اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤگے
خاک ہوجائے گے افسانوں میں ڈھل جاؤگے
اب تو چہروں کے خدوخال بھی پہلے سے نہیں
کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤگے
اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا
سرخ شعلوں سے جو کھیلوگے تو جل جاؤگے
دے رہیں ہیں تمھیں تو لوگ رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھوگے تو دہل جاؤگے
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤگے
تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
بِھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤگے
ہمسفر ڈھونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو
ٹھوکریں کھاؤگے تو خود ہی سنبھل جاؤگے
تم ہو اک زندہ جاوید روایت کہ چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤگے
صبح صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤگے