شیرِخدا کی شہزادوں کو آخری نصیحت

  • Work-from-home

arzi_zeest

Senior Member
Jul 2, 2018
940
554
93
بدبخت ابنِ مُلْجَم نے جب قاتلانہ حملہ کر کے امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو زخمی کردیا تو آپ کو دولت خانے پر لایا گیا اور کچھ دیر غشی کا عالَم رہا۔جب افاقہ ہوا تو حسنین کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کوطلب کیااوران سےفرمایا:میں تمہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّسےڈرنے،آخرت میں رغبت اوردنیا سے بے رغبتی کی وصیت کرتا ہوں ۔جو چیز تم سے چھن جائے اس پر افسوس نہ کرنا کیونکہ ایک نہ ایک دن تم نےاسےچھوڑنا ہی ہے۔نیک کام کرو،ظالِم کےمخالف اورمظلوم کے مددگار بن جاؤ۔
پھراپنےبیٹےحضرت سیِّدُنامحمدبن حنفیہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکوبلاکرپوچھا:میں نےتمہارےدونوں بھائیوں کوجونصیحت کی کیاتم نےاسےسناہے؟انہوں نےعرض کی:جی ہاں ۔فرمایا:میں تمہیں بھی ان باتوں کی وصیت کرتا ہوں ،اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ حسْنِ سلوک،ان کی تعظیم و توقیر اور ان کی فضیلت کی معرفت کو لازم پکڑلواوران دونوں کےبغیرکوئی کام نہ کرنا۔پھر حسنین کریمینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:میں تم دونوں کو اس کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ تمہارا بھائی اور تمہارے باپ کا بیٹا ہے،تم جانتے ہو کہ تمہارا باپ اس سے پیار کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے پیار کرو۔
اے میرےبیٹو!میں تمہیں خلوت و جلوت میںاللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرنے،خوشی اور ناراضی میں حق بات کہنے،مال داری و تنگدستی میں میانہ روی اختیار کرنے،دوست اور دشمن دونوں کے بارے میں عدل و انصاف سے کام لینے،مستعدی اور سستی دونوں میں عمل کرنے اور تنگی وفراخی دونوں حالتوں میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے راضی رہنے کی وصیت کرتا ہوں ۔
اے میرے بیٹو!جس تکلیف کے بعد جنت ملنے والی ہو وہ تکلیف نہیں ہے اور جس راحت کا انجام دوزخ پر ہو وہ راحت نہیں ہے،جنت کے مقابلے میں ہر نعمت حقیر ہے جبکہ دوزخ کی بنسبت ہر تکلیف عافیت ہے۔
اے میرے بیٹو!جو شخص اپنے عیبوں کو جان لیتا ہے وہ دوسروں کے عیوب سے بے نیاز ہوجاتا ہے،جو بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تقسیم پر راضی ہوجائے وہ نہ ملنے والی چیزوں پر غمزدہ نہیں ہوتا ،جو بغاوت کی تلوار کو بے نیام کرے وہ اسی سے قتل کیا جاتا ہے۔اپنے بھائی کے لئے گڑھا کھودنے والا خود اس میں گرتا ہے،اپنے بھائی کی پردہ دری کرنے والے کے اپنے عیوب بے نقاب ہوجاتے ہیں ،جو اپنی خطاؤں کو بھول جائے وہ دوسرے کی غلطی کو بڑا سمجھتا ہے جبکہ اپنی رائے کو اچھا سمجھنے والا


گمراہ ہوجاتا ہے۔جو شخص اپنی عقل کو کافی سمجھے وہ ٹھوکر کھاتا ہے،لوگوں کو حقیر جاننے والا ذلت اٹھاتا ہےجبکہ گھٹیالوگوں کے ساتھ رہنے والے کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔جو شخص برائی کے مقامات پر جائے اسے تہمت لگائی جاتی ہے،علما کے ساتھ بیٹھنے والے کو عزت حاصل ہوتی ہےاورہنسی مذاق کرنے والے کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔جو اکثر کسی کام کو کرے اس کی پہچان اسی سے ہوتی ہے،زیادہ باتیں کرنے والے کی غلطیاں زیادہ اور شرم وحیا کم ہوجاتی ہے،جس میں حیا کی کمی ہو اس میں پرہیز گاری بھی کم ہوتی ہے،جس میں پرہیز گاری کم ہو اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے اور جس کا دل مرجائے وہ داخِلِ جہنم ہوگا۔
اے میرے بیٹو!ادب مرد کے لئے ترازو ہے جبکہ حسنِ اخلاق بہترین رفیق ہے۔اے میرے بیٹو! خیرو عافیت کے دس حصے ہیں جن میں سے نو حصے ذکرِ خداوندی کے علاوہ خاموش رہنے میں ہیں جبکہ ایک حصہ بے وقوفوں کی صحبت کو ترک کردینے میں ہے۔
اے میرے بیٹو!فقر کی زینت صبر جبکہ مالداری کی زینت شکر ہے۔اے میرے بیٹو!اسلام سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں ،تقویٰ سے بہتر کوئی سخاوت نہیں ،توبہ سے زیادہ کوئی شفاعت کرنے والانہیں اور کوئی لباس عافیت سے زیادہ خوبصورت نہیں ۔اے میرے بیٹو!لالچ مشقت کی چابی اور دکھ کی سواری ہے
 
  • Like
Reactions: shahnawazaamir
Top