ماں باپ کے بغیر عذاب ہے زندگی

  • Work-from-home

ROHAAN

TM Star
Aug 14, 2016
1,795
929
613
ماں باپ کے بغیر عذاب ہے زندگی

والدین کے حقوق و احترام کو نظرانداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کے مرکزی ستون کو ڈھادیا جس کے بعد اس کے کھڑے رہنے اور کش مکش حیات میں ثابت قدم رہنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ کسی معاشرے میں اگر والدین کے حقوق ادا نہ کیے جائیں، ان کا ادب و احترام ختم ہوجائے تو نتیجتاً نئی نسل والدین کی رہنمائی و سرپرستی سے محروم ہوجاتی ہے۔ اسلام نے والدین کی عزت و تعظیم ادب و احترام اور خدمت و خاطر کو دین داری قرار دے کر اولاد کو ان کے اہتمام کا حکم دیا ہے تاکہ انسانی معاشرہ خلفشار کا شکار نہ ہو۔ افسوس کہ آج ہر طرف ماں باپ کے ساتھ اولاد کا سلوک ناقابل برداشت حد تک تجاوز کرچکا ہے۔ والدین بوڑھے اور کمزور ہوجائیں تو انہیں اس قدر تکلیف دی جارہی ہے کہ وہ لوگ بیماری سے کمزور نہیں بلکہ اولاد کے رویہ سے مایوس ہونے لگے۔ نئی نسل میں اکثر یہ رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ماں باپ کی دوائوں کا کاغذ گم ہوجاتا ہے لیکن اولاد ماں باپ کے وصیت کے کاغذات بہت اچھی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کے ماں باپ کی دعائیں وقت کو کیا نصیب کو بھی بدل دیتی ہیں۔ ایک ماں نے اپنے بیٹے سے کہا۔ بیٹا اگر میری آنکھیں خراب ہوجائیں تو تم کیا کرو گے؟ بیٹا میں تمہیں شہر لے جائوں گا وہاں علاج کروائوں گا ماں ۔ اگر پھر بھی ٹھیک نہ ہوئیں تو؟ بیٹا میں پیسے خرچ کروںگا اور بیرون ملک علاج کرائونگا۔ ماں ہنس پڑی۔ بیٹا پوچھا ماں اگر میری آنکھیں خراب ہوجائے تو تم کیا کرو گی؟ ماں میرے لال میں تجھے اپنی آنکھیں دے دوں گی۔ یہ ہوتی ہے ماں زندگی میں دو لوگوں کا بہت خیال رکھنا پہلا وہ جس نے تمہاری جیت کے لیے سب کچھ ہار دیا یعنی تمہارا باپ۔ دوسرا وہ جس کی دعائوں سے تم نے سب کچھ جیت لیا یعنی تمہاری ماں۔ ایک شاعر نے خون جگر سے ماں کی ممتا پر اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا۔

غلافِ خانۂ کعبہ کبھی جز دان لگتا ہے
دوپٹہ ماں کے سرپر سورہ رحمن لگتا ہے
بہاریں دین و دنیا کی اسی آنچل سے لپٹی ہے
نہ ہو گھر میں قدم ماں کا تو گھر ویران لگتا ہے
اسلامی تاریخ کا واقعہ جسے عام تعلیمیافتہ جانتا ہے موسیٰ علیہ السلام ماں کو جب دفن کرکے آرہے تھے تو آواز قدرت آئی موسیٰ تمہارے حق میں دعا کرنے والے ہاتھ اب نہیں رہے۔ یقینا ماں کی دعا موت کے علاوہ ہر مصیبت کو ٹال سکتی ہے۔ ہر علاقہ میں ماں باپ پر ظلم ڈھانے کے دل دہلانے والے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ماں جو تمہارے بوجھ کو اپنے شکم میں اتنے دنوں تک اٹھایا جس کو کوئی دوسرا نہیں اٹھاسکتا تھا۔ اس نے تم کو اپنا خون دل پلایا اور اپنی غدا دی جس کو دنیا کا کوئی انسان نہیں دے سکتا اور یہ وہی باپ ہے جو اصل ہے جو بنیاد ہے ہم اس کی شاخیں ہیں اگر جڑ نہ ہو تو شاخوں کا وجود نہیں ہوسکتا۔ ذرا غور کرو کہ تمہیں بخار آجائے تو ماں کی کیفیت کا اندازہ لگائو کہ وہ رات رات جاگ کر تمہارے لیے دوائوں کے ساتھ ساتھ دعائیں گڑگڑاکر مانگتی ہے۔ جب اولاد نگاہیں پھیرلے تو اس کی کیا کیفیت ہوگی ان اشعار میں ایسی نافرمان اولاد کے لیے ایک نصیحت ہے۔
محبت تکتے رہتی ہے بھروسہ ٹوٹ جاتا ہے
ذرا سی چوٹ لگ جائے تو شیشہ ٹوٹ جاتا ہے
بہت نازک سا ہوتا ہے آبگینہ ماں کے سینہ میں
نگاہیں پھیر لے بیٹا کلیجہ ٹوٹ جاتا ہے
یاد رکھو تمہارے والدین تمہیں بچپن میں شہزادوں کی طرح پالتے ہیں لہٰذا تمہارا یہ فرض بنتا ہے کہ ان کے بڑھاپے میں ان کو بادشاہوں کی طرح رکھو یہی اسلام بھی کہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر ماں باپ کو اپنی اولاد سے تکلیف ہورہی ہے افسوس ہے کہ نئی نسل میں یہ رجحان بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اولاد آج ایسی بھی ہے کہ

میں والدین کی خوش ہو کہ خدمت روز کرتا ہوں
ان معصوم چہروں کی تلاوت روز کرتا ہوں
تمنا بھی نہیں فردوس کی آنکھوں کو اب میرے
اسی دنیا میں میں دیدار جنت روز کرتا ہوں
آج کل ماں باپ عمر سے نہیں فکر سے بوڑھے ہونے لگے ہیں کیوں کہ ماں باپ کی آنکھ میں دوبار ہی آنسو آتے ہیں جب بیٹی گھر چھوڑے اور جب لڑکا منہ موڑے۔ شاید فیاض قدرت نے شادی کے بعد بھی ماں باپ کو ساتھ رکھنے کا حق بیٹی کو دیا ہوتا تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی کہ اس دنیا میں کوئی ایک بھی بیت المعمرین تعمیر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ سب جانتے ہوئے کہ ماں کے پائوں تلے جنت ہے لیکن یاد رکھو باپ کی ناراضگی تمہیں جہنم میں نہ پہنچادے کیوں کہ باپ وہ عظیم ہستی ہے جس کے پسینے کی ایک بوند کی قیمت بھی اولاد ادا نہیں کرسکتا جن کے ماں باپ نہیں ہیں ان سے ان کے احساس کے بارے میں پوچھو بلکہ رات دن ماں کی خدمت کرنے والی اولاد کے تاثرات سے سبق لو۔

بخار آجائے تو اس کی تپش اسے کم کرتی
میری تکلیف کو وہ اپنے کھاتہ میں رقم کرتی
قسم اللہ کی مجھ کو بلائیں چھو نہیں سکتی
میری ماں چاروں قل پڑھ کر میرے سینہ پر دم کرتی
آج سماج میں کچھ کم ظرف اپنے معیار کو سوسائٹی میں اونچا دکھانے کے لیے باپ کو باپ کہنے سے بھی کترا رہے ہیں۔ ایسے ایسے واقعات ان آنکھوں نے دیکھے ہیں کہ اولاد کی خاطر اپنی جوانی میں سخت سے سخت محنت کرتے ہوئے اپنی اولاد کو تعلیمیافتہ بنانے والے باپ کو اس لیے بھیک مانگا دیکھا جارہا ہے کہ باپ اب نابینا ہوگیا اس کو بیت المعمرین منتقل کردو۔ ایسی ذہنیت کے حامل افراد ہر علاقہ میں مل جائیں گے تہذیب صحافت میں کسی کی رسوائی یا شخصیت پر قلمبند کرنے کی اجازت ہوتی تو خدا کی قسم راقم الحروف اولاد کی نافرمانی اور خاندان کے ہر فرد کا نام سپرد قلم کردیتا لیکن میرا یقین ہے کہ اس تحریر سے ہر وہ شخص جس کی طرف میرا اشارہ ہے جان جائے گا کہ والدین کے ساتھ اس طرح کا طرز عمل رکھنے والی نسل بھی تعلقہ جات میں موجود ہے۔ باپ نے تمہیں انگلی پکڑکر چلنا سکھایا کبھی تم سے کچھ نہیں مانگا اگر بچپن میں ہی کسی ہوٹل میں جھوٹے برتن صاف کرنے کے کام پر لگادیتا تو سونچو کے تمہارا مستقبل کیا ہوتا۔ باپ ایسی عظیم ہستی ہے۔
کوئی چاہت کوئی عزت کوئی شہرت نہیں مانگی
سوا اولاد کے اللہ سے دولت نہیں مانگی
وہ میرا باپ ہے جس نے لٹادی زندگی مجھ پر
کبھی غصہ میں بھی احسان کی قیمت نہیں مانگی
باپ ایک ایسی کتاب ہے جس پر بہت سے تجربات تحریر ہوتے ہیں جو زندگی گزارنے میں رہنمائی کرتے ہیں۔ اس لیے انہیں اپنے سے کبھی دور مت رکھو کیوں کہ جب ماں باپ کے لیے اولاد دعا کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اس کا رزق روک دیا جاتا ہے۔ اپنے ضمیر کو جھنجوڑکر اکیلے میں غور سے سوچو کہ جب تمہیں بولنا نہیں آتا تھا تو ہماری ماں بولے بغیر سمجھ جاتی تھی اور آج ہم ہر بات پر کہتے ہیں چھورو ماں آپ نہیں سمجھوگی یاد رکھو باپ سے عزت اور ماں سے آرام ملتا ہے اس لیے کہ ماں کی خدمت سے جنت تو مل جاتی ہے مگر جنت کا دروازہ اس وقت کھلتا ہے جب باپ کی عزت کی جائے۔ دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب بھی اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا چاہئے یاد رکھو جس ہاتھ کو تھام کر تم اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہو اس ہاتھ پر جھریاں آجانے کے بعد اسے چھوڑ مت دینا ورنہ تاریخ تمہارے ساتھ بھی تمہاری اولاد دہراسکتی ہے۔ اس لیے کہ باپ کو ایک ذمہ دار ڈرائیور بھی کہا جاتا ہے جو گھر کی گاڑی کو اپنے خون پسینے سے چلاتا ہے۔ باپ ایک مقدس محافظ بھی ہے جو سارے خاندان کی نگرانی کرتا ہے۔ اپنے باپ کا حکم مانو تاکہ خوشحالی ہو۔ یاد رکھو کبھی باپ کے آنسو تمہارے دکھ سے نہ گریں ورنہ رب تمہیں جنت سے گرادے گا۔

اگر دنیا آنکھ ہے تو ماں اس کی بینائی ہے دنیا پھول ہے تو ماں اس کی خوشبو ہے۔ سخت سے سخت دل کو بھی ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاتا ہے بغیر لالچ کے اگر پیار ملتا ہے تو صرف ماں سے ماں کے بغیر گھر قبرستان کی مانند ہے۔
یاد رکھو سسکی سے شروع ہوکر ہچکی پہ ختم ہونے والے مختصر سفر کو زندگی کہتے ہیں اس مختصر سفر میں اپنے والدین کو دکھ نہ دو
عنوان ہے محبت اور کتاب ہے زندگی
ماں باپ کے بغیر عذاب ہے زندگی
 

Mahen

Alhamdulillah
VIP
Jun 9, 2012
21,845
16,877
1,313
laнore
ماں باپ کے بغیر عذاب ہے زندگی

والدین کے حقوق و احترام کو نظرانداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کے مرکزی ستون کو ڈھادیا جس کے بعد اس کے کھڑے رہنے اور کش مکش حیات میں ثابت قدم رہنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ کسی معاشرے میں اگر والدین کے حقوق ادا نہ کیے جائیں، ان کا ادب و احترام ختم ہوجائے تو نتیجتاً نئی نسل والدین کی رہنمائی و سرپرستی سے محروم ہوجاتی ہے۔ اسلام نے والدین کی عزت و تعظیم ادب و احترام اور خدمت و خاطر کو دین داری قرار دے کر اولاد کو ان کے اہتمام کا حکم دیا ہے تاکہ انسانی معاشرہ خلفشار کا شکار نہ ہو۔ افسوس کہ آج ہر طرف ماں باپ کے ساتھ اولاد کا سلوک ناقابل برداشت حد تک تجاوز کرچکا ہے۔ والدین بوڑھے اور کمزور ہوجائیں تو انہیں اس قدر تکلیف دی جارہی ہے کہ وہ لوگ بیماری سے کمزور نہیں بلکہ اولاد کے رویہ سے مایوس ہونے لگے۔ نئی نسل میں اکثر یہ رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ماں باپ کی دوائوں کا کاغذ گم ہوجاتا ہے لیکن اولاد ماں باپ کے وصیت کے کاغذات بہت اچھی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کے ماں باپ کی دعائیں وقت کو کیا نصیب کو بھی بدل دیتی ہیں۔ ایک ماں نے اپنے بیٹے سے کہا۔ بیٹا اگر میری آنکھیں خراب ہوجائیں تو تم کیا کرو گے؟ بیٹا میں تمہیں شہر لے جائوں گا وہاں علاج کروائوں گا ماں ۔ اگر پھر بھی ٹھیک نہ ہوئیں تو؟ بیٹا میں پیسے خرچ کروںگا اور بیرون ملک علاج کرائونگا۔ ماں ہنس پڑی۔ بیٹا پوچھا ماں اگر میری آنکھیں خراب ہوجائے تو تم کیا کرو گی؟ ماں میرے لال میں تجھے اپنی آنکھیں دے دوں گی۔ یہ ہوتی ہے ماں زندگی میں دو لوگوں کا بہت خیال رکھنا پہلا وہ جس نے تمہاری جیت کے لیے سب کچھ ہار دیا یعنی تمہارا باپ۔ دوسرا وہ جس کی دعائوں سے تم نے سب کچھ جیت لیا یعنی تمہاری ماں۔ ایک شاعر نے خون جگر سے ماں کی ممتا پر اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا۔

غلافِ خانۂ کعبہ کبھی جز دان لگتا ہے
دوپٹہ ماں کے سرپر سورہ رحمن لگتا ہے
بہاریں دین و دنیا کی اسی آنچل سے لپٹی ہے
نہ ہو گھر میں قدم ماں کا تو گھر ویران لگتا ہے
اسلامی تاریخ کا واقعہ جسے عام تعلیمیافتہ جانتا ہے موسیٰ علیہ السلام ماں کو جب دفن کرکے آرہے تھے تو آواز قدرت آئی موسیٰ تمہارے حق میں دعا کرنے والے ہاتھ اب نہیں رہے۔ یقینا ماں کی دعا موت کے علاوہ ہر مصیبت کو ٹال سکتی ہے۔ ہر علاقہ میں ماں باپ پر ظلم ڈھانے کے دل دہلانے والے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ماں جو تمہارے بوجھ کو اپنے شکم میں اتنے دنوں تک اٹھایا جس کو کوئی دوسرا نہیں اٹھاسکتا تھا۔ اس نے تم کو اپنا خون دل پلایا اور اپنی غدا دی جس کو دنیا کا کوئی انسان نہیں دے سکتا اور یہ وہی باپ ہے جو اصل ہے جو بنیاد ہے ہم اس کی شاخیں ہیں اگر جڑ نہ ہو تو شاخوں کا وجود نہیں ہوسکتا۔ ذرا غور کرو کہ تمہیں بخار آجائے تو ماں کی کیفیت کا اندازہ لگائو کہ وہ رات رات جاگ کر تمہارے لیے دوائوں کے ساتھ ساتھ دعائیں گڑگڑاکر مانگتی ہے۔ جب اولاد نگاہیں پھیرلے تو اس کی کیا کیفیت ہوگی ان اشعار میں ایسی نافرمان اولاد کے لیے ایک نصیحت ہے۔
محبت تکتے رہتی ہے بھروسہ ٹوٹ جاتا ہے
ذرا سی چوٹ لگ جائے تو شیشہ ٹوٹ جاتا ہے
بہت نازک سا ہوتا ہے آبگینہ ماں کے سینہ میں
نگاہیں پھیر لے بیٹا کلیجہ ٹوٹ جاتا ہے
یاد رکھو تمہارے والدین تمہیں بچپن میں شہزادوں کی طرح پالتے ہیں لہٰذا تمہارا یہ فرض بنتا ہے کہ ان کے بڑھاپے میں ان کو بادشاہوں کی طرح رکھو یہی اسلام بھی کہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر ماں باپ کو اپنی اولاد سے تکلیف ہورہی ہے افسوس ہے کہ نئی نسل میں یہ رجحان بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اولاد آج ایسی بھی ہے کہ

میں والدین کی خوش ہو کہ خدمت روز کرتا ہوں
ان معصوم چہروں کی تلاوت روز کرتا ہوں
تمنا بھی نہیں فردوس کی آنکھوں کو اب میرے
اسی دنیا میں میں دیدار جنت روز کرتا ہوں
آج کل ماں باپ عمر سے نہیں فکر سے بوڑھے ہونے لگے ہیں کیوں کہ ماں باپ کی آنکھ میں دوبار ہی آنسو آتے ہیں جب بیٹی گھر چھوڑے اور جب لڑکا منہ موڑے۔ شاید فیاض قدرت نے شادی کے بعد بھی ماں باپ کو ساتھ رکھنے کا حق بیٹی کو دیا ہوتا تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی کہ اس دنیا میں کوئی ایک بھی بیت المعمرین تعمیر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ سب جانتے ہوئے کہ ماں کے پائوں تلے جنت ہے لیکن یاد رکھو باپ کی ناراضگی تمہیں جہنم میں نہ پہنچادے کیوں کہ باپ وہ عظیم ہستی ہے جس کے پسینے کی ایک بوند کی قیمت بھی اولاد ادا نہیں کرسکتا جن کے ماں باپ نہیں ہیں ان سے ان کے احساس کے بارے میں پوچھو بلکہ رات دن ماں کی خدمت کرنے والی اولاد کے تاثرات سے سبق لو۔

بخار آجائے تو اس کی تپش اسے کم کرتی
میری تکلیف کو وہ اپنے کھاتہ میں رقم کرتی
قسم اللہ کی مجھ کو بلائیں چھو نہیں سکتی
میری ماں چاروں قل پڑھ کر میرے سینہ پر دم کرتی
آج سماج میں کچھ کم ظرف اپنے معیار کو سوسائٹی میں اونچا دکھانے کے لیے باپ کو باپ کہنے سے بھی کترا رہے ہیں۔ ایسے ایسے واقعات ان آنکھوں نے دیکھے ہیں کہ اولاد کی خاطر اپنی جوانی میں سخت سے سخت محنت کرتے ہوئے اپنی اولاد کو تعلیمیافتہ بنانے والے باپ کو اس لیے بھیک مانگا دیکھا جارہا ہے کہ باپ اب نابینا ہوگیا اس کو بیت المعمرین منتقل کردو۔ ایسی ذہنیت کے حامل افراد ہر علاقہ میں مل جائیں گے تہذیب صحافت میں کسی کی رسوائی یا شخصیت پر قلمبند کرنے کی اجازت ہوتی تو خدا کی قسم راقم الحروف اولاد کی نافرمانی اور خاندان کے ہر فرد کا نام سپرد قلم کردیتا لیکن میرا یقین ہے کہ اس تحریر سے ہر وہ شخص جس کی طرف میرا اشارہ ہے جان جائے گا کہ والدین کے ساتھ اس طرح کا طرز عمل رکھنے والی نسل بھی تعلقہ جات میں موجود ہے۔ باپ نے تمہیں انگلی پکڑکر چلنا سکھایا کبھی تم سے کچھ نہیں مانگا اگر بچپن میں ہی کسی ہوٹل میں جھوٹے برتن صاف کرنے کے کام پر لگادیتا تو سونچو کے تمہارا مستقبل کیا ہوتا۔ باپ ایسی عظیم ہستی ہے۔
کوئی چاہت کوئی عزت کوئی شہرت نہیں مانگی
سوا اولاد کے اللہ سے دولت نہیں مانگی
وہ میرا باپ ہے جس نے لٹادی زندگی مجھ پر
کبھی غصہ میں بھی احسان کی قیمت نہیں مانگی
باپ ایک ایسی کتاب ہے جس پر بہت سے تجربات تحریر ہوتے ہیں جو زندگی گزارنے میں رہنمائی کرتے ہیں۔ اس لیے انہیں اپنے سے کبھی دور مت رکھو کیوں کہ جب ماں باپ کے لیے اولاد دعا کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اس کا رزق روک دیا جاتا ہے۔ اپنے ضمیر کو جھنجوڑکر اکیلے میں غور سے سوچو کہ جب تمہیں بولنا نہیں آتا تھا تو ہماری ماں بولے بغیر سمجھ جاتی تھی اور آج ہم ہر بات پر کہتے ہیں چھورو ماں آپ نہیں سمجھوگی یاد رکھو باپ سے عزت اور ماں سے آرام ملتا ہے اس لیے کہ ماں کی خدمت سے جنت تو مل جاتی ہے مگر جنت کا دروازہ اس وقت کھلتا ہے جب باپ کی عزت کی جائے۔ دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب بھی اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا چاہئے یاد رکھو جس ہاتھ کو تھام کر تم اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہو اس ہاتھ پر جھریاں آجانے کے بعد اسے چھوڑ مت دینا ورنہ تاریخ تمہارے ساتھ بھی تمہاری اولاد دہراسکتی ہے۔ اس لیے کہ باپ کو ایک ذمہ دار ڈرائیور بھی کہا جاتا ہے جو گھر کی گاڑی کو اپنے خون پسینے سے چلاتا ہے۔ باپ ایک مقدس محافظ بھی ہے جو سارے خاندان کی نگرانی کرتا ہے۔ اپنے باپ کا حکم مانو تاکہ خوشحالی ہو۔ یاد رکھو کبھی باپ کے آنسو تمہارے دکھ سے نہ گریں ورنہ رب تمہیں جنت سے گرادے گا۔

اگر دنیا آنکھ ہے تو ماں اس کی بینائی ہے دنیا پھول ہے تو ماں اس کی خوشبو ہے۔ سخت سے سخت دل کو بھی ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاتا ہے بغیر لالچ کے اگر پیار ملتا ہے تو صرف ماں سے ماں کے بغیر گھر قبرستان کی مانند ہے۔
یاد رکھو سسکی سے شروع ہوکر ہچکی پہ ختم ہونے والے مختصر سفر کو زندگی کہتے ہیں اس مختصر سفر میں اپنے والدین کو دکھ نہ دو
عنوان ہے محبت اور کتاب ہے زندگی
ماں باپ کے بغیر عذاب ہے زندگی
Heart touching sharing :x :*

غلافِ خانۂ کعبہ کبھی جز دان لگتا ہے
دوپٹہ ماں کے سرپر سورہ رحمن لگتا ہے
بہاریں دین و دنیا کی اسی آنچل سے لپٹی ہے
نہ ہو گھر میں قدم ماں کا تو گھر ویران لگتا ہے

Nice one :-bd

عنوان ہے محبت اور کتاب ہے زندگی
ماں باپ کے بغیر عذاب ہے زندگی

Bilkul sahi kaha... koi nahi phouchta maa baap k bagir :sorry
miss you baba jani... :(
 

Shiraz-Khan

Super Magic Jori
Hot Shot
Oct 27, 2012
18,264
15,551
1,313
ماں باپ کے بغیر عذاب ہے زندگی

والدین کے حقوق و احترام کو نظرانداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کے مرکزی ستون کو ڈھادیا جس کے بعد اس کے کھڑے رہنے اور کش مکش حیات میں ثابت قدم رہنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ کسی معاشرے میں اگر والدین کے حقوق ادا نہ کیے جائیں، ان کا ادب و احترام ختم ہوجائے تو نتیجتاً نئی نسل والدین کی رہنمائی و سرپرستی سے محروم ہوجاتی ہے۔ اسلام نے والدین کی عزت و تعظیم ادب و احترام اور خدمت و خاطر کو دین داری قرار دے کر اولاد کو ان کے اہتمام کا حکم دیا ہے تاکہ انسانی معاشرہ خلفشار کا شکار نہ ہو۔ افسوس کہ آج ہر طرف ماں باپ کے ساتھ اولاد کا سلوک ناقابل برداشت حد تک تجاوز کرچکا ہے۔ والدین بوڑھے اور کمزور ہوجائیں تو انہیں اس قدر تکلیف دی جارہی ہے کہ وہ لوگ بیماری سے کمزور نہیں بلکہ اولاد کے رویہ سے مایوس ہونے لگے۔ نئی نسل میں اکثر یہ رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ماں باپ کی دوائوں کا کاغذ گم ہوجاتا ہے لیکن اولاد ماں باپ کے وصیت کے کاغذات بہت اچھی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کے ماں باپ کی دعائیں وقت کو کیا نصیب کو بھی بدل دیتی ہیں۔ ایک ماں نے اپنے بیٹے سے کہا۔ بیٹا اگر میری آنکھیں خراب ہوجائیں تو تم کیا کرو گے؟ بیٹا میں تمہیں شہر لے جائوں گا وہاں علاج کروائوں گا ماں ۔ اگر پھر بھی ٹھیک نہ ہوئیں تو؟ بیٹا میں پیسے خرچ کروںگا اور بیرون ملک علاج کرائونگا۔ ماں ہنس پڑی۔ بیٹا پوچھا ماں اگر میری آنکھیں خراب ہوجائے تو تم کیا کرو گی؟ ماں میرے لال میں تجھے اپنی آنکھیں دے دوں گی۔ یہ ہوتی ہے ماں زندگی میں دو لوگوں کا بہت خیال رکھنا پہلا وہ جس نے تمہاری جیت کے لیے سب کچھ ہار دیا یعنی تمہارا باپ۔ دوسرا وہ جس کی دعائوں سے تم نے سب کچھ جیت لیا یعنی تمہاری ماں۔ ایک شاعر نے خون جگر سے ماں کی ممتا پر اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا۔

غلافِ خانۂ کعبہ کبھی جز دان لگتا ہے
دوپٹہ ماں کے سرپر سورہ رحمن لگتا ہے
بہاریں دین و دنیا کی اسی آنچل سے لپٹی ہے
نہ ہو گھر میں قدم ماں کا تو گھر ویران لگتا ہے
اسلامی تاریخ کا واقعہ جسے عام تعلیمیافتہ جانتا ہے موسیٰ علیہ السلام ماں کو جب دفن کرکے آرہے تھے تو آواز قدرت آئی موسیٰ تمہارے حق میں دعا کرنے والے ہاتھ اب نہیں رہے۔ یقینا ماں کی دعا موت کے علاوہ ہر مصیبت کو ٹال سکتی ہے۔ ہر علاقہ میں ماں باپ پر ظلم ڈھانے کے دل دہلانے والے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ماں جو تمہارے بوجھ کو اپنے شکم میں اتنے دنوں تک اٹھایا جس کو کوئی دوسرا نہیں اٹھاسکتا تھا۔ اس نے تم کو اپنا خون دل پلایا اور اپنی غدا دی جس کو دنیا کا کوئی انسان نہیں دے سکتا اور یہ وہی باپ ہے جو اصل ہے جو بنیاد ہے ہم اس کی شاخیں ہیں اگر جڑ نہ ہو تو شاخوں کا وجود نہیں ہوسکتا۔ ذرا غور کرو کہ تمہیں بخار آجائے تو ماں کی کیفیت کا اندازہ لگائو کہ وہ رات رات جاگ کر تمہارے لیے دوائوں کے ساتھ ساتھ دعائیں گڑگڑاکر مانگتی ہے۔ جب اولاد نگاہیں پھیرلے تو اس کی کیا کیفیت ہوگی ان اشعار میں ایسی نافرمان اولاد کے لیے ایک نصیحت ہے۔
محبت تکتے رہتی ہے بھروسہ ٹوٹ جاتا ہے
ذرا سی چوٹ لگ جائے تو شیشہ ٹوٹ جاتا ہے
بہت نازک سا ہوتا ہے آبگینہ ماں کے سینہ میں
نگاہیں پھیر لے بیٹا کلیجہ ٹوٹ جاتا ہے
یاد رکھو تمہارے والدین تمہیں بچپن میں شہزادوں کی طرح پالتے ہیں لہٰذا تمہارا یہ فرض بنتا ہے کہ ان کے بڑھاپے میں ان کو بادشاہوں کی طرح رکھو یہی اسلام بھی کہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر ماں باپ کو اپنی اولاد سے تکلیف ہورہی ہے افسوس ہے کہ نئی نسل میں یہ رجحان بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اولاد آج ایسی بھی ہے کہ

میں والدین کی خوش ہو کہ خدمت روز کرتا ہوں
ان معصوم چہروں کی تلاوت روز کرتا ہوں
تمنا بھی نہیں فردوس کی آنکھوں کو اب میرے
اسی دنیا میں میں دیدار جنت روز کرتا ہوں
آج کل ماں باپ عمر سے نہیں فکر سے بوڑھے ہونے لگے ہیں کیوں کہ ماں باپ کی آنکھ میں دوبار ہی آنسو آتے ہیں جب بیٹی گھر چھوڑے اور جب لڑکا منہ موڑے۔ شاید فیاض قدرت نے شادی کے بعد بھی ماں باپ کو ساتھ رکھنے کا حق بیٹی کو دیا ہوتا تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی کہ اس دنیا میں کوئی ایک بھی بیت المعمرین تعمیر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ سب جانتے ہوئے کہ ماں کے پائوں تلے جنت ہے لیکن یاد رکھو باپ کی ناراضگی تمہیں جہنم میں نہ پہنچادے کیوں کہ باپ وہ عظیم ہستی ہے جس کے پسینے کی ایک بوند کی قیمت بھی اولاد ادا نہیں کرسکتا جن کے ماں باپ نہیں ہیں ان سے ان کے احساس کے بارے میں پوچھو بلکہ رات دن ماں کی خدمت کرنے والی اولاد کے تاثرات سے سبق لو۔

بخار آجائے تو اس کی تپش اسے کم کرتی
میری تکلیف کو وہ اپنے کھاتہ میں رقم کرتی
قسم اللہ کی مجھ کو بلائیں چھو نہیں سکتی
میری ماں چاروں قل پڑھ کر میرے سینہ پر دم کرتی
آج سماج میں کچھ کم ظرف اپنے معیار کو سوسائٹی میں اونچا دکھانے کے لیے باپ کو باپ کہنے سے بھی کترا رہے ہیں۔ ایسے ایسے واقعات ان آنکھوں نے دیکھے ہیں کہ اولاد کی خاطر اپنی جوانی میں سخت سے سخت محنت کرتے ہوئے اپنی اولاد کو تعلیمیافتہ بنانے والے باپ کو اس لیے بھیک مانگا دیکھا جارہا ہے کہ باپ اب نابینا ہوگیا اس کو بیت المعمرین منتقل کردو۔ ایسی ذہنیت کے حامل افراد ہر علاقہ میں مل جائیں گے تہذیب صحافت میں کسی کی رسوائی یا شخصیت پر قلمبند کرنے کی اجازت ہوتی تو خدا کی قسم راقم الحروف اولاد کی نافرمانی اور خاندان کے ہر فرد کا نام سپرد قلم کردیتا لیکن میرا یقین ہے کہ اس تحریر سے ہر وہ شخص جس کی طرف میرا اشارہ ہے جان جائے گا کہ والدین کے ساتھ اس طرح کا طرز عمل رکھنے والی نسل بھی تعلقہ جات میں موجود ہے۔ باپ نے تمہیں انگلی پکڑکر چلنا سکھایا کبھی تم سے کچھ نہیں مانگا اگر بچپن میں ہی کسی ہوٹل میں جھوٹے برتن صاف کرنے کے کام پر لگادیتا تو سونچو کے تمہارا مستقبل کیا ہوتا۔ باپ ایسی عظیم ہستی ہے۔
کوئی چاہت کوئی عزت کوئی شہرت نہیں مانگی
سوا اولاد کے اللہ سے دولت نہیں مانگی
وہ میرا باپ ہے جس نے لٹادی زندگی مجھ پر
کبھی غصہ میں بھی احسان کی قیمت نہیں مانگی
باپ ایک ایسی کتاب ہے جس پر بہت سے تجربات تحریر ہوتے ہیں جو زندگی گزارنے میں رہنمائی کرتے ہیں۔ اس لیے انہیں اپنے سے کبھی دور مت رکھو کیوں کہ جب ماں باپ کے لیے اولاد دعا کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اس کا رزق روک دیا جاتا ہے۔ اپنے ضمیر کو جھنجوڑکر اکیلے میں غور سے سوچو کہ جب تمہیں بولنا نہیں آتا تھا تو ہماری ماں بولے بغیر سمجھ جاتی تھی اور آج ہم ہر بات پر کہتے ہیں چھورو ماں آپ نہیں سمجھوگی یاد رکھو باپ سے عزت اور ماں سے آرام ملتا ہے اس لیے کہ ماں کی خدمت سے جنت تو مل جاتی ہے مگر جنت کا دروازہ اس وقت کھلتا ہے جب باپ کی عزت کی جائے۔ دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب بھی اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا چاہئے یاد رکھو جس ہاتھ کو تھام کر تم اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہو اس ہاتھ پر جھریاں آجانے کے بعد اسے چھوڑ مت دینا ورنہ تاریخ تمہارے ساتھ بھی تمہاری اولاد دہراسکتی ہے۔ اس لیے کہ باپ کو ایک ذمہ دار ڈرائیور بھی کہا جاتا ہے جو گھر کی گاڑی کو اپنے خون پسینے سے چلاتا ہے۔ باپ ایک مقدس محافظ بھی ہے جو سارے خاندان کی نگرانی کرتا ہے۔ اپنے باپ کا حکم مانو تاکہ خوشحالی ہو۔ یاد رکھو کبھی باپ کے آنسو تمہارے دکھ سے نہ گریں ورنہ رب تمہیں جنت سے گرادے گا۔

اگر دنیا آنکھ ہے تو ماں اس کی بینائی ہے دنیا پھول ہے تو ماں اس کی خوشبو ہے۔ سخت سے سخت دل کو بھی ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاتا ہے بغیر لالچ کے اگر پیار ملتا ہے تو صرف ماں سے ماں کے بغیر گھر قبرستان کی مانند ہے۔
یاد رکھو سسکی سے شروع ہوکر ہچکی پہ ختم ہونے والے مختصر سفر کو زندگی کہتے ہیں اس مختصر سفر میں اپنے والدین کو دکھ نہ دو
عنوان ہے محبت اور کتاب ہے زندگی
ماں باپ کے بغیر عذاب ہے زندگی
beautiful sharing... (heart)
 

Seemab_khan

ღ ƮɨƮŁɨɨɨ ღ
Moderator
Dec 7, 2012
6,424
4,483
1,313
✮hმΓἶρυΓ, ρმκἶჰནმῆ✮
غلافِ خانۂ کعبہ کبھی جز دان لگتا ہے
دوپٹہ ماں کے سرپر سورہ رحمن لگتا ہے
بہاریں دین و دنیا کی اسی آنچل سے لپٹی ہے
نہ ہو گھر میں قدم ماں کا تو گھر ویران لگتا ہے

buht e zrdst sharing :)
 

shehr-e-tanhayi

Super Magic Jori
Administrator
Jul 20, 2015
39,699
11,682
1,313
Bahot khoobsorat sharing.

Maan aur baap... dono hi humari zindagi se ja chukay haiN lakin unka saaya mehsoos hota hai ab bhi. Bas nazaroN k samnay nahi hain.
 
Top