روسی مصنف میکسم گورکی
خزاں کی ایک رات
موسم خزاں کی ایک رات کا ذکر ہے، میں عجیب بے اطمینانی اور بے چینی کی حالت میں تھا۔ جس قصبے میں میں ابھی ابھی وارد ہوا تھا اور جہاں میں کسی متنفس سے بھی واقف نہ تھا، میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ میری جیب میں ایک پائی نہ تھی اور رات بھر کا بسیرا میسر نہ تھا۔
پہلے چند روز میں میں نے اپنے لباس کا ہر وہ حصہ بیچ کھایا جس کے بغیر میں ادھر ادھر جا آ سکتا تھا۔ پھر شہر کو چھوڑ کر اس حصے میں چلا آیا جہاں دخانی جہازوں کے گھاٹ بنے ہوئے ہیں .... وہ حصہ جو جہاز رانی کے زمانے میں زندگی کی جدو جہد کا مرکز بنا رہتا ہے۔ لیکن جو اب خاموش اور سنسان تھا۔ کیونکہ یہ ماہ اکتوبر کے آخری دن تھے۔
گیلی گیلی ریت پر اپنے پاؤں کو گھسیٹتے ہوئے کہ شاید اس میں کسی قسم کی خوراک کا کوئی ٹکڑا دبا ہوا ہو، میں تن تنہا خالی مکانوں اور گوداموں میں گھوم رہا تھا۔ اور دل ہی دل میں یہ خیال کر رہا تھا کہ کیا اچھا ہو اگر پیٹ بھر کر کھانے کو کچھ مل جائے۔
موجودہ تہذیب و تمدن کو دیکھ کر ہمارا دل سیر ہو جاتا ہے، لیکن ہمارا جسم بھوکا ہی رہتا ہے بازاروں میں جاؤ، وہاں عالی شان عمارتوں میں گِھر جاؤ گے اور ان کا نظارہ فن تعمیر، ترقی معاشرت اور ایسے ہی بلند پروازی کے دوسرے موضوعات پر تمہارے خیالات کے لئے تقویت بخش ثابت ہو گا۔ تم کو عمدہ عمدہ گرم لباسوں میں لپٹے ہوئے لوگ ملیں گے.... بڑی نرمی سے بات کرنے والے، بڑی حکمت سے کنی کتر کے نکل جانے والے، تمہارے ننگ زمانہ وجود سے نا معلوم طریقے پر نظریں پھیر لینے والے ہاں ،ہاں۔ ایک بھوکے آدمی کا دل ہمیشہ اس شخص سے زیادہ تندرست اور توانا ہوتا ہے۔ جسے پیٹ بھر کر کھا نے کو ملتا ہو۔ اور عسرت ہی وہ صورت حال ہے جس میں ہمیں ان لوگوں کی بہبود کا خیال آتا ہے، جس کا خیال آتا ہے، جن کا وقت فاقہ مستی میں کٹتا ہے۔
شام کا سایہ بڑھتا چلا آتا تھا۔ مینہ برس رہا تھا۔ اور شمال کی تیز و تند ہوا چل رہی تھی۔ خالی بیٹھکوں اور دوکانوں میں اس کے گزرنے سے چیخوں کی سی آواز پیدا ہوتی تھی،اور دریا کی لہریں ، جو شور مچاتی ہوئی ریتیلے ساحل سے ٹکرا رہی تھیں اس کے طمانچوں سے کف آلود ہو جاتی تھیں۔ اچھل اچھل کر گرتی پڑتی، ایک کے پیچھے ایک ہو کر دھندلی دوریوں کی طرف بھاگی جاتی تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دریا جاڑے کی شکل دیکھتے ہی بے تحاشا بھاگ رہا ہے کہ کہیں شمال کی برفانی ہوا اپنی بیڑیاں آج ہی رات اس کے پاؤں میں نہ ڈال دے۔ آسمان بوجھل اور تاریک ہو رہا تھا اور اس پر سے مینہ کے باریک باریک قطرے لگاتار گر رہے تھے۔ نیچر کا غم انگیز ماتمی گیت بید مجنوں کے دو بد شکل درختوں اور ایک اوندھی پڑی ہوئی اور ان درختوں سے بندھی ہوئی کشتی کی موجودگی سے اور بھی موثر ہو گیا تھا۔
الٹی ہوئی کشتی کا پیندا ٹوٹا ہوا تھا اور خراب و خستہ بوڑھے درخت جن کے برگ و ساز سرد ہوا لوٹ لے گئی تھی بلکہ ہر وہ چیز جو میرے ارد گرد پھیلی تھی مفلوک الحال، ابتر اور بے جان نظر آتی تھی اور اس نظارے کو دیکھ دیکھ کر آسمان کے آنسو نہ تھمتے تھے.... ہر چیز تیر و تار ہو رہی تھی.... ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر چیز مر چکی ہے۔ اور صرف میں اکیلا زندہ رہ گیا ہوں اور میرے لئے بھی موت کا یہ زمہریر انتظار کر رہا ہے۔
اس وقت میری عمر اٹھارہ برس کی تھی.... کیا ہی زمانہ تھا؟
میں سرد گیلی ریت پر بہت دور تک چلا گیا۔ سردی اور بھوک کے اعزاز میں میرے دانت ایک ساز کی طرح بج رہے تھے۔ ایک جگہ خالی الماریوں کے پیچھے میں کوئی کھانے کی چیز تلاش کر رہا تھا کہ یکایک میری نظر ایک انسانی صورت پر پڑی۔ اس کا نسوانی لباس بارشوں کی وجہ سے تر بہ تر ہو کر اس کے جھکے ہوئے کندھوں میں پیوست ہو گیا تھا۔ میں چپ چاپ کھڑا دیکھتا رہا کہ وہ کیا کرتی ہے، معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ریت میں کوئی خندق سی کھود رہی ہے۔
’’تم یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘ میں نے اس کے قریب جا کر کہا۔
ایک ہلکی سی چیخ اس کے منہ سے نکلی اور وہ کھڑی ہو گئی۔ اب کہ خوف سے بھری ہوئی بڑی بڑی نیلی نیلی آنکھیں کھولے میرے سامنے کھڑی تھی میں نے دیکھا کہ وہ لڑکی ہے، میری ہی عمر کی، جس کے روشن چہرے کو تین بڑے بڑے نیلے داغوں نے گہنا رکھا ہے۔گو ان داغوں کی تقسیم اس کے چہرے پر نہایت موزونیت اور تناسب کے ساتھ ہوئی تھی۔ پھر بھی انہوں نے اس کے حسن کو چھپا دیا تھا۔ تینوں اپنی اپنی جگہ اکیلے اکیلے نمایاں تھے۔ سب جسامت میں تقریباً برابر تھے.... دو آنکھوں کے نیچے اور ایک جو بڑا تھا پیشانی پر ناک کے عین اوپر بلا شبہ یہ کام تھا کسی اس حسن کار کا جو انسانی صورتوں کو بگاڑنے کا خو گر ہو۔
وہ میری طرف دیکھتی رہی اور اس کی آنکھوں میں سے وحشت آہستہ آہستہ مفقود ہوتی گئی.... اس نے ہاتھوں پر سے ریت جھاڑی۔ سر کے سوتی رومال کو ترتیب سے باندھا، پھر ذرا جھکی اور کہا:۔
’’ میں سمجھتی ہوں کہ تمہیں بھی کھانے کے لئے کچھ چاہئے، تو پھر اس جگہ کو کھودو، میرے ہاتھ تھک گئے ہیں .... یہاں !‘‘.... اس نے اپنے سر کی جنبش سے ایک دوکان کی طرف اشارہ کیا....’’ یہاں روٹی کامل جانا یقینی ہے.... اور سالن کا بھی.... یہ دوکان ان دنوں بھی کھلی ہے‘‘
میں زمین کھودنے لگا۔ کچھ دیر ٹھہر کر اور میری طرف دیکھنے کے بعد وہ میرے قریب بیٹھ گئی اور مجھے مدد دینے لگی۔
ہم خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ میں اب نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت جرم، قانون، ملکیت اور ایسی ہی وہ تمام باتیں جن کے متعلق تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ زندگی کے ہر لمحے میں ملحوظ رہنی چاہئیں میرے خیال میں تھیں یا نہیں ، صداقت کے انتہائی قریب رہتے ہوئے میں اقرار کرتا رہوں کہ میں کھودنے میں اتنا منہمک تھا کہ اس ایک بات کے سوا کوئی دوسری بات میرے وہم و خیال میں بھی نہ آتی تھی کہ اس الماری کے اندر کیا ہو گا!
شام کا سایہ پھیلتا گیا، چاروں طرف کہر کی تاریکی چڑھتی گئی،موجوں کا شور بھاری ہوتا گیا اور مینہ کے چھینٹے الماری کے تختوں پر پہلے سے بلند آواز کے ساتھ گرنے لگے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر پہرہ داروں کی آوازیں آنے لگیں۔
’’ اس کا کوئی پتہ بھی ہے؟‘‘ اس نے آہستہ سے پوچھا۔ میں نہ سمجھ سکا کہ اس نے کیا کہا۔ اس لئے میں خاموش رہا۔
’’ میں کہتی ہوں ، اس الماری کی کوئی تہہ بھی ہے؟.... کہیں یہ نہ ہو کہ ہم کھودتے کھودتے ایک خندق بنا دیں اور یہ نتیجہ ہو کہ الماری کے نیچے بھی لکڑی کے مضبوط تختے لگے ہوں ، ایسی صورت میں ہم کیوں کر انہیں اکھاڑ سکیں گے؟ بہتر ہو کہ تالے توڑ ڈالیں .... اس ناکارہ تالے کو‘‘
عورتوں کو عمدہ خیالات شاذ و نادر ہی سوجھتے ہیں ، لیکن کبھی کبھی سوجھ ضرور جاتے ہیں۔ میں نے عمدہ خیالات کی ہمیشہ قدر کی ہے، اور ہمیشہ جہاں تک ممکن ہو سکا ان سے مستفید ہونے کی کوشش کی ہے۔
میں نے تالے کو پکڑ کر اس زور سے مروڑا کہ وہ کنڈی سمیت اکھڑ آیا وہ جھپٹ کر آگے بڑھی اور الماری کا جائزہ لیتی ہوئی مجھ سے یوں کہنے لگی’’ تم تو لوہا ہو لوہا!‘‘
آج کسی عورت کا ایک چھوٹا سا تعریفی فقرہ میرے لئے اس مرد کے بڑے سے بڑے قصیدے سے زیادہ قد رو قیمت رکھتا ہے، جس میں تمام قدیم اور جدید لسانیات جمع ہوں ، لیکن اس وقت میرے مزاج میں اکھڑ پن تھا اور اب اس کی اصلاح ہو چکی ہے، چنانچہ اس کی تحسین و تعریف پر کان نہ دھرتے ہوئے ، میں نے بے تابانہ اس سے سوال کیا:
’’ اس میں کچھ ہے بھی؟‘‘