صورتحال کی سنگینی سنجیدہ اقدامات کا تقاض&#1575

  • Work-from-home

Riaz Ahmad

Newbie
Apr 22, 2011
18
10
153
Lahore
صورتحال کی سنگینی سنجیدہ اقدامات کا تقاضا کرتی ہے !
"کراچی میں شارع فیصل پر واقع مہران نیول بیس پر دہشت گردوں کی کارروائی کے دو روز بعد پشاور کے انتہائی سخت سیکورٹی والے علاقے میں سی آئی ڈی سینٹر پر بارود بھرے ٹرک سے دھماکہ اور تین منزلہ عمارت کی مکمل تباہی کی صورت میں ملک دشمن عناصر نے غالباً ہر جگہ اپنی موجودگی اور سب کچھ کر گزرنے کی صلاحیت کا پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس واقعے کا درست تجزیہ تو مکمل تفصیلات سامنے آنے کے بعد ہی ممکن ہوگا مگر پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے دہشت گردوں کے قبضے میں چلے جانے کے خدشات پر مبنی مہم جس بڑے پیمانے پر بعض حلقے چلا رہے ہیں ان کے پیش نظر اس نوع کی ہر واردات کے انسانی پہلو کے ساتھ ساتھ اس کے دفاعی پہلو کو مدنظر رکھنا ازبس ضروری ہے۔ کراچی میں 22/مئی کی رات کو دہشت گردوں نے بحریہ کے اڈے پر حملہ کرکے جس انداز سے نیوی کی سمندروں کی نگرانی کی صلاحیت کو نشانہ بنایا اس کے بعد ان حلقوں کے موقف میں بھی تبدیلی آئی ہے جو ملک میں رونما ہونے والے آگ اور خون کے واقعات کو محض دہشت گردی کی راہ اپنانے والے گروپوں یا بعض ناراض عناصر کی کارروائی سمجھتے رہے ہیں۔ بحریہ کے اڈے پر حملہ کرنے والوں کی کمانڈو مہارت، انہیں حاصل معلومات، ا نکے طے شدہ ہدف، وقت کے تعین اور کئی حملہ آوروں کے آسانی کے ساتھ نکل جانے سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ دہشت گردی کی پشت پناہی اور منصوبہ سازی کرنے والی طاقتیں اب کھل کر پاکستان کی سالمیت پر ضرب لگانے کی راہ اختیار کررہی ہیں اور ان کا سارا زور یہ تاثر اجاگر کرنے پر صرف ہو رہا ہے کہ اسلام آباد کے جوہری اثاثوں کے تحفظ کا معاملہ پوری دنیا کے لئے تشویش کے پہلو رکھتا ہے۔ ہمسایہ ملک میں مسلح افواج کے نیو کلیئر کور کو الرٹ کرنے اور اعلیٰ سطح کے طویل دورانیے کے اجلاس کی سنگینی اپنی جگہ مسلم ہیں مگر اس میں کئی ملکوں کے سفراء مدعو کئے جانے اور بعض سفارتکاروں سے یقین دہانیاں حاصل کرنے کی کوششیں معاملے کی سنگینی کو اور زیادہ بڑھا رہی ہیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل راسموسن اور امریکی سینٹر جان کیری کے ایسے بیانات سامنے آچکے ہیں جن میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کے حوالے سے تشویش بھی ظاہر کی جارہی ہے۔ مغربی میڈیا کئی بار واشنگٹن کے ایسے منصوبوں کے اشارے دے چکا ہے جن کا مقصد پاکستان کے جوہری اثاثوں یا جوہری مواد کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا بتایا جاتا ہے۔ ایسی قانون سازی کی باتیں بھی آتی رہی ہیں کہ اگر کوئی ملک اپنے جوہری اثاثوں کی حفاظت نہ کرسکتا ہو تو امریکہ ان اثاثوں کو اپنی تحویل میں لے سکتا ہے۔ حقائق بیحد سنگین ہیں اور حکومت اور قومی اداروں سے ہمہ وقت بیداری اور مستعدی کا تقاضا کرتے ہیں۔حالات بتا رہے ہیں کہ وطن عزیز کو کئی جہتوں سے خطرات کا سامنا ہے۔ ایک دشمن تو ہمارے سامنے ہے مگر کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جن کے سائے محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ ہمیں ان سب سے چوکنا رہتے ہوئے ملک کی سلامتی اور بقاء کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اس وقت سب سے پہلا کام قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی اپنی سیکورٹی کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کے جواب تلاش کرنا ہے۔ دہشت گرد کئی کلومیٹر طویل راستہ عبور کرکے نیول بیس کے اندر کس طرح پہنچے اور پھر وہاں سے باہر نکلنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ انہیں کیمروں کے سسٹم کے بارے میں ایسی معلومات کیوں کر حاصل تھیں کہ وہ ان کا توڑ کرتے ہوئے اندر پہنچے؟ انہوں نے درمیان میں آنے والے بعض اہم اہداف کو نظرانداز کرتے ہوئے پی تھری سی اورین طیاروں کو بطور خاص نشانہ کیوں بنایا؟ انہوں نے خاص طور پر چینی انجینئروں اور غیر ملکیوں کو گھیرنے کی کیوں کوشش کی جنہیں بحفاظت باہر لیجانے والی بلٹ پروف گاڑی پر مبینہ طور پر فائرنگ کی گئی؟ حملہ آوروں کو ضروری معلومات کے حصول سے لیکر واردات کے اختتام تک کن کن عناصر کی مدد مل سکتی تھی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاک بحریہ کی نگرانی کی صلاحیت میں کمزوری دہشت گردوں کے مفاد میں نہیں تھی تو اس واردات سے کس طاقت کو فائدہ پہنچا؟ قوم کوگمراہ کن بیانات کے بجائے نہ صرف ان سوالات کے درست جوابات ملنے چاہئیں بلکہ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ پی تھری سی اورین طیاروں کی تباہی کے بعد سمندری خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت میں 80فیصد کمی کے تدارک کے لئے اقدامات میں ارباب اقتدار کس درجہ سنجیدہ ہیں۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بجا طور پر مذکورہ حملے کو پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ قرار دیا ہے اور بدھ کے روز کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا جس میں یقیناً ٹھوس فیصلے کئے گئے ہوں گے۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پارلیمنٹ میں فوجی قیادت کی بریفنگ اور متفقہ قرارداد کی منظوری کے بعد حکومت کو ملکی سلامتی کی ضرورتوں کے مطابق جامع حکمت عملی تیار کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے تھی۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی سیاسی و سماجی قوتوں، مسلح افواج اور صاحبان دانش کے ساتھ سر جوڑ کر موجودہ پالیسی کے اچھے اور بُرے پہلوؤں کا جائزہ لیا جانا چاہئے تھا۔ یہ دیکھنے کی ضرورت تھی کہ دہشت گردوں کو کن کن راستوں سے مالی، فنی اور تکنیکی مدد مل رہی ہے، ریمنڈڈیوس کی گرفتاری کے بعد کھل کر سامنے آنے والی قوتوں سے نمٹنے کے لئے کیا کیا اقدامات ضروری ہیں، خارجہ پالیسی کو جوں کا توں رکھا جانا چاہئے یا اس میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟ ان تمام معاملات پر ایک واضح قومی پالیسی وقت کی ضرورت ہے۔ یہ وقت ایک لمحے کی بھی غفلت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب غلطیاں کرنے کی گنجائش بالکل نہیں۔ اس لئے اِدھر اُدھر کی باتیں سننے اور ماننے کی بجائے ہمارے حکمراں اپنی قوم کی آواز سنیں اور ملکی سلامتی کے تقاضے کامل مستعدی سے پورے کریں۔ اس معاملے میں کسی بھی غفلت پر قوم اور تاریخ دونوں ہی آپ کو معاف نہیں کریں گے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری سیاسی ومذہبی جماعتیں اختلافات اور وقتی فائدوں کے حصار سے نکل کر ملکی سلامتی وبقاء کے ایک نکاتی ایجنڈے پر مل جل کر کام کریں۔ اپنے حامیوں کو منظم کریں، محلے، گلی، گاؤں، قصبے اضلاع کی سطح پر شہری دفاع اور ہنگامی امداد کے لئے رضاکاروں کو تربیت دیں اور مشکوک سرگرمیوں میں ملوث افراد کی نشاندہی میں مدد دیں۔ قوم کے اتحاد اور مستعدی کے ذریعے ماضی میں بھی دشمنوں کی سازشیں ناکام بنائی جاتی رہی ہیں اور اب بھی اسی اتحاد اور تنظیم کے ذریعے ہر سازش کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان دشمن قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ عوام اور مسلح افواج میں بداعتمادی و مایوسی کی کیفیت پیدا کی جائے۔ یہ سازش انشاء اللہ ناکام ہوگی اور وطن عزیز سرخرو ہوکر موجودہ آزمائش سے باہر نکلے گا۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=531973
 
  • Like
Reactions: Hans_Mukh

ENCOUNTER-007

Newbie
Feb 10, 2011
516
834
0
Medan e Jihad
آج میں میڈیا کے ٹاک شو مین دیکھتا ہوں جونامہ نگار اور تجزیہ نگارایبت آباد کے واقعہ سے پہلے اپنی تسبیح کے دانوں پر طالبان دہشت گرد، طالبان دہشت گرد کے ورد کرتے تھے اب کراچی میں فیصل بیس کے حملے اور اس کے راز اور حقائق کھل جانے پر وہی لوگ چیخ رہے ہیں کہ یہ طالبان نہیں ہوسکتے، ایسا واقعہ اور کاوائی طالبان نہیں کرسکتے یہ منظم کاروائی امریکن بلیک واٹر ہی کرسکتی ہیں۔
اور اب بہت سارے راز کھل بھی رہے ہیں، اور یہ بات بھی اب کھل کر سامنے آئی ہے کہ ان کے اپنے لوگ بھی اس کاروائی میں شامل ہیں
مسلہ یہ ہے کہ ہم نے ہر واقعہ کو طالبان کے کھاتے میں ڈال دیا یہی وہ سخاوت ہے کہ ہم اپنےاصل دشمن کی پہنچ سے دور ہیں ، لیکن ایسا بھی ممکن ہو کہ یہ ایک گیم پلان ہو اور اس گیم پلان میں ہمارے حکمران بھی ملوث ہوں اور یہ یقینی بات ہیں کیونکہ کوئی ہمارے حکمرانوں کو پارسا نہیں سمجھتا یقینا ان کے نفاق پر شک موجود ہے
ابھی کچھ راز کھلنے باقی ہیں۔
منافقین کے چہروں سے اب نقاب اٹھ رہا ہے،
 
Top