بے حسی انسان کی فطرت

  • Work-from-home

Armaghankhan

Likhy Nhi Ja Sakty Dukhi Dil K Afsaany
Super Star
Sep 13, 2012
10,433
5,571
1,313
KARACHI
ایک بحری جہاز پر ایک ڈریکولا انسانی روپ میں سوار تھا۔۔ رات ہوتے ہی وہ جہاز پر سوار کسی انسان کا خون پیتا اور یوں اپنی پیاس بجھاتا۔۔۔ ایک روز یہ بحری جہاز بیچ سمند میں کسی چٹان سے ٹکرا گیا۔۔ لوگ فوراً لائف بوٹس کی طرف بھاگے۔۔یہ ڈریکولا بھی ایک آدمی کی مدد سے ایک لائف بوٹ پر سوار ہو گیا ۔۔ قسمت کی خرابی کے اس کی لائف بوٹ پر صرف ایک ہی شخص تھا اور یہ ہی وہ شخص تھا جس نے اسے بچایا اور بوٹ یا کشتی میں
آنے میں مدد کی۔۔
رات ہوئی توڈریکولا کو انسانی خون پینے کی پیاس ہوئی۔۔ ڈریکولا نے خود کو کہا کہ یہ بےشرمی ہو گی جو میں اپنے محسن کا خون پیوں ۔۔۔ اس نیک بندے نے ہی تو مجھے ڈوبنے سے بچایا ہے۔۔میں کس طرح احسان فراموشی کروں؟؟؟
ایک دن ۔۔دو دن ۔۔۔ تیں دن وہ اسی دلیل سے خود کو روکتا رہا ۔۔۔ بلاخر ایک دن دلیل پر فطرت غالب آ گئی۔۔۔ اس کے نفس نے اسے دلیل دی کہ صرف دو گھونٹ ہی پیوں گا اور وہ بھی اس وقت جب محسن انسان نیند میں ہو گا۔۔ تاکہ اس کی صحت پر کوئی واضع فرق بھی نہ پڑے اور میری پیاس بھی تنگ نہ کرے۔۔۔
یہ سوچ کر روزانہ اس نے دو دو گھونٹ خون پینا شروع کر دیا۔۔ ایک دن اس کا ضمیر پھر جاگا اور اس پر ملامت کرنے لگا ۔۔۔ تو اس شخص کا خون پی رہا ہے جو تیرا دوست ہے۔۔۔ جس نے نہ صرف تجھے بچایا بلکہ جو مچھلی پکڑتا ہے۔۔۔ جو اوس کا پانی جمع کرتا ہے اس میں سے تجھے حصہ بھی دیتا ہے۔۔۔ یقیناً ۔۔یہ بے شرمی کی انتہا ہے۔۔ یہ محسن کشی ہے۔۔۔ اس بے شرمی کی زندگی سے تو موت اچھی ۔۔۔
ڈریکولا نے فیصلہ کیا کہ اب میں کبھی اپنے محسن کا خون نہیں پیوں گا ۔۔۔
ایک رات گزری، دوسری رات گزری ، تیسری رات ڈریکولا کا محسن بے چینی سے اٹھا اور بولا تم خون کیوں نہیں پیتے۔۔۔ ڈریکولا حیرت سے بولا کہ تمھیں کیسے پتہ چلا کہ میں ڈریکولا ہوں اور تمھارا خون پیتا تھا ۔۔۔ محسن بولا ۔۔کہ جس دن میں نے تمھیں بچایا تھا ۔۔اس دن تمھارے ہاتھ کی ٹھنڈک محسوس کر کے میں سمجھ گیا تھا کہ تم انسان نہیں ہو۔۔۔
ڈریکولا ندامت سے بولا ۔۔دوست میں شرمندا ہوں جو میں نے کیا لیکں اب میرا وعدہ ہے ۔۔۔ میں مر جاون گا لیکں تمھیں نقصان نہیں پہنچاوں گا۔۔۔
محسن بولا کیوں مجھ سے دشمنی کا اظہار کر رہے ہو۔۔۔ پہلے پہل جب تم خون پیتے تھے تو مجھے تکلیف ہوتی تھی ۔۔لیکن میں چپ رہتا کہ کہیں تمھیں پتہ نہ چل جائے اور میں مارا جاوں۔۔۔ لیکں اب مجھے خون پلانے کی عادت ہو گئی ہے۔۔اور پچھلے تیں دن سے عجیب بے چینی ہے ۔۔۔ اگر تم نے خون نہ پیا تو میں مر جاوں گا۔۔۔
کتنی حیرت کی بات ہے بحیثیت قوم ہمیں بھی خون پلانے کی عادت ہو چکی ہے، ہم اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے خون پینے والوں کو منتخب کرتے ہیں اور پھر اپنا خون پلا پلا کر انہیں پالتے ہیں ، تاکہ اگلی دفعہ بھی انہیں خون پینے والوں کو منتخب کر سکیں ، کیونکہ ہمیں بھی خون پلانے کی عادت ہو چکی ہے ، خون نہ پلائیں گے تو ہم بھی مر جائیں گے۔
 

Rana-M-Rehman

Active Member
Dec 19, 2013
283
29
28
34
In your Heart
ایک بحری جہاز پر ایک ڈریکولا انسانی روپ میں سوار تھا۔۔ رات ہوتے ہی وہ جہاز پر سوار کسی انسان کا خون پیتا اور یوں اپنی پیاس بجھاتا۔۔۔ ایک روز یہ بحری جہاز بیچ سمند میں کسی چٹان سے ٹکرا گیا۔۔ لوگ فوراً لائف بوٹس کی طرف بھاگے۔۔یہ ڈریکولا بھی ایک آدمی کی مدد سے ایک لائف بوٹ پر سوار ہو گیا ۔۔ قسمت کی خرابی کے اس کی لائف بوٹ پر صرف ایک ہی شخص تھا اور یہ ہی وہ شخص تھا جس نے اسے بچایا اور بوٹ یا کشتی میں
آنے میں مدد کی۔۔
رات ہوئی توڈریکولا کو انسانی خون پینے کی پیاس ہوئی۔۔ ڈریکولا نے خود کو کہا کہ یہ بےشرمی ہو گی جو میں اپنے محسن کا خون پیوں ۔۔۔ اس نیک بندے نے ہی تو مجھے ڈوبنے سے بچایا ہے۔۔میں کس طرح احسان فراموشی کروں؟؟؟
ایک دن ۔۔دو دن ۔۔۔ تیں دن وہ اسی دلیل سے خود کو روکتا رہا ۔۔۔ بلاخر ایک دن دلیل پر فطرت غالب آ گئی۔۔۔ اس کے نفس نے اسے دلیل دی کہ صرف دو گھونٹ ہی پیوں گا اور وہ بھی اس وقت جب محسن انسان نیند میں ہو گا۔۔ تاکہ اس کی صحت پر کوئی واضع فرق بھی نہ پڑے اور میری پیاس بھی تنگ نہ کرے۔۔۔
یہ سوچ کر روزانہ اس نے دو دو گھونٹ خون پینا شروع کر دیا۔۔ ایک دن اس کا ضمیر پھر جاگا اور اس پر ملامت کرنے لگا ۔۔۔ تو اس شخص کا خون پی رہا ہے جو تیرا دوست ہے۔۔۔ جس نے نہ صرف تجھے بچایا بلکہ جو مچھلی پکڑتا ہے۔۔۔ جو اوس کا پانی جمع کرتا ہے اس میں سے تجھے حصہ بھی دیتا ہے۔۔۔ یقیناً ۔۔یہ بے شرمی کی انتہا ہے۔۔ یہ محسن کشی ہے۔۔۔ اس بے شرمی کی زندگی سے تو موت اچھی ۔۔۔
ڈریکولا نے فیصلہ کیا کہ اب میں کبھی اپنے محسن کا خون نہیں پیوں گا ۔۔۔
ایک رات گزری، دوسری رات گزری ، تیسری رات ڈریکولا کا محسن بے چینی سے اٹھا اور بولا تم خون کیوں نہیں پیتے۔۔۔ ڈریکولا حیرت سے بولا کہ تمھیں کیسے پتہ چلا کہ میں ڈریکولا ہوں اور تمھارا خون پیتا تھا ۔۔۔ محسن بولا ۔۔کہ جس دن میں نے تمھیں بچایا تھا ۔۔اس دن تمھارے ہاتھ کی ٹھنڈک محسوس کر کے میں سمجھ گیا تھا کہ تم انسان نہیں ہو۔۔۔
ڈریکولا ندامت سے بولا ۔۔دوست میں شرمندا ہوں جو میں نے کیا لیکں اب میرا وعدہ ہے ۔۔۔ میں مر جاون گا لیکں تمھیں نقصان نہیں پہنچاوں گا۔۔۔
محسن بولا کیوں مجھ سے دشمنی کا اظہار کر رہے ہو۔۔۔ پہلے پہل جب تم خون پیتے تھے تو مجھے تکلیف ہوتی تھی ۔۔لیکن میں چپ رہتا کہ کہیں تمھیں پتہ نہ چل جائے اور میں مارا جاوں۔۔۔ لیکں اب مجھے خون پلانے کی عادت ہو گئی ہے۔۔اور پچھلے تیں دن سے عجیب بے چینی ہے ۔۔۔ اگر تم نے خون نہ پیا تو میں مر جاوں گا۔۔۔
کتنی حیرت کی بات ہے بحیثیت قوم ہمیں بھی خون پلانے کی عادت ہو چکی ہے، ہم اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے خون پینے والوں کو منتخب کرتے ہیں اور پھر اپنا خون پلا پلا کر انہیں پالتے ہیں ، تاکہ اگلی دفعہ بھی انہیں خون پینے والوں کو منتخب کر سکیں ، کیونکہ ہمیں بھی خون پلانے کی عادت ہو چکی ہے ، خون نہ پلائیں گے تو ہم بھی مر جائیں گے۔
janab ap ko ik baat kaho Qudrat ka ik niyyemm hy woh hy jis trha ki raya yani awam wesi waha ki hakoomat ho gi
 
Top