لمحوں کا خواب

  • Work-from-home

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan


لمحوں کا خواب

سفر آخرت اختیار کرنے میں' کچھ زیادہ وقت نہ رہ گیا تھا۔ نائیلہ' جو اس کی آخری اور ذاتی کوشش کا نتیجہ تھی' محرومیوں میں بڑی ہوئی۔ باپ سے پاگل پن کی حد تک' محبت کرتی تھی۔ اس کی زندگی بچانے کے لیے وہ دل وجان سے بھاگ دوڑ کر رہی تھی۔ جو عیش میں پلے اور بڑے ہوئے' اس کی ان احمقانہ کوششوں پر پیچ وتاب کھا رہے تھے۔ ناہید جس کے' وہ عمر بھر غلط سلط مطالبے پورے کرتا رہا تھا' رائی بھر متفکر نہ تھی۔ وہ بڑھاپے میں بھی' جوان لڑکیوں کی طرح ناز نخرے دکھاتی تھی اور وہ اٹھاتا بھی رہا تھا۔ بڑا لڑکا پچاس سے تجاوز کرنے کو تھا' لیکن وہ ابھی پینتس سال کی نہیں ہوئی تھی' خیر اس معاملہ میں' اپنے بیٹے کی عمر کی' وہ ذمہ دار اور پابند نہ تھی۔ یہ اس کا ذاتی معاملہ تھا۔ اگر کوئی سو سال بعد بھی پوچھتا' تو وہ اپنی عمر پنتیس سال ہی بتاتی' گویا وہ اس ذیل میں زبان کی پکی تھی۔

وہ ہوش میں تھا اور ابھی تک' اس کے حواس معطل نہیں ہوئے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا' کہ ان لوگوں کی خوشی کے لیے' کیا کچھ کرتا رہا۔ انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے لیے' ہر طرح کی بددیانتی اور دو نمبری کرتا رہا۔ جسے کچھ میسر نہ آیا' جان ہلکان کر رہی تھی۔ عیش میں پلے' اس کے قریب آنے کا بھی تردد نہیں کر رہے تھے' مبادہ موت انہیں بھی اپنی گرفت میں لے گی۔ اب تو گھڑی پل کا معاملہ تھا'چند لمحوں کے لیے' اسے اپنا ظاہر کرنے سے' ان کا کیا جاتا تھا۔ انہوں نے تو' مروت' لحاظ اور جعلی تکلف و تردد کا بھی ستیاناس مار کر رکھ دیا تھا۔ آنکھیں بند ہوتے ہی' دو چار مگرمچھ کے آنسو بہائیں گے' دنیا اسے ان کی محبت اور صدمے کا نام دے گی' حالاں کہ یہ ان کے سینے کے باسی ہی نہیں رہے تھے۔

اسے اپنی زندگی کے گزرے چوہتر سال' کل پرسوں کی بات لگی۔ اس نے سوچا یہ زندگی کچھ بھی نہ تھی' محض چند لمحوں کا خواب تھی۔ چوہتر سال کچھ کم نہیں ہوتے' لیکن دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے نکل گیے۔ اب وہ واپس مڑ نہیں سکتا تھا اور مستقبل کا دروازہ' کچھ ہی لمحوں کے بعد' کھلنے کو تھا۔ وہ ان کا یا وہ اس کے نہ رہیں گے۔ اس کی ہر چیز' ان کی ہو جائے گی۔ اس کی چیزوں کے بٹوارے پر وہ کتوں کی طرح لڑیں گے۔ اگرچہ ترکہ کچھ زیادہ نہ تھا۔ بہت کچھ بن سکتا تھا' لیکن پیٹ اور موج مستی کو پہلی اور آخری ترجیح دی گئی تھی۔ آج جن بیٹوں کے بوتے پر اترا رہی تھی' اس کی دو ہتھ زبان' اسے ان کے ہاں بےوقار کر دے گی۔ نائیلہ' جسے وہ احمق سمجھتی تھی' ممکن ہے' وہ ہی آخری لمحوں میں اس کے کام آئے۔

ڈاکٹر اپنی کوشش میں مصروف تھا۔ وہ اپنی ناہید کی نخرہ برداری کے لیے' مصروف عمل تھا۔ اسے مرنے والے کی زندگی یا لحموں کی بہتری' چمکتے سکوں کے لیے عزیز تھی۔ سرکاری ہسپتال کے بستر پر پڑا مریض کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ بچ جائے مریض کی قسمت' مر جائے مریض کی قسمت۔ ہر دو صورتوں میں' تنخواہ پر رائی بھر فرق نہیں پڑتا۔ وہ تو جاری رہنے کے لیے ہوتی ہے۔ ہاں کسی مقترہ شخصیت کا معاملہ' اس سے برعکس ہوتا ہے۔

ماضی کا ہر لمحہ' کسی فلم کی طرح' اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم گیا۔ اس کا باپ ولی محمد' امرتسر کے ریلوے اسٹیشن پر قلی تھا۔ صبح سویرے گھر سے نکل جاتا۔ لوگوں کا سامان اٹھانے کے ساتھ ساتھ' بڑے اور دو چھوٹے بابو صاحبان کی خدمت انجام دیتا۔ ان کے لیے کھانا لاتا' جو کھانا بچ رہتا' اس سے بھوک مٹا لیتا۔ کبھی پیٹ بھر بچ رہتا اور کبھی دو ایک نوالے بھی میسر نہ آتے۔ فارغ وقت میں' ریلوے اسٹیشن کی کنٹین پر کام کرتا۔ آخری گاڑی نکل جانے کے بعد' گھر لوٹ کر آتا۔ ہاجراں اسی وقت گرم گرم کھانا پیش کرتی۔اسے کھانا تو خیر کہا نہیں جا سکتا' ہاں گزارا ٹکر کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ البتہ جوٹھا اور ان دھلے ہاتھوں کا بچا کچا نہ ہوتا تھا۔ اس میں ہاجراں کی محبت اور خلوص شامل ہوتا تھا۔ جب وہ کھانا کھا چکتا' تو گرم گرم تیز مٹھے کی بڑی پیالہ لا کر' کھڑکی کا زیریں حصہ' جو باطور میز استعمال ہوتا تھا' پر رکھ دیتی اور خود پاس بیٹھ جاتی۔ وہ چائے پیتے ہوئے' سارے دن کی کارگزاری سناتا اور ہاجراں بڑے غور سے سنتی۔ کبھی دونوں ہنس پڑتے اور کبھی افسردہ ہو جاتے۔

اس کی کوشش تھی' کہ بڑا لڑکا پڑھ لکھ کر' کچھ بن جائے' پھر وہ چھوٹوں کو خود ہی سمبھال لے گا۔ اس کی محنت اور کوشش پر' کسی سطح پر' شک نہیں کیا جا سکتا۔ ہاجراں اس کے شانہ بہ شانہ چل رہی تھی۔ جس دن عبدالرحمن نے میٹرک کر لیا' ولی محمد کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اسے یوں لگا' جیسے ساری دنیا کی خوشیوں نے' اس کے قدم آ لیے ہوں۔ عبدالرحمن نے کئی سرکاری ملازمتیں کیں لیکن اسے کوئی پسند نہ آئی۔ آخر محکمہ مالیات کی بابو شپ راس آ گئی۔ بالائی وافر میسر تھی۔ جیب میں دام ہوں تو شوقینی بغل گیر ہو ہی جاتی ہے۔ گھر کے کھانے بےلطف اور بےمزا ہو جاتے ہیں۔

شراب' کباب اور عورتیہ ذائقہ جب زندگی کا لازمہ اور لوازمہ بن جائیں' باپ کی محنت اور قربانی لایعنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ فقط ذات کی معنویت باقی رہ جاتی ہے۔ اس دورانیے میں' ناہید اس کی زندگی میں داخل ہوئی۔ شوقینی میں' وہ اس کی بھی استاد تھی۔ دونوں خارجی رنگینیوں کے شائق تھے۔ ناہید کے آنے سے خرچے آسمان سے باتیں کرنے لگے تھے۔ ناہید کے بطن سے اپنے اور پرائے' گھر کا فرد بننے لگے تھے۔ عبدالرحمن نے بھی کئی ویران گودیں آباد کیں۔

ولی محمد کے خواب' چکنا چور ہو گیے۔ ایک ہی شہر میں رہتے' وہ اس کی شکل دیکھنے کو ترس جاتا۔ ان کے درمیان اسٹیٹس گیپ آ گیا تھا۔ کہاں ایک قلی اور کہاں محکمہ مالیات کا ایک باعزت بابو۔ ایک مرتبہ' دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر' ولی محمد اس کے دفتر چلا گیا۔ وہ پوری زندگی کسی غیر کے ہاتھوں اتنا ذلیل نہ ہوا ہو گا' جتنا اس دن بیٹے کے ہاتھوں ذلیل ہوا۔ وہ سارا دن روتا رہا۔ آخر کسی کو کیا بتاتا۔ دونوں مجبوری کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے۔ ولی محمد دل کے ہاتھوں' جب کہ عبدالرحمن اسٹیٹس کے ہاتھوں مجبور تھا۔ وہ کسی کو کیا بتاتا کہ اس کا باپ ایک قلی ہے۔ وہ بھی تو قلی کے لباس میں منہ اٹھا کر چلا آیا تھا۔ ولی محمد نے اس واقعے کا ذکر اپنی بیوی سے بھی نہ کیا' وہ بچاری خواہ مخواہ دکھی ہو گی۔ ہاجراں نے ہر مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیا تھا۔

موت اٹل حقیقت ہے۔ یہ ہر کسی کو' اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ولی محمد کے وعدے پورے ہو گیے اور وہ چل بسا۔ اس دن عبدالرحمن کے گھر دعوت تھی' جو ملتوی نہ کی جا سکتی تھی۔ ولی محمد اگرچہ کئی ہفتوں سے بیمار چلا آتا تھا۔ وہ گاہے بہ گاہے اس کا پتا کرواتا رہتا تھا۔ موت کی خبر بالکل اچانک ملی تھی۔ سارا انتظام ہو چکا تھا' اس لیے وہ اس کی آخری رسومات میں شامل نہ ہو سکا۔ ماں جس دن مری' اس دن ان کے گھر ناہید کی سال گرہ منائی جا رہی تھی۔ مہمانوں سے گھر بھرا پڑا تھا۔ وہ مہمانوں کو' جو شہر کے معززین تھے' چھوڑ کر ماں کے جنازے میں کس طرح شامل ہو سکتا تھا۔

اس نے سوچا وہ کتنے خوش نصیب تھے' کہ اس خوش فہمی کے ساتھ مرے کہ اگر ان کا بڑا بیٹا پاس ہوتا' تو کتنا دکھی ہوتا۔ دھاڑیں مار مار کر روتا۔ اس کے بچے قریب ہوتے ہوئے' صدیوں کے فاصلے پر کھڑے' اس کی موت کے لمحوں میں گرفتار بےبسی کا تماشا کر رہے تھے۔ سب کچھ واضح اور دو ٹوک تھا' کسی قسم کی غلط فہمی یا خوش فہمی کا شائبہ تک نہ تھا۔

اس نے سوچا' زندگی جب دو لمحوں کی ہے' تو لذت کے لمحے کس شمار میں آتے ہیں۔ شراب کا نشہ ہو' کہ سیٹ کا' آخر اتر ہی جاتا ہے۔ ہوٹل میں بےگانی جیب سے کھانے کی لذت' کھاتے رہنے کے دورانیے تک محدود ہوتی ہے' اس کے بعد منہ میں محض تشنگی باقی رہتی ہے۔ عورتیہ ذائقہ' اپنے اسٹیمنے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور اسٹیمنہ لامحدود نہیں' محدود کےمبہم لمحے کی گرفت میں ہوتا ہے۔ فراغت سے پہلے' وہ ایک دوسرے کے کوئی بھی نہیں ہوتے' فراغت کے بعد بھی' وہ ایک دوسرے کے کچھ نہیں ہوتے۔ کوئی دیکھے یا نادیکھے غلط تو ہوا ہوتا ہے۔

مبہم لمحوں کی لذت آدمی کو کتنا ذلیل کرتی ہے۔ اس کا سارا بوجھ آدمی کے اپنے کندھوں پر ہوتا ہے۔ چلتے سمے' اپنے بھی اپنے نہیں ہوتے۔ ان کے لیے کیے کا بوجھ بھی' جانے والے کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ بھولے سے بھی وہ' اس بوجھ کے ساجی نہیں بنتے۔ وہ کلین ہینڈ ہی رہتے ہیں۔ وہ فقط اپنے کیے کے' ذمہ دار ہوتے ہیں۔

سوچوں کا دائرہ پھیل ہی رہا تھا' کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا' پھر سانس رکتی محسوس ہوئی۔ سوچ کے لمحے بھی لامحدود نہیں ہوتے۔ موت کے ایک ہی جھٹکے سے' سب کچھ بکھر جاتا ہے۔ کچھ باقی نہیں رہتا۔اب وہاں کچھ بھی نہیں تھا' بابو عبدالرحمن تو جا چکا تھا' ہاں چارپائی پر بےکار اور معنویت سے معذور مٹی کا ڈھیر پڑا تھا۔

لایعنیت کا سوگ' آخر کوئی کیوں مناتا۔
 

shehr-e-tanhayi

Super Magic Jori
Administrator
Jul 20, 2015
39,699
11,682
1,313
Bahot Acha Likha Hai Aap Ne........
Khush Rahiay

Issay parhtay parhtay aik sher zehn mein ghoomne laga

Zindagi jis ka bara naam suna jaata hai
Ek kamzor si hitchki k siwa kuch bhi nahi
 
Top