ہر آدمی کا شیطان اس کے اپنے اندر ہوتا یے۔ اور خواہش اس شیطان کا دوسرا نام یے۔ انسان اپنی خواہشوں کو جتنی بڑھاتا اور ہشکارتا جائےگا، اس کا من اتنا ہی کٹھور اور اس کی زندگی اتنی ہی کٹھن ہوتی چلی جائے گی۔ ڈائناسور (Dinosaur) کا ڈیل جب اتنا بڑا ہوگیا اور کھانے کی خواہش اتنی شدید ہو گئی کہ زندہ رہنے کے لیے اسے چوبیس گھنٹے مسلسل چرنا پڑتا تھا تو اس کی نسل ہی Extinct (معدوم) ہو گئی۔ کھانا صرف اتنی مقدار میں جائز یے کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار ریے۔ جسم فربہ ہوگا تو نفس کا موٹا ہونا لازمی یے۔
اقتباس: مُشتاق احمد یُوسفی کی کتاب "آب گم" سے