عقیدہِ حیات فی القبور و حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر حصہ اول

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
اسلام علیکم ورحمہ اللہ علیہ : آج میں عقیدہِ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عام حیات فی القبور پر بات کروں گا ۔۔۔
آج کے مختلف فرقے وہ زور و شور سے قبور میں "میت کے زندہ" ہونے کا قائل ہیں ۔ کہ مردہ کو قبر میں زندہ کر دیا جاتا ہے ، اس کی روح قبر میں لوٹا دی جاتی ہے (قیامت سے پہلے ہی ) ۔۔ اور ساتھ میں سماعِ الموتٰی کے قائل ہیں ۔۔ اور زور و شور سے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم (دنیوی) پر بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی اسی طرح زندہ ہیں جیسے وفات شریف سے پہلے تھے ، ان پر امت کے اعمال پیش کیئے جاتے ہیں تفصیلاً قبر میں ، وہ صلوٰۃ و سلام بھی سنتے ہیں ، امت کے حال و احوال بھی دیکھتے رہتے ہیں ۔ یعنی اس عقیدے کی آڑ میں شرک کا دروازاہ کھولا ہوا ہے کہ مردے ہمارے پکار سنتے ہیں ، ان کی ارواح ہماری مدد کو آتی ہیں ، میت اپنے زائیرین کو پہچانتی ہے اور پتا نہیں کیا کیا ان کے عقائد ہیں ان لوگوں کے جو انہوں نے اس عقیدے کی آڑمیں بنا رکھے ہیں ۔۔۔
آج میں سب سے پہلے ان کے عقائد بیان کروں گا اور اپنا عقیدہ بھی بیان کروں گا جو اہلِ سنت والجماعت کا ہے ۔۔
یہ بات ذہین نشیں رکھئیے کہ خاص طور پر حیاتی لوگ آج تک اپنے کسی ایک عقیدے پر متفق نہیں ہوسکے ہیں ۔۔۔ آپ خود ان کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لیں ۔۔
سب سے پہلے اب رضاخانی حضرات کا عقیدہ دیکھ لیں
" انبیاء اکرام کی زندگی حقیقی ، حسی و دنیاوی ہے۔۔۔انبیاء اکرام کی ازواج قبورمطہرہ میں پیش کی جاتی ھیں انبیاء اکرام کو اور وہ ان کے ساتھ شب باشی بھی فرماتے ہیں
(نقلِ کفر ، کفر نباشد)
المفوظ جلد 3 صفحہ 69
آپ یہ بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
شعیہ حضرات کا عقیدہ
"مسجد نبوی کی چھت کے شکستہ حصے کی تعمیر کے لیے معمار و مزدور آجا رھے تھے مسجد کی چھت پر۔ان حالات کو دیکھ کر کچھ لوگوں نے کھا حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے کہ ھمیں اجازت دیں قبر مبارک میں جھانک لیں۔اس پر کھا حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے اجازت نہ دی اور کہا مجھے ڈر ھے کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں کی بینائی ہی نہ چلی جائے۔ کہ جھانکنے والا دیکھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رھے ھوں یا ازواج سے -----(آگے لکھنے کی ھمت نہیں، سب سمجھدار ھو، اللہ معاف فرمائے سب کو)
اصول کافی –کتاب الحجت- صفحہ 286
اب ان بریلوی نما دیوبندیوں کا عقیدہ بھی دیکھ لیں جو ـدیوبندیت کا لیبل لگا کر ہمیں بدنام کر رہے ہیں ۔۔۔
عقیدہِ خروجِ روح
عبدالشکور ترمذی نے لکھا: ہدیۃ الحیران صفحہ 329 پر
آبِ حیات کے اس نظریہ پر تمام علمائے دیوبند کا اجماع ہے
انبیاء کی ارواح کا اخراج جسم سے نہیں ہوتا ۔۔ارواح سمٹ جاتی ہیں اور دل کے اندر بند کر دیا جاتا ہے روح کو اور حواس معطل ہو جاتے ہیں،بعد از موت زائل ِحیات نہیں ہے۔ انبیاء کی حیات ، دنیوی حیات ہے برزخی نہیں اور ہے بھی برابر کہ موت آنے پر حیات میں کوئی تبدیلی نہیں
مولانا سرفراز صفدر لکھتے ہیں
"موت کا مفہوم عرفِ عام میں جان نکل جانے کا نام ہے یعنی جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو اس کو موت کہتے ہیں، علماء کا معنٰی کا کیا ہے کہ روح کا تعلق جسم سے منقطع ہو جائے۔قرآن و حدیث کے نصوص و ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ روح وقت سے نکالی جاتی ہے آسمانوں کی طرف لے جائی جاتی ہے اور اپنی مقررہ جگہ پر رکھی جاتی ہے"
(تسکین الصدور صفحہ 212)
جمہور علماء اسلام موت کا معنٰی انقطاع الروح عن البدن ہی کرتے ہیں
(تسکین الصدور صفحہ 216)
دلائلِ صریحہ سے ثابت ہے کہ موت کے وقت روح جسم سے نکلای جاتی ہے
( تسکین الصدور صفحہ 102)
اب یا تو مفتی شکور ترمذی کی بات مانو یا مولانا صفدر صاحب کی ! ایک کی مانو تو اجماع کا منکر ہو کے اہلِ سنت سے خارج ہونا پڑے گا ، دوسرے کی مانو تو قرآن و حدیث ،دلائلِ صریحہ کا منکر ہونا پڑے گا۔
عجب مشکل میں پھنسا ہوں – جو یہ ٹانکا تو وہ اجڑا۔۔ جو وہ ٹانکا تو یہ اجڑا
اسکے بعد ڈاکٹر خالد محمود صاحب پی ایچ ڈی لندن کا نظریہ
"خدائی وعدہ پورا ہوا ، اللہ تعالٰی نے وعدہ پورا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک ،اگر جسم سے نکل کر ، جسم کے اندر ہی جو خالی حصے ہوتے ہیں مثلاً قلب دل ہے۔۔دل کے اندر پورے کا پورا گوشت نہیں ۔۔پورا خون بھی نہیں ۔۔ اس بدن کے اندر خلاء بھی تو ہے تو اگر پورے بدن سے روح کا انفضال بھی ہو ، مگر وہ بدن کے اسی حصے کے اندر رہے اور قلب کے اس حصے کے اندر رہے جس میں یہ خلا تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ روح بدن سے نکلی اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نہیں نکلی۔
اگر کہو بدن سے نکلی ، باقی بدن سے اور اندر رہی اس خلاء مین جو بدن کے اندر ہے تو جب اس قسم کے بہت احتمالات کی بہت گنجائش ہو سکتی ہے ۔
(یادگار خطباتِ خالد جلد 1 صفحہ 277)
تو یہ جنا ب بھی ایک جگہ منکرِ اجماع ہیں (شکوری فتوے کی رو سے) اور دوسری جگہ قرآن و سنت کے منکر ہیں (صفدری فتوے سے)۔
اب ذرا مولانا صفدر اوکاڑوی صاحب کا عقیدہ بھی دیکھ لیں
عقیدہِ اعادہ روح
(روح کی واپسی)
مفتی عبد الشکور ترمذی ہدیۃ الحیران صفحہ 354 پر لکھتے ہیں
کہ "دلائلِ قطعیہ سے ہر ایک میت کے لیئے اعادہ روح ثابت ہے۔ "
اعادہ روح اور حیاتِ جسمانی کا دوام و استمرار اس گزارش کے پیشِ نظر ان احادیث سے قدرِ مشترک کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےلیئے روضہ اطہر میں دائمی طور پر اعادہ روھ اور جسمانی حیات کے دوام و استمرار کا ثبوت ہو جاتا ہے
(ہدیۃ الحیران صفحہ 365)
انبیاء و غیر انبیاء سب کے لیئے بعد از وفات اعادہ ارواح الی الابدان احادیث صحیحہ سے ثابت ہے
(ہدیۃ الحیران صفحہ 368)
شھداء کے اجساد میں انکی ارواح موجود ہوتی ہیں اور روح کے موجود ہونے کی وجہ سے ان کا جسم زندہ اور ان کو جسمانی حیات حاصل ہوتی ہے۔
(حیاتِ انبیاء کرامؑ صفحہ 121۔عبدالشکور ترمذی)
سرفراز صاحب نے لکھا
تسکین صدور باب دوم 'اعادہ روح' میں صفحہ 106
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
دلائل صریحہ سے ثابت ہے کہ موت کے وقت روح جسم سے نکالی جاتی ہے اور علیین اور سجین جو اس کا مستقر ہے پہنچا دی جاتی ہے مگر یہ بھی صریح براھین سے ثابت ہے کہ قبر میں میت کر طرف اس کی روح لوٹا دی جاتی ہے اس لیے ہم اعادہ روح کے دلائل عرض کر دیں تاکہ ماننے والوں کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہو۔
یہ تحقیق اس مسلک پر مبنی ہے کہ قبر میں نکرین کے سوال کے وقت مردوں کو زندہ کیا جاتا ہے مگر جمہور اس کے خلاف ہیں
(یعنی جمہور امت کا عقیدہ اسکے برعکس ہے کہ روح نہیں لوٹائی جاتی۔از ناقل)
تسکین الصدور صفحہ 242
زاھد الحسینی لکھتے ہیں
رحمتِ کائنات صفحہ 129
روح کا بدن کی طرف قبر میں لوٹایا جانا سب مردوں کے لیئے ثابت صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔۔۔ روح اس طرح ڈالا جاتا ہے جیسے برتن میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے ۔
(رحمتِ کائنات -130)
ایک آدمی دفن کے بعد جب کفن چوروں نے اسکی قبر کھودی تو وہ زندہ ہو کر بھاگ ایا پھر کافی زمانہ زندہ رہا۔اسکو اللہ تعالٰی نے بیٹا بھی دیا اس کا نام مالک تھا۔
(رحمتِ کائنات صفحہ 72)
رحمتِ کائنات کے شروع میں ایک بزرگ زاھد الحسینی صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں ۔۔
آپ نے رحمت ِ کائنات میں رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے مزارِ مقدس کے اندر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ عنصری کے اندر بعینہ دنیاوی زندگی کی طرح روح کا موجود ہونا ثابت کیا ہے۔
اللہ یار خان چکڑالوی لکھتا ہے کہ
عود ِ روح کے متعلق احادیث متواترہ صاف اور صریح موجود ہیں اور اس پر اہلِ سنت والجماعت کا اجماع ہے۔عودِ روح کا منکر حدیث کا منکر ہے اور اجماع کا بھی منکر ہے۔اہلِ سنت والجماعت سے بھی اسکا کوئی تعلق نہیں۔
حیاتِ برزخیہ صفحہ 61
عقیدہِ سماع الموتٰی
سرفراز صاحب نے لکھا
کہ ادراک ،شعور ،فہم اور سماع میں مردے اور زندہ برابر ہیں
(سماع الموتٰی صفحہ 221)
ہر میت اپنے زائر کوپہچانتی ہے ۔
(سماع الموتٰی صفحہ 30)
جب کوئی زندہ شخص قبر پہ آکر سلام و کلام کرتا ہے تو مردے اس کو آواز اور لب و لہجہ سے پہچان لیتے ہیں
(سماع الموتٰی صفحہ 31)
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضِہ اقدس پر حاضر ہونے والا ادب خشوع اور توضع کو لازم پکڑے اور ہیبت کے مقام پر نگاہ کو نیچی رکھے جیسا کہ آپ کی زندگی میں آپ کے سامنے کرتا تھا کیوں کہ آپ زندہ ہیں اور یہ بات ذہن میں ضرور رکھے کی آپ آنے والے کے اپنے سامنے کھڑا ہونے ،اس کے سلام کو سنتے ہیں جیسا کہ آپ کی زندگی کی حالت میں تھا کیونکہ آپ کی موت و حیات میں امت کی مشاھدات اور ان کے احوال ، میعات، عزائم اور خیالات کو پہچاننے میں کوئی فرق نہیں ۔ سماع الموتٰی صفحہ 36
سماعِ موتٰی کا منکر ہونا کفر ہے اگر کفر نہیں تو الحاد ہونے میں کوئی شک نہیں ۔۔
اللہ یار خان چکڑالوی لکھتا ہے
اہلِ قبور کے ادراک ، فہم، اور شعور سے انکار کرنے والا کافر نہیں تو ملحد یقیناً ہے
(سیف اویسیہ صفحہ 138)
سماعِ موتٰی حدیثِ متواتر سے اور اجماعِ امت سے ثابت ہے ، اور نص کے مقابلے میں قیاس مردود ہے۔اور پھر یپ قیاس شخصی ہے ،قیاسِ شرعی بھی نہیں نص کے مقابلے میں پیش کرکے ابلیس رجیم بن گیا۔
(سیف اویسیہ صفحہ 136)
ایک طرف متواتر احادیث اور اجماعِ صحابہ ہے اور دوسری طرف صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ۔
(حیاتِ برزخیہ صفحہ 225)
انہی کے بزرگ نور الحسن شاہ صاحب جنہوں نے حیات الموات کتاب لکھی ۔۔
حیات الموات صفحہ 8 پر لکھا کہ "اصل مسئلہ حیاتِ موتٰی کا ہے نا کہ حیات النبی کا اول تو یہ مسئلہ عقائدِ ضروریہ سے نہیں اور غلط عنوان دے کر اسے الجھا دیا گیا ہے عام طور پر جو اس مسئلہ پر کتابیں لکھی گئی ہیں ان کا عنوان حیات النبی یا حیات الانبیاء ، مثلاً علامہ خالد محمود کی مدارک الاذکیاء فی حیات الانبیاء ، قاضی شمس الدین صاحب کی مسالک العلماء فی حیات الانبیاء ۔۔۔ اس عنوان سے بات کا رخ حیات الانبیاء خصوصاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھر گیا ہے غلط طور پہ حیات النبی کی بات چھڑ گئی ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک بحث میں آگئی ہے ۔حالانکہ بات اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں بلکہ تمام انبیاء ، شہداء ، اولیاء حتٰی کہ بات عام مسلمانوں کی حیات کی بھی نہیں دراصل بات ہے عام موتٰی کی حیات کے متعلق جن میں کفار ومشرکین اور منافقین بھی شامل ہیں
ان سب عقائد و نظریات کو دیکھ کر ان کا دعوہٰ یہ نکلتا ہے کہ
1
انبیاء علیہ السلام کی ارواح کا اخراج نہیں ہوتا موت کے وقت ، ان کے جسم میں ہی روح قید ہو جاتی ہے دل میں ۔
2
-انبیاء علیہ السلام کی ارواح (دوسرے عقیدے کے مطابق ) واپس ان کے اجسادِ مبارکہ میں لوٹا دی جاتی ہیں
3
- انبیاء علیہ السلام کی حیات بھی دنیا والی حیات ہے
(جیسی وفات سے پہلے تھی ویسی ہی اب حاصل ہے)
4
- شھداء کو بھی اسی قبر میں جسمانی حیات حاصل ہے ان کی روح انکے جسموں میں ہوتی ہیں۔
5
- ہر مردہ ، حتٰی کے کفار و مشرکین کے لیئے بھی ، 'اعادہِ روح - روح کی واپسی قیامت سے پہلے - دلائلِ قطعیہ سے ثابت ہے
(یہ اور بات ہے کہ وہ ابھی تک ایک بھی دلیل اپنے دعوے پر نہیں پیش کر سکے )
6
-مردہ اور زندہ برابر ہیں ، سماع میں ، ادراک میں ، شعور میں ، فہم میں ۔۔
(چاہیئے کفار و مشرکین ہوں )
ہم اہلِ سنت والجماعت کا جوابِ دعوہ
1
- نبی ہو یا غیر نبی ہر ایک کی موت بصورتِ خروجِ روح واقع ہوتی ہے۔روح جسم سے نکالی جاتی ہے
2
روح جسم سے نکلنے کے بعد اپنے مستقرمیں رہتی ہے قیامت تک (علیین یا سجین میں) ۔ جیسے انبیاء علیہ السلام و شھداء کی ارواح جنت الفردوس (علیین) میں ہیں ۔
3
صرف قیامت میں ہی ان ارواح کو اجساد میں داخل کیا جائے گا جب سب مردوں کو زندہ کیا جائے گا ، قیامت سے پہلے روح اس جسدِ عنصری میں عادۃً لوٹ کر نہیں آتی ۔
4
قیامت سے پہلے یہ جسدِ عنصری حیاتِ دنیویہ سے عاری ہے ، نہ کوئی دنیاوی ادراک نہ کوئی شعور۔ صرف قیامت میں ہی اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔
یہ تو تمہیدی باتیں تھیں جن میں ، میں نے ان کے عقائد و نظریات پیش کیئے تا کہ جب دلائل کی باری آئے تو آپ کو ان کا عقیدہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دلائل ان کے کس عقیدے کے رد میں پیش کیئے گئے ہیں۔ساتھ اپنا عقیدہ بھی بیان کر دیا ہے جو الحمد اللہ قرآن و سنت سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہے
انشاء اللہ اب اگلا موضوع اس سلسے کے بارے میں ہو گا (حصہ دوم )۔ جس میں اپنے عقیدے کی تائید میں اور ان کے عقیدے کے رد میں دلائل پیش کیئے جائیں گے انشاء اللہ ۔۔
دعاؤں میں یاد رکھیئے گا ۔۔ اللہ نگہبان
 
Feb 28, 2017
11
4
3
[...خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ھیں ... ]

قارئین! سماع_موتی کےباطل عقیدےکا رد صرف سورہ نمل اور فاطرکی آیتوں پرھی موقوف نہیں بلکہ قرآن کی متعدد آیات جوبیان کرتی ھیں کہ مردےقیامت کےدن ھی دوبارہ زندہ کیئےجائیں گےاس گمراہ کن عقیدے کا رد کرتی ھیں-کیونکہ سماع کیلئے حیات شرط ھے،اورجب مردے قیامت سے پہلےزندہ ھی نہیں ھونگےتو پھرسننےسنانےکاسوال ھی پیدا نہیں ھوتا-ملاحظہ ھو: ‏‎)‎البقرةآیت 28، مومنون آیت16،مومن آیت11...)اب رھی مردوں گےسننےکاعقیدہ رکھنےوالوں کی یہ کنفیوژن کہ اگرمردےنہیں سنتےتو پھرصالح اور شعيب عليهماالسلام نے اپنی مردہ قوم سےکیوں مخاطب ھوئے.؟ اسکاجواب یہ ھےکہ جب اصول متعین ھےکہ مردے قیامت سےپہلےزندہ نہیں ھونگےاور بغیر زندگی کےسننےکاسوال ھی پیدا نہیں ھوتا تو اب اسطرح کی آیت یاحدیث جس میں مردہ یاجماد (پتھر،بت وغیرہ) سےکلام کیاگیاھواسےسننے پرھرگز محمول نہیں کیاجائیگا- جیسےعمررضی الله عنه کاحجراسود سےکلام کرنا،ابراھیم عليه السلام كا بتوں سےکلام کرنا یا صالح اورشعيب علیهماالسلام کااپنی مردہ قوم سےمخاطب ھونا وغیرہ....البتہ معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا- جیسےقلیب بدرکےمردوں کا نبی عليه السلام کی بات سننا- [عن عبدالله بن عمر....انهم الآن يسمعون مااقول]_ حدیث میں"الآن" کا لفظ واضح کررھاھےکہ قلیب بدرکےمردوں کاسنناخاص اس وقت تھا ھر وقت نہیں،اورانس رضی الله عنه سےاس واقعہ کو روایت کرنےوالےان کےشاگرد ‏ قتادة رحمه الله کےالفاظ بخاری لائےھیں "احياهم الله" ترجمه:‏‎ ‎الله نےانہیں زندہ کردیا-ظاھرھےقبل ازقیامت زندہ ھونا معجزہ ھےمعمول نہیں- غورطلب نکتہ یہ ھےکہ اگرصحابه "میت" کے سننےکےقائل ھوتےتو قتادہ رحمه الله کو یہ وضاحت کرنےکی ضرورت ھی پیش نہ آتی ___لہذا ثابت ھواکہ جوسننامانتےتھےوہ بطورمعجزہ مانتےتھےعام نہیں.اور عائشہ رضی الله عنھااورعبدالله بن عمررضی الله عنهما کےمابین اختلاف اس واقعےکےمعجزہ ھونےیا نہ ھونےمیں ھی تھا نہ كہ مطلق سماع موتی میں .....امت کی بدنصیبی کہ ان تمام تر تفصیلات کےباوجود اکابرین دیوبند،بریلوی اور اہلحدیث نےعلمی فریب کاری کےذریعےھرمردے کو زندہ اورسننےوالا قرار دیکر معجزے کو معمول بنادیا-
نتیجتا" قرآن کےبیان کردہ عام قانون دو زندگی دو موت سےصرف قلیب بدر کےمردے ھی نہیں بلکہ تمام مردے مستثنی‎(exempted)‎‏ ھوگئے اب قرآن کی وہ آیت جس میں دو زندگی دو موت کاقانون بیان ھواھےمحض تلاوت کیلئےھےاسکا اطلاق‎ (implement)‎‏ قبرمیں مدفون کسی مردہ لاشے پرنہیں ھوگا____کیونکہ ان سب کا عقیدہ ھےکہ " دفن کےبعد ھرمردہ لاشہ دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی چاپ سنتا ھے"__
قارئین! جسطرح معجزےکا انکارالله کی قدرت کا انکارہےویسےہی معجزےکومعمول بنانا الله کےقانون کا انکار اورمذاق ہے،چنانچہ الله کےقانون کا صریح انکارکرنےاورمذاق اڑانےکا خمیازہ یہ الله کےعذاب کی شکل میں صدیوں سےبھگت رھےھیں اور آخرت کا ابدی عذاب الگ ھے-
(نوٹ) اس موضوع پرتفصیلی مطالعےکیلئے ڈاکٹرعثمانی رحمةالله عليه کےکتابچے"عذاب_برزخ" اور"ایمان_خالص، دوسری قسط کامطالعہ فرمائیں- - ‏www.islamic-belief.net
 
Feb 28, 2017
11
4
3
[صحیح البخاری کی حدیث کاخلاف قرآن مفھوم کہ..... مردہ لاشہ دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آوازسنتا ھے .....]
_____________________________________________ قرآن کا فیصلہ ھے[ان الله يسمع من يشاء وماانت بمسمع من في القبور ] ترجمه:[الله جسےچاھتا ھےسنوادیتاھے(اےنبی) آپ قبروالوں کونہیں سناسکتے](سورہ فاطرآیت22) __ البتہ قارئین معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتاجیسےقلیب بدرکےمردوں کوالله نےنبی عليه السلام کی بات سنوادی .....لیکن یہ عقیدہ رکھنا کہ ھرمردہ سنتا ھے درج بالا آیت کا صریح کفرھے- کیونکہ جسطرح معجزےکا انکارالله کی قدرت کا انکارھےاسی طرح معجزےکومعمول بنانا بھی الله کےقانون کا انکار اورقانون کا مذاق ھےجسكی سزا ابدی جھنم کےسوا کچھ نہیں _چونکہ درج بالا آیت مردوں کےسماع کی قطعی نفی کرتی ھےاوراسی آیت سےاستدلال کرتےھوئےام المومنين عائشہ رضی الله عنها نےمردوں کےسننےکی نفی کی- لیکن سماع موتی کےقائلین مثلا" ابن تیمیہ،ابن قیم وغیرھم نےاپنےباطل عقیدےکی سب سےبڑی رکاوٹ کو راستےسےھٹانے کیلئےاس آیت کےمتعلق لکھا ھےکہ آیت میں ھٹ دھرم کفارکومردوں سےتشبیہ دی گئی ھے اور الله کا انہیں اپنی مشیت سےسنانےکامطلب انہیں ھدایت کی توفیق دینا ھے _ حالانکہ قارئین ابن تیمیہ اورابن قیم کی یہ بات ان کےسماع موتی کے عقیدےکوصحیح ثابت کرنےکےبجائےالٹا غلط ثابت کرتی ھے _کیوں کہ آیت میں ھے(ان الله يسمع من يشاء...) الله جسےچاھتاھےسنواتاھے لہذا کفارکوسنانا تو یہ ھوا کہ انہیں ھدایت کی توفیق دی _ اورجب(ان الله يسمع من يشاء) کا اطلاق‎ ‎حقیقی مردوں پرھوگا تومطلب صرف مردوں کاسنناھوگا انہیں ھدایت دینا تو ھرگزنہیں ھوسکتا _ قارئین سماع موتی کےقائلین کاطرزاستدلال انتہائی درجےکا احمقانہ تو ھےھی ساتھ ھی علمائے یہود کےنقش قدم پرچلتےھوئے [....يحرفون الكلم عن مواضعه...] یعنی آیت کی معنوی تحریف بھی ھے،کیونکہ جو آیت عدم سماع موتی کیلئےنص قطعی ھےاسی آیت سےابن تیمیہ،ابن قیم وغیرھم مردوں کا سننا ثابت کررھےھیں قارئین جب سورہ فاطر کی آیت 22 میں مردوں سےمراد چاھے حقیقی مردے لیئےجائیں یابطورتشبیہ کفارمراد لیئےجائیں دونوں صورتوں میں ثابت یہی ھوتا ھےکہ مردےنہیں سنتے تو لامحالہ قلیب بدرکےمردوں کاسننا معجزہ یاخرق عادت ھی کہلائےگا
 
Feb 28, 2017
11
4
3
Part [2]

اور معجزہ یاخرق عادت معمول نہیں ھوتا امت کی بدنصیبی کہ دیوبند،بریلوی اوراھلحدیث سب کا عقیدہ ھےکہ مردہ قبرمیں دفن ھونےکےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آواز سنتا ھے _
البتہ "علمائے" اھلحدیث کا اس باطل اورگمراہ کن عقیدےکی تبلیغ و اشاعت میں کلیدی کردار ‏‎(key role)‎‏ رھا ھے-ان کی طرف سے ایسا لٹریچرشائع ھوتا رھتاھےجس میں اس گمراہ کن عقیدےکوصحیح ثابت کرنےکی بھرپورکوشش کی جاتی ھے-اسی حوالےسےانکی طرف سےایک 268صفحات پرمشتمل کتاب [المسندفي عذاب القبر ] شائع ھوئی جس کےمؤلف محمدارشدکمال ھیں-اس کتاب میں اھلحدیث "محققین" نے یہ تو تسلیم کرلیا ھےکہ عام قانون یہ ھےکہ [مردےنہیں سنتے] اور یہ بھی تسلیم کیاھےکہ [قلیب بدرکےمردوں کاسننامعجزہ ھے،خرق عادت ھے،خاص ھےعام نہیں] __ لیکن قارئین اس کےبالکل برعکس اس کتاب میں اھلحدیث محققین نےاپناعقیدہ یہ بھی بیان کیاھےکہ "مردہ لاشہ دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آوازسنتاھے" جوصریحا" معجزےکومعمول ،خرق عادت کو عادت جاریہ اورخاص کو عام بناناھے،جو نہ صرف الله کےقانون کا انکاربلکہ قانون کےساتھ کھلا مذاق بھی ھےجسکی سزا یہ امت صدیوں سےذلت ومغلوبیت کی شکل میں بھگت رھی ھےاورآخرت کاھمیشہ کا دردناک عذاب الگ ھے....
لوگوں کو الله کی کتاب کا منکربنانے کیلئےان کا طریقہ واردات یہ ھے کہ رسول الله صلي الله عليه وسلم سےمنسوب جھوٹی اورموضوع ‏‎(fabricated)‎‏ روایت پیش کرتےھیں یا پھر صحیح اورمستند حدیث سےایسا مطلب و مفھوم اخذ کرتےھیں جس سےقرآن کی تکذیب ھوتی ھےالله کےقانون کامذاق بنتاھے- ،جیسےصحیح البخاری کےباب:[المیت یسمع خفق النعال] یعنی مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ھے والی حدیث،حالانکہ اس کی ایسی شرح موجود ھےجس سےقرآن کا انکارنہیں ھوتا اورنہ قلیب بدرکا معجزہ معمول بنتاھے- جیسےصحیح البخاری کی مشہورشرح فتح الباری جلد3 صفحه205 پربخاری کےاس باب کی شرح میں لکھاھے;[وكانه اقتطع ماهومن سماع الآدمين من سماع ماهومن الملائكة،] یعنی قارئین باب میں فرشتوں کےجوتوں کی آواز کاذکرھےجو مرنےوالےکی روح سے سوال وجواب کیلئےآتےھیں- جوخاکی جسم سےنکل کربرزخ میں اپنےمقام پرپہنچ جاتی ھے- قبرمیں پڑےمردہ خاکی جسم کا اس سوال وجواب اوراس کےنتیجےمیں ھونےوالےعذاب یا راحت کے معاملات سےقطعا" کوئی تعلق نہیں _ قارئین حدیث کی یہ تشریح اس بنیاد پرھےکہ قرآن کا اصول واضح ھےکہ {مردےنہیں سنتے} اور {مردےقیامت کےدن زندہ کیئےجائینگے}
لہذا اگرکسی صحیح حدیث کامضمون بظاھرقرآن کےاس اصول سےمتصادم و متعارض ھوتوحدیث کی تاویل کیجائےگی تاکہ حدیث اورقرآن میں مطابقت ھوجائے-مذکورہ بالا, فرشتوں کےجوتوں کی چاپ والی تاویل اسی بنیاد پرھے-لیکن قارئین اس معقول بات کو تسلیم کرکےاپنےعقیدےکی اصلاح کرنےکےبجائے اھلحدیث محققین کی طرف سےاعتراض کیاجاتا ھےکہ اچھا اگربخاری کےباب میں [خفق النعال] سےمراد فرشتوں کےجوتوں کی چاپ ھےاورچاپ سننےکا،سوال وجواب کا اورسوال وجواب کےنتیجےمیں ھونےوالےعذاب یا راحت کے تمام معاملات کا تعلق روح کےساتھ ھوتا ھےجو برزخ میں اپنےٹھکانےپر پہنچ جاتی ھےقبرمیں مدفون خاکی جسم سےان تمام معاملات کا کوئی تعلق اور واسطہ نہیں تو پھر بخاری کےاسی باب میں [المیت] کالفظ کیوں آیا ھے؟ کیا روح کو میت کہا جاتا ھے؟ __ جواب دیاجاتا ھےکہ اس میں حیرانی اورتعجب کی کیابات ھےکہ مرنےوالےکےخاکی جسم کےساتھ اسکی روح کی بھی لفظ "میت"سےپہچان کرائی جائے-خود بخاری میں اسکی مثال قلیب بدرکے واقعےکےحوالےسے موجود ھے ،جس میں سارا تذکرہ کنوےمیں پڑےمردہ کفارکاچل رھاھے،چنانچہ عائشہ رضي الله عنها جب مردوں کےسننےکی نفی کرتی ھیں تو انکی مراد کنوےمیں پڑےھوئےخاکی جسم ھیں اورجب وہ مردوں کو علم ھونے کی بات کا کرتی ھیں توانکی مراد ارواح ھیں جو برزخ میں اپنےجھنم کےٹھکانوں پرپہنچ گئیں ھیں- ام المومنین کےاس اندازبیان سےناجائزفائدہ اٹھاتےھوئےبعض احمقوں نےان پر یہ بہتان عظیم لگایا کہ وہ جسدعنصری کےسننےکی توقائل نہیں تھیں لیکن مردہ جسدعنصری میں علم،فھم اورشعور ھوتا ھےاسکی قائل تھیں-(سماع موتی، صفحه347،سرفرازخان صفدر )

www.islamic-belief.net
 
Feb 28, 2017
11
4
3
[کیا ھرمردہ سنتا ھے؟]
------------------------------------------
قرآن وحدیث میں مذکور ایسے واقعات جن کا الله کےبنائےھوئےقوانین کےخلاف صدور ھوا معجزہ یاخرق عادت کہلاتے ھیں، جیسے موسی عليه السلام کےعصاء کا اژدھا بن جانا، عیسی عليه السلام كی بغیرباپ کے پیدائش وغیرہ- خرق عربی میں پھٹ جانےکو کہتے ھیں، معجزے میں چونکہ عادی قانون ٹوٹ جاتاھےاسلئےاسےخرق عادت کہاجاتا ھے-معجزہ الله تعالى کافعل ھوتا ھےجو نبی کےھاتھ پر ظاھر ھوتا ھے، معجزے کےظاھر ھونےمیں نبی کا قطعا" کوئی اختیارو تصرف نہیں ھوتا- الله سبحانه تعالی معجزات یاخرق عادت واقعات سےاپنی قدرت کا اظہار فرماتا ھے- چنانچہ جسطرح معجزات یا خرق عادت کا انکارالله تعالی کی قدرت کا انکارھےبالکل ویسےھی معجزےکومعمول بنانا بھی الله کےقانون کا صریح کفرھے، دونوں صورتوں میں الله کی کتاب کی تکذیب و تکفیر لازم آتی ھے- اس آخری امت کی بدنصیبی کہ اس میں جہاں معدودے چند ایسےلوگ پائےجاتےھیں جنہوں نےمعجزات کا صاف انکارکردیاجیسےمنکرین حدیث وغیرہ، وھیں ایسے لوگوں کی بھی اکثریت ھےجنہوں نےمعجزےکو معمول بناکر الله کےقانون کا برملا مذاق اڑایا- تفصیل اس اجمال کی یہ ھےکہ قرآن کا فیصلہ اوراٹل قانون ھےکہ: "مردےنہیں سنتے" لیکن چونکہ معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا-جیسےقلیب بدرکےمردوں کانبی صلى الله عليه وسلم کی بات سننا، احادیث میں اس واقعےکی تمام تر تفصیلات درج ھیں،جس سے واضح ھوجاتا ھےکہ یہ ایک معجزہ تھا- ھرمردہ سنتا ھے یہ کسی صحابی کاعقیدہ نہیں تھا- لیکن اس کےباوجود اکابرین دیوبند، بریلوی اور اھلحدیث نےعلمی فریب کاری کےذریعےھر مردےکوسننےوالا قرار دیکر معجزے کو معمول بناڈالا- ان سب کا عقیدہ ھےکہ " ھرمردہ لاشہ دفن کےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آواز سنتا ھے"
معجزےکو معمول بناکر الله کےقانون کا انکار اورمذاق اڑانےمیں ویسےتو تینوں فرقوں کےاکابرین کا اپنا اپنا کردار ھےلیکن اھلحدیث کےاکابرین کا کلیدی کردار (key role) ھے-اور آج بھی اس کفریہ عقیدہ کی تبلیغ وترویج میں اھلحدیث "محققین"سب سےآگےھیں،
جسکا خمیازہ ذلت ورسوائی کی شکل میں یہ امت صدیوں سےبھگت رھی ھےتباھی وبربادی کےالمناک واقعات سےتاریخ کےصفحات بھرےپڑےھیں،موجودہ حالات تو ماضی سےزیادہ کربناک ھیں، اور آخرت کا ابدی عذاب الگ ھے- [وما علینا الا البلاغ]
(نوٹ) اس موضوع پرتفصیلی مطالعےکیلئے ڈاکٹرعثمانی رحمةالله عليه کےکتابچے ایمان_خالص دوسری قسط اور عذاب_برزخ کامطالعہ فرمائیں- www.islamic-belief.net
 
Feb 28, 2017
11
4
3
[۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کلمہ گو مشرک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔]
___________________________________کلمہ پڑھنے والے شرک کے معاملے میں یہودیوں, عیسائیوں ، ھندؤوں اور مشرکین مکہ سے بھی آگے نکل گئے -جس کا خمیازہ صدیوں سے الله کے عذاب کی شکل میں بھگت رہے ہیں اور آخرت کا کبھی نہ ختم ھونے والا دردناک عذاب الگ ھے .....اس امت میں شرک کی ابتداء نبی‏‎(s.a.w)‎‏ پر درود کےاعمال پیش ہونےکےعقیدےسےہوئی اور انتہاء اس عقیدے‎ ‎پرکہ الله نے دنیا،آخرت اورساری مخلوق اولیاء کےہاتھ میں دےدی، اورنظام عالم ان کےہاتھ میں ہوتاہے ..(دیوبند, بریلوی، اھلحدیث وغیر ھم) یہ الگ بات کہ دین فطرت یعنی اسلام کےمطابق انسان کا ھر اچھا یابرا اعمال اس کےخالق ومالک کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہےاوردنیا،آخرت اورساری مخلوق اورنظام عالم خالق کائنات کےہاتھ میں ہے ..
 
Feb 28, 2017
11
4
3
[ دامن کو ذرا دیکھ ...... ] ______________________________________________ توحید انسان کی فطرت میں ہےاورشرک غیرفطری ہے.. سورہ روم آیت30 کےمطابق اسلام دین فطرت ہے- چنانچہ جب تک اسلام کےنام لیوا دین فطرت پرقائم رہےاور فطرت سےمنحرف انسانیت کو بھی دین فطرت کی طرف دعوت دینےکی ذمہ داری (امربالمعروف ونھی عن المنکر) ادا کرتےرہےالله کی مدد ونصرت ان کے شامل حال رہی- لیکن افسوس جب یہ خود ہی فطرت سےمنحرف ہوکر مشرک بن گئےتو پھر زمین پرسب سےزیادہ الله کےغیظ وغضب کا شکار بھی یہی ہورہے ہیں، انکی ذلت و رسوائی کی لرزہ خیزداستانوں اور تباہی وبربادی کےالمناک واقعات سےتاریخ کےصفحات بھرےپڑےہیں اورحال تو ماضی سےزیادہ کربناک ہے... اس امت میں شرک کی ابتداء نبی‏‎(s.a.w)‎‏ پر درود کاعمل پیش ہونےکےعقیدےسےہوئی اور انتہاء اس عقیدے‎ ‎پرکہ الله نے دنیا،آخرت اورساری مخلوق اولیاء کےہاتھ میں دےدی، اورنظام عالم ان کےہاتھ میں ہوتاہے ..... یہ الگ بات کہ دین فطرت یعنی اسلام کےمطابق انسان کا ھر اچھا یابرا عمل اس کےخالق ومالک کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہےاوردنیا،آخرت اورساری مخلوق اورنظام عالم خالق کائنات کےہاتھ میں ہے ..
 
Feb 28, 2017
11
4
3
[ صحیح حدیث کاخلاف قرآن مفھوم....] _____________________________________________ قرآن کافیصلہ ھےکہ; [....ثم انکم یوم القيامة تبعثون]یعنی مردےبروزقیامت زندہ ھونگےاور [انك لاتسمع الموتی...]ترجمه(اےنبی) آپ مردوں کونہیں سناسکتے.....البتہ قارئین معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا،جیسےقلیب بدرکےمردوں کوالله تعالی کا قیامت سےقبل زندہ کرکے انہیں نبی عليه السلام کی بات سنوانا معجزہ ھے....اس واقعےکی تمام تر تفصیل بخاری، کتاب الجنائزاورکتاب المغازی میں موجود ھےجس سے پتہ چلتاھےجنگ بدرکےمردہ کفارکاسننامعجزہ تھا _ لیکن افسوس دیوبند،بریلوی اوراھلحدیث کےاکابرین نےقلیب بدرکے معجزےکومعمول بناڈالا...‏‎.‎ان سب کا عقیدہ ھےکہ الله تعالی ھرمردہ لاشےکو قبرمیں دفن ھونےکےبعد زندہ کرکے دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آواز سنواتا ھے، لاشہ اٹھ کربیٹھ جاتاھےسوالوں کےجواب دیتاھےاوراس کےنتیجےمیں عذاب یا راحت سےدوچارھوتا ھے _الله کےقانون کےساتھ اس مذاق کاانجام یہ امت صدیوں سےذلت اورمغلوبیت کےعذاب کی شکل میں بھگت رھی ھےاورآخرت کاکبھی نہ ختم ھونےوالا دردناک عذاب الگ ھے- حالانکہ بخاری کی جس حدیث سے یہ خلاف قرآن مفھوم لیاجاتا ھےاس کی ایسی شرح بھی موجود ھےجس سےمعجزےکومعمول بناکرالله کےقانون کا انکارکرنے اورقانون کامذاق اڑانےسےبچاجاسکتاھے، جیسےصحیح بخاری کی مشھور شرح فتح الباری،جلد3 صفحہ205 پربخاری کے باب:[مردہ جوتوں کی چاپ سنتاھے]كی شرح میں لکھاھے; (...وكأنه اقتطع ماهومن سماع الآدمين من سماع ماهومن الملائكة) یعنی قارئین حدیث میں فرشتوں کےجوتوں کی آوازکاذکرھےجسے چالاکی سےدفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آوازبنادیا گیا تاکہ مردہ لاشےکو قبرمیں زندہ ثابت کیاجاسکے-جبکہ فرشتوں کےجوتوں کی آواز سننےکامعاملہ بھی روح کےمقام پرھوتاھےقبرمیں پڑے مردہ لاشےسےاسکاکوئی تعلق نہیں ھوتا- _ اس پر اعتراض کیاجاتاھےکہ بخاری کےباب میں تو "المیت" کا لفظ ھےکیا روح کو بھی میت کہا جاسکتاھے؟ جواب دیاجاتاھےکہ اس میں کون سی حیرانی اورتعجب کی بات ھےکہ مرنےوالےکےخاکی جسم کےساتھ اسکی روح (جواپنےمقام پرپہنچ چکی ھے)کی بھی لفظ "میت" سےپہچان کرائی جائے- _خود بخاری میں ھی اسکی مثال قلیب بدرکےواقعےکےحوالے سےموجودھےجس میں سارا تذکرہ مردہ کفار کاچل رھاھے، چنانچہ عائشہ رضي الله عنها جب مردوں کے"سننے" کی نفی کرتی ھیں تو انکی مراد کنوےمیں پڑے جسدعنصری ھیں اورجب مردوں کے"علم" کا اثبات کرتی ھیں تو مراد ارواح ھیں جواپنےمقام پرپہنچ گئیں ھیں- ام المومنین کے اس طرزبیان سےناجائزفائدہ اٹھاتےھوئےبعض احمقوں نےمردہ لاشےکوکسی بھی طرح زندہ ثابت کرنےکیلئے ان پریہ بہتان عظیم باندھا کہ وہ مردہ لاشے کےسماع کی تو انکاری تھیں لیکن مردہ لاشےکو کوعلم وفھم ھوتاھےاسکی قائل تھیں- (سماع موتی،صفحه347 ،سرفرازخان صفدر ) قارئین!خلاصہ کلام یہ کہ بخاری کےباب:[المیت یسمع خفق النعال] کی ایسی تاویل وتشریح ممکن تھی جس سے قلیب بدرکےمعجزےکومعمول بناکرالله کےقانون [انك لاتسمع الموتي] اور [ثم انکم يوم القيامة تبعثون] کا انکارکرنے،قانون کامذاق اڑانےاورنبی عليه السلام پرکتاب الله کوجھٹلانےکا غلط الزام لگانےسےبآسانی بچاجاسکتاتھا __ لیکن امت کی بدنصیبی اکابرین دیوبند، بریلوی اوراھلحدیث کی علمی فریب کاری کاشکارھوکرنہ جانےکتنےلوگ اس کفریہ عقیدےکو اختیارکیئےھوئےھمیشہ ھمیشہ کیلئےجہنم کا ایندھن بن چکےاورمزید نہ جانےکتنےاوربنیں گےکہ _ [مردہ دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آواز سنتاھے ]
 
Feb 28, 2017
11
4
3
[شیطان کا دھوکہ ]
________________________________ قارئین! اھلحدیث"محققین" ایک طرف قلیب بدر کےمردوں کے سننےکو خرق عادت اورمعجزہ بھی تسلیم کرتےھیں اور دوسری طرف یہ عقیدہ بھی رکھتےھیں کہ "ھرمردہ دفن کےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی چاپ سنتا ھے" یہ تضاد اس وجہ سےھےکہ ان"محققین" کوشیطان ملعون نے یہ تسلی دےدی ھےکہ معجزےکومعمول بناڈالنا کوئی غلط نہیں___حالانکہ قارئین! جسطرح معجزےکاانکار الله كی قدرت کاانکار ھےویسےھی معجزےکومعمول بنانا الله کےقانون کاانکاراور مذاق ھے،جسکی سزا حبط اعمال اور ھمیشہ کی جہنم کےسواکچھ نہیں -
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
[شیطان کا دھوکہ ]
________________________________ قارئین! اھلحدیث"محققین" ایک طرف قلیب بدر کےمردوں کے سننےکو خرق عادت اورمعجزہ بھی تسلیم کرتےھیں اور دوسری طرف یہ عقیدہ بھی رکھتےھیں کہ "ھرمردہ دفن کےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی چاپ سنتا ھے" یہ تضاد اس وجہ سےھےکہ ان"محققین" کوشیطان ملعون نے یہ تسلی دےدی ھےکہ معجزےکومعمول بناڈالنا کوئی غلط نہیں___حالانکہ قارئین! جسطرح معجزےکاانکار الله كی قدرت کاانکار ھےویسےھی معجزےکومعمول بنانا الله کےقانون کاانکاراور مذاق ھے،جسکی سزا حبط اعمال اور ھمیشہ کی جہنم کےسواکچھ نہیں -

tamaam copy paste ke baad ab nachorh bhi bata dejiye
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
[ صحیح حدیث کاخلاف قرآن مفھوم....] _____________________________________________ قرآن کافیصلہ ھےکہ; [....ثم انکم یوم القيامة تبعثون]یعنی مردےبروزقیامت زندہ ھونگےاور [انك لاتسمع الموتی...]ترجمه(اےنبی) آپ مردوں کونہیں سناسکتے.....البتہ قارئین معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا،جیسےقلیب بدرکےمردوں کوالله تعالی کا قیامت سےقبل زندہ کرکے انہیں نبی عليه السلام کی بات سنوانا معجزہ ھے....اس واقعےکی تمام تر تفصیل بخاری، کتاب الجنائزاورکتاب المغازی میں موجود ھےجس سے پتہ چلتاھےجنگ بدرکےمردہ کفارکاسننامعجزہ تھا _ لیکن افسوس دیوبند،بریلوی اوراھلحدیث کےاکابرین نےقلیب بدرکے معجزےکومعمول بناڈالا...‏‎.‎ان سب کا عقیدہ ھےکہ الله تعالی ھرمردہ لاشےکو قبرمیں دفن ھونےکےبعد زندہ کرکے دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آواز سنواتا ھے، لاشہ اٹھ کربیٹھ جاتاھےسوالوں کےجواب دیتاھےاوراس کےنتیجےمیں عذاب یا راحت سےدوچارھوتا ھے _الله کےقانون کےساتھ اس مذاق کاانجام یہ امت صدیوں سےذلت اورمغلوبیت کےعذاب کی شکل میں بھگت رھی ھےاورآخرت کاکبھی نہ ختم ھونےوالا دردناک عذاب الگ ھے- حالانکہ بخاری کی جس حدیث سے یہ خلاف قرآن مفھوم لیاجاتا ھےاس کی ایسی شرح بھی موجود ھےجس سےمعجزےکومعمول بناکرالله کےقانون کا انکارکرنے اورقانون کامذاق اڑانےسےبچاجاسکتاھے، جیسےصحیح بخاری کی مشھور شرح فتح الباری،جلد3 صفحہ205 پربخاری کے باب:[مردہ جوتوں کی چاپ سنتاھے]كی شرح میں لکھاھے; (...وكأنه اقتطع ماهومن سماع الآدمين من سماع ماهومن الملائكة) یعنی قارئین حدیث میں فرشتوں کےجوتوں کی آوازکاذکرھےجسے چالاکی سےدفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آوازبنادیا گیا تاکہ مردہ لاشےکو قبرمیں زندہ ثابت کیاجاسکے-جبکہ فرشتوں کےجوتوں کی آواز سننےکامعاملہ بھی روح کےمقام پرھوتاھےقبرمیں پڑے مردہ لاشےسےاسکاکوئی تعلق نہیں ھوتا- _ اس پر اعتراض کیاجاتاھےکہ بخاری کےباب میں تو "المیت" کا لفظ ھےکیا روح کو بھی میت کہا جاسکتاھے؟ جواب دیاجاتاھےکہ اس میں کون سی حیرانی اورتعجب کی بات ھےکہ مرنےوالےکےخاکی جسم کےساتھ اسکی روح (جواپنےمقام پرپہنچ چکی ھے)کی بھی لفظ "میت" سےپہچان کرائی جائے- _خود بخاری میں ھی اسکی مثال قلیب بدرکےواقعےکےحوالے سےموجودھےجس میں سارا تذکرہ مردہ کفار کاچل رھاھے، چنانچہ عائشہ رضي الله عنها جب مردوں کے"سننے" کی نفی کرتی ھیں تو انکی مراد کنوےمیں پڑے جسدعنصری ھیں اورجب مردوں کے"علم" کا اثبات کرتی ھیں تو مراد ارواح ھیں جواپنےمقام پرپہنچ گئیں ھیں- ام المومنین کے اس طرزبیان سےناجائزفائدہ اٹھاتےھوئےبعض احمقوں نےمردہ لاشےکوکسی بھی طرح زندہ ثابت کرنےکیلئے ان پریہ بہتان عظیم باندھا کہ وہ مردہ لاشے کےسماع کی تو انکاری تھیں لیکن مردہ لاشےکو کوعلم وفھم ھوتاھےاسکی قائل تھیں- (سماع موتی،صفحه347 ،سرفرازخان صفدر ) قارئین!خلاصہ کلام یہ کہ بخاری کےباب:[المیت یسمع خفق النعال] کی ایسی تاویل وتشریح ممکن تھی جس سے قلیب بدرکےمعجزےکومعمول بناکرالله کےقانون [انك لاتسمع الموتي] اور [ثم انکم يوم القيامة تبعثون] کا انکارکرنے،قانون کامذاق اڑانےاورنبی عليه السلام پرکتاب الله کوجھٹلانےکا غلط الزام لگانےسےبآسانی بچاجاسکتاتھا __ لیکن امت کی بدنصیبی اکابرین دیوبند، بریلوی اوراھلحدیث کی علمی فریب کاری کاشکارھوکرنہ جانےکتنےلوگ اس کفریہ عقیدےکو اختیارکیئےھوئےھمیشہ ھمیشہ کیلئےجہنم کا ایندھن بن چکےاورمزید نہ جانےکتنےاوربنیں گےکہ _ [مردہ دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آواز سنتاھے ]
aap ka talluq kis maslak se hai?
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
@hadya-baloch128
آپ نے فرمایا کہ
افسوس دیوبند،بریلوی اوراھلحدیث کےاکابرین نےقلیب بدرکے معجزےکومعمول بناڈالا
آپ سے درخواست ہے کہ ان سب کو واضح کیجئے
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
حدثنا عمروبن سوادالمصرى حدثنا عبدالله بن وهب عن عمروبن الحارث عن سعيد ابى هلال عن زيدبن ايمن عن عبادة بن نسي عن أبي الدرداء رضي الله عنهأخرج ابن ماجة في سننه عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا، قَالَ:قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ ؟! قَالَ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ. فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ.
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
كہ ’’جمعہ کے دن مجھ پرکثرت سے درود پڑھا کرو ۔ اس درود پر رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور درود پڑھنےوالے کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ ابو دؤاد نے پوچھا : آپ ﷺ کے مرنے کے بعد درود آپﷺ پر پیش کیا جاتا رہے گا؟ آپﷺ نے فرمایا : ہاں موت کےبعد بھی ۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو حرام قرار دیا ہے ۔ اللہ کانبی زندہ ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے ۔‘‘
(سنن ابن ماجه ص500ج1)
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
قال سمعت رسول الله ﷺ يقول لا يجعلوا بيوتكم قبورا ولا تجعلوا قبرى عيدا و صلوا على فان صلوتكم تبليغى حيث كنتم .
(رواه ابو داؤدو اسناده حسن )

’’ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کویہ فرماتے سنا کہ لوگو! اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ اور میری قبر کو عید نہ ٹھہرانا اور مجھ پر درود پڑھنا ، بے شک تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے تم خواہ کہیں بھی ہو ۔‘‘
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
کیا ہمارے لئے قرآن کی آیت کافی نہیں ہے ؟؟؟؟؟؟

سُوۡرَةُ فَاطِر

وَمَا يَسۡتَوِى الۡاَحۡيَآءُ وَلَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُسۡمِعُ مَنۡ يَّشَآءُ ۚ وَمَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِى الۡقُبُوۡرِ‏
اور نہ زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں۔ خدا جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے۔ اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۲۲
@duaabatool @hadya-baloch128 @saviou @Shiraz-Khan @BeautyRose @H@!der
 
Feb 28, 2017
11
4
3
IMG_20170513_134613.jpg
بسم الله الرحیم الرحيم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسول الکریم، اما بعد، امت کی بد نصیبی ہے کہ وفات النبی صلی الله عليه وسلم کا مسئلہ جو قران و حدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ھے آج اختلافی مسئلہ بنا ھوا ھے اور اس کو اختلافی بنانے میں بنیادی کردار اس امت کے علماء و مشائخ کا ھی ھے ورنہ قران کا ارشاد بالکل واضح ھے کہ "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ"
(اے پیغمبر) تم بھی مر جاؤ گے اور یہ بھی مر جائیں گے
39-Az-Zumar : 30 ترجمہ فتح محمد جالندھری
اس کے علاوہ خلیفہ اول ابوبکرؓ کا مشہور خطبہ جو انہوں نے نبی صلی الله عليه وسلم کی وفات کے موقع پر دیا تھا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ھے- اس میں بھی ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے آیت "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ" سے ھی استدلال کرتے ہوئے " فإن محمدا قد مات" کے تاریخی الفاظ کے ساتھ نبی صلی الله عليه وسلم کی موت کی تصدیق فرمائی تھی- زندگی اور موت کی عام فہم تعریف (definition) یہ ھے کہ جسم اور روح کا اتصال (ملاپ) زندگی ھے جبکہ جسم اور روح کا انفصال (علیحدگی) موت ھے - لیکن ان تمام عقلی و نقلی دلائل و براھین کے باوجود مدرسہ دیوبند کے بانی مبانی مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب اپنی مشہور کتاب "آب حیات" میں لکھتے ہیں:

[ رسول الله صلی الله عليه وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال اب تک برابر مستمر ھے اس میں انقطاع یا تبدل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ھونا واقع نہیں ھوا ]
(آب حیات صفحہ 36)
یعنی نبی صلی الله عليه وسلم کی دنیاوی زندگی اب تک برابر قائم و دائم ھے اور آپ صلی الله عليه وسلم کی روح اور جسم کا تعلق کبھی منقطع نہیں ھوا یعنی ایسا نہیں ھوا آپ صلی الله عليه وسلم کی وفات ھوگئی اور آپ صلی الله عليه وسلم دنیاوی زندگی ختم ھونے کے بعد عالم برزخ میں پہنچ کر برزخی زندگی گزار رہے ھوں-
یوں تو مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کی یہ بات ھی قران و حدیث اور اجماع صحابہؓ کے یکسر خلاف ھے لیکن اس پر ایک سوال یہ بھی ذہن میں اٹھتا ھے کہ کیا صحابہ نے نعوذ باالله ثم نعوذ باالله زندہ نبی کی ھی تدفین کردی؟؟؟

بہرحال یہ تو تذکرہ تھا مدرسہ دیوبند کے بانی محمد قاسم نانوتوی صاحب کا لیکن اسی مدرسے کے پہلے فارغ التحصیل شاگرد مولانا محمود الحسن صاحب نے سورة فاتحہ کی آیت" إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" کی تفسیر کے ذریعے جو مشرکانہ عقیدہ پھیلایا وہ بھی ملاحظہ ھو:

[ اس آیت شریفہ سے معلوم ھوا کہ اس ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بلکل ناجائز ھے، ہاں اگر کسی مقبول بندے کو واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر اس سے استعانت ظاہری کرے تو یہ جائز ھے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ھی سے استعانت ھے ] (تفسیر عثمانی حاشیہ سورة فاتحہ)

ظلم کی انتہا ھے کہ علمائے دیوبند نے صرف اس گمراہی کی لوگوں تعلیم ھی نہیں دی بلکہ ایسے واقعات بھی گھڑے جن کے ذریعے اپنی اس گمراہی کو سند جواز فراہم کر سکیں- مثلاً دیوبند کے مشہور عالم اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب "کرامات امدادیہ" کے صفحہ 18 پر اپنے پیر حاجی امداد الله کا ایک واقعہ نقل کیا ھے کہ ایک مرتبہ حاجی امداد الله کا ایک مرید حج کے لئے جارہا تھا سمندر کا سفر تھا کسی دور دراز مقام پر کشتی چٹان سے ٹکرا گئی اور ڈوبنے والی تھی تو حاجی امداد الله کے مرید نے میلوں دور سے اپنے پیر روشن ضمیر کو مدد کے لئے پکارا اور کہا " اس وقت سے زیادہ اور کونسا وقت امداد کا ھوگا " چناچہ حاجی امداد الله نے میلوں دور پہنچ کر کشتی کو کاندھا دیکر ڈوبنے سے بچالیا-
بہرحال قران تو اس طرح کی باتوں کو نا صرف شرک قرار دیتا ھے بلکہ یہ بھی واضح کر دیتا ھے کہ جن ہستیوں کو مشرک لوگ غائبانہ اور مافوق الاسباب پکارتے ہیں وہ عالم الغیب نہیں ہیں- عالم الغیب صرف اور صرف الله تعالیٰ کی ذات ھے-

اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ حاجی امداد الله کے مرید نے مایوسی کی حالت میں بجائے الله تعالیٰ کو پکارنے کے اپنے پیر کو کیوں پکارا ؟؟ کیا مرید کو نہیں معلوم تھا کہ غائبانہ اور مافوق الاسباب سننا الله کی صفت ھے تو اس سوال کا جواب بھی اسی مدرسہ دیوبند سے شایع ھونے والے رسالے ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں موجود ھے ملاحظہ ھو:

[ صوفیاء نے لکھا ھے کہ مردان حق ریاضت و مجاہدہ سے ایسی قوتیں اور ملکات بھی حاصل کرلیتے ہیں جو خداوند ذوالمنن کی خاص قدرتوں سے مشابہ ھوتی ھیں ]
(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند صفحہ 32 جنوری 1958 نگراں اعلیٰ قاری طیب)

پتہ چلا مرید نے جو کچھ کیا اپنے "بزرگوں" کی تعلیم کی وجہ سے ھی تھا کہ ان کے بزرگ مراقبہ اور ریاضت کے ذریعے ایسی طاقت حاصل کر لیتے ہیں جو نعوذ باالله الله تعالیٰ جیسی ھوتی ھے-

دعا ھے الله تعالیٰ انسانیت کو علماء سوء کے مکر و فریب سے اپنی پناہ میں رکھے- آمین
http://www.Islamic-belief.net
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
View attachment 111570 بسم الله الرحیم الرحيم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسول الکریم، اما بعد، امت کی بد نصیبی ہے کہ وفات النبی صلی الله عليه وسلم کا مسئلہ جو قران و حدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ھے آج اختلافی مسئلہ بنا ھوا ھے اور اس کو اختلافی بنانے میں بنیادی کردار اس امت کے علماء و مشائخ کا ھی ھے ورنہ قران کا ارشاد بالکل واضح ھے کہ "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ"
(اے پیغمبر) تم بھی مر جاؤ گے اور یہ بھی مر جائیں گے
39-Az-Zumar : 30 ترجمہ فتح محمد جالندھری
اس کے علاوہ خلیفہ اول ابوبکرؓ کا مشہور خطبہ جو انہوں نے نبی صلی الله عليه وسلم کی وفات کے موقع پر دیا تھا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ھے- اس میں بھی ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے آیت "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ" سے ھی استدلال کرتے ہوئے " فإن محمدا قد مات" کے تاریخی الفاظ کے ساتھ نبی صلی الله عليه وسلم کی موت کی تصدیق فرمائی تھی- زندگی اور موت کی عام فہم تعریف (definition) یہ ھے کہ جسم اور روح کا اتصال (ملاپ) زندگی ھے جبکہ جسم اور روح کا انفصال (علیحدگی) موت ھے - لیکن ان تمام عقلی و نقلی دلائل و براھین کے باوجود مدرسہ دیوبند کے بانی مبانی مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب اپنی مشہور کتاب "آب حیات" میں لکھتے ہیں:

[ رسول الله صلی الله عليه وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال اب تک برابر مستمر ھے اس میں انقطاع یا تبدل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ھونا واقع نہیں ھوا ]
(آب حیات صفحہ 36)
یعنی نبی صلی الله عليه وسلم کی دنیاوی زندگی اب تک برابر قائم و دائم ھے اور آپ صلی الله عليه وسلم کی روح اور جسم کا تعلق کبھی منقطع نہیں ھوا یعنی ایسا نہیں ھوا آپ صلی الله عليه وسلم کی وفات ھوگئی اور آپ صلی الله عليه وسلم دنیاوی زندگی ختم ھونے کے بعد عالم برزخ میں پہنچ کر برزخی زندگی گزار رہے ھوں-
یوں تو مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کی یہ بات ھی قران و حدیث اور اجماع صحابہؓ کے یکسر خلاف ھے لیکن اس پر ایک سوال یہ بھی ذہن میں اٹھتا ھے کہ کیا صحابہ نے نعوذ باالله ثم نعوذ باالله زندہ نبی کی ھی تدفین کردی؟؟؟

بہرحال یہ تو تذکرہ تھا مدرسہ دیوبند کے بانی محمد قاسم نانوتوی صاحب کا لیکن اسی مدرسے کے پہلے فارغ التحصیل شاگرد مولانا محمود الحسن صاحب نے سورة فاتحہ کی آیت" إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" کی تفسیر کے ذریعے جو مشرکانہ عقیدہ پھیلایا وہ بھی ملاحظہ ھو:

[ اس آیت شریفہ سے معلوم ھوا کہ اس ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بلکل ناجائز ھے، ہاں اگر کسی مقبول بندے کو واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر اس سے استعانت ظاہری کرے تو یہ جائز ھے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ھی سے استعانت ھے ] (تفسیر عثمانی حاشیہ سورة فاتحہ)

ظلم کی انتہا ھے کہ علمائے دیوبند نے صرف اس گمراہی کی لوگوں تعلیم ھی نہیں دی بلکہ ایسے واقعات بھی گھڑے جن کے ذریعے اپنی اس گمراہی کو سند جواز فراہم کر سکیں- مثلاً دیوبند کے مشہور عالم اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب "کرامات امدادیہ" کے صفحہ 18 پر اپنے پیر حاجی امداد الله کا ایک واقعہ نقل کیا ھے کہ ایک مرتبہ حاجی امداد الله کا ایک مرید حج کے لئے جارہا تھا سمندر کا سفر تھا کسی دور دراز مقام پر کشتی چٹان سے ٹکرا گئی اور ڈوبنے والی تھی تو حاجی امداد الله کے مرید نے میلوں دور سے اپنے پیر روشن ضمیر کو مدد کے لئے پکارا اور کہا " اس وقت سے زیادہ اور کونسا وقت امداد کا ھوگا " چناچہ حاجی امداد الله نے میلوں دور پہنچ کر کشتی کو کاندھا دیکر ڈوبنے سے بچالیا-
بہرحال قران تو اس طرح کی باتوں کو نا صرف شرک قرار دیتا ھے بلکہ یہ بھی واضح کر دیتا ھے کہ جن ہستیوں کو مشرک لوگ غائبانہ اور مافوق الاسباب پکارتے ہیں وہ عالم الغیب نہیں ہیں- عالم الغیب صرف اور صرف الله تعالیٰ کی ذات ھے-

اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ حاجی امداد الله کے مرید نے مایوسی کی حالت میں بجائے الله تعالیٰ کو پکارنے کے اپنے پیر کو کیوں پکارا ؟؟ کیا مرید کو نہیں معلوم تھا کہ غائبانہ اور مافوق الاسباب سننا الله کی صفت ھے تو اس سوال کا جواب بھی اسی مدرسہ دیوبند سے شایع ھونے والے رسالے ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں موجود ھے ملاحظہ ھو:

[ صوفیاء نے لکھا ھے کہ مردان حق ریاضت و مجاہدہ سے ایسی قوتیں اور ملکات بھی حاصل کرلیتے ہیں جو خداوند ذوالمنن کی خاص قدرتوں سے مشابہ ھوتی ھیں ]
(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند صفحہ 32 جنوری 1958 نگراں اعلیٰ قاری طیب)

پتہ چلا مرید نے جو کچھ کیا اپنے "بزرگوں" کی تعلیم کی وجہ سے ھی تھا کہ ان کے بزرگ مراقبہ اور ریاضت کے ذریعے ایسی طاقت حاصل کر لیتے ہیں جو نعوذ باالله الله تعالیٰ جیسی ھوتی ھے-

دعا ھے الله تعالیٰ انسانیت کو علماء سوء کے مکر و فریب سے اپنی پناہ میں رکھے- آمین
http://www.Islamic-belief.net


انبیاء علیہم السلام کی حیات پر صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں ، جیسا کہ شہداء کی حیات پر قرآن کریم نے صراحت کی ہے لیکن یہ برزخی حیات ہے جس کی کیفیت و ماہیت کو ماسوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ۔ اور برزخی زندگی کا دنیاوی زندگی پر قیاس کرنا جائز نہیں ہے ۔ من جملہ احادیث میں سے جن کو امام ابوداؤد اور امام نسائی رحمہم اللہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے ۔​
ان من افضل ایامکم یوم الجمعۃ فیہ خلق آدم و فیہ قبض و فیہ النفخۃ و فیہ الصعقۃ فاکثروا علیَّ الصلوۃَ فیہ فإن صلاتکم معروضۃ علیَّ قالوا یا رسول وکیف تعرض صلاتنا علیک وقدأرمت قال إن اﷲ حرم علی الارض أجساد الانبیاء (ابوداود ج والنسائی فی الجمعۃ وابن ماجہ )
بے شک جمعہ کا دن تمہارے دنوں میں افضل ہے اسی دن میں حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن میں انہوں نے وفات پائی اور اسی دن میں صور پھونکا جائے گا اور اسی دن میں قیامت قائم ہوگی پس تم اس دن میں مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو اس لئے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیسے ہمارا درود آپ پر پیش کیا جائے گا ؟ آپ تو مٹی ہو چکے ہوں گے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کے جسد کو زمین پر حرام کیا ہے ۔​
یہ حدیث آپؐ کی اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کی حیات پر دلالت کرتی ہے مگر یہ کہ آپ کی یہ حیات آپ کی وفات سے پہلے والی حیات سے مختلف ہے اور یہ برزخی حیات ہے اور یہ ایک پوشیدہ راز ہے جس کی حقیقت کو ما سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا
 
Top