھاري جيب والوں کو ڈر ھونا چاھئيے ، ليکن اپني پاس کيا تھا جسے کوئي چھين سکتا۔
سنا ھے کہ حکومت نے ايک قانون بن رکھا ھے،جس کي رو سے رات کو بارہ بجے کے بعد سڑکوں پر گھومنا منع ھے ، کيوں کيا بات ھے، رات کے بارہ بجے کے بعد بمبئ ميں کيا ھوتا جسے وھ مجھ سے چھپانا چاھتے ھيں، ميں تو ضرور ديکھوں گا، چاھئے کچھ بھي ھوجائے، آج رات تو مجھے کسي کا ڈر نہيں ھے ، نہ کسي وزير کا ، نہ کسي حوالات کا، کچھ بھي ھوجائے آج تو ميں ضرور گھوموں گا اور اپنے دوستوں سے ہاتھ ملاؤں گا۔
يہي سوچ کرگيٹ ري کلے مشين کے سامنے کي سڑک سے گزر کر يونيورسٹي گراؤنڈ ميں گھي گيا، ارادھ تو يہ تھا کہ ميدان کے بيچ سے گزر کر دوسري طرف بڑے تار گھر کےسامنے جانکلوں گا، اور وہاں سے فلورا فاونٹين چلا جاؤ گا، مگر ميدان سے گزرتے ھوئے ميں نے ديکھا کہ ايک کونے مين چند لڑکےدائرہ بنائے بيٹھے ھيں اور تالي بجا بجا کر گارھے ھيں
تيرا مير پيار ھوگيا۔
تيرا ميرا
تيرا ميرا
تيرا،ميرا، پيار ھوگيا۔
وھ تين لڑکے تالي بجاتے تھے، ايک لڑکا منہ سے بانسري کي آواز نکالنے کي کوشش کر رھا تھا، ايک لڑکا سر ھلا تے ھوئے ايک لکڑي کے بکس سے طلبے کے بول نکال رھا تھا، سب خوشي سے جھوم رھے تھے، اور موٹي پتلي اونچي نيچي آوازوں ميں گا رھے تھے، ميں نے قريب جا کر پوچھا
کيو ں بھئي کس سے پيار ھوگيا۔
آج رات اپني تھي، آج رات کسي کا ڈر نہیں تھا، ڈر اسے ھوتا ھے ، جس کي جيب بھاري ھوتي ھے، اس خالي جيبوں والے ملک ميں بھاري جيب والوں کو ڈر ھونا چاھئيے ، ليکن اپني پاس کيا تھا جسے کوئي چھين سکتا۔
سنا ھے کہ حکومت نے ايک قانون بن رکھا ھے،جس کي رو سے رات کو بارہ بجے کے بعد سڑکوں پر گھومنا منع ھے ، کيوں کيا بات ھے، رات کے بارہ بجے کے بعد بمبئ ميں کيا ھوتا جسے وھ مجھ سے چھپانا چاھتے ھيں، ميں تو ضرور ديکھوں گا، چاھئے کچھ بھي ھوجائے، آج رات تو مجھے کسي کا ڈر نہيں ھے ، نہ کسي وزير کا ، نہ کسي حوالات کا، کچھ بھي ھوجائے آج تو ميں ضرور گھوموں گا اور اپنے دوستوں سے ہاتھ ملاؤں گا۔
يہي سوچ کرگيٹ ري کلے مشين کے سامنے کي سڑک سے گزر کر يونيورسٹي گراؤنڈ ميں گھي گيا، ارادھ تو يہ تھا کہ ميدان کے بيچ سے گزر کر دوسري طرف بڑے تار گھر کےسامنے جانکلوں گا، اور وہاں سے فلورا فاونٹين چلا جاؤ گا، مگر ميدان سے گزرتے ھوئے ميں نے ديکھا کہ ايک کونے مين چند لڑکےدائرہ بنائے بيٹھے ھيں اور تالي بجا بجا کر گارھے ھيں
تيرا مير پيار ھوگيا۔
تيرا ميرا
تيرا ميرا
تيرا،ميرا، پيار ھوگيا۔
وھ تين لڑکے تالي بجاتے تھے، ايک لڑکا منہ سے بانسري کي آواز نکالنے کي کوشش کر رھا تھا، ايک لڑکا سر ھلا تے ھوئے ايک لکڑي کے بکس سے طلبے کے بول نکال رھا تھا، سب خوشي سے جھوم رھے تھے، اور موٹي پتلي اونچي نيچي آوازوں ميں گا رھے تھے، ميں نے قريب جا کر پوچھا
کيو ں بھئي کس سے پيار ھوگيا۔