حریص محبت

  • Work-from-home

sidra23

Newbie
Feb 23, 2009
50
45
0
lahore
حریص محبت
شمسہ اکرام


محبت پاکیزگی ہے لیکن جب یہ پاکیزگی کی حدوں سے نکلنے لگے تو محبت کے حصار سے بھی آزاد ہو جاتی ہے۔باقی بچتا ہےتعلق۔۔۔نفس اور خواہش کا تعلق۔۔اور دونوں تعلق ہی بے لگام ہیں۔انسان کو کہا ں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں کہ احساس بھی باقی نہیں رہتا حصے آتا ہے تو افسوس اور ملا ل اور دونوں کا ہی کوئی مداوا نہیں
محبت بندگی ہے،اس میں تن کا قرب مت مانگ
کہ جسےچھو لیا جائے اس کی عبادت نہیں ہوتی
اس نے بو سیدہ سے دروازے پر کوئی تیسری بار دستک دی تھی تب ہی اک ستر ہ ، اٹھارہ سال کی لڑکی نے دروازہ کھولا۔میرا نام ملیح ہے۔۔۔ڈاکٹر ملیح احمد۔۔۔،انے والے نے اپنا تعاروف کروایا۔آہیے۔۔۔،اس نے اک مسکان کے ساتھ انھیں اندر آنے کا رستہ دیا۔اندر داخل ہوتے ہی ڈاکڑ کو ابکائی آنے لگی۔گھر کیا تھا چھوٹا سا صحن اس کے بھی ایک کونے میں کچن نما کچھ بنا تھا۔ زرا فاصلے پر نل جس کی زمیں پانی گرنے سے سبز رنگ کی ہو چکی تھی۔اور بلکل سامنے ایک کمرہ۔کہ اس کی دیواریں اسقدر سلیں زدہ تھی کہ بوکے تیز بھبھکوں کی وجہ سے اک لمحے بھی وہاں کھڑا ہونا محآل تھا۔ڈاکٹر نے اک نظر سامنے کھڑی لڑکی پر ڈالی جو کہیں سے بھی اس گھر کا حصہ نہیں لگ رہی تھی۔آپ کو فون میرے ڈیڈ نے کیا تھا۔۔۔، آرٹیٹکٹ عرفان آفریدی نے۔۔،اس کا انداز ایسا تھا جسے کہہ رہی ہو کہ آپ بھاری فیس کی فکر ناں کریں۔ڈاکٹر نے شرمندہ ہوتے ہوئے مریض کے بارے پوچھا۔وہ اسے لیے اندر چلی آئی اور بد رنگ کرسی کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا جو مریضہ کے پاس رکھی تھی۔میں نے ان کی کیس ہسٹری پڑھی ہے ان کی حالت ایسے نہیں کے ان کو گھر میں رکھ کے ٹریٹمنٹ دی جائی۔۔۔،وہ بیٹھے بنا بولے۔اندازعجلت بھرا تھا۔آپ فیس کی فکر ناں کریں۔۔۔لڑکی کو لگا کہ وہ اسی لیے ٹال مٹول رہیں ہیں۔اگر ان کو ہا سپٹل لے جایا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔۔۔،وہ مرہضہ کی نبض چیک کرتے ہوئے بولے۔نہیں آئی نےمنع کیا ہے کہ ان کو کسی صورت ہا سپٹل نا ں لے جایا جائے۔کما ل ہے یہ کیا حماقت ہوئی یعنی جان چلی جائے لیکن وصیت پوری ہونی چاہیے۔۔،ملیح کے لحجے میں سختی در آئی۔اس نے سر جھٹکتے ہوئے مریضہ کا چہرہ اپنی جانب کیا اور دوسرے ہی لمحے ان کے بے دلی سے چلتے ہاتھ پھرتی سے حرکت میں آئے تھے۔وقت چاہے کتنی ہی چہروں پے دھول کیوں نا مل دے لیکن کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جن پر وقت کتنی ہی دھول کیوں نا ں ڈالے وہ اپنی پہچان،اپنا اصل نہیں کھوتے۔برسوں جس شخص کو ڈھونٹا وہ اب ملی بھی تو کس حال میں۔۔۔،انو میری جانب دیکھو۔۔۔دل نے شدت سے نیم بےہوش وجود کو پکارہ تھا۔
اسے آئے تین گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تھے۔اسے جو اک لمحہ یہاں کھڑے ہونا عذاب لگ ہرا تھا اب اطمنان سے مریضہ کے سر ہانے بیٹھا اس کے ہوش میں آنے کا منتظر تھا۔یہ آپ کی کیا لگتی ہیں۔۔۔،دل میں اودھم مچاتا سوال زبان پے آیا تھا۔آئی ہیں میری،انھوں نے مجھے پالا ہے ۔۔۔وہ محبت سے آئی کو دیکھنے لگی۔ان کے رشتے دار۔۔،معلوم نہیں یہ تیس سال سے ہمارے ہاں کام کرتی ہیں ان کا بیٹا ہے جو اسلام آباد ہوتے ہیں میں نے فوں کر دیا تھا بس شام تک آجائیں گے۔۔۔ لفظ بیٹا پر ملیح کی سانسیں رکی تھی۔انھیں نہیں معلوم کے وہ اور کیا بول رہی ہے بس دماغ لفظ بیٹا پر اٹک گیا تھا۔

********************************

کب بھیج رہے ہو اپنے وا لدین کو میرے گھر۔۔،انوش اس کے برابرگاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولی۔کم آن انو۔۔،تم پر ہمیشہ شادی کا جنون ہی کیوں سوار رہتا ہے۔۔۔،ملیح جس کا موڈ اس وقت اور ہی داستان کے موڈ میں تھا اس کی بات سے جی بھر کے بدمزہ ہوا۔ایسی بات نہیں ہے ملیح اب تو ہمارا ہا وس جاب بھی ختم ہو گیا ہے اور مما کو آج کل میری شادی کا بھوت سوار ہے۔۔،وہ حقیقاپریشان تھی۔اپنی مما سے کہہ دو کہ تم میری اما نت ہو اور میں ہی تمھیں لے کے جاؤن گا۔۔،اس نے پیار سے اس کے گال چھوئے۔انوش کو ہمیشہ کی طرح اس کا چھونا برا لگا۔اس کی خاموشی اس کے غصے کی گواہ تھی۔کیا ہوا۔۔،وہ گاڑی چلاتے ہوئے بولا۔وہ جواب دئیے بنا باہر دیکھنے لگی۔انو تم لڑکیوں کو شادی کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے۔اس کا انداز مزاق اڑانے والا تھا۔بات شادی کی نہیں ہوتی۔بات رشتوں کی ہوتی ہے۔۔۔انسان کی محبت چاہے کتنی ہی پاکیزہ کوں ناں ہو ہمارے معاشرے میں اہمیت صرف شرعی اور قانونی بندھن کی ہوتی ہے۔۔۔،اس نے دل کی بھراس نکالی۔او۔۔تو تمھارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا رشتہ نا جائز ہے۔۔ اس نے اک جھٹکے سے گاڑی روکی گاڑی کے ٹائر بری طرح چرچرائے تھے۔نا جائز نہیں تو جائز بھی نہیں۔۔وہ چری بیٹھی تھی۔جب اعتبار نہیں ہوتا تو ہر دوسرے دن ملنے کیوں آتی ہو۔۔۔،وہ بھی تلخ ہوا۔انوش کچھ نا ں بولی۔تمھاری نظر میں صرف جسم کے رشتوں کی اہمیت ہے دل کے رشتے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔۔۔،میں نے ایسا کچھ۔۔۔چپ بلکل چپ۔۔۔آئندہ ہم نہیں ملیں گے۔۔۔اس نے کہہ کے گاڑی سٹارٹ کی اور پھر انوش کے گھر جا کے روکا۔انوش نے اک نطر اس کے تنے ہوے چہرے کو دیکھا۔اور اتر آئی ملیح نے اک بھی نگاہ اس پے ڈالے بنا گاڑی زن سے لے گیا۔انوش کی نگاہیں کتنی ہی دور تک اس کی گاڑی کا تعاقب کرتی ریی


********************************

پھر کتنے ہی بہت سارے دن گزر گئے۔بات کوئی اتنی بڑی بھی نا ں تھی۔لیکن ملیح بری طرح خفا تھا۔وہ اس کی کوئی بھی بات سننے کو تیار نا ں تھا۔
وہ ایسا ہی تھا شقی القلب اننسان۔زرا زرا سی بات پر خآئف ہو جانے والا۔بلا کا انا پرست اور ضدی۔ان سب کے باوجود انوش کو اس سے محبت تھی۔محبت کا دعوا تو وہ بھی کرتا تھا لیکن وہ محبت میں کسی حد کا قائل نہیں تھا جب کہ انوش محبت میں حد توڑتے جزبات کی قائل ناں تھی۔اور یہی وجہ دونوں کے درمیان اکثر بد مزگی کا با عث بنتی۔ہر بار انوش کو ہی مناننا پڑتا اب بھی وہ اتنے سے کتنے ہی فون کر چکی تھی لیکن اس نے ایک بھی ریسو ناں کیا۔بلکہ ہاسپٹل بھی نہیں آرہا تھا۔اس لیے انوش کی پریشیا نی بجا تھی
کہاں ہو تم۔۔۔،آخر اس نے فوں ریسو کر لیا ۔۔۔۔،انوش نے چھوٹتے ہی پوچھا۔آو پھر بتاتا ہوں۔خلاف معمول وہ نرمی سے بولا۔
اور وہ اس سے ملنے چلی آئی۔یہی اس کی بڑی غلطی تھی۔محبت میں انسان کب کچھ دیکھتا ہے۔محبت تو خود میں اعتبار ہوتی ہے پھر بے اعتباری کیسی وہ سوچتی لیکن وہ بھول گئی تھی کہ محبت اور انسانون کے الگ الگ تقاضے ہوتے ہیں۔
دروازہ ہلکا سے دھکیلنے پر ہی کھلتا چلا گیاا۔اس نے اندر آ کے حنا (ملیح کی بہیں) کو پکارا۔آجاؤ انو۔۔۔،ملیح کے کمرے سے آواز آئی۔کیا گھر پے کوئی نہیں ہے۔وہ دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی پوچھ رہی تھی۔نہیں۔۔۔ابھی مما اور حنا بازار گئی ہیں۔وہ نقاہت سے بولا۔انوش کو اپنی حماقت پے جی بھر کے غصہ آیا۔باہر کیوں کھڑی ہو۔۔۔،اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔۔۔انوش کو عجب بے چینی نے گھیرا تھا۔وہ پلٹ جانا چاہتی تھی ملیح جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی اس کے کمرے میں نہیں آئے گی تب ہی اس نے ناں اٹھنے کی ایکٹنگ کی۔انو یقین مانو اس وقت میں آٹھ نہیں سکتا اور بے ضرر شے بھی ہوں۔۔۔،اس کے یوں کہنے پے انوش نے چونک کے اسے دیکھا۔وہ کبھی بھی ملیح کو ملنے سے نہیں گھبرائی پھر کیوں آج اس کے دل کی دھڑکنیں اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اس کے باوجود وہ ان بے یقین دھڑکنوں کو نظر انداز کرتے اندر چلی آئی۔بیٹھو۔۔۔،اس نے بیڈ کے کنارے اس کے لیے جگہ چھوڑی۔وہ بیڈ پر بیٹھنے کے بجاے قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔کیا ہوا تمھیں۔۔<تمھاری جدائی نے بے حال کر دیا ہے۔۔۔۔وہ بے دھڑک بولا۔انوش کے کان کی لویں تک سرخ ہوئی تھی۔تم کیسی ہو۔۔،وہ اس کی ظرف دیکھتے ہوئے بولا۔انوش کی آنکھیں بھر آئیں۔کیا ہوا تمھیں۔۔۔وہ پرییشانی سے بولا۔اوکے پلیز روں مت میری وجہ سے تمھیں پریشانی ہوئی۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔اٹس اوکے.،انوش نے اسے اٹھنے سے روکا۔اس سے پہلے کے وہ مزید کچھ کہتا اس کو کھانسی جو شروع ہوئی تو روکنے میں نا ں آئی۔انوش نے پانی کا گلاس ملیح کی طرف بڑھایا۔ملیح نے پانی پکڑنے کی بجائے اس کی کلائی کو تھام لیا۔اور اپنے اوپر جھٹکا دیا۔۔انوش اس کی حرکت پر بری ظرح گھبرائی ت۔اس سے پہلے کے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا انو ش نے اس کی کلائی پر بے حد زور سے کاٹا۔وہ
اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھاابھی وہ تلملا ہی رہا تھا کہ انوش پھرتی سے اس کے حصار سے نکل کے بھاگی تھی۔اسکی ایک جوتی اور بیگ وہی رہ گئے۔یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس نے دروازہ لاکڈ نہیں کیا تھا۔وہ گاڑی میں بیٹھی اور زن سے گاڑی لے اڑی۔اس نے اپنے پچھے ملیح کو چلاتے سنا تھا۔وہ ا س قدر خوفزدہ تھی کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ کس جانب جا رہی ہے۔اس نے انجان لیکن پر رونق جگہ جا کے گاڑی روکی۔اپنی بے بسی اور ملیح کی بے وفائی پر اسے ٹوٹ کے رونا آیا۔اور وہ شدت سے رو دی

********************************

ایسی چپ اور بے یقینی اس کے حواسوں پر سوار ہوئی وہ جو شادی کے نام پر بدک جایا کرتی تھی اس نے خود کو حالات کے دھارے چھوڑ کر ڈوبنے کا تماشہ دیکھااسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کے اس کی شادی کس سے ہو رہی ہے۔کبھی کبھی کچھ لمحے انسان سے اس کے سارے یقین اور اعتبار کو چھین لیتے ہیں۔اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا دل میں ارمان جیسے مر گئے تھے،کسی کی چھیڑ خانی نے اس کے دل میں کوئی ہلچل نہیں مچائی تھی۔جزبات ایسے ٹھنڈے تھے کہ نئے رشتے کے نرم گرم احساسات نے بھی ان کو نہیں پگھلایا تھا۔tcsسے جب اس نے اپنا بیگ اور جوتا موصول کیا تو احساس ندامت سے اس کی روح تک رو دی تھی۔
اس نے سوچا تھا کہ شادی ہو گی تو ماضی بھی دفن ہو جائے گا لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی۔اس کا ماضی اس کا حال بنا اس کے سامنے تھا اس کی شادی اس ملیح احمد سے ہوئی تھی جس نے اس کی زندگی سے اعتبار اور یقین کو بے یقینی کی سولی چڑھایا تھا۔
جی پارسا بی بی کیسا لگا میرا سرپرائیز۔۔۔،وہ دلہن بنی انوش کو دیکھتے ہوئے بولا۔انوش کے جسم سے جان نکلی تھی۔محبت کا یہ روپ بھی ہوتا ہے اسے آج احساس ہوا۔جب دل نہیں چاہتا تب دعائیں کیوں قبول ہوتی ہیں۔۔وہ خدا سے شکوہ کرنا نہیں چاہتی تھی پھر بھی اس کے دل میں شکوہ آگیا۔اور خدا سے شکوئے جیسی دعا نے فورا قبولیت کی سند لی تھی۔ملیح نے اسے طلاق دے کر اس کی پارسائی کو ایسا داغدار کیا تھا کہ فرشتے بھی کانپ اٹھے تھے۔سارے قبول و ایجاب چھین کے اسے صحرا کی اس تشنگی کے حوالے کیا تھا کہ آنے والی نسلیں بھی محبت سے توبہ کر بیٹھی تھی۔محبت کے نام پے وہ ایسی لوٹی کہ بن باس سزا کاٹی نامحرم بنا کےمحرم کی طرح رات گزاری۔اس کی ہر ہر فریاد رات کی تاریکی میں ایسے ڈوبی کہ پھر تمام عمر اسے صبح کا تارہ ناں ملا۔۔جانے کیسی اس کے اندر بدلے کی آگ لگی تھی کہ صبح ہوتے ہی وہ اپنی بات سے مکر گیا۔کوئی بھی انوش کی بات ماننے کو تیار ناں تھا سب اس سے ثبوت مانگتے اور کوئی ثبوت ہی تو اس کے پاس نا ں تھا۔جب رشتے بے اعتبار کرنے لگے تو پھر اعتبار کہیں سے نہیں ملتا۔اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔اک لمحہ لگا تھا اسے فیصلہ کرنے میں یا تو رکھیل بن کے ساری عمر اس کے ساتھ رہے یا۔۔۔۔۔۔اک جھرجھری نے اس کے اندر باہر انگارے بھر دیے تھے۔جو کچھ کھو چکا تھا وہ واپس نہیں مل سکتا تھا لیکن جو تھا وہ اسے بچانا تھا۔اور فیصلہ ہو گیا
چلو میری جان۔۔۔آج پھر تمھیں خود کے لیے تیار کروانے لے چلو۔۔۔ملیح اس کے گرد باہیں ڈالتے ہوئے بولا۔انوش بدک کے پچھے ہوئی۔اس دن مجھے اگنور نا ں کرتی تو یہ دن ناں دیکھنا پڑتا۔شادی تو تم سے ہی کرنی تھی لیکن تم پے تو پارسائی کا بھوت سوار تھا۔اب ساری عمر اپنی پارسائی کا ماتم کرو۔۔۔اس کی ہنسی میں ایسی شطانیت تھی کہ انوش کا دل ڈوب کے رہ گیا۔وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی،کبھی ناں پلٹنے کے لیے۔اس نے پارلر کے باہر اسے چھوڑآ تھا ۔جہاں سے انوش کو آزمائش کے سفر پر نکلنا تھا۔اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ یوں بے سائبانی بھی اس کا مقدر ہپو سکتی ہے وہ تو خود کو قسمت کا دھنی سمھجتی تھی۔لیکن جب رشتوں کی بے اعتنائی ہو تب قسمت کا پتہ چلتا ہے۔
راہوں کی دھول چاٹتے خود کے زخمی اور شکستہ وجود کو سمیٹتے وہ لاہور آئی تھی۔کتنے گھنٹے اس نے کھانے پینے ،سونے جاگنے کے احساس کے بنا گزارے تھے اسے خود بھی نہیں معلوم تھا۔کبھی کبھی تو قریب بیٹھے مسافروں کو اس کی موت کا شبہ ہونے لگتا تھااس لاہور میں اس نے اپنی زندگی کے تیس سال گزارے۔اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے کو خود سمیٹھا۔ایک ڈاکڑ نے اک شخص کی اعتباری کی وجہ سے نوکرانی کی زندگی گزاری۔اک وقت تھا جب رشتوں نے ناں اسے پناہ دی تھی ناں اعتماد تب اسے لگتا تھا کہ زندگی ختم ہو گئی ہے۔لیکن اللہ سے بڑا کون کس کا آسرا ہو سکتا ہے اسی اللہ نے اپنے بندوں کو اس کا سہارا بنا کے بھیجا۔اس کو رشتوں کے بنا جینا نہیں آتا تھا وہ ہمشہ اکیلے رہنے سے ڈرتی تھی۔لیکن ایک وقت آیاجب اس نےاپنی زندگی کے تیس سال گزارے۔بنا رشتوں کے۔بنا ان کو یاد کیے۔یاد تھا تو بس خدا ہا وہ یادیں جن کو وہ بھولنا نہیں چاہتی تھی۔سزا کے طور پے یاشاید جزا کی خواہش میں۔۔۔


********************************

تیس سال گزر گئے۔جس کی چاہ میں ملیح آج تک بھٹک رہا تھا وہ ملی بھی تو کس حال میں ۔۔احساس جرم نے اسے اندر تک مار دیا تھا۔وہ جو ایک بار صرف معافی کے لیے اسے ملنا چاہتا تھا اپنے سنگین جرم میں اسے معافی کی کوئی وجہ ناں ملی۔پھر بھی وہ اسے ملنا چاہتا تھا۔اور وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے ملنے بھی چلا آیا۔کس رشتے سے ملنا چاھتے ہیں۔۔۔راشد کے اس سوال نے اسے زلت کی اتھا ہ گہرائیوں میں دھکیل تھا۔کوئی رشتہ ہی تو نہیں تھا اس کے پاس۔پھر بھی اس نے مشکل سے راشد کو رضا مند کیا۔لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی یہ کوشش نےکار ہے۔انوش نے جن اجنبی نظروں سے اسے دیکھا وہ شرمندگی کے سمندر میں غر قناب ہو کے رہ گیا۔
اگر معافی مانگنے آئے ہو تو زخمت ناں کرنا۔۔ناں میں معاف کروں گی ناں تم اس لا ئق ہو۔۔۔اسے بولنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ایک بار انو۔۔۔،وہ رو دینے کو تھا۔سات جنم بھی لو تب بھی نہیں۔۔۔، اس نے نفرت سے کہا۔میں نے غلطی کی اس کی سزا آج تک بھگت رہا ہوں۔مجھے معاف کر کے سکون دے دو۔۔۔،وہ رو پڑا۔تم نے غلطی نہیں گناہ کیا تھاجو سزا ملی وہ بھی کم ہے۔میں نے بنا جرم کے سزا کاٹی ہے۔۔اس کی سانس اکھڑنے لگی تھی۔۔انو۔۔۔۔میں نے اپنی زندگی کے تیس سال بے حد عزت سے گزاریں ہیں آخری لمحوں میں نے عزت اور بے راز ناں کرو۔۔۔وہ منت سے بولی۔ملیح کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ بس ایک بار میری سن لو۔۔۔وہ بے چین ہو کے اس کے قریب آیا۔پہلے میری زندگی کے تیس سال مجھے لوٹا دو،مجھے میرے رشتے واپس کر دو۔۔۔،کیا تم ان لمحوںکی تکلیف کو لوٹا سکتے ہو جو میں نے تمھارا نا جائز بیٹا جنم دینے میں اٹھائی۔۔۔۔انوش کا دل سینے سے پھسلنے لگا تھا۔ملیح نے حیرانی سے اسے دیکھا۔جاؤ ملیح احمد تم غلط وقت میں آئے ہو۔میں تمھیں معاف کرنا تو دور کی بات معاف کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔اس کی آواز بند ہونے لگی تھی۔ملیح نے شکست خوردگی سے اسے دیکھا اور پلٹ آیا۔دروازے کے بیچوں بیچ راشد نفرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔وہ بے قرار ہو کے اس کی جانب بڑھا۔۔دروازہ ادھر ہے۔اس کے لحجے میں زمانے بھر کی بےرخی تھی۔اک کسک اک تشنگی اور اس کی جھولی میں آن گری۔راشد تیزی سے انوش کی جانب بڑھا
ماں ۔۔۔،اس نے پہلی اور آخری بار اسے پکارا تھا ورنہ وہ تو ھمشہ اس کے لیے بس آئی تھی۔راشد نے بےبسی سے اس کے ٹھنڈے ہاتھوں کو تھاما۔۔۔روح قفس کے پنجرے سے آزاد ہوچکی تھی۔وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دیا۔

********************************

ختم شُد




 

waqas naseer

Super Star
Dec 24, 2009
5,722
3,037
1,313
32
mardan
حریص محبت
شمسہ اکرام


محبت پاکیزگی ہے لیکن جب یہ پاکیزگی کی حدوں سے نکلنے لگے تو محبت کے حصار سے بھی آزاد ہو جاتی ہے۔باقی بچتا ہےتعلق۔۔۔نفس اور خواہش کا تعلق۔۔اور دونوں تعلق ہی بے لگام ہیں۔انسان کو کہا ں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں کہ احساس بھی باقی نہیں رہتا حصے آتا ہے تو افسوس اور ملا ل اور دونوں کا ہی کوئی مداوا نہیں
محبت بندگی ہے،اس میں تن کا قرب مت مانگ
کہ جسےچھو لیا جائے اس کی عبادت نہیں ہوتی
اس نے بو سیدہ سے دروازے پر کوئی تیسری بار دستک دی تھی تب ہی اک ستر ہ ، اٹھارہ سال کی لڑکی نے دروازہ کھولا۔میرا نام ملیح ہے۔۔۔ڈاکٹر ملیح احمد۔۔۔،انے والے نے اپنا تعاروف کروایا۔آہیے۔۔۔،اس نے اک مسکان کے ساتھ انھیں اندر آنے کا رستہ دیا۔اندر داخل ہوتے ہی ڈاکڑ کو ابکائی آنے لگی۔گھر کیا تھا چھوٹا سا صحن اس کے بھی ایک کونے میں کچن نما کچھ بنا تھا۔ زرا فاصلے پر نل جس کی زمیں پانی گرنے سے سبز رنگ کی ہو چکی تھی۔اور بلکل سامنے ایک کمرہ۔کہ اس کی دیواریں اسقدر سلیں زدہ تھی کہ بوکے تیز بھبھکوں کی وجہ سے اک لمحے بھی وہاں کھڑا ہونا محآل تھا۔ڈاکٹر نے اک نظر سامنے کھڑی لڑکی پر ڈالی جو کہیں سے بھی اس گھر کا حصہ نہیں لگ رہی تھی۔آپ کو فون میرے ڈیڈ نے کیا تھا۔۔۔، آرٹیٹکٹ عرفان آفریدی نے۔۔،اس کا انداز ایسا تھا جسے کہہ رہی ہو کہ آپ بھاری فیس کی فکر ناں کریں۔ڈاکٹر نے شرمندہ ہوتے ہوئے مریض کے بارے پوچھا۔وہ اسے لیے اندر چلی آئی اور بد رنگ کرسی کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا جو مریضہ کے پاس رکھی تھی۔میں نے ان کی کیس ہسٹری پڑھی ہے ان کی حالت ایسے نہیں کے ان کو گھر میں رکھ کے ٹریٹمنٹ دی جائی۔۔۔،وہ بیٹھے بنا بولے۔اندازعجلت بھرا تھا۔آپ فیس کی فکر ناں کریں۔۔۔لڑکی کو لگا کہ وہ اسی لیے ٹال مٹول رہیں ہیں۔اگر ان کو ہا سپٹل لے جایا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔۔۔،وہ مرہضہ کی نبض چیک کرتے ہوئے بولے۔نہیں آئی نےمنع کیا ہے کہ ان کو کسی صورت ہا سپٹل نا ں لے جایا جائے۔کما ل ہے یہ کیا حماقت ہوئی یعنی جان چلی جائے لیکن وصیت پوری ہونی چاہیے۔۔،ملیح کے لحجے میں سختی در آئی۔اس نے سر جھٹکتے ہوئے مریضہ کا چہرہ اپنی جانب کیا اور دوسرے ہی لمحے ان کے بے دلی سے چلتے ہاتھ پھرتی سے حرکت میں آئے تھے۔وقت چاہے کتنی ہی چہروں پے دھول کیوں نا مل دے لیکن کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جن پر وقت کتنی ہی دھول کیوں نا ں ڈالے وہ اپنی پہچان،اپنا اصل نہیں کھوتے۔برسوں جس شخص کو ڈھونٹا وہ اب ملی بھی تو کس حال میں۔۔۔،انو میری جانب دیکھو۔۔۔دل نے شدت سے نیم بےہوش وجود کو پکارہ تھا۔
اسے آئے تین گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تھے۔اسے جو اک لمحہ یہاں کھڑے ہونا عذاب لگ ہرا تھا اب اطمنان سے مریضہ کے سر ہانے بیٹھا اس کے ہوش میں آنے کا منتظر تھا۔یہ آپ کی کیا لگتی ہیں۔۔۔،دل میں اودھم مچاتا سوال زبان پے آیا تھا۔آئی ہیں میری،انھوں نے مجھے پالا ہے ۔۔۔وہ محبت سے آئی کو دیکھنے لگی۔ان کے رشتے دار۔۔،معلوم نہیں یہ تیس سال سے ہمارے ہاں کام کرتی ہیں ان کا بیٹا ہے جو اسلام آباد ہوتے ہیں میں نے فوں کر دیا تھا بس شام تک آجائیں گے۔۔۔ لفظ بیٹا پر ملیح کی سانسیں رکی تھی۔انھیں نہیں معلوم کے وہ اور کیا بول رہی ہے بس دماغ لفظ بیٹا پر اٹک گیا تھا۔

********************************

کب بھیج رہے ہو اپنے وا لدین کو میرے گھر۔۔،انوش اس کے برابرگاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولی۔کم آن انو۔۔،تم پر ہمیشہ شادی کا جنون ہی کیوں سوار رہتا ہے۔۔۔،ملیح جس کا موڈ اس وقت اور ہی داستان کے موڈ میں تھا اس کی بات سے جی بھر کے بدمزہ ہوا۔ایسی بات نہیں ہے ملیح اب تو ہمارا ہا وس جاب بھی ختم ہو گیا ہے اور مما کو آج کل میری شادی کا بھوت سوار ہے۔۔،وہ حقیقاپریشان تھی۔اپنی مما سے کہہ دو کہ تم میری اما نت ہو اور میں ہی تمھیں لے کے جاؤن گا۔۔،اس نے پیار سے اس کے گال چھوئے۔انوش کو ہمیشہ کی طرح اس کا چھونا برا لگا۔اس کی خاموشی اس کے غصے کی گواہ تھی۔کیا ہوا۔۔،وہ گاڑی چلاتے ہوئے بولا۔وہ جواب دئیے بنا باہر دیکھنے لگی۔انو تم لڑکیوں کو شادی کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے۔اس کا انداز مزاق اڑانے والا تھا۔بات شادی کی نہیں ہوتی۔بات رشتوں کی ہوتی ہے۔۔۔انسان کی محبت چاہے کتنی ہی پاکیزہ کوں ناں ہو ہمارے معاشرے میں اہمیت صرف شرعی اور قانونی بندھن کی ہوتی ہے۔۔۔،اس نے دل کی بھراس نکالی۔او۔۔تو تمھارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا رشتہ نا جائز ہے۔۔ اس نے اک جھٹکے سے گاڑی روکی گاڑی کے ٹائر بری طرح چرچرائے تھے۔نا جائز نہیں تو جائز بھی نہیں۔۔وہ چری بیٹھی تھی۔جب اعتبار نہیں ہوتا تو ہر دوسرے دن ملنے کیوں آتی ہو۔۔۔،وہ بھی تلخ ہوا۔انوش کچھ نا ں بولی۔تمھاری نظر میں صرف جسم کے رشتوں کی اہمیت ہے دل کے رشتے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔۔۔،میں نے ایسا کچھ۔۔۔چپ بلکل چپ۔۔۔آئندہ ہم نہیں ملیں گے۔۔۔اس نے کہہ کے گاڑی سٹارٹ کی اور پھر انوش کے گھر جا کے روکا۔انوش نے اک نطر اس کے تنے ہوے چہرے کو دیکھا۔اور اتر آئی ملیح نے اک بھی نگاہ اس پے ڈالے بنا گاڑی زن سے لے گیا۔انوش کی نگاہیں کتنی ہی دور تک اس کی گاڑی کا تعاقب کرتی ریی


********************************

پھر کتنے ہی بہت سارے دن گزر گئے۔بات کوئی اتنی بڑی بھی نا ں تھی۔لیکن ملیح بری طرح خفا تھا۔وہ اس کی کوئی بھی بات سننے کو تیار نا ں تھا۔
وہ ایسا ہی تھا شقی القلب اننسان۔زرا زرا سی بات پر خآئف ہو جانے والا۔بلا کا انا پرست اور ضدی۔ان سب کے باوجود انوش کو اس سے محبت تھی۔محبت کا دعوا تو وہ بھی کرتا تھا لیکن وہ محبت میں کسی حد کا قائل نہیں تھا جب کہ انوش محبت میں حد توڑتے جزبات کی قائل ناں تھی۔اور یہی وجہ دونوں کے درمیان اکثر بد مزگی کا با عث بنتی۔ہر بار انوش کو ہی مناننا پڑتا اب بھی وہ اتنے سے کتنے ہی فون کر چکی تھی لیکن اس نے ایک بھی ریسو ناں کیا۔بلکہ ہاسپٹل بھی نہیں آرہا تھا۔اس لیے انوش کی پریشیا نی بجا تھی
کہاں ہو تم۔۔۔،آخر اس نے فوں ریسو کر لیا ۔۔۔۔،انوش نے چھوٹتے ہی پوچھا۔آو پھر بتاتا ہوں۔خلاف معمول وہ نرمی سے بولا۔
اور وہ اس سے ملنے چلی آئی۔یہی اس کی بڑی غلطی تھی۔محبت میں انسان کب کچھ دیکھتا ہے۔محبت تو خود میں اعتبار ہوتی ہے پھر بے اعتباری کیسی وہ سوچتی لیکن وہ بھول گئی تھی کہ محبت اور انسانون کے الگ الگ تقاضے ہوتے ہیں۔
دروازہ ہلکا سے دھکیلنے پر ہی کھلتا چلا گیاا۔اس نے اندر آ کے حنا (ملیح کی بہیں) کو پکارا۔آجاؤ انو۔۔۔،ملیح کے کمرے سے آواز آئی۔کیا گھر پے کوئی نہیں ہے۔وہ دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی پوچھ رہی تھی۔نہیں۔۔۔ابھی مما اور حنا بازار گئی ہیں۔وہ نقاہت سے بولا۔انوش کو اپنی حماقت پے جی بھر کے غصہ آیا۔باہر کیوں کھڑی ہو۔۔۔،اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔۔۔انوش کو عجب بے چینی نے گھیرا تھا۔وہ پلٹ جانا چاہتی تھی ملیح جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی اس کے کمرے میں نہیں آئے گی تب ہی اس نے ناں اٹھنے کی ایکٹنگ کی۔انو یقین مانو اس وقت میں آٹھ نہیں سکتا اور بے ضرر شے بھی ہوں۔۔۔،اس کے یوں کہنے پے انوش نے چونک کے اسے دیکھا۔وہ کبھی بھی ملیح کو ملنے سے نہیں گھبرائی پھر کیوں آج اس کے دل کی دھڑکنیں اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اس کے باوجود وہ ان بے یقین دھڑکنوں کو نظر انداز کرتے اندر چلی آئی۔بیٹھو۔۔۔،اس نے بیڈ کے کنارے اس کے لیے جگہ چھوڑی۔وہ بیڈ پر بیٹھنے کے بجاے قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔کیا ہوا تمھیں۔۔<تمھاری جدائی نے بے حال کر دیا ہے۔۔۔۔وہ بے دھڑک بولا۔انوش کے کان کی لویں تک سرخ ہوئی تھی۔تم کیسی ہو۔۔،وہ اس کی ظرف دیکھتے ہوئے بولا۔انوش کی آنکھیں بھر آئیں۔کیا ہوا تمھیں۔۔۔وہ پرییشانی سے بولا۔اوکے پلیز روں مت میری وجہ سے تمھیں پریشانی ہوئی۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔اٹس اوکے.،انوش نے اسے اٹھنے سے روکا۔اس سے پہلے کے وہ مزید کچھ کہتا اس کو کھانسی جو شروع ہوئی تو روکنے میں نا ں آئی۔انوش نے پانی کا گلاس ملیح کی طرف بڑھایا۔ملیح نے پانی پکڑنے کی بجائے اس کی کلائی کو تھام لیا۔اور اپنے اوپر جھٹکا دیا۔۔انوش اس کی حرکت پر بری ظرح گھبرائی ت۔اس سے پہلے کے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا انو ش نے اس کی کلائی پر بے حد زور سے کاٹا۔وہ
اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھاابھی وہ تلملا ہی رہا تھا کہ انوش پھرتی سے اس کے حصار سے نکل کے بھاگی تھی۔اسکی ایک جوتی اور بیگ وہی رہ گئے۔یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس نے دروازہ لاکڈ نہیں کیا تھا۔وہ گاڑی میں بیٹھی اور زن سے گاڑی لے اڑی۔اس نے اپنے پچھے ملیح کو چلاتے سنا تھا۔وہ ا س قدر خوفزدہ تھی کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ کس جانب جا رہی ہے۔اس نے انجان لیکن پر رونق جگہ جا کے گاڑی روکی۔اپنی بے بسی اور ملیح کی بے وفائی پر اسے ٹوٹ کے رونا آیا۔اور وہ شدت سے رو دی

********************************

ایسی چپ اور بے یقینی اس کے حواسوں پر سوار ہوئی وہ جو شادی کے نام پر بدک جایا کرتی تھی اس نے خود کو حالات کے دھارے چھوڑ کر ڈوبنے کا تماشہ دیکھااسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کے اس کی شادی کس سے ہو رہی ہے۔کبھی کبھی کچھ لمحے انسان سے اس کے سارے یقین اور اعتبار کو چھین لیتے ہیں۔اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا دل میں ارمان جیسے مر گئے تھے،کسی کی چھیڑ خانی نے اس کے دل میں کوئی ہلچل نہیں مچائی تھی۔جزبات ایسے ٹھنڈے تھے کہ نئے رشتے کے نرم گرم احساسات نے بھی ان کو نہیں پگھلایا تھا۔tcsسے جب اس نے اپنا بیگ اور جوتا موصول کیا تو احساس ندامت سے اس کی روح تک رو دی تھی۔
اس نے سوچا تھا کہ شادی ہو گی تو ماضی بھی دفن ہو جائے گا لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی۔اس کا ماضی اس کا حال بنا اس کے سامنے تھا اس کی شادی اس ملیح احمد سے ہوئی تھی جس نے اس کی زندگی سے اعتبار اور یقین کو بے یقینی کی سولی چڑھایا تھا۔
جی پارسا بی بی کیسا لگا میرا سرپرائیز۔۔۔،وہ دلہن بنی انوش کو دیکھتے ہوئے بولا۔انوش کے جسم سے جان نکلی تھی۔محبت کا یہ روپ بھی ہوتا ہے اسے آج احساس ہوا۔جب دل نہیں چاہتا تب دعائیں کیوں قبول ہوتی ہیں۔۔وہ خدا سے شکوہ کرنا نہیں چاہتی تھی پھر بھی اس کے دل میں شکوہ آگیا۔اور خدا سے شکوئے جیسی دعا نے فورا قبولیت کی سند لی تھی۔ملیح نے اسے طلاق دے کر اس کی پارسائی کو ایسا داغدار کیا تھا کہ فرشتے بھی کانپ اٹھے تھے۔سارے قبول و ایجاب چھین کے اسے صحرا کی اس تشنگی کے حوالے کیا تھا کہ آنے والی نسلیں بھی محبت سے توبہ کر بیٹھی تھی۔محبت کے نام پے وہ ایسی لوٹی کہ بن باس سزا کاٹی نامحرم بنا کےمحرم کی طرح رات گزاری۔اس کی ہر ہر فریاد رات کی تاریکی میں ایسے ڈوبی کہ پھر تمام عمر اسے صبح کا تارہ ناں ملا۔۔جانے کیسی اس کے اندر بدلے کی آگ لگی تھی کہ صبح ہوتے ہی وہ اپنی بات سے مکر گیا۔کوئی بھی انوش کی بات ماننے کو تیار ناں تھا سب اس سے ثبوت مانگتے اور کوئی ثبوت ہی تو اس کے پاس نا ں تھا۔جب رشتے بے اعتبار کرنے لگے تو پھر اعتبار کہیں سے نہیں ملتا۔اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔اک لمحہ لگا تھا اسے فیصلہ کرنے میں یا تو رکھیل بن کے ساری عمر اس کے ساتھ رہے یا۔۔۔۔۔۔اک جھرجھری نے اس کے اندر باہر انگارے بھر دیے تھے۔جو کچھ کھو چکا تھا وہ واپس نہیں مل سکتا تھا لیکن جو تھا وہ اسے بچانا تھا۔اور فیصلہ ہو گیا
چلو میری جان۔۔۔آج پھر تمھیں خود کے لیے تیار کروانے لے چلو۔۔۔ملیح اس کے گرد باہیں ڈالتے ہوئے بولا۔انوش بدک کے پچھے ہوئی۔اس دن مجھے اگنور نا ں کرتی تو یہ دن ناں دیکھنا پڑتا۔شادی تو تم سے ہی کرنی تھی لیکن تم پے تو پارسائی کا بھوت سوار تھا۔اب ساری عمر اپنی پارسائی کا ماتم کرو۔۔۔اس کی ہنسی میں ایسی شطانیت تھی کہ انوش کا دل ڈوب کے رہ گیا۔وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی،کبھی ناں پلٹنے کے لیے۔اس نے پارلر کے باہر اسے چھوڑآ تھا ۔جہاں سے انوش کو آزمائش کے سفر پر نکلنا تھا۔اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ یوں بے سائبانی بھی اس کا مقدر ہپو سکتی ہے وہ تو خود کو قسمت کا دھنی سمھجتی تھی۔لیکن جب رشتوں کی بے اعتنائی ہو تب قسمت کا پتہ چلتا ہے۔
راہوں کی دھول چاٹتے خود کے زخمی اور شکستہ وجود کو سمیٹتے وہ لاہور آئی تھی۔کتنے گھنٹے اس نے کھانے پینے ،سونے جاگنے کے احساس کے بنا گزارے تھے اسے خود بھی نہیں معلوم تھا۔کبھی کبھی تو قریب بیٹھے مسافروں کو اس کی موت کا شبہ ہونے لگتا تھااس لاہور میں اس نے اپنی زندگی کے تیس سال گزارے۔اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے کو خود سمیٹھا۔ایک ڈاکڑ نے اک شخص کی اعتباری کی وجہ سے نوکرانی کی زندگی گزاری۔اک وقت تھا جب رشتوں نے ناں اسے پناہ دی تھی ناں اعتماد تب اسے لگتا تھا کہ زندگی ختم ہو گئی ہے۔لیکن اللہ سے بڑا کون کس کا آسرا ہو سکتا ہے اسی اللہ نے اپنے بندوں کو اس کا سہارا بنا کے بھیجا۔اس کو رشتوں کے بنا جینا نہیں آتا تھا وہ ہمشہ اکیلے رہنے سے ڈرتی تھی۔لیکن ایک وقت آیاجب اس نےاپنی زندگی کے تیس سال گزارے۔بنا رشتوں کے۔بنا ان کو یاد کیے۔یاد تھا تو بس خدا ہا وہ یادیں جن کو وہ بھولنا نہیں چاہتی تھی۔سزا کے طور پے یاشاید جزا کی خواہش میں۔۔۔


********************************

تیس سال گزر گئے۔جس کی چاہ میں ملیح آج تک بھٹک رہا تھا وہ ملی بھی تو کس حال میں ۔۔احساس جرم نے اسے اندر تک مار دیا تھا۔وہ جو ایک بار صرف معافی کے لیے اسے ملنا چاہتا تھا اپنے سنگین جرم میں اسے معافی کی کوئی وجہ ناں ملی۔پھر بھی وہ اسے ملنا چاہتا تھا۔اور وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے ملنے بھی چلا آیا۔کس رشتے سے ملنا چاھتے ہیں۔۔۔راشد کے اس سوال نے اسے زلت کی اتھا ہ گہرائیوں میں دھکیل تھا۔کوئی رشتہ ہی تو نہیں تھا اس کے پاس۔پھر بھی اس نے مشکل سے راشد کو رضا مند کیا۔لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی یہ کوشش نےکار ہے۔انوش نے جن اجنبی نظروں سے اسے دیکھا وہ شرمندگی کے سمندر میں غر قناب ہو کے رہ گیا۔
اگر معافی مانگنے آئے ہو تو زخمت ناں کرنا۔۔ناں میں معاف کروں گی ناں تم اس لا ئق ہو۔۔۔اسے بولنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ایک بار انو۔۔۔،وہ رو دینے کو تھا۔سات جنم بھی لو تب بھی نہیں۔۔۔، اس نے نفرت سے کہا۔میں نے غلطی کی اس کی سزا آج تک بھگت رہا ہوں۔مجھے معاف کر کے سکون دے دو۔۔۔،وہ رو پڑا۔تم نے غلطی نہیں گناہ کیا تھاجو سزا ملی وہ بھی کم ہے۔میں نے بنا جرم کے سزا کاٹی ہے۔۔اس کی سانس اکھڑنے لگی تھی۔۔انو۔۔۔۔میں نے اپنی زندگی کے تیس سال بے حد عزت سے گزاریں ہیں آخری لمحوں میں نے عزت اور بے راز ناں کرو۔۔۔وہ منت سے بولی۔ملیح کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ بس ایک بار میری سن لو۔۔۔وہ بے چین ہو کے اس کے قریب آیا۔پہلے میری زندگی کے تیس سال مجھے لوٹا دو،مجھے میرے رشتے واپس کر دو۔۔۔،کیا تم ان لمحوںکی تکلیف کو لوٹا سکتے ہو جو میں نے تمھارا نا جائز بیٹا جنم دینے میں اٹھائی۔۔۔۔انوش کا دل سینے سے پھسلنے لگا تھا۔ملیح نے حیرانی سے اسے دیکھا۔جاؤ ملیح احمد تم غلط وقت میں آئے ہو۔میں تمھیں معاف کرنا تو دور کی بات معاف کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔اس کی آواز بند ہونے لگی تھی۔ملیح نے شکست خوردگی سے اسے دیکھا اور پلٹ آیا۔دروازے کے بیچوں بیچ راشد نفرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔وہ بے قرار ہو کے اس کی جانب بڑھا۔۔دروازہ ادھر ہے۔اس کے لحجے میں زمانے بھر کی بےرخی تھی۔اک کسک اک تشنگی اور اس کی جھولی میں آن گری۔راشد تیزی سے انوش کی جانب بڑھا
ماں ۔۔۔،اس نے پہلی اور آخری بار اسے پکارا تھا ورنہ وہ تو ھمشہ اس کے لیے بس آئی تھی۔راشد نے بےبسی سے اس کے ٹھنڈے ہاتھوں کو تھاما۔۔۔روح قفس کے پنجرے سے آزاد ہوچکی تھی۔وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دیا۔

********************************

ختم شُد




aap ager chahteen to apni ye story kahani contest 2010 main post kerti here is the link
http://www.tafrehmela.com/tms-contest/105285-kahani-contest-2010-a.html
http://www.tafrehmela.com/tms-contest/105285-kahani-contest-2010-a.html
 
Top