حکایت شاخِ تنہا کی خُدا سے کیوں نہیں کہتے
خُدا سے جو بھی شکوہ ہے ، خُدا سے کیوں نہیں کہتے
پرندے جو پروں سے مُنحرف بیٹھے ہیں شاخوں پر
اُڑا کر اُن کو لے جائے، ہوا سے کیوں نہیں کہتے
یہ مٹی پر تو بن جاتا ہے، نہیں کوئی کمال ایسا
کبھی پانی پہ ٹھہرے، نقشِ پا سے کیوں نہیں کہتے
ہمارے اشک کُچھ تاخیر سے آتے ہیں پلکوں پر
ذرا آُجلت دکھائے، آبتلا سے کیوں نہیں کہتے
نشیبِ وقت میں اب چند خیموں کے سِوا کیا ہے
بدل لے رُخ ذرا سیلِ بلا سے کیوں نہیں کہتے
ستارا توڑ کر لانا اگر مُمکن نہیں مُحسن
تو جُگنو ڈھونڈ لے، بختِ رسا سے کیوں نہیں کہتے