رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازداں

  • Work-from-home

طارق راحیل

Active Member
Apr 9, 2008
247
189
1,143
38
Karachi
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازداں


حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ ہنگامہ ہائے دنیا سے الگ تھلک اپنی زندگی کے دن صبر و قناعت سے کاٹ رہے تھے۔ 31 ھ یا 32 ھ کے ایام حج میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے۔ ربذہ کے تمام لوگ حج کےلئے روانہ ہوگئے تھے اور ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس صرف ان کی رفیقہ حیات اور ایک لڑکی موجود تھی۔ ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو ان کی اہلیہ رونے لگیں ، ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے نحیف آواز میں پوچھا۔” روتی کیوں ہو“۔
اہلیہ نے جواب دیا۔”آپ ایک ویرانے میں دم توڑ رہے ہیں، نہ میرے پاس اتنا کپڑا ہے کہ آپ کو کفن دے سکوں، نہ میرے بازوﺅں میں اتنی طاقت ہے کہ آپ کی ابدی خوابگاہ تیار کرسکوں“۔
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:”سنو ایک دن ہم چند لوگ رسولِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ایک شخص صحرا میں جاں بحق ہوگا اور اس کے جنازے میں مسلمانوں کی ایک جماعت باہر سے آکر شرکت کرے گی۔ اُس وقت جو لوگ موجود تھے وہ سب شہری آبادیوں میں وفات پاچکے ہیں اب صرف میں ہی باقی رہ گیا ہوں۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ رسولِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کا مصداق نہ بنوں۔ تم باہر جاکر دیکھو، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق مسلمانوں کی کوئی جماعت ضرور آتی ہوگی“۔ پاس ہی ایک ٹیلہ تھا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کی اہلیہ اس پر چڑھ کر انتظار کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد دور گرد اُڑتی نظر آئی۔ پھر اس میں سے چند سوار نمودار ہوئے۔ جب قریب آئے تو ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ نے انہیں پاس بلاکر کہا:” بھائیو! قریب ہی ایک مسلمان سفرِ آخرت کی تیاری کررہا ہے۔ اس کے کفن دفن میں میرا ہاتھ بٹاﺅ“۔ قافلے والوں نے پوچھا ”وہ کون شخص ہے“۔ جواب دیا، ”ابوذرغفاری رضی اللہ تعالی عنہ “ ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کا نام سنتے ہی قافلے والے بے تاب ہوگئے اور ”ہمارے ماں باپ اُن پر قربان ہوں“۔ پکارتے ہوئے ان کی طرف لپکے۔
اُدھر ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی صاحبزادی سے فرمایا: ”جانِ پدر ایک بکری ذبح کر اور گوشت کی ہنڈیا چولہے پر چڑھادے۔کچھ مہمان آنے والے ہیں جو میری تجہیزوتکفین کریں گے۔ جب وہ مجھے سپردِ خاک کرچکیں تو ان سے کہنا کہ ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ لوگوں کو خدا کی قسم دی ہے کہ جب تک آپ یہ گوشت نہ کھالیں یہاں سے رخصت نہ ہوں“۔
جب قافلے والے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کے خیمے میں داخل ہوئے تو ان کا دمِ واپسیں تھا۔ اکھڑی ہوئی آواز میں فرمایا: ”تم لوگوں کو مبارک ہوکہ تمہارے یہاں پہنچنے کی خبر سالہا سال پہلے ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی تھی۔ میں تمہیں وصیّت کرتا ہوں کہ ” مجھے کوئی ایسا شخص نہ کفنائے جو حکومت کا عہدیدار ہو یا رہ چکا ہو“۔ اتفاق سے اس قافلے میں ایک انصاری نوجوان کے سوا سب لوگ کسی نہ کسی صورت میں حکومت سے متعلق رہ چکے تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر کہا۔”اے رسولِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب رفیق، میں آج تک حکومت کی ملازمت سے بے تعلق ہوں، میرے پاس دو کپڑے ہیں جو میری والدہ کے ہاتھ کے کَتے بُنے ہوئے ہیں۔ اجازت ہو تو ان میں آپ کو کفنادوں“۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے اثبات میں سرہلایا اور پھر ”بسم اللّٰہ وباللّٰہ وعلیٰ ملتہ رسُول اللّٰہ“ کہہ کر جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
اس قافلے کے اکثر لوگ یمن کے رہنے والے تھے۔ اتفاق سے ان کے ساتھ فقیہِ اُمت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے۔ انہوں نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور پھر سب نے مل کر اس آفتابِ رشدو ہدایت کو سپردِ خاک کردیا۔ جب چلنے لگے تو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ غفاری کی صاحبزادی نے قسم دے کر انہیں کھانا کھلایا۔ علامہ طبریؒ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے چلتے وقت حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کے اہل و عیال کو ساتھ لے لیا اور مکہ معظمہ پہنچ کر انہیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کردیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حج سے واپسی پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ انہیں خود ربذہ سے مدینہ منورہ لے گئے اور پھر ہمیشہ ان کے کفیل رہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ غفاری کا شمار ان کبار صحابہ میں ہوتا ہے جن کے علّوِ مرتبت پر ملت اسلامیہ کے ہر فرد بشر کا کامل اتفاق ہے۔
تقدم فی الاسلام، حُب رسولصلی اللہ علیہ وسلم، شغفِ قرآن و حدیث، فقرو زہد، ایثار و قناعت، تقویٰ و توکل، تبلیغ و ارشاد اور حق گوئی و بے باکی حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کی کتابِ سیرت کے نمایاں ابواب ہیں۔ علم و فضل کا یہ عالم تھا کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ان کو علم میں حبرالامتہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے برابر سمجھتے تھے۔ شیرِ خدا علی کرم اللہ وجہہ فرمایا کرتے تھے کہ ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے اتنا علم محفوظ کرلیا ہے کہ لوگ اس کے حاصل کرنے سے عاجز تھے اور اس تھیلی کو اس طرح بند کردیا کہ اس میں سے کچھ بھی کم نہ ہوا۔
رحمتِ عالم حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ پر بے حد شفقت فرماتے تھے۔ جب وہ مجلسِ نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہوتے تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے انہی کو مخاطب فرماتے، اگر موجود نہ ہوتے تو انہیں تلاش کرکے لایا جاتا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم ان سے مصافحہ فرماتے۔
بارگاہِ نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں بہت کم صحابہ ایسے تھے جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بے تکلفانہ سوال پوچھ سکیں لیکن حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کےلئے رحمت عالمصلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ایسی بے پایاں تھی کہ وہ آزادی کے ساتھ معمولی سے معمولی چیزوں کے بارے میں بھی سوال پوچھا کرتے تھے۔ مسندِ احمد بن حنبل میں ہے کہ رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کی عقیدت اور محبت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ مدینہ آنے کے بعد ان کے وقت کا بیشتر حصہ رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں گزرتا تھا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی والہانہ خدمت ہی ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ اسی خدمت کی بدولت انہیں بارگاہِ رسالت میں ایسا درجہ تقرب اور اعتماد حاصل ہوگیا تھا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم انہیں راز کی باتیں بھی بتادیا کرتے تھے اور وہ بھی راز داری کا حق پوری طرح ادا کرتے تھے۔​
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top