حضور اکرمؐ کی شگفتہ مزاجی

  • Work-from-home

Sumi

TM Star
Sep 23, 2009
4,247
1,378
113
عربی زبان کا مشہور مقولہ ہے کہ’’مزاح المومنین عبادة ‘‘یعنی ایمان کی حدود کے اندر مومنین کا باہمی مزاح بھی عبادت ہے۔ اسی طرح ایک اور معروف قول ہے کہ ’’کلام میں مزاح کو وہی مقام حاصل ہے جو کھانے میں نمک کو‘‘۔انسانی فطرت حزن و مسرت سے مرکب ہے اور متانت کے ساتھ مسکراہٹ سے ہی حیات انسانی رواں دواں ہے۔سرور کائنات ؐ کی پوری زندگی ہمارے لیے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے کہ حضورؐ کس کس طرح احکام ربانی کی تکمیل کے لیے کوشاں رہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ حضورؐ نے کسی مرحلہ پر بھی ترش روی کو پسند نہیں فرمایا۔آپؐ نے فطری تقاضوں کے ساتھ اخلاقی معیار کو ہم آہنگ رکھا۔آپؐ کے مزاح میں بھی متانت کا پہلو موجود ہوتا تھا۔کبھی کھلکھلا کر یا قہقہہ لگا کر نہیں ہنستے تھے،بلکہ آپؐ کی ہنسی ہمیشہ تبسم تک محدود رہتی تھی۔
حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ ایک روز کوئی ضعیفہ حضور اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا’’یا رسول اللہ ! دعا کیجیے میں جنت میں جاؤں۔‘‘جس پر حضور ؐ نے فرمایا ’’بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی‘‘۔وہ بڑی پریشان ہوئی اور رونے لگی۔جس پر آپؐ نے فرمایا’’جنت میں بوڑھی عورتیں نہیں جائیں گی بلکہ اللہ تعالیٰ انھیں جوان کر کے داخل کریں گے۔‘‘اس پر وہ بڑھیا خوش ہوگئی۔
اسی طرح حضرت انس بن مالک ؓ راوی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرمؐ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ’’مجھے کوئی سواری کا جانور عطا فرمائیں‘‘ آپؐنے فرمایا’’ہم تجھے اونٹنی کا بچہ دیں گے‘‘ اُس نے کہا’’یا رسول اللہؐ میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا کیونکہ سواری کے لیے بچہ تو کام نہیں دے سکتا‘‘آپؐ نے فرمایا’’اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنتی ہے‘‘
مزاح کا یہ پیرایہ نہ صرف زیر لب تبسم کا عکاس ہے۔بلکہ اس میں صداقت کا پہلو بھی پوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہے۔جنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے پوچھا ’’یا رسول اللہؐ! آپ مزاح فرماتے ہیں ؟‘‘آپؐ نے فرمایا’’یقیناً مگر میں اس میں صرف سچی بات کہتا ہوں ۔‘‘
ایک دن ایک شخص سے آپؐ نے دریافت فرمایا’’بتاؤ تمھارے ماموں کی بہن تمھاری کیا لگی‘‘۔اس سادہ دل نے سر جھکا لیا اور سوچنے لگا۔آپ مسکرا دیے اور فرمایا کہ ’’ہوش کر ،تجھے تیری ماں یاد نہیں رہی‘‘
) سرور کائنات ؐ جہاں خود شستہ مذاق کرتے تھے وہاں اگر صحابہ کرام ؓ بھی اسی نوع کا مذاق کرتے تو اس سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔حضرت ام سلمیٰ ؓ راوی ہیں کہ نبی کریمؐ کی وفات سے تقریباً ایک سال قبل حضرت ابو بکر صدیقؓ تجارت کی غرض سے بصرہ تشریف لے گئے۔ان کے ہمراہ حضرت نعمانؓ اور حضرت سوبیطؓ بھی تھے۔ان میں سے حضرت سوبیط ؓ ظریف الطبع تھے۔دورانِ سفر ایک روزحضرت سوبیطؓ نے حضرت نعمان ؓ سے کھانا مانگا۔حضرت ابو بکر ؓ وہاں موجود نہ تھے۔حضرت نعمان ؓ نے کہا ’’حضرت ابو بکرؓ کے آنے پر کھانا دوں گا۔‘‘حضرت سوبیطؓ نے کہا’’اچھا میں تمھیں دیکھ لوں گا‘‘ کچھ دیر چلتے رہنے کے بعد ایک قبیلے کے پاس سے گزرے تو حضرت سوبیطؓ نے وہاں کچھ لوگوں سے کہا’’میرے پاس ایک غلام ہے،اگر تم خریدنا چاہو تو لے لو،مگر اس میں ایک بات ہے کہ وہ خود کو آزاد کہتا رہے گا ،لیکن تم اسے چھوڑنا نہیں‘‘چنانچہ دس اونٹوں پر معاملہ طے ہوگیااور ان لوگوں نے حضرت نعمان ؓ کے گلے میں چادر ڈال لی،یہ بے چارے چیختے ہی رہے کہ میں آزاد ہوں۔مگر انھوں نے کہا کہ ہمیں تمھاری اس عادت کا علم ہے۔حتیٰ کہ حضرت ابوبکرؓ آ گئے اور انھوں نے ان کی جان چھڑائی اور ان کا مال واپس کر دیا۔جب یہ حضرات مدینہ منورہ آئے تو یہ قصہ حضورؐ کو سنایا گیا۔آپؐ یہ سب سن کر خوب مسکرائے ۔گویا آپؐ خود بھی شگفتہ مزاج تھے اور شگفتگی کلام کو پسند فرماتے تھے۔
- یہ چند مثالیں بطور نمونہ اس لیے درج کی گئی ہیں کہ یہ ثابت ہو سکے کہ نبی پاکؐ اپنے ساتھیوں کے لطیف اور پاکیزہ مذاق سے کس قدر لطف اندوز ہوتے تھے۔آپؐ کی شگفتگی ، برجستگی اور متانت کاایک حسین امتزاج ہوتی تھی۔آپؐ خوش ہوتے تو زیرِلب تبسم فرماتے،قہقہہ لگانا نبوت کی سنجیدگی کے خلاف تھا۔قہقہہ تو وہ لوگ لگائیں جو بے فکرے ہوں۔آپؐ اپنے بارے میں فرماتے تھے کہ میں کیونکر بے فکر ہوں جبکہ صاحب صور تیار کھڑا ہے ۔آپؐ کا تبسم اس لیے تھا کہ آپؐ کے ساتھ مصالح خلق وابستہ تھا۔البتہ کبھی کبھی تبسم کے وقت آپؐ کے دندان مبارک نظر آجایا کرتے تھے۔
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top