زنا کی تشہیری وڈیو

  • Work-from-home

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
گذشتہ دنوں ایک رونگ نمبر ملّا کی وڈیو انٹر نیٹ پر مشتہر کی گئی۔ جس کا عنوان نہایت بے شرمی کے ساتھ یہ رکھا گیا، کہ ایک صحابی سے زنا ہوگیا، واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو سزا نہیں دینا چاہتا چاہتے تھے، حد قائم کرتے ہوئے چور کو سزا دیتے ہو ئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑتے تھے، اور سب گندے لوگ جنھوں نے اس معاشرے میں اپنے کرتوت سے عوام کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شفاعت فرمائیں گے۔دین علماء حق سے سیکھنا چاہئے، اور علماء سوء کی صحبت سے اجتناب کرنا چاہئے۔ یہ رونگ نمبری عقائد کے باب میں واضح الفاظ میں انکار تو نہیں کرتے ہیں، مگر تدین کے لبادہ میں تغیر اور ردوبدل ضرور کرتے ہین، ریسرچ کے نام پر، دین اور اصلاح کے نام پر، طرح طرح کی بدعنوانیوں، اور غلط تاوہلات کا چلن ان میں عام ہے۔ نصوص یعنی قرآنی آیات اور احادیث کا صریح انکار تو نہیں کرتے مگر باطل تاویلات ضرور کرتے ہیں۔ جیسا کہ مذکورہ وڈیو میں کی گئی ہیں یہ باتیں گمراہ کن ہیں اس لئے حقائق پیش خدمت ہیں۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " گندگی سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے لہذا ان سے بچ کر رہو، اور اگر کسی سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو اسے چھپائے، اور اللہ تعالی سے توبہ کرلے، کیونکہ جس نے اپنے کرتوت ہمیں بیان کئے تو ہم اس پر کتاب اللہ کی رو سے احکام جاری کرینگے"

حاكم نے " المستدرك " ( 4 / 425 ) اوربیہقی نے ( 8 / 330 ) اسے روایت کیا ہے اورألبانی نے صحيح الجامع ( 149 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

یہاں"گندگی" سے مراد گناہ ہیں۔ پردہ پوشی کا حکم اسی لئے ہے کہ برائی کا چرچا نہ ہو، اور اس پر معاشرہ بے شرم نہ ہو جائے، اسی وجہ سے میں اس بات پر معترض ہوں کہ اس طرح کی ہیڈنگ لگا کر، اس واقعے کا چرچا نہ کیا جائے۔ دراصل اس واقعہ یہ دلیل قائم ہوتی ہے کہ ، جس شخص سے کوئی گناہ ہوگیا تو وہ جلد از جلد اس گناہ سے توبہ کرلے، اور کسی کو بھی اس گناہ کے بارے میں مت بتلائے، اور اگر اتفاق سے کسی کو اس نے بتلا ہی دیا تو اُسے چاہئے کہ وہ گناہ کرنے والے کو توبہ کی نصیحت کرے، اور لوگوں کو مت بتلائے، جیسے ماعز کے ساتھ ابو بکر اور عمر نے کیا۔

" فتح الباری " ( 12 / 124 ، 125 )
لیکن اگر اعتراف جرم ہوگیا یا گواہی قائم ہوگی تو پھر سزا لازم ہوتی ہے، یہی وجہ کہ میں ج ج کو سزا دینے کی بات کرتا ہوں کیونکہ اس نے گناہ کی تشہیری وڈیو جاری کری اور اعتراف جرم کرلیا ہے، اب عدالت معاف نہیں کرسکتی ہے اور سزا دے کر اسے پاک کرنا ہوگا۔

ط ج کی وڈیو سے، شفاعت پر، پیدا ہونے والے ابہام سے بچنا بھی ضروری ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں شفاعت کے لئے بہت سی شرائط ذکر ہوئیں ہیں ان میں سب سے اہم خداوندعالم کی طرف سے اذن و اجازت ہے، اور یہ بات مسلم ہے کہ جو شخص شفاعت کا امیدوار ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہوگی، یعنی اسے ایسے اعمال انجام دینے ہوں گے جن سے خداوندعالم راضی ہوجائے۔

بعض آیات میں بیان ہوا ہے کہ روز قیامت صرف ان ہی لوگوں کے بارے میں شفاعت قبول کی جائے گی جن کے بارے میں خدا نے اجازت دی ہو، اور اس کی باتوں سے راضی ہوگیا ہے۔ (سورہ طٰہٰ، آیت ۱۰۹)

سورہ انبیاء ، آیت نمبر ۲۸ میں بیان ہوا ہے کہ شفاعت کے ذریعہ صرف انھیں لوگوں کی بخشش ہوگی جو”مقام ارتضاء“ (یعنی خوشنودی خدا) تک پہنچ چکے ہوں گے، اور سورہ مریم ، آیت۷ ۸ کے مطابق جن لوگوں نے خدا سے عہد کرلیا ہو، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ تمام مقامات اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب انسان اللہ تعالیٰ اور اس کی عدالت پر ایمان رکھتا ہو ، نیکیوں اور برائیوں میں حکم اللہ تعالیٰ کو قبول کرتا ہو، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تمام قوانین کے صحیح ہونے پر گواہی دے۔

وہ تمام لوگ جنھوں نے کرپشن اور جرائم سے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے اس بات پر بے خوف نہ ہوجائیں کہ ایک رونگ نمبری نے شفاعت کی گارنٹی دیدی ہے، نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی کے شفاعت کریں گے جس کو اللہ چاہے گا، اپنے گناہوں سے توبہ کرنے میں دیر نہ کرو، اور اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتے رہو، تبھی شفاعت ملے گی
 
Top