مدینہ منورہ میں آفتابِ رسالت

  • Work-from-home

Sumi

TM Star
Sep 23, 2009
4,247
1,378
113
میں اسلام کیونکر پھیلا:

انصار گو بت پرست تھے مگر یہودیوں کے میل جول سے اتنا جانتے تھے کہ نبی آخرالزمان کا ظہور ہونے والا ہے۔ اور مدینہ کے یہودی اکثر انصار کے دونوں قبیلوں اوس و خزرج کو دھمکیاں بھی دیا کرتے تھے کہ نبی آخرالزمان کے ظہور کے وقت ہم ان کے لشکر میں شامل ہو کر تم بت پرستوں کو دنیا سے نیست و نابود کر ڈالیں گے۔ اس لئے نبی آخرالزمان کی تشریف آوری کا یہود اور انصار دونوں کو انتظار تھا۔
11 نبوی میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم معمول کے مطابق حج میں آنے والے قبائل کو دعوت اسلام دینے کے لئے منٰی کے میدان میں تشریف لے گئے اور قرآن مجید کی آیتیں سنا سنا کر لوگوں کے سامنے اسلام پیش فرمانے لگے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم منٰی میں عقبہ ( گھاٹی ) کے پاس جہاں آج “ مسجدالعقبہ “ ہے تشریف فرما تھے کہ قبیلہ خزرج کے چھ آدمی آپ کے پاس آگئے۔ آپ نے ان لوگوں سے ان کا نام و نسب پوچھا پھر قرآن کی چند آیتیں سنا کر ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جس سے یہ لوگ بے حد متاثر ہوئے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر واپسی میں یہ کہنے لگے کہ یہودی جس نبی آخرالزمان کی خوشبری دیتے رہے ہیں یقیناً وہ نبی یہی ہیں۔ لٰہذا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ہم سے پہلے اسلام کی دعوت قبول کر لیں یہ کہہ کر سب ایک ساتھ مسلمان ہو گئے اور مدینہ جاکر اپنے اہل خاندان اور رشتہ داروں کو بھی اسلام کی دعوت دی ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں۔ [- حضرت ابو الہثیم بن تیہان۔ 2- حضرت ابو امامہ اسعد بن زرارہ۔ 3- حضرت عوف بن حارث۔ 4- حضرت رافع بن مالک۔ 5- حضرت قطبہ بن عامر بن حدیدہ۔ 6- حضرت جابر بن عبداللہ بن ریاب ( رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین )
( مدارج النبوۃ ج2 ص 51 و زرقانی ج1ص310 )



بیعت عقبہ اولٰی :
دوسرے سال سن 12 نبوی میں حج کے موقع پر مدینہ کے بارہ اشخاص منٰی کی اسی گھاٹی میں چھپ کر مشرف بہ اسلام ہوئے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بیعت ہوئے تاریخ اسلام میں اس بیعت کا نام “ بیعت عقبہ اولٰی “ ہے۔
ساتھ ہی ان لوگوں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے یہ درخواست بھی کی کہ احکام اسلام کی تعلیم کے لئے کوئی معلم بھی ان لوگوں کے ساتھ کر دیا جائے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان لوگوں کے ساتھ مدینہ منورہ بھیج دیا۔ وہ مدینہ میں حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکان پر ٹھہرے اور انصار کے ایک ایک گھر میں جا جا کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگے اور روزانہ ایک دو نئے آدمی آغوش اسلام میں آنے لگے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ مدینہ سے قباء تک گھر گھر اسلام پھیل گیا۔
قبیلہ ء اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت ہی بہادر اور بااثر شخص تھے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب ان کے سامنے اسلامی کی دعوت پیش کی تو انہوں نے پہلے تو اسلام سے نفرت و بیزاری ظاہر کی مگر جب حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو قرآن مجید پڑھ کر سنایا تو ایک دم ان کا دل پسیج گیا اور اس قدر متاثر ہوئے کہ سعادت ایمان سے سرفراز ہو گئے۔ ان کے مسلمان ہوتے ہی ان کا قبیلہ “ اوس “ بھی دامن اسلام میں آ گیا۔
اسی سال بقدر مشہور ماہ رجب کی ستائیسویں رات کو
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
کو بحالت بیداری “ معراج جسمانی “ ہوئی اور اسی سفر معراج میں پانچ نمازیں فرض ہوئیں جس کا تفصیلی بیان انشاءاللہ عزوجل معجزات کے باب میں آئے گا۔



بیعت عقبہ ثانیہ:

اس کے ایک سال بعد سن
13 نبوی میں حج کے موقع پر مدینہ کے تقریباً بہتر اشخاص نے منٰی کی اس گھاٹی میں اپنے بت پرست ساتھیوں سے چھپ کر
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ اور یہ عہد کیا کہ ہم لوگ آپ کی اور اسلام کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کر دیں گے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی موجود تھے جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے مدینہ والوں سے کہا کہ دیکھو۔ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے خاندان بنی ہاشم میں ہر طرح محترم اور باعزت ہیں۔ ہم لوگوں نے دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو کر ہمیشہ ان کی حفاظت کی ہے۔ اب تم لوگ ان کو اپنے وطن میں لے جانے کے خواہشمند ہو۔ تو سن لو اگر مرتے دم تک تم لوگ ان کا ساتھ سے سکو تو بہتر یے ورنہ ابھی سے کنارہ کش ہو جاؤ! یہ سن کر حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ طیش میں آکر کہنے لگے کہ “ ہم لوگ تلواروں کی گود میں پلے ہیں “ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ حضرت ابوالہثیم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بات کاٹتے ہوئے یہ کہا کہ یارسول اللہ! ہم لوگوں کے یہودیوں سے پرانے تعلقات ہیں اب ظاہر ہے کہ ہمارے مسلمان ہو جانے کے بعد یہ تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ جب اللہ تعالٰی آپ کو غلبہ عطا فرمائے تو آپ ہم لوگوں کو چھوڑ کر اپنے وطن مکہ چلے جائیں ؟ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ تم لوگ اطمینان رکھو کہ “ تمہارا خون میرا خون ہے اور یقین کرو “ میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے میں تمہارا ہوں اور تم میرے ہو تمہارا دشمن میرا دشمن۔ اور تمہارا دوست میرا دوست ہے۔“ ( زرقانی علی المواہب ج1 ص 317 و سیرت ابن ہشام ج4 ص 441 تا 442 )
جب انصار یہ بیعت کر رہے تھے تو حضرت سعد بن زرارہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یا حضرت عباس بن نضلہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ میرے بھائیو! تمہیں یہ بھی خبر ہے ؟ کہ تم لوگ کس چیز پر بیعت کر رہے ہو ؟ خوب سمجھ لو کہ یہ عرب و عجم کے ساتھ اعلان جنگ ہے انصار نے طیش میں آکر نہایت ہی پرجوش لہجے میں کہا کہ ہاں۔ ہاں ہم لوگ اسی پر بیعت کر رہے ہیں! بیعت ہو جانے کے بعد آپ نے اس جماعت میں سے بارہ آدمیوں کو نقیب ( سردار ) مقرر فرمایا ان میں نو آدمی قبیلہ خزرج کے اور تین اشخاص قبیلہ اوس کے تھے جن کے مبارک نام یہ ہیں۔
1- ابو امامہ اسعد بن زرارہ۔ 2- سعد بن ربیع۔ 3- عبداللہ بن رواحہ۔ 4- رافع بن مالک۔ 5- براء بن معرور۔ 6- عبداللہ بن عمرو۔ 7- سعد بن عبادہ۔ 8- منذر بن عمر۔ 9- عبادہ بن ثابت۔ یہ نو آدمی قبیلہ خزرج کے ہیں۔ 10- اسید بن حضیر۔ 11- سعد بن خیثمہ۔ 12- ابو الہثیم بن تیہان یہ تین اشخاص قبیلہ اوس کے ہیں۔ ( رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین )
( زرقانی علی المواہب ج1ص 317 )
اس کے بعد یہ تمام حضرات اپنے اپنے ڈیروں پر چلے گئے۔ صبح کے وقت جب قریش کو اس کی اطلاع پہنچی۔ تو وہ آگ بگولا ہو گئے اور ان لوگوں نے ڈانٹ کر مدینہ والوں سے پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے ہمارے ساتھ جنگ کرنے پر محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) سے بیعت کی ہے ؟ انصار کے کچھ ساتھیوں نے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔ یہ سن کر قریش واپس چلے گئے۔ مگر جب تفشیش و تحقیات کے بعد کچھ انصار کی بیعت کا حال معلوم ہوا۔ تو قریش غیظ و غضب میں آپے سے باہر ہو گئے اور بیعت کرنے والوں کی گرفتاری کے لئے تعاقب کیا۔ مگر قریش حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا کسی اور کو نہیں پکڑ سکے۔ قریش حضرت دعس بن عبادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنے ساتھ مکہ لائے اور ان کو قید کر دیا۔ مگر جب جبیر بن مطعم، اور حارث بن حرب بن امیہ کو پتہ چلا تو ان دونوں نے قریش کو سمجھایا کہ خدا کے لئے سعد بن عبادہ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کو فوراً چھوڑ دو۔ ورنہ تمہاری ملک شام کی تجارت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ یہ سن کر قریش نے حضرت سعد بن عبادہ کو قید سے رہا کر دیا اور وہ بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔
( سیرت ابن ہشام ج4 ص 449 تا 450 )


“مدینہ منورہ “ کا پرانا نام “ یثرب“ ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر میں سکونت فرمائی تو اس کا نام “ مدینۃ النبی“ (نبی کا شہر) پڑگیا پھر یہ نام مختصر ہو کر “مدینہ“ مشہور ہو گیا۔ تاریخی حیثیت سے یہ بہت پرانا شہر ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعلان نبوت فرمایا تو اس شہر میں عرب کے دو قبیلے “ اوس “ اور خزرج“ اور کچھ “یہودی“ آباد تھے۔ اوس و خزرج کفار مکہ کی طرح “بت پرستی“ اور یہودی “اہل کتاب “ تھے اوس و خزرج پہلے تو بڑے اتفاق و اتحاد کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے، مگر پھر عربوں کی فطرت کے مطابق ان دونوں قبیلوں میں لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ یہان تک کے آخری لڑائی جو تاریخ عرب میں “ جنگ بعاث“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس قدر ہولناک اور خونریز ہوئی کہ اس لڑائی میں اوس و خزرج کے تقریبا تمام نامور بہادر لڑ بھڑ کر کٹ مر گئے اور یہ دونوں قبیلے بے حد کمزور ہو گئے۔ یہودی اگرچہ تعداد میں بہت کم تھے مگر چانکہ وہ تعلیم یافتہ تھے اس لئے اوس و خزرج ہمیشہ یہودیوں کی علمی برتری سے مرعوب اور ان کے زیر اثر رہتے تھے۔
اسلام قبول کرنے کے بعد
رسول رحمت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مقدس تعلیم و تربیت کے بدولت اوس و خزوج کے تمام پرانے اختلافات ختم ہو گئے اور یہ دونوں قبیلے شیر و شکر کی طرح مل جل کر رہنے لگے اور چونکہ ان لوگوں نے اسلام اور مسلمانوں کی اپنے تم من دھن سے بے پناہ امداد و نصرت کی اس لئے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان خوش بختوں کو “ انصار “ کے معزز لقب سے سرفراز فرما دیا اور قرآن کریم نے بھی ان جانثاران اسلام کی نصرت رسول و امداد مسلمین پر ان خوش نصیبوں کی مدح و ثنا کا جا بجا خطبہ پڑھا اور ازروئے شریعت انصار کی محبت، اور ان کی جناب میں حسن عقیدت تمام امت مسلمہ کیلئے لازم الایمان اور واجب العمل قرار پائی۔ ( رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین )

</b>
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top