حضرت عمر کا قبول اسلام:
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کے بعد تیسرے ہی دن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی دولت اسلام سے مالا مال ہو گئے، آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے واقعات میں بہت سی روایات ہیں۔
ایک روایت یہ ہے کہ آپ ایک دن غصہ میں بھرے ہوئے ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے چلے کہ آج میں اسی تلوار سے پیغمبر اسلام کا خاتمہ کر دوں گا۔ اتفاق سے راستہ میں حضرت نعیم بن عبداللہ قریشی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملاقات ہو گئی یہ مسلمان ہو چکے تھے مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان کے اسلام کی خبر نہیں تھی۔ حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہوچھا کہ کیوں ؟ اے عمر! اس دوپہر کی گرمی میں ننگی تلوار لے کر کہاں چلے ؟ کہنے لگے کہ آج بانی اسلام کا فیصلہ کرنے کے لئے گھر سے نکل پڑا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن “ فاطمہ بنت الخطاب “ اور تمہارے بہنوئی “ سعید بن زید “ بھی تو مسلمان ہو گئے ہیں یہ سن کر آپ بہن کے گھر پہنچے اور دروزہ کھٹکھٹایا۔ گھر کے اندر چند مسلمان چھپ کر قرآن پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آواز سن کر سب لوگ ڈر گئے اور قرآن کے اوراق چھوڑ کر ادھر ادھر چھپ گئے بہن نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ چلا کر بولے کہ اے اپنی جان کی دشمن کیا تو بھی مسلمان ہو گئی ہے ؟ پھر اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ پر جھپٹے اور ان کی داڑھی پکڑ کر ان کو زمین پر پٹخ دیا اور سینے پر سوار ہو کر مارنے لگے ان کی بہن فاطمہ اپنے شوہر کو بچانے کے لئے دوڑ پڑیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو ایسا طمانچہ مارا کہ ان کے کانوں کے جھومر ٹوٹ کر گر پڑے اور ان کا چہرہ خون سے لہو لہان ہو گیا بہن نے صاف صاف کہہ دیا کہ عمر! سن لو تم سے جو ہو سکے کر لو مگر اب اسلام دل سے نہیں نکل سکتا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بہن کا خون آلود چہرہ دیکھا اور ان کا عزم و استقامت سے بھرا ہوا یہ جملہ سنا تو ان پر رقت طاری ہو گئی اور ایک دم دل نرم پڑ گیا۔ تھوڑی دیر تک خاموش کھڑے رہے پھر کہا کہ اچھا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی دکھاؤ۔ بہن نے قرآن کے اوراق کو سامنے رکھ دیا اٹھا کر دیکھا تو اس آیت پر نظر پڑی کہ
“سبح للہ ما فی السمٰوت والارض وھو العزیز الحکیم ہ“
اس آیت کا ایک ایک لفظ صداقت کی تاثیر کا تیر بن کر دل کی گہرائی میں پیوست ہوتا چلا گیا اور جسم کا ایک ایک بال لرزہ بر اندان ہونے لگا۔ جب اس آیت پر پہنچے کہ
“اٰمنوا باللہ و رسولہ ( حدید ) “
تو بالکل ہی بے قابو ہو گئے اور بے اختیار پکار اٹھے کہ
“ اشھد ان لا الٰہ اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ۔“
یہ وہ وقت تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضرت ارقم بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکان میں مقیم تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بہن کے گھر سے نکلے اور سیدھے حضرت ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکان پر پہنچے تو دروازہ بن پایا۔ کنڈی بجائی اندر کے لوگوں نے دروازہ کی جھری سے جھاک کر دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ننگی تلوار لئے کھڑے تھے لوگ گھبرا گئے اور کسی میں دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ مگر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بلند آواز سے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور اندر آنے دو اگر نیک نیتی کے ساتھ آیا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ ورنہ اسی کی تلوار سے اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اندر قدم رکھا تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود آگے بڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بازو پکڑا اور فرمایا کہ اے خطاب کے بیٹے تو مسلمان ہو جا آخر تو کب تک مجھ سے لڑتا رہے گا ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بہ آواز بلند کلمہ پڑھا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مارے خوشی کے نعرہ تکبیر بلند فرمایا اور تمام حاضرین نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہنے لگے کہ یارسول اللہ ! یہ چھپ چھپ کر خدا کی عبادت کرنے کے کیا معنی ؟ اٹھئے ہم کعبہ میں چل کر علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے اور خدا کی قسم میں کفر کی حالت میں جن جن مجلسوں میں بیٹھ کر اسلام کی مخالفت کرتا رہا ہوں میں اب ان تمام مجالس میں اپنے اسلام کا اعلان کروں گا۔ پھر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صحابہ کی جماعت کو لے کر دو قطاروں میں روانہ ہوئے ایک صف کے آگے آگے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ اس شان سے مسجد حرام میں داخل ہوئے اور نماز ادا کی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی نے حرم کعبہ میں مشرکین کے سامنے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ یہ سنتے ہی ہر طرف سے کفار دوڑ پڑے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مارنے لگے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی ان لوگوں سے لڑنے لگے۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ماموں ابو جہل آ گیا۔ اس نے پوچھا کہ یہ ہنگامہ کیسا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسلمان ہو گئے ہیں اس لئے لوگ برہم ہو کر ان پر حملہ آور ہوئے ہیں یہ سن کر ابو جہل نے حطیم کعبہ میں کھڑے ہو کر اپنی آستین سے اشارہ کر کے اعلام کر دیا کہ میں نے اپنے بھانجے عمر کو پناہ دی ابو جہل کا یہ اعلان سن کر سب لوگ ہٹ گئے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں ہمیشہ کفار کو مارتا اور ان کی مار کھاتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے اسلام کو غالب فرما دیا۔
( زرقانی علی المواہب ج1ص 272 )
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مسلمان ہونے کا ایک سبب یہ بھی بتایا گیا کہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں کفر کی حالت میں قریش کے بتوں کے پاس حاضر تھا۔ اتنے میں ایک شخص گائے کا ایک بچھڑا لے کر آیا اور اس کو بتوں کے نام ذبح کیا۔ پھر بڑے زور سے چیخ مار کر کسی نے یہ کہا کہ “ یا جلیح امر نجیع رجل فصیح یقول لآ الا اللہ “ یہ آواز سن کر سب لوگ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن میں نے یہ عزم کر لیا کہ میں اس آواز دینے والے کی تحقیق کئے بغیر ہرگز ہرگز یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔ اس کے بعد پھر یہی آواز آئی کہ “یا جلیح امر نجیع رجل فصیح یقول لآ الا اللہ“ یعنی اے کھلی ہوئی دشمنی کرنے والے! ایک کامیابی کی چیز ہے کہ ایک فصاحت والا آدمی “ لاالٰہ الا اللہ “ کہہ رہا ہے حالانکہ بتوں کے آس پاس میرے سوا دوسرا کوئی بھی نہیں تھا۔ اسی کے فوراً بعد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا۔ اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بے حد متاثر تھے۔ اس لئے ان کے اسلام لانے کے اسباب میں اس واقعہ کو بھی کچھ نہ کچھ ضرور دخل ہے۔ ( بخاری ج1ص 546 و زرقانی ج1ص276 باب اسلام عمر )
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب کفار مکہ نے بہت ستایا تو عاص بن وائل سہمی نے بھی آپ کو اپنی پناہ میں لے لیا۔ جو زمانہ جاہلیت میں آپ کا حلیف تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کفار کی مار دھاڑ سے بچ گئے۔
( بخاری باب اسلام عمر ج1ص 545 )
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کے بعد تیسرے ہی دن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی دولت اسلام سے مالا مال ہو گئے، آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے واقعات میں بہت سی روایات ہیں۔
ایک روایت یہ ہے کہ آپ ایک دن غصہ میں بھرے ہوئے ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے چلے کہ آج میں اسی تلوار سے پیغمبر اسلام کا خاتمہ کر دوں گا۔ اتفاق سے راستہ میں حضرت نعیم بن عبداللہ قریشی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملاقات ہو گئی یہ مسلمان ہو چکے تھے مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان کے اسلام کی خبر نہیں تھی۔ حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہوچھا کہ کیوں ؟ اے عمر! اس دوپہر کی گرمی میں ننگی تلوار لے کر کہاں چلے ؟ کہنے لگے کہ آج بانی اسلام کا فیصلہ کرنے کے لئے گھر سے نکل پڑا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن “ فاطمہ بنت الخطاب “ اور تمہارے بہنوئی “ سعید بن زید “ بھی تو مسلمان ہو گئے ہیں یہ سن کر آپ بہن کے گھر پہنچے اور دروزہ کھٹکھٹایا۔ گھر کے اندر چند مسلمان چھپ کر قرآن پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آواز سن کر سب لوگ ڈر گئے اور قرآن کے اوراق چھوڑ کر ادھر ادھر چھپ گئے بہن نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ چلا کر بولے کہ اے اپنی جان کی دشمن کیا تو بھی مسلمان ہو گئی ہے ؟ پھر اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ پر جھپٹے اور ان کی داڑھی پکڑ کر ان کو زمین پر پٹخ دیا اور سینے پر سوار ہو کر مارنے لگے ان کی بہن فاطمہ اپنے شوہر کو بچانے کے لئے دوڑ پڑیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو ایسا طمانچہ مارا کہ ان کے کانوں کے جھومر ٹوٹ کر گر پڑے اور ان کا چہرہ خون سے لہو لہان ہو گیا بہن نے صاف صاف کہہ دیا کہ عمر! سن لو تم سے جو ہو سکے کر لو مگر اب اسلام دل سے نہیں نکل سکتا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بہن کا خون آلود چہرہ دیکھا اور ان کا عزم و استقامت سے بھرا ہوا یہ جملہ سنا تو ان پر رقت طاری ہو گئی اور ایک دم دل نرم پڑ گیا۔ تھوڑی دیر تک خاموش کھڑے رہے پھر کہا کہ اچھا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی دکھاؤ۔ بہن نے قرآن کے اوراق کو سامنے رکھ دیا اٹھا کر دیکھا تو اس آیت پر نظر پڑی کہ
“سبح للہ ما فی السمٰوت والارض وھو العزیز الحکیم ہ“
اس آیت کا ایک ایک لفظ صداقت کی تاثیر کا تیر بن کر دل کی گہرائی میں پیوست ہوتا چلا گیا اور جسم کا ایک ایک بال لرزہ بر اندان ہونے لگا۔ جب اس آیت پر پہنچے کہ
“اٰمنوا باللہ و رسولہ ( حدید ) “
تو بالکل ہی بے قابو ہو گئے اور بے اختیار پکار اٹھے کہ
“ اشھد ان لا الٰہ اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ۔“
یہ وہ وقت تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضرت ارقم بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکان میں مقیم تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بہن کے گھر سے نکلے اور سیدھے حضرت ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکان پر پہنچے تو دروازہ بن پایا۔ کنڈی بجائی اندر کے لوگوں نے دروازہ کی جھری سے جھاک کر دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ننگی تلوار لئے کھڑے تھے لوگ گھبرا گئے اور کسی میں دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ مگر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بلند آواز سے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور اندر آنے دو اگر نیک نیتی کے ساتھ آیا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ ورنہ اسی کی تلوار سے اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اندر قدم رکھا تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود آگے بڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بازو پکڑا اور فرمایا کہ اے خطاب کے بیٹے تو مسلمان ہو جا آخر تو کب تک مجھ سے لڑتا رہے گا ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بہ آواز بلند کلمہ پڑھا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مارے خوشی کے نعرہ تکبیر بلند فرمایا اور تمام حاضرین نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہنے لگے کہ یارسول اللہ ! یہ چھپ چھپ کر خدا کی عبادت کرنے کے کیا معنی ؟ اٹھئے ہم کعبہ میں چل کر علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے اور خدا کی قسم میں کفر کی حالت میں جن جن مجلسوں میں بیٹھ کر اسلام کی مخالفت کرتا رہا ہوں میں اب ان تمام مجالس میں اپنے اسلام کا اعلان کروں گا۔ پھر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صحابہ کی جماعت کو لے کر دو قطاروں میں روانہ ہوئے ایک صف کے آگے آگے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ اس شان سے مسجد حرام میں داخل ہوئے اور نماز ادا کی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی نے حرم کعبہ میں مشرکین کے سامنے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ یہ سنتے ہی ہر طرف سے کفار دوڑ پڑے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مارنے لگے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی ان لوگوں سے لڑنے لگے۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ماموں ابو جہل آ گیا۔ اس نے پوچھا کہ یہ ہنگامہ کیسا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسلمان ہو گئے ہیں اس لئے لوگ برہم ہو کر ان پر حملہ آور ہوئے ہیں یہ سن کر ابو جہل نے حطیم کعبہ میں کھڑے ہو کر اپنی آستین سے اشارہ کر کے اعلام کر دیا کہ میں نے اپنے بھانجے عمر کو پناہ دی ابو جہل کا یہ اعلان سن کر سب لوگ ہٹ گئے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں ہمیشہ کفار کو مارتا اور ان کی مار کھاتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے اسلام کو غالب فرما دیا۔
( زرقانی علی المواہب ج1ص 272 )
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مسلمان ہونے کا ایک سبب یہ بھی بتایا گیا کہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں کفر کی حالت میں قریش کے بتوں کے پاس حاضر تھا۔ اتنے میں ایک شخص گائے کا ایک بچھڑا لے کر آیا اور اس کو بتوں کے نام ذبح کیا۔ پھر بڑے زور سے چیخ مار کر کسی نے یہ کہا کہ “ یا جلیح امر نجیع رجل فصیح یقول لآ الا اللہ “ یہ آواز سن کر سب لوگ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن میں نے یہ عزم کر لیا کہ میں اس آواز دینے والے کی تحقیق کئے بغیر ہرگز ہرگز یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔ اس کے بعد پھر یہی آواز آئی کہ “یا جلیح امر نجیع رجل فصیح یقول لآ الا اللہ“ یعنی اے کھلی ہوئی دشمنی کرنے والے! ایک کامیابی کی چیز ہے کہ ایک فصاحت والا آدمی “ لاالٰہ الا اللہ “ کہہ رہا ہے حالانکہ بتوں کے آس پاس میرے سوا دوسرا کوئی بھی نہیں تھا۔ اسی کے فوراً بعد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا۔ اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بے حد متاثر تھے۔ اس لئے ان کے اسلام لانے کے اسباب میں اس واقعہ کو بھی کچھ نہ کچھ ضرور دخل ہے۔ ( بخاری ج1ص 546 و زرقانی ج1ص276 باب اسلام عمر )
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب کفار مکہ نے بہت ستایا تو عاص بن وائل سہمی نے بھی آپ کو اپنی پناہ میں لے لیا۔ جو زمانہ جاہلیت میں آپ کا حلیف تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کفار کی مار دھاڑ سے بچ گئے۔
( بخاری باب اسلام عمر ج1ص 545 )