عربی معلی

  • Work-from-home

Sumi

TM Star
Sep 23, 2009
4,247
1,378
113

عربی معلی

پہلی چیز یہ ہے کہ قرآن جس زبان میں نازل ہواہے،وہ ام القری کی عربی معلی ہے جو اس کے دورجاہلیت میں قبیلۂ قریش کے لوگ اس میں بولتے تھے۔اس میں شبہ نہیں کہ اس کو اللہ تعالی نے اپنی اس کتاب میں فصاحت و بلاغت کا ایک لافانی معجزہ بنا دیا ہے،لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے یہ وہی زبان ہے جو خداکا پیغمبر بولتا تھا اور جو اس زمانے کے مکہ میں اس کی قوم کی زبان تھی:

فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ۔ (الدخان 44:58)
"پس ہم نے اس (قرآن) کو تمھاری زبان میں نہایت سہل اور موزوں بنا دیا ہے تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔"

فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا۔ (مریم 19: 97)
"پس ہم نے اس (قرآن) کو تمھاری زبان میں نہایت سہل اور موزوں بنا دیا ہے کہ تم اس کے ذریعے سے اہل تقوی کو بشارت دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو اس کے ذریعے سے اچھی طرح خبردار کردو۔"

اس لیے اس کتاب کا فہم اب اس زبان کے صحیح علم اور اس کے صحیح ذوق ہی پر منحصر ہے،اور اس میں تدبر اور اس کی شرح و تفسیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی اس زبان کا جید عالم اور اس کے اسالیب کا ایسا ذوق آشنا ہو کہ قرآن کے مدعا تک پہنچنے میں کم سے کم اس کی زبان اس کی راہ میں حائل نہ ہو سکے۔

یہ حقیقت تو اس سے زیادہ وضاحت کی محتاج نہیں،لیکن اس زبان کے بارے میں یہ بات البتہ،اس کے ہر طالب علم کو پوری وضاحت کے ساتھ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ وہ عربی نہیں ہے جو حریری ومتنبی اور زمخشری و رازی نے لکھی ہے یا اس زمانے میں مصر و شام کے اخبارات میں شائع ہوتی اور ان کے ادیبوں اور شاعروں کے قلم سے نکلتی ہے۔یہ بھی ایک قسم کی عربی ہی ہے،لیکن وہ عربی جس میں قرآن نازل ہوا ہے اور جسے بجا طور پر عربی معلی کہنا چاہیے،اس میں اور اس زبان کے لب و لہجہ،اسلوب و انداز اور الفاظ و محاورات میں کم و بیش وہی فرق ہے جو مثال کے طور پر،میر و غالب اور سعدی و خیام کی زبان اور ہمارے اس زمانے میں ہند و ایران کے اخبارات و جرائد کی اردو اور فارسی میں ہے۔لہذا یہ حقیقت ہے کہ اس سے قرآن کی زبان کا کوئی ذوق نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہوتا،بلکہ الٹا یہ اس سے بے گانہ کر دیتی ہے اور اگر اسی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا جائے تو قرآن مجید کے فہم سے بسا اوقات آدمی بالکل محروم ہو جاتا ہے۔

چنانچہ قرآن کی زبان کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی طرف رجوع کرنا چاہیے،وہ خود قرآن مجید ہی ہے۔اس کے بارے میں کوئی شخص اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یہ جب ام القری میں نازل ہوا تو اس کی الہامی حیثیت تو بے شک،ایک عرصے تک معرض بحث میں رہی،لیکن اس کی عربیت کو کوئی شخص کبھی چیلنج نہیں کر سکا۔اس نے کہا کہ وہ کسی عجمی کا کلام نہیں ہو سکتا اور اس کی دلیل یہ دی کہ وہ عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔اس نے اپنے آپ کو زبان و ادب اور فصاحت و بلاغت کا ایک معجزہ قرار دیا اور قریش کو چیلنج کیا کہ وہ اس کے مانند کوئی ایک سورہ ہی پیش کریں۔یہاں تک کہ اس نے اعلان کیا کہ وہ اس کے لیے اپنے ادیبوں،خطیبوں،شاعروں،کاہنوں اور صرف انسانوں ہی کو نہیں، جنات،شیاطین اور دیوی دیوتاؤں میں سے بھی جن کو چاہیں،بلا لیں،لیکن یہ ایک ناقابل انکار تاریخی حقیقت ہے کہ اہل عرب میں سے کوئی شخص نہ اس کی عربیت کا انکار کر سکا، اور نہ اس کے چیلنج کا جواب ہی کسی شخص کے لیے دینا کبھی ممکن ہوا:

وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ۔ (البقرہ 2: 23)
"اور اگر تم اس چیز کی طرف سے شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے تو اس کے مانند ایک سورہ ہی بنا لاؤ اور اس کے لیے اللہ کے سوا اپنے سب ہم نواؤں کو بلالو،اگرتم سچے ہو۔"

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا۔ (بنی اسرائیل17:88)
" کہہ دو کہ اگر سب جن و انس اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ اس جیسا کوئی قرآن لے آئیں تو نہ لا سکیں گے،اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔"

بلکہ یہی نہیں، ام القری میں ولید بن مغیرہ جیسے نقاد ادب نے اس کو سنا تو بے اختیار کہہ اٹھا :

واللہ، ما منکم اعرف بالاشعار منی، ولا اعلم برجزہ ولا بقصیدۃ منی، ولا باشعار الجن۔ واللہ، ما یشبہ الذی یقول شیئاً من ھذا۔ واللہ، ان لقولہ الذی یقولہ حلاوۃ و ان علیہ لطلاوۃ، و انہ لمثمر اعلاہ، مغدق اسفلہ، وانہ لیعلوا ولا یعلی، وانہ لیحطم ماتحتہ۔ (السیرۃ النبویہ،ابن کثیر 1/499)
"بخدا،تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بڑھ کر نہ شعر سے واقف ہے نہ رجز اور قصیدہ سے اور نہ جنوں کے الہام سے۔ خدا کی قسم، یہ کلام جو اس شخص کی زبان پر جاری ہے، ان میں سے کسی چیز سے بھی مشابہ نہیں ہے۔ بخدا، اس کلام میں بڑی حلاوت اور اس پر بڑی رونق ہے۔ اس کی شاخیں ثمر بار ہیں۔ اس کی جڑیں شاداب ہیں۔ یہ لازماً غالب ہوگا۔اس پر کوئی چیز غلبہ نہ پا سکے گی اور یہ اپنے نیچے ہر چیز کو توڑ ڈالے گا۔"

شعراے سبعہ معلقہ میں سے لبید اس وقت زندہ تھے۔ یہ وہی شاعر ہیں جن کے ایک شعر(1)پر فرزدق جیسا شاعر سجدہ ریز ہوگیا،لیکن وہ بھی اس کے سامنے اس طرح گنگ ہوئے کہ جب سیدنا فاروق نے شعر سنانے کی فرمایش کی تو فرمایا: بقرہ و آل عمران کے بعد اب شعر کہاں۔ 'ما کنت لا قول شعراً بعد ان علمنی اللہ البقرۃ و آل عمران'۔(2)

یہ محض ایک شخص کا اعتراف نہ تھا۔ اس کے معنی یہ تھے کہ عرب کی ساری فصاحت و بلاغت اس کے سامنے سرافگندہ ہوگئی ہے۔

پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ زبان و ادب کا یہ معجزہ بغیر کسی ادنی تغیر اور بغیر کسی حرف کی تبدیلی کے باللفظ ہم تک منتقل ہوا ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت اب بالکل مسلم ہے کہ خدا کی اس زمین پر یہ صرف دین ہی کی حتمی حجت نہیں ہے،اپنے دور کی زبان کے لیے بھی ایک قول فیصل اور ایک برہان قاطع ہے۔

قرآن مجید کے بعد یہ زبان حدیث نبوی اور آثار صحابہ کے ذخائر میں ملتی ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ روایت بالمعنی کی وجہ سے ان ذخائر کا بہت تھوڑا حصہ ہی ہے جسے اب زبان کی تحقیق میں سند و حجت کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے،لیکن یہ جتنا کچھ بھی باقی ہے،اہل ذوق کے لیے متاع بے بہا ہے۔ یہ افصح العرب و العجم اور فصحاے صحابہ کی زبان ہے اور اپنے الفاظ و محاورات اور اسلوب بیان کے لحاظ سے اس زبان کا بہترین نمونہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں، تمثیلات اور صحابہ کے ساتھ آپ کے مکالمات میں چونکہ بالعموم روایت باللفظ کا اہتمام ہوا ہے،اس وجہ سے اس زبان کے نظائر سب سے زیادہ انھی کی روایت میں ملتے ہیں۔چنانچہ قرآن کی زبان کے طلبہ اگر اس بحر ذخار میں غواصی کریں تو اپنے لیے بہت کچھ لولوے لالا جمع کر سکتے ہیں اور قرآن کی لفظی اور معنوی مشکلات کو حل کرنے میں اس ذخیرے سے ان کو بڑی مدد مل سکتی ہے۔

اس کے بعد اس زبان کا سب سے بڑا ماخذ کلام عرب ہے۔یہ امراؤالقیس،زہیر،عمرو بن کلثوم،لبید، نابغہ،طرفہ، عنترہ، اعشی اور حارث بن حلزہ جیسے شاعروں اور قس بن ساعدہ جیسے خطیبوں کا کلام ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ اس کا بڑا حصہ شعرا کے دواوین اور "اصمعیات"(3)، "مفضلیات"(4)، "حماسہ" (5)، "سبع معلقات" اور جاحظ و مبرد اور اس طرح کے دوسرے اہل ادب کی کتابوں میں جمع ہے۔(6) اس زمانے میں شعراے جاہلیت کے ایسے بہت سے دواوین بھی شائع ہوئے ہیں جو اس سے پہلے ناپید تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عربی زبان کے بیشتر لغات اہل زبان کے اجماع و تواتر سے نقل ہوئے ہیں اور ان کا ایک بڑا ذخیرہ لغت کی امہات: "التہذیب"(7)، "المحکم"(8)، "الصحاح"(9)، "الجمہرہ"(10)، "النہایہ"(11) وغیرہ میں محفوظ ہے،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ لغت عرب کا جو ذخیرہ اس طرح متواتر نہیں ہے،اس کی تحقیق کے لیے سب سے زیادہ مستند ماخذ یہی کلام عرب ہے۔اس میں اگرچہ کچھ منحول کلام بھی شامل ہے،لیکن جس طرح نقدحدیث کے علما اس کی صحیح اور سقیم روایتوں میں امتیاز کر سکتے ہیں،اسی طرح اس کلام کے نقاد بھی روایت و درایت کے نہایت واضح معیارات کی بنا پر اس کے خالص اور منحول کو ایک دوسرے سے الگ کر دے سکتے ہیں۔(12) چنانچہ یہی وجہ ہے کہ لغت و ادب کے ائمہ اس بات پر ہمیشہ متفق رہے ہیں کہ قرآن کے بعد یہی کلام ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور جو صحت نقل اور روایت باللفظ کی بنا پر زبان کی تحقیق میں سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔ صاحب "خزانۃ الادب"(13) نے لکھا ہے:

الکلام الذی یستشھد بہ نوعان: شعر وغیرہ، فقائل الاول؛ قد قسمہ العلماء علی طبقات اربع۔ الطبقۃ الاولی: الشعراء الجاھلیون، و ھم قبل الاسلام کامرئ القیس والاعشی، والثانیۃ: المخضرمون، و ھم الذین ادرکوا الجاھلیۃ والاسلام کلبید و حسان، والثالثۃ: المتقدمون، و یقال لھم الاسلامیون، وھم الذین کانوا فی صدر الاسلام کجریر والفرزدق، والرابعۃ: المولدون، ویقال لھم المحدثون، وھم من بعدھم الی زمانناکبشار بن برد و ابی نواس۔ فالطبقتان الاولیان، یستشھد بشعرھما اجماعا۔(1/3)
"جس کلام سے زبان کے معاملے میں استشہاد کیا جاتا ہے،اس کی دوقسمیں ہیں: ایک جو شعر کی صورت میں ہے اور دوسرا جو شعر کی صورت میں نہیں ہے۔ ان میں سے پہلی قسم کو اہل علم نے چار طبقات میں تقسیم کیا ہے: پہلاطبقہ اسلام سے پہلے کے شعراے جاہلیت کا ہے،جیسے: امرؤالقیس اور اعشی۔ دوسرا مخضرمین کا ہے جنھوں نے اسلام اور جاہلیت، دونوں کا زمانہ پایا، جیسے: لبید اور حسان۔ تیسرے متقدمین ہیں جنھیں اسلامیین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کے دور اول میں ہوئے، مثال کے طور پر جریر اور فرزدق۔ چوتھے مولدین ہیں جنھیں محدثین بھی کہتے ہیں۔ ان میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو پہلے تین طبقات کے بعد ہمارے اس زمانے تک ہوئے ہیں، جیسے: بشاربن برد اور ابونواس۔ ان میں سے پہلے دو طبقات کے بارے میں اجماع ہے کہ ان کے اشعار سے استشہاد کیا جائے گا۔"

یہی بات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے منبر سے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمائی ہے:

علیکم بدیوانکم، لا تضلوا۔ قالوا: ما دیواننا؟ قال: شعر الجاھلیۃ، فان فیہ تفسیر کتابکم ومعانی کلامکم۔ (انوار التنزیل،البیضاوی 1/459)
"تم لوگ اپنے دیوان کی حفاظت کرتے رہو، گمراہی سے بچے رہو گے۔ لوگوں نے پوچھا: ہمارا دیوان کیا ہے؟ فرمایا:اہل جاہلیت کے اشعار، اس لیے کہ ان میں تمھاری کتاب کی تفسیربھی ہے اورتمھارے کلام کے معانی بھی۔"

صحابہ میں دین کے جلیل القدر عالم ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:

اذا سألتم عن شئ من غریب القرآن فالتمسوہ فی الشعر، فان الشعر دیوان العرب۔(المزہرفی علوم اللغہ، السیوطی 2/302)
"تم قرآن میں اپنے لیے کسی اجنبی لفظ یا اسلوب کو سمجھنا چاہو تو اسے جاہلی اشعار میں تلاش کرو، اس لیے کہ یہی شاعری درحقیقت، اہل عرب کا دیوان ہے۔"

یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اہل جاہلیت کا یہ کلام صرف زبان اور اس کے اسالیب ہی کا ماخذ نہیں ہے،اس کے ساتھ عرب کی اس تہذیب و ثقافت کا بھی آئینہ دار ہے جس کا صحیح تصور اگر ذہن میں موجود نہ ہو تو قرآن مجید میں اشارہ و تلمیح اور تعریض و کنایہ کے ان اسالیب کو سمجھنا کسی طرح ممکن نہیں ہوتا جو اس شہ پارۂ ادب میں اصل سرمایۂ بلاغت ہیں۔اہل عرب کی معاشرت کے بنیادی خصائص کیا تھے؟ وہ کن چیزوں کو معروف اور کن چیزوں کو منکر قرار دیتے تھے؟ ان کے معاشرے میں خیر و شر کے معیارات کیا تھے؟ ان کے مذہب اور رسوم و روایات کس نوعیت کے تھے؟ ان کا تمدن کن بنیادوں پر کھڑا تھا اور ان کے سماج کی تشکیل کن عناصر سے ہوئی تھی؟ ان کے سیاسی نظریات اور روز و شب میں ان کی دلچسپیاں اور مشاغل کیا تھے؟ وہ کیا ڈھور ڈنگروں کا ایک گلہ ہی تھے جنھیں اسلام نے اٹھایا اور جہاں بانی کے منصب پر فائز کر دیا یا اپنی اس وحشت کے باوجود بعض ایسے اوصاف و خصائص کی حامل ایک قوم بھی تھے جن کی بنا پر قرآن جیسی کتاب انھیں دی گئی اور وہ خدا کی طرف سے پوری دنیا کے لیے شہادت حق کے منصب پر فائز ہوئے؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کا صحیح جواب اسی کلام میں ملتا ہے اور یہی جواب ہے جس کی روشنی میں قرآن مجید کے اشارات و تلمیحات اور تعریضات و کنایات اپنے بے مثال ادبی حسن اور کمال معنویت کے ساتھ اس کے طلبہ اور محققین پر واضح ہوتے ہیں۔

چنانچہ صرف زبان ہی کے معاملے میں نہیں، ان سب چیزوں کے لیے بھی قرآن کے طلبہ کو اس کلام کی مراجعت کرنی چاہیے۔
 
Top