معاہدہ تحریر کیے بغیر نکاح کے درست ہونے کا بیان

  • Work-from-home

Abu_Dawood

Newbie
Feb 2, 2023
1
2
3
الهند
معاہدہ تحریر کیے بغیر نکاح کے درست ہونے کا بیان

فتاوى عبر الأثير - ۱

– السؤال:- رجل زوج أخته لشخص، واستلم المهر ،مع وجود شهود، ولكن دون كتابة العقد، فلما أرادوا الذهاب إلى المحكمة لكتابة العقد رفض أهل المرأة أن يتم الزواج، وأرادوا إرجاع المهر، فقال الرجل لن أخذ المهر، فلذلك المرأة فى ذمتى ؟


سوال: ایک شخص نے اپنی بہن کو کسی شخص کے نکاح میں دیا، گواہوں کی موجودگی میں مہر بھی وصول کیا لیکن یہ سب معاہدہ تحریر کیے بغیر(یعنی کاغذی کاروائی کیے بغیر) سر انجام پایا، پھر جب معاہدہ تحریر کرانے کے لیےاس نے متعلقہ ادارے میں جانا چاہا، تو خاتون کے گھر والوں نے عقد نکاح کی تکمیل سے انکار کر دیا اور مہر واپس کر دینا چاہا، تو اس شخص نے کہا: میں مہر واپس نہیں لوں گا، یہ عورت میری ذمہ داری میں ہے یعنی میری بیوی ہے، (تو اس صورت میں نکاح کا کیا حکم ہے)؟


– الجواب:-
ما دام أن الزواج قد تم بشروطه، من موافقة الزوج والزوجة ، فى وجود الولى والشهود وصيغة العقد، فكلام الزوج صحيح ،فى أن المرأة فى ذمته ،وإن لم يتم كتابة العقد، وليس لأهلها أن يمنعوه منها، ولا أن يجبروه على فراقها .

– وإنما جعلت الكتابه من أجل ألا تضيع الحقوق ،خاصة عند ذهاب الذمم ورقة الدين، وكتابة العقد وتسجيله مع أهميته فى عصرنا، إلا أنها ليست شرطا من شروط صحة العقد، والله أعلم.


جواب: جب نکاح اپنی شرائط پر ہوا ہو، یعنی شوہر اور بیوی کی باہمی رضامندی سے، ولی اور گواہوں کی موجودگی میں اور ایجاب و قبول کے ساتھ، تو شوہر کی یہ بات کہ عورت بطورِ بیوی کے اس کی ذمہ داری میں ہے درست ہے، اگرچہ معاہدے کا اندراج نہ بھی کیا گیا ہو۔ اور خاتون کے گھر والوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خاوند کو اس سے روکیں، اور نہ ہی یہ حق حاصل ہے کہ خاوند کو اس سے الگ ہونے پر مجبور کریں،

معاہدہ کو تحریر کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حقوق ضائع نہ ہوں، خاص طور پر جب گواہان نہ رہیں، اگرچہ عقد ِ نکاح کی کتابت(لکھوائی) اور اندراج(رجسٹری) اس زمانے میں بہت اہمیت کی حامل ہے، لیکن یہ عقد ِنکاح کے شرائط میں سے نہیں کہ عقدِ نکاح کے صحیح ہونے یا نا ہونے کا مدار اس پر ہو۔

والله أعلم بالصواب و علمہ أتم

مترجم: ندائے حق اردو
 
  • Like
Reactions: Jin7

Jin7

میرا دل مکہ مدینہ میری جان پاکستان ازاد پنچھی
TM Star

معاہدہ تحریر کیے بغیر نکاح کے درست ہونے کا بیان


فتاوى عبر الأثير - ۱

– السؤال:- رجل زوج أخته لشخص، واستلم المهر ،مع وجود شهود، ولكن دون كتابة العقد، فلما أرادوا الذهاب إلى المحكمة لكتابة العقد رفض أهل المرأة أن يتم الزواج، وأرادوا إرجاع المهر، فقال الرجل لن أخذ المهر، فلذلك المرأة فى ذمتى ؟

سوال: ایک شخص نے اپنی بہن کو کسی شخص کے نکاح میں دیا، گواہوں کی موجودگی میں مہر بھی وصول کیا لیکن یہ سب معاہدہ تحریر کیے بغیر(یعنی کاغذی کاروائی کیے بغیر) سر انجام پایا، پھر جب معاہدہ تحریر کرانے کے لیےاس نے متعلقہ ادارے میں جانا چاہا، تو خاتون کے گھر والوں نے عقد نکاح کی تکمیل سے انکار کر دیا اور مہر واپس کر دینا چاہا، تو اس شخص نے کہا: میں مہر واپس نہیں لوں گا، یہ عورت میری ذمہ داری میں ہے یعنی میری بیوی ہے، (تو اس صورت میں نکاح کا کیا حکم ہے)؟

– الجواب:-
ما دام أن الزواج قد تم بشروطه، من موافقة الزوج والزوجة ، فى وجود الولى والشهود وصيغة العقد، فكلام الزوج صحيح ،فى أن المرأة فى ذمته ،وإن لم يتم كتابة العقد، وليس لأهلها أن يمنعوه منها، ولا أن يجبروه على فراقها .

– وإنما جعلت الكتابه من أجل ألا تضيع الحقوق ،خاصة عند ذهاب الذمم ورقة الدين، وكتابة العقد وتسجيله مع أهميته فى عصرنا، إلا أنها ليست شرطا من شروط صحة العقد، والله أعلم.


جواب: جب نکاح اپنی شرائط پر ہوا ہو، یعنی شوہر اور بیوی کی باہمی رضامندی سے، ولی اور گواہوں کی موجودگی میں اور ایجاب و قبول کے ساتھ، تو شوہر کی یہ بات کہ عورت بطورِ بیوی کے اس کی ذمہ داری میں ہے درست ہے، اگرچہ معاہدے کا اندراج نہ بھی کیا گیا ہو۔ اور خاتون کے گھر والوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خاوند کو اس سے روکیں، اور نہ ہی یہ حق حاصل ہے کہ خاوند کو اس سے الگ ہونے پر مجبور کریں،

معاہدہ کو تحریر کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حقوق ضائع نہ ہوں، خاص طور پر جب گواہان نہ رہیں، اگرچہ عقد ِ نکاح کی کتابت(لکھوائی) اور اندراج(رجسٹری) اس زمانے میں بہت اہمیت کی حامل ہے، لیکن یہ عقد ِنکاح کے شرائط میں سے نہیں کہ عقدِ نکاح کے صحیح ہونے یا نا ہونے کا مدار اس پر ہو۔
والله أعلم بالصواب و علمہ أتم

مترجم: ندائے حق اردو
اچھی پوسٹ کرنے کا شکریہ ایسی اور پوسٹ بھی کیا کریں
 
Top