محمد بن بشار، عبدالوہاب، عبیداللہ، نافع،

  • Work-from-home

Sumi

TM Star
Sep 23, 2009
4,247
1,378
113
محمد بن بشار، عبدالوہاب، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ ابن زبیر کے فتنہ کے زمانہ میں دو آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں میں کیسا فتنہ و فساد برپا ہے حالانکہ آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور صحابی رسول اکرم ہیں آپ اس وقت کیوں نہیں اٹھتے اور اس فتنہ و فساد کو کیوں نہیں روکتے؟ میں نے کہا کہ میں اس لئے خاموش ہوں کہ اللہ نے مسلمان کا مسلمان کو خون کرنے سے منع فرمایا ہے، وہ کہنے لگے کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے میں نے کہا کہ یہ کام ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں کر چکے اور یہاں تک کیا کہ شرک و کفر کا فتنہ مٹ گیا اور خالص خدا کا دین رہ گیا۔ اب تم چاہتے ہو کہ لڑ کر فتنہ بڑھ جائے، عثمان بن صالح کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن وہب نے اس حدیث کو اس طرح بیان کیا ہے عبد اللہ بن لہیعہ، حیوۃ بن شریح، بکر بن عمرو، معافری، بکیر بن عبد اللہ، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے ابا عبدالرحمن! یہ آپ کو کیا ہوا کہ ایک سال حج کرتے ہو، ایک سال عمرہ کرتے ہو اور جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کر رکھا ہے، حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی بڑی فضیلت بیان کی ہے اور جہاد کرنے کی رغبت دلائی ہے آپ نے فرمایا: اے میرے بھائی! اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اول تو حید و رسالت کا اقرار، دوم نماز پنجگانہ، سوم رمضان کے روزے ،چہارم زکوۃ کا ادا کرنا، پنجم حج ، اس کے بعد اس آدمی نے کہا کہ کیا تم نے اللہ کا یہ حکم نہیں سنا کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑنے لگیں تو ان میں صلح کرادو۔ اور اگر کوئی گروہ نہ مانے اور دوسرے پر زیادتی کرے تو پھر اس سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک کہ وہ اللہ کا حکم ماننے لگے اور ان سے لڑو جب تک فتنہ ختم نہ ہوجائے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم زمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ کام کر چکے ہیں حالانکہ اس وقت مسلمان بہت قلیل اور کافر بہت زیادہ تھے یہ کافر مسلمانوں کو پریشان کرتے اور ان کے دین کو خراب کیا کرتے تھے آخر مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی، فتنہ ختم ہوگیا اس آدمی نے پھر کہا کہ اچھا یہ تو فرمایئے کہ علی رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا خیال رکھتے ہیں؟ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصور کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہے، مگر تم اب بھی ان کو برا کہتے ہوا ورحضرت علی رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد ہیں ان کا گھر تم یہ سامنے دیکھ رہے ہو ان کے لئے کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔

کتاب صحیح بخاری جلد 2 حدیث نمبر 1635
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top