آج مجھے گھر آتے ہوئے رات کے آٹھ بج گئے ۔۔۔ سوچا تھا کہ ہو سپٹل سے نکلتے وقت کچھ دیر کو کمرہ نمبر بیس میں نئی مریضہ کو دیکھتی جاؤں ۔۔ جو کل ہی ایڈمٹ ہوئی تھی ۔۔ مجھے تسلی کرنی تھی کہ وہ بات کرنےکے قابل ہوئی ہے کہ نہیں ۔۔ اس نے ایک ہفتے سے ڈھنگ سے کھانا نہیں کھایا تھا ۔۔ انتہائی تکلیف میں تھی ۔۔ دکھ سے اس کا خوبصورت سانولا چہرہ سیاہی مائل ہو رہا تھا ۔۔۔ بات بے بات آنسو کوئی عجیب سی بے بسی کی داستان بن جاتے تھے ۔۔ کیا ایسا تھا جس کا اسے غم تھا ۔۔ اس کی اینٹری نوٹس بھی نامکمل تھے ۔۔ کمرہ نمبر بیس کی اداس روح آج دن بھر مجھے اپنی طرف متوجہ کر تی رہی تھی لیکن سارا دن کیسے گزرا پتہ ہی نہ چل سکا ۔۔ آخری لمحہ پر اسے پوچھنا ایسے ہی تھا جیسے اسے بتانا تھا کہ اس کی مسیحا اسے بھولی نہیں ۔۔ میں واپس آنا ہی چاہتی تھی کہ وہ میرے ہاتھوں کو تھام کر رو پڑی ۔۔۔ اور میں وہی رک گئی ۔۔ میں سر تاپہ سماعت بن چکی تھی ۔۔۔
وہ کہہ رہی تھی کہ وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہے ۔۔ سب اس کو پنکی بلاتے ہیں ۔۔ اور اس نے یونیورسٹی میں ابھی داخلہ لیا ہے ۔۔ اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا بس آس پاس اپنی بیمار ماں کو ہی دیکھا تھا ۔۔ اس کی ماں نے کبھی اسے گلے لگا کر پیار نہیں تھا ۔۔۔۔ جب وہ سوتے ہوئے ڈر جاتی تھی اسے کبھی اپنے پاس ہی سو جانے کو نہیں کہاتھا ۔۔ اس کی ماں نے نہ کبھی اس سے سکول یا یونیورسٹی کی کوئی بات پوچھی تھی اور نہ ہی کبھی کوئی فرمائش پوچھی ۔۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ چاہتی نہیں تھی ۔۔ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے کر نہیں سکتی تھی ۔۔۔ انہیں لیور سروسس ہے ۔۔ پنکی نے ایک سرد آہ بھری ۔۔ اور آنکھیں موند لی ۔۔ بس ان کی سانسیں چلتی ہیں پر وہ زندہ نہیں ہیں ۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ مر رہی ہیں ڈاکٹر ۔۔ اور میں ان کے ساتھ مر رہی ہوں ۔۔ میں کیا کروں ڈاکٹر ۔۔ کیا کروں ۔۔ اب پنکی ہچکیوں سے رو رہی تھی ۔۔ سب مجھے چھوڑ گئے ہیں ۔۔ایسے جیسے ماں صرف میری زمہ داری ہے ۔۔ کوئی بہن بھائی انہیں پوچھنے تک نہیں آتا ۔۔ ابو نے چار سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔۔۔۔ وہ مجھے جیسے اپنے ساتھ بہا لے جا رہی تھی ۔۔
میں اب تھک گئی ہوں ۔۔ میں اپنی ماں کو بوجھ سمجھنے لگی ہوں ۔۔ میر اان سے تعلق محبت کا نہیں صرف “ ترس“ کا رہ گیا ہے ۔۔ اور میں اب اور ترس نہیں کھا سکتی ۔۔۔ کیا میں غلط ہوں ۔۔۔ مجھے بتائیں کہ کیامیں غلط ہوں ۔۔۔ وہ ایک دم میری طرف پلٹی اور میں بس اسے سنے جا رہی تھی ۔۔ کیا میں اپنے بڑے بھائی سے یہ کہنے میں غلط ہوں کہ مجھ سے اب ماں کی اور دیکھ بھال نہیں ہوتی ۔۔۔ کیا اپنی تھکن بانٹنا ۔۔اپنے بوجھ بانٹنا غلط ہے ۔۔ میں نے پنکی کی جوان روشن آنکھوں میں امید کی لوئیں ٹمٹماتی ہوئی دیکھ لی تھیں ۔۔ اس کی تھکن ، اس کی اداسی ہر لفظ میں مجرم کی طرح اقرار کر رہی تھی ۔۔
اکیس سال سے میں نے اپنی ماں کی زندہ لاش دیکھی ہے ۔۔ ہمکلامی بھی ایک عجیب سے کیفیت ہوتی ہے ۔۔دنیا سے بے خبر ۔۔ ہوش سے دور ۔۔ ایسی ہی کچھ کیفیت پنکی کی تھی .
وہ ہمارے درمیاں رہتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ نہیں ہیں ۔۔ مجھے اپنی ماں سے محبت نہیں ہے تو میں کیا کروں ۔۔۔ میں چار سال کی تھی جب سے اپنی ماں کو کبھی گلاس لا کر دے رہی ہوں تو کبھی انکی دوا انہیں پکڑا رہی ہوں ۔۔ میرے پاس اپنی ماں کو یاد رکھنے کے لئے ایک بھی خوشگوار یاد نہیں ہے ۔۔۔ پتہ کیوں ڈاکٹر .. اس لئے کہ میرے بہن بھائیوں نے مجھ سے کبھی میری تھکن بانٹی ہی نہیں ۔۔ ۔۔ مجھے کبھی جینے ہی نہیں دیا ۔۔۔۔ مجھے کبھی سوچنے ہی نہیں دیا کہ میں بھی جیتی جاگتی انسان ہوں ہوں ۔۔ بس مجھے یاد ہے تو یہی ۔۔ کہ ..
پنکی ماں کا خیال رکھنا ہمارا ایمان ہے .. سوچو کتنا برا لگے گا ہم سب کے ہوتے ہوئے انہیں نرسنگ ہوم میں رکھنا یا کسی نرس کو ان کی دیکھ بھال کے لئے رکھنا .. اور ماں کو بھی اچھا نہیں لگے گا …
پنکی چھوٹی ہو تم ۔۔ شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔ بس تم رہو ماں کے پاس ۔۔
پنکی آج انہیں ڈاکٹر ایڈورڈ کو دیکھانا ہے ۔۔ پلیز زرا دکھا دینا
پنکی آج ہم نہیں آ سکیں گے ۔۔ آج تمہاری بھابھی کو ہالیڈیز پر بیچ کے پاس رہنا ہے ۔۔
پنکی تم کھانا کھا لینا ۔۔ ہم باہر ہی کھا کر آئیں گے ۔۔
پنکی آج چھٹی کر لو ماں کی طبعیت ٹھیک نہیں
پنکی دیکھنا ماں کوکھانسی ہو رہی ہے
پنکی تم ماں کے پاس ہی سویا کرو جانے انہیں رات کو کس بات کی ضرورت پڑ جائے
میں خیال رکھتے رکھتے تھک گئی ہوں ۔۔۔ میں ہار گئ ہوں ۔۔۔۔ میں بہت اکیلی ہو گئی ہوں ۔۔۔ پر میں مرنانہیں چاہتی ۔۔۔ اس لئے ڈاکٹر میں نے آج دعا کی ہے کہ ۔۔
اے اللہ دیکھ مجھے دیکھ ۔۔ میں صرف اکیس سال کی ہوں اور میں زندہ رہنا چاہتی ہوں اس لئے میری ماں کو اس جہاں سے اٹھا لے ۔۔ میں اس پر اس سے زیادہ ترس نہیں کھا سکتی ۔۔۔ پھر میں نے سارے بہن بھائیوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ میرے ساتھ دعا میں شریک ہوں ۔۔ ہم سب مل کر خدا سے اپنی ماں کی موت مانگتے ہیں ۔۔۔ تاکہ ہم سب احساس جرم کے بغیر زندہ رہ سکیں ۔۔۔
اور قسمت کا مذاق دیکھئے میرے بہن بھائی مجھے مینٹل ہوسپٹل لے آئے ہیں ۔۔۔ ہمیشہ کی طرح سچ رو رہا ہے ڈاکٹر ۔۔۔ سچ تو دل میں رہتا ہے ۔۔ جو دل میں رہے وہی توزبان پر بھی آتا ہے ۔۔ رشتے تھکن کی طرح اس وقت بوجھ بن جاتے ہیں جب وہ بانٹے نہیں جاتے ۔۔ میں نے اپنے دل کاسچ کہہ دیا تو میں مینٹل ہوسپٹل میں ایڈمٹ کر دی گئی ہوں ۔۔ اور جومیرے بہن بھائی اکیس سال سے اپنی ماں کے ساتھ کر رہے ہیں وہ کیا ہے ۔۔۔وہ کیا ہے .. ؟؟
پنکی سسک سسک کر رو رہی تھی ۔۔۔ اور ستم دیکھئے اس کی مسیحا کے پاس بھی اس سے بانٹنے کے لئے تسلی نہیں بچی تھی ۔
تحریر: نگہت نسیم