مذ ہبی آزادی کا حق -

  • Work-from-home

Sumi

TM Star
Sep 23, 2009
4,247
1,378
113
کسی بھی معاشرے میں مذہبی آزادی اوراپنے ضمیر کے مطابق عمل کرنے کی سہولت ہی ایمان اورعبادت کی آزادی کی بنیاد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرشخص اپنے شعور اور ضمیر کے مطابق مذہب اختیار کرنے کاحق رکھتا ہے۔ اسلام ہر شخص کو مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے اسلامی ریاست میں کوئی بھی شخص اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے اوراس کے مطابق عبادت بجالانے کاحق رکھتا ہے۔ اسلامی ریاست کسی بھی شخص کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ اسلام نے افراد معاشرہ کومذہبی فرائض و رسومات کی ادائیگی کا پورا حق عطا کیا ہے۔ اوراختیار مذہب میں کسی بھی نوعیت کے جبر کو روا نہیں رکھا ۔
ارشاد ربانی ہے : ”دین میں کوئی زبردستی نہیںہے، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے “ دوسرے مقام پر اشاد فرمایا : ” اور اگر آپ کارب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے (جب رب نے انہیں جبراً مومن نہیں بنایا) توکیا آپ لوگوں پر جبرکریں گے یہاں تک وہ مومن ہوجائیں؟ “ ” آپ فرمادیجئے اے کافرو! o جن بتوں کی تم پرستش کرتے ہو میں ان کی پرستش نہیں کرتا o اور تم بھی اس خدا کی عبادت نہیں کرتے جس کی عبادت میں کرتا ہوo اورنہ میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا o اورنہ تم میرے معبود (واحد) کی پرستش کرو گےo تم کو تمہارا دین اورمجھ کو میرا دین o “ ” اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور سول کی اطاعت کرو اور (خدا و رسول کی مخالفت سے ) بچتے رہو پھر اگرتم نے رو گرادنی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول پر صرف ( احکام کا ) واضح طور پر پھر پہنچا دینا ہی ہےo “
قرآن حکیم اس امر کی تشریح کرتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو بنی نوع انسان تک اللہ کا پیغام پہنچانے کیلئے بھیجا گیا۔ آپ بشیر اور نذیر بنا کربھیجا گیا کہ انسانیت پیغام حق کے ہر پہلو سے آگاہ ہوجائے۔ آپ کے اس منصب کو مختلف مقامات پریوں بیان کیا گیا : ”رسول پر (احکام کاملاً) پہنچادینے کے سوا (کو ئی اورذمہ داری ) نہیں اوراللہ وہ (سب) کچھ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اورجو تم چھپاتے ہوo “ ”اوراگر اللہ (ان کو جبراً روکنا)چاہتا تو یہ لوگ (کبھی) شرک نہ کرتے اورہم نے آپ کو (بھی) ان پر نگہبان نہیں بنایا اورنہ آپ ان پر پاسبان ہیںo “
”فرمادیجئے اے لوگو! بیشک تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس حق آگیاہے سو جس نے راہ ہدایت اختیار کی پس وہ اپنے ہی فائدے کے لیے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوگیا پس وہ اپنی ہی ہلاکت کے لیے گمراہ ہوتا ہے اورمیں تمہارے اوپر داروغہ نہیں ہوں o“ ”سواگر (پھربھی) وہ رگردانی کریں تو (اے نبی معظم) آپ کے ذمہ تو صرف (میرے پیغام اوراحکام کو) صاف صاف پہنچادینا ہے o“ ”اور فرمادیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے پس جو چاہے ایمان لے آئے اورجو چاہے انکار کردے بیشک ہم نے ظالموں کے لیے (دوزخ کی ) آگ تیار کررکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیرلیں گی اوراگر وہ (پیاس اورتکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا ان چہروں کو بھون دیگا کتنا برامشروب ہے اورکتنی بری آرام گاہ ہے o“
ان آیات مبارکہ میں مذہبی آزادی پرکسی قسم کی قدغن لگانے کی نفی کی گئی ہیں۔ اب آیات سے اس مغالطے کی بھی نفی ہوجاتی ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔ قرآن حکیم کسی بھی طور پر عدم برداشت کی اجازت نہیں دیتا حتیٰ کہ اہل کفر کے مذہب اور طریقہ عبادت کی مذمت اوربے حرمتی کی اجازت نہیں۔ ”اور(اے مسلمانو) تم ان جھوٹے معبودوں کو گالی مت دو جنھیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام کے لیے ان کا عمل (ان کی آنکھوں میں ) مرغوب کررکھا ہے (اور وہ اسی کو حق سمجھتے رہتے ہیں) پھرسب کو اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہ انہیں ان (اعمال کے نتائج ) سے آگاہ فرما دیگا جو انجام دیتے تھےo “ حتی کہ دین کی تبلیغ کے معاملے میں بھی اہل اسلام کویہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اہل کفر سے انتہائی وقار اورتحمل سے بات کریں اوران سے کوئی بھی جارحانہ ومتشد دانہ زبان ارشاد ربانی ہے : ”(اے رسول معظم) آپ اپنے رب کی طرف حکمت اورعمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اوران سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہوبیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیااوروہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے o“ ”اورہل کتاب سے جب بحث ومباحثہ کرو تو بہت شائستہ انداز سے سوائے ان کے جوان میں ظلم اورزیادتی کریں۔ اوران سے کہو کہ ہم تو یہ ہم پر اترااس پراور (جو) تم پراترا اس پربھی ایمان لائے اورہمارا معبود اورتمہارا معبود ایک ہی ہے۔ اورہم اسی کے فرماں بردار ہیںo
اسلام نے جو مسلموں کے ایمان پر شک کرنے سے بھی منع کیا ۔ ایک روایت کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ سے اس بات پرناراضگی کا اظہار کیاکہ انیوں نے ایسے شخص کو قتل کیا جو قتل کے وقت کلمہ پڑھ رہا تھا اوراپنے مسلمان ہونے کا اعلان کررہا تھا حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ وہ اپنی جان کے تحفظ کے لیے کلمہ پڑھ رہا تھا۔ تو حضور اکرم ﷺ نے اشاد فرمایا : ”کیا تونے اس کا دل چیر کردیکھا تھا کہ تجھے معلوم ہوگیا کہ اس نے دل سے پڑھا ہے یا نہیں“ ان آیات واحادیث سے واضح ہے کہ اسلام نے حجت اور دلیل سے ہدایت و گمراہی کا فرق واضح کردیا۔ اب اختیار مذہب کے معاملات میں مسلم معاشرے کے اقلیتی افراد کومذہبی آزادی کا حق دیا جائے گا کہ وہ اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے دلائل وبراہین کی روشنی میں قبول اسلام کی راہ اپنائیں یا اپنے مذہب کی پیروی کریں۔ تاریخ انسانی میں مذہبی آزادی کی اس سے بڑھ کر کوئی مثال نہیں دی جاسکتی جہاں نہ صرف اپنے مذہب اورعقیدہ کے فروغ کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ دوسروں کے مذہب اور عقیدہ سے مداخلت کرنے سے بھی منع کیا گیا۔
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top