نماز سے متعلق بعض احکام

  • Work-from-home

Sumi

TM Star
Sep 23, 2009
4,247
1,378
113
نماز سے متعلق بعض احکام
نماز کے بارے میں شرعی احکامات اور مسائل
حدیث میں ہے کہ
الصلاة عمودالدین(وسائل الشیعہ للحرالعاملی‘ ج ۴‘ ص ۳۵)
"نماز دین کا ستون ہے۔"
نہج البلاغہ میں درج ہے کہ شہادت سے پہلے امیرالمومنین علی علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنی آخری وصیت میں فرمایا:
اللہ اللہ فی الصلوة فانھا عمود دینکم‘ واللہ اللہ فی بیت ربکم لا تخلوہ مابقیتم
"نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرنا‘ کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔ اپنے پروردگار کے گھر کے بارے میں ڈرنا‘ جبکہ تم زندہ ہو اسے خالی نہ چھوڑنا۔"
وسائل الشیعہ میں درج ہے کہ سکونی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا یزال الشیطان ذعراً من المومن ما حافظ علی الصلات الخمس لوقتھن‘ فاذا ضیعھن تجرا علیہ فا دخلہ فی العظائم(ج ۴‘ ص ۲۸)
"رسول اللہ نے فرمایا‘ جب تک مومن پانچ وقت کی نمازوں کو پابندی وقت کے ساتھ پڑھتا ہے‘ شیطان اس سے خوف زدہ رہتا ہے اور اگر وہ نمازوں کو ضائع کرے‘ یعنی انہیں بروقت نہ پڑھے تو اس کی جرات بڑھتی ہے اور اسے بڑے بڑے گناہوں میں دھکیل دیتا ہے۔"
وسائل الشیعہ میں درج ہے کہ یزید بن خلیفہ کی روایت ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا:
اذا قام المصلی الی الصلاة نزلت علیہ الرحمة من اعنان اسماء الی الارض و حفت بہ الملائکة و ناداہ ملک‘ لو یعلم ھذا المصلی ما فی الصلاة ما انفتل(جلد ۴‘ ص ۳۲)
"جب نماز گزار نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس پر آسمان سے رحمت نازل ہوتی ہے‘ فرشتے اسے گھیر لیتے ہیں اور ایک فرشتہ اسے پکار کر کہتا ہے‘ اگر اس نماز گزار کو نماز کی فضیلت معلوم ہوتی تو کبھی بھی اس سے جدا نہ ہوتا۔"
ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں نماز کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ چونکہ نماز بارگاہِ الٰہی میں حضوریابی ہے اور نماز گزار اپنے رب کے حضور کھڑا ہوتا ہے۔ اس لئے نماز گزار کو چاہئے کہ دوران نماز ہمہ تن اور دل و جان سے خدا کی طرف متوجہ رہے‘ دنیا اور اس کے فانی امور نماز گزار کو اپنی طرف متوجہ نہ کرنے پائیں۔
قرآن حکیم میں ارشاد رب العزت ہے:
قد افلح المومنون الذین ھم فی صلا تھم خاشعون(مومنون‘ ۱)
"روز قیامت وہی مومنین فلاح پائیں گے‘ جن کی نمازوں میں خشوع و خضوع ہو گا۔"
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے:
کانہ ساق شجرة لا یتحرک منہ شئی الاما حرکتہ الریح منہ(منہاج الصالحین السید سیستانی العظمیٰ)
"گویا درخت کا تنا ہے‘ جس کا وہی حصہ ہلتا ہے‘ جسے ہوا حرکت دیتی ہے۔"
امام محمد باقرعلیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ان کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا‘ کبھی آپ کا رنگ سرخ ہوتا اور کبھی زرد۔ گویا آپ کسی ذات سے محو گفتگو ہیں‘ جسے آپ دیکھ رہے ہیں۔
نماز کے متعدد احکام ہیں‘ جن میں سے بعض کو درج ذیل مسائل میں بیان کیا جا رہا ہے:
مسئلہ (۶۳): فقہاء فرماتے ہیں کہ نماز کسی بھی حالت میں ساقط نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز نہ سفر میں معاف ہے اور نہ غیر سفر میں۔ اگر نماز کا وقت تنگ ہو اور منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے قضا ہونے کا خدشہ ہو تو مسافر پر واجب ہے کہ وہ چاہے دوران سفر جہاز میں ہو‘ کشتی میں ہو‘ ریل گاڑی میں ہو‘ انتظار گاہ میں ہو یا عام باغیچہ میں‘ کہیں رکا ہوا ہو یا حالت حرکت میں ہو‘ ڈیوٹی پر ہو یا راستے میں ہو‘ غرض کوئی بھی مقام ہو‘ نماز کو بروقت بجا لانا واجب ہے۔
مسئلہ (۶۴): حالت سفر میں اگر مسافر ہوائی جہاز‘ کار یا ریل گاڑی میں نماز کو کھڑا ہو کر ادا نہ کر سکتا ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھے۔ اگر دوران سفر قبلہ کا تعین نہ کر سکتا ہو تو جس طرف گمان ہو اسی سمت نماز پڑھے۔
اور اگر ایک سمت کو ترجیح نہ دے سکے تو جس طرف چاہے رخ کر کے نماز ادا کرے اور اگر صرف تکبیرة الاحرام کے دوران رخ بہ قبلہ ہونا ممکن ہو تو اسی پر اکتفاء کرے۔
مسئلہ (۶۵): سمت قبلہ کے تعین کے لئے فضائی میزبان سے پوچھا جا سکتا ہے‘ جو پائلٹ سے پوچھ کر مسافر کی رہنمائی کرے گا اور مسافر اگر اس کے بتانے پر مطمئن ہو تو نماز اس سمت میں ادا کر سکتا ہے‘ جس سمت کے بارے میں اسے بتایا گیا ہے‘ اگرچہ بتانے والا کافر ہی کیوں نہ ہو۔ نیز سمت قبلہ کے تعین کے لئے آلات و آواز پر بھی اعتماد کیا جا سکتا ہے‘ جیسے "قبلہ نما" ہے‘ بشرطیکہ مسلمان کو ان کے درست ہونے کا اطمینان ہو۔
مسئلہ (۶۶): اگر مسلمان نماز کے لئے کسی وجہ سے وضو نہ کر سکے تو وضو کے بدلے تیمم کرے۔
مسئلہ (۶۷): بعض شہروں کے دن اور رات بعض دوسرے شہروں کی نسبت طویل ہوتے ہیں۔ اگر سورج کے طلوع و غروب کے ذریعے شب و روز واضح ہوں تو ہر مسلمان اپنی نماز‘ روزہ اور دیگر واجبات کے اوقات کی حد بندی کے لئے ان شب و روز پر اعتماد کر سکتا ہے۔ اگرچہ دنوں کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے نمازیں ایک دوسرے کے قریب ہوں یا راتوں کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے افطار کا دورانیہ کم ہو۔
مسئلہ (۶۸): بعض مغربی ممالک یا بعض شہروں کے مخصوص موسموں میں کئی کئی دن یا کئی کئی مہینے سورج غروب نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں بطور احتیاط مسلمان کو چاہئے کہ اپنے ملک یا شہر کے اس نزدیک ترین شہر پر اعتماد کرے‘ جہاں ۲۴ گھنٹوں میں دن اور رات ہیں۔
یعنی اس شہر کے شب و روز کے مطابق اپنی پانچ وقت کی نمازوں کی ادائیگی کرے اور اسی کے مطابق روزہ سحر اور افطار کرے۔
مسئلہ (۶۹): اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم ملک میں فجر‘ ظہر‘ عصر اور مغرب کی نمازوں کا تعین نہ کر سکے اور رصدگاہ کے تعین پر اعتماد رکھتا ہو‘ اگرچہ رصدگاہ میں کام کرنے والے مسلمان نہ ہوں اور رصدگاہ کے تعین اوقات پر وثوق ہو۔
مسئلہ (۷۱): اگر کوئی مسلمان اپنی رہائش گاہ سے ۲۴ کلومیٹر یا اس سے زیادہ سفر کرے تو اس کی نماز‘ ظہر‘ عصر اور عشاء قصر پڑھی جائے گی۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مسافت کا آغاز اکثر اوقات شہر کے آخری گھروں سے کیا جائے گا۔
دوران سفر نماز کو قصر کرنے یا پوری پڑھنے کے مخصوص احکامات توضیح المسائل میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔
مسئلہ (۷۱): اگر نماز جمعہ میں ضروری شرائط پوری ہوں تو وہ نماز ظہر سے افضل ہے اور یہ نماز ظہر کی جگہ لے سکتی ہے‘ اگر کوئی نماز گزار مسافر نماز جمعہ پڑھ لے تو نماز ظہر کے بدلے اسی پر اکتفاء کر سکتا ہے۔
مسئلہ (۷۲): باجماعت نماز اکیلے پڑھنے سے بہتر ہے‘ نماز صبح‘ نماز مغرب اور نماز عشاء کو باجماعت پڑھنے کا استجاب زیادہ موکدہ ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
الصلاة خلف العالم بالف رکعة و خلف القرشی بمائة
"عالم کی اقتداء میں نماز ہزار رکعت کے برابر اور غیر عالم سید کی اقتداء میں سو رکعت کے برابر ہے۔ نمازیوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ ثواب میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔"
نماز سے متعلق بعض شرعی مسائل کے سوالات کے جوابات
مسئلہ (۷۳): اکثر لوگ ناسمجھی یا کم علمی کی بناء پر ایک عرصہ در از تک غلط وضو اور غسل کرتے ہیں‘ کئی سال تک اسی طرح نماز‘ روزہ اور حج بجا لانے کے بعد جان پاتے ہیں کہ ان کا وضو اور غسل باطل تھا اور جب یہ لوگ ان عبادات کی شرعی حیثیت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ان کو جواب دیا جاتا کہ نماز اور حج دوبارہ بجا لائے‘ جبکہ ان تمام نمازوں‘ حجوں کی قضا ایک مشکل اور گراں قدر کام ہے۔
کیا اس شخص کے ساتھ کوئی رعایت برتی جا سکتی ہے‘ جو کہ اپنے وضو اور غسل کو صحیح سمجھتا تھا؟ اور کیا ایسا کوئی حل موجود ہے جس سے اس کی نمازیں‘ حج درست قرار پائیں اور دوبارہ نہ پڑھنی پڑیں اور جس سے عبادات واجب کی بجا آوری میں مزید سستی آ سکتی ہے؟ خاص کر اس شخص کے بارے میں‘ جس کی طبیعت میں بغاوت کا عنصر موجود ہو اور اس قسم کے ماحول یا ملک میں رہتا ہے‘ جہاں اس قسم کی سرکشی اور بغاوت پر مسلسل اکسایا جا رہا ہو۔
جواب: اگر نماز گزار جاہل قاصر یعنی وہ جاہل جس کا عذر قابل قبول ہو اور دوران غسل یا وضو ایسا خلل پڑ جائے‘ جس سے جاہل قاصر کا وضو یا غسل باطل نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر غسل میں سر اور گردن سے پہلے بدن کے حصوں کو دھوئے۔ یا وضو میں نئے پانی سے مسح کرے تو ایسے نماز گزار کا وضو اور غسل درست سمجھے جائیں گے اور اس کی نمازیں‘ حج صحیح قرار پائیں گے۔
اگر وہ احکام شرعیہ کے سیکھنے میں جاہل مقصر رہا ہو‘ یعنی کہ وہ حکم شرعیہ کو نہ جانتا ہو اور وضو‘ غسل میں خلل پڑ جائے‘ جس سے ہر حالت میں وضو یا غسل متاثر ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر وضو اور غسل کے دوران جن اعضاء کا دھونا واجب تھا‘ ان واجب کے ادا نہ کرنے سے اس شخص کی نماز باطل نہیں ہو گی۔
لیکن اگر ایسے شخص کی سرکشی کا خطرہ ہو تو ایسے شخص کو عبادات کی قضا بجا لانے کا حکم دینا کوئی مستحسن عمل نہ ہو گا‘ شاید کہ رب العزت مستقبل میں راہ حل پیدا فرما دے۔
مسئلہ (۷۴): کچھ لوگ کئی کئی برس حج بجا لاتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں‘ لیکن اس دوران وہ خمس ادا نہیں کرتے‘ کیا ایسے افراد پر واجب ہے کہ وہ اپنے حج اور نمازوں کی قضا ادا کریں؟
جواب: اگر نماز‘ طواف اور نماز طواف کے دوران اس شخص کا لباس (جو ستر واجب کے طور پر استعمال ہوتا ہے) ایسا تھا جس میں خمس واجب تھا‘ تو ایسی صورت میں بطور احتیاط واجب نمازوں اور حج کی قضا بجا لائے‘ لیکن اگر صرف نماز طواف میں پہنا ہوا لباس ایسا ہو‘ جس میں خمس واجب ہو اور یہ شخص حکم شرعی نہ جانتا ہو‘ لیکن اگر اس شخص کی جہالت عذر قابل قبول نہ ہو تو نماز طواف کو دوبارہ بجا لائے اور زیادہ تکلیف‘ مشقت نہ اٹھانی پڑے‘ تو احتیاط واجب کے طور پر نماز مکہ جا کر پڑھے‘ صورت دیگر جس شہر میں بھی ہو وہیں پر نماز ادا کرے۔
اس طرح قربانی کے جانور میں خمس واجب ہو گا‘ مثلاً قربانی کا جانور عین اس رقم سے خریدا جائے جس میں خمس واجب تھا‘ تو حج کو دوبارہ بجا لانا چاہئے اور اگر ایسی رقم سے جانور خریدا گیا ہو‘ جس میں وہ رقم بھی تھی جس میں خمس واجب تھا۔ چنانچہ اس مد میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکثر اوقات ایسا ہو جاتا ہے‘ تو اس حج میں کوئی اشکال نہیں‘ اگرچہ یہ جانور ایسی ہی رقم سے خریدا گیا ہو جس میں خمس واجب تھا۔
یہ تمام احکام اس صورت میں واجب ہیں‘ جبکہ یہ شخص خمس کے بارے میں علم رکھتا ہو اور یہ بھی جانتا ہو کہ جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو‘ اس میں تصرف حرام ہے یا جس کی جہالت کا عذر قابل قبول ہو۔ ایسے شخص کی نماز اور حج دونوں صحیح ہوں گے۔
مسئلہ (۷۵): اگر کوئی شخص اذان ظہر کے وقت فوراً نماز ادا کئے بغیر اپنے گھر سے سفر پر نکلے اور مغرب کے بعد اپنی منزل مقصود پر پہنچے‘ تو کیا یہ شخص گنہگار ہو گا؟ کیا اس شخص پر نماز کی قضا واجب ہو گی؟
جواب: جی ہاں! یہ شخص گنہگار ہے‘ اس لئے کہ اس نے فرض نماز کو بروقت ادا نہیں کیا اور سفر پر روانہ ہو گیا۔ اس شخص پر قضا بھی واجب ہے۔
مسئلہ (۷۶): کیا ہاتھ پر لگی ہوئی سیاہی وضو اور غسل میں رکاوٹ ہے؟ (یعنی پانی کو جلد تک نہیں پہنچنے دیتی) کیا اس سیاہی کے اوپر وضو کر سکتے ہیں؟
جواب: اگر سیاہی ایسے کیمیکل یا مادے پر مشتمل نہ ہو جو جلد اور پانی کے درمیان حائل ہو تو اس کے اوپر وضو یا غسل درست ہو گا اور اگر اس مادے کی وجہ سے وضو میں رکاوٹ آتی ہے تو اسے صاف اور برطرف کرنا ضروری ہو گا۔
مسئلہ (۷۷): کچھ لوگ ٹی وی پر تفریحی فلمیں یا پروگرام دیکھتے رہتے ہیں اور وقت نماز کے بعد بھی اسے جاری رکھتے ہیں اور فلم کے اختتام پر نماز کا مقررہ وقت ختم ہونے میں کچھ دیر پہلے نماز پڑھنے جاتے ہیں۔ کیا مسلمان کا یہ عمل جائز ہے؟
جواب: ایک مسلمان کے لئے یہ کسی بھی طور مناسب نہیں ہے کہ وہ بغیر کسی عذر اور مجبوری کے نماز کو مقررہ وقت سے موخر کرے۔ تفریحی فلموں اور تفریحی پروگرامز کا نظارہ کرنا‘ عذر اور مجبوری میں شمار نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۷۸): کیا کریم پانی کو جلد تک پہنچنے سے روکتی ہے؟ وضو اور غسل سے پہلے اس کو صاف کرنا ضروری ہے؟
جواب: یہ واضح بات ہے کہ ہاتھ پر کریم ملنے اور رگڑنے کے بعد جو اثر باقی رہ جاتا ہے وہ صرف چکناہٹ ہوتی ہے‘ جو اگر معمولی ہو تو پانی کو جلد تک پہنچنے سے نہیں روکتی ہے۔
مسئلہ (۷۹): فیشن ایبل خواتین اپنے حسن زیبائش کی خاطر اپنے ناخنوں پر معمول سے زیادہ نیل پالش لگائے ہوتی ہیں‘ جس کی وجہ سے ان کے ناخن ٹوٹنے کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹرز علاج کی غرض سے ناخن پر لگانے کے لئے دوائی دیتے ہیں‘ جو یقینا پانی اور جلد کے درمیان حائل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر یہ دوائی اکثر اوقات ایک دن سے زیادہ مدت تک اس کو ناخن پر لگا کر جاتا ہے‘ کیا اس علاج کی غرض سے اس دوائی کا استعمال جائز ہو گا؟ اس کی موجودگی میں وضو اور غسل کیسے کئے جائیں گے؟
جواب: اگر یہ مادہ پانی کو جلد تک پہنچنے سے روکے تو وضو‘ غسل صحیح نہیں ہوں گے اور وضو‘ غسل کی خاطر اسے صاف کرنا بہت ضروری ہے۔
مسئلہ (۸۰): ہم پوری نماز اور قصر نماز کب پڑھیں؟ کیا کسی شخص کا عرف کے نزدیک ایک شہر میں مقیم کہلانا‘ اس بات کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی نماز پوری پڑھے؟
جواب: رسالہ عملیہ (توضیح المسائل) میں قصر کی شرائط بیان کی گئی ہیں۔جب انسان کسی شہر کو ایک طولانی مدت کے لئے اپنی سکونت اور رہائش کی جگہ قرار دے‘ جس میں اسے مسافر نہ کہا جائے‘ مثلاً کسی جگہ ڈیڑھ سال قیام کا ارادہ کرے تو ایک ماہ اس نیت کے ساتھ قیام کرے کہ یہ شہر اس کا وطن کہلائے گا‘ لیکن اگر مرد کو اور اس شخص کو مسافر کہا جائے گا تو اس کی نماز قصر ہو گی۔
مسئلہ (۸۱): آدھی رات کے بارے میں کس طرح تعین ہو گا؟ کیا رات کے ۱۲ بجے کا وقت آدھی رات کی علامت ہے؟ جیسا کہ آج کل لوگوں میں یہی مشہور ہے۔
جواب: آدھی رات غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک کی مدت کے نصف کو کہا جا سکتا ہے‘ مثلاً اگر شام کے ۷ بجے سورج ڈوب جائے اور صبح کے ۴ بجے طلوع فجر ہو تو اس کے حوالے سے رات ساڑھے گیارہ بجے کا وقت آدھی رات کہلائے گا۔ آدھی رات کے تعین کے لئے غروب آفتاب اور طلوع فجر کو دیکھا جاتا ہے‘ جو مختلف اوقات اور مقامات میں آگے پیچھے ہوتا رہتا ہے۔
مسئلہ (۸۳): اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ اگر میں سو گیا تو نماز صبح کے لئے بیدار نہیں ہو سکوں گا‘ تو کیا اس شخص کو نماز صبح کی خاطر صبح تک جاگتے رہنا واجب ہو گا؟ اور اگر وہ سو جائے تو نماز صبح تک نہ جاگے تو گنہگار ہو گا؟
جواب: ایسا شخص کسی کے ذمے لگا سکتا ہے کہ وہ نماز کے لئے اس کو جگا دے یا ٹائم پیس پر ٹائم الارم لگا کر سو جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو سونے سے گنہگار نہ ہو گا۔ مگر یہ کہ نماز میں سستی یا تغافل آنے کا خدشہ ہے۔
مسئلہ (۸۳): ہوائی جہاز جس میں سمت قبلہ کا علم نہ ہو اور کسی طور اس بات کا اطمینان بھی نہ ہو‘ اس صورت میں نماز کس طرح پڑھی جائے؟
جواب: جہاز کے پائلٹ اور فضائی میزبان کے ذریعے قبلے کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر فضائی میزبان کے جواب اور رہنمائی سے اطمینان یا ظن حاصل ہو جاتا ہے اور جہاں تک دوران نماز حرکت نہ ہونے کا تعلق ہے۔ اگر اس کی پابندی ممکن نہ ہو تو یہ شرط ساقط ہو جاتی ہے‘ البتہ جہاں تک ہو سکے باقی شرائط کا خیال رکھا جانا ضروری ہے اور کسی بھی حالت میں مقررہ وقت سے نماز کی تاخیر جائز نہیں۔
مسئلہ (۸۴): ہوائی جہاز اور گاڑی میں نماز کس طرح پڑھی جائے؟ کیا کسی چیز پر سجدہ کرنا واجب ہے یا صرف جھکنا کافی ہے؟
جواب: جہاں تک ممکن ہو ایسی نماز پڑھنا واجب ہے‘ جو نماز اختیاری حالت میں پڑھی جاتی ہے۔ ممکن ہو تو قبلے کا خیال رکھنا واجب ہے اور اگر تمام حالات میں قبلے کا خیال رکھنا ممکن نہ ہو اور صرف تکبیرة الاحرام کے دوران رخ بہ قبلہ کھڑا ہونا ممکن ہو تو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اگر قبلہ رخ کھڑا ہونا ممکن نہ ہو تو قبلہ کی شرط ساقط ہو جائے گی۔ یعنی نماز درست ہی سمجھی جائے گی اور سجدہ‘ رکوع کے بارے میں بھی یہی حکم ہو گا‘ جس طرح اختیاری حالت میں بجا لانا متعین ہے۔
اس سلسلے میں مثال یہ ہے کہ ہوائی جہاز اور بس کی سیٹوں کے درمیانی راستے میں نماز ادا کی جا سکے اور اگر معمول کے مطابق سجدہ اور رکوع ممکن نہ ہو تو اتنا جھکنا‘ جسے رکوع اور سجدہ کہا جائے کافی اور واجب ہو گا۔ اس کے علاوہ دوران سجدہ پیشانی کو سجدہ گاہ پر رکھنا ضروری ہے۔ اگرچہ اس عمل کے لئے سجدہ گاہ کو اوپر اٹھانا پڑے اور مذکورہ مقدار میں جھکنا ممکن نہ ہو تو رکوع اور سجدے کے بدلے اشارہ ہی کافی ہو گا۔
مسئلہ (۸۵): بعض اوقات نماز کا وقت اس دوران شروع ہوتا ہے جب طالب علم اپنی درس گاہ (یونیورسٹی) کے راستے میں ہوتا ہے اور درس گاہ پہنچتے پہنچتے نماز کا وقت نکل جاتا ہے۔ کیا یہ شخص گاڑی کے اندر ہی نماز پڑھ سکتا ہے‘ جبکہ گاڑی سے اتر کر کسی دوسری جگہ نماز ادا کی جا سکتی ہے؟ لیکن اس صورت سے کلاس کے مقررہ ٹائم پر نہیں پہنچ سکتا۔
جب تک گاڑی سے اتر کر تمام شرائط نماز پوری کی جا سکتی ہوں تو صرف کلاس کی تاخیر کی بناء پر گاڑی کے اندر ایسی نماز پڑھنا جائز نہیں‘ جس میں بعض شرائط مفقود ہوں۔
البتہ اگر اس حد تک کہ تاخیر کی وجہ سے قابل ذکر نقصان اٹھانا پڑتا ہو اور عام حالات میں ناقابل برداشت ہو تو ایسی صورت میں گاڑی کے اندر ہی نماز ادا کر لینا جائز ہے‘ جس کی بعض شرائط مفقود ہیں۔
مسئلہ (۸۶): اگر دوران ڈیوٹی (دفتر وغیرہ میں) نماز کا وقت ہو گیا ہو اور نماز کی خاطر ڈیوٹی کو چھوڑنا خاصا مشکل ہے‘ بلکہ اسے خدشہ ہے کہ نماز کی خاطر جو وقت صرف ہو گا اس کی وجہ سے اسے ملازمت سے برطرف بھی کیا جا سکتا ہے۔
کیا ایسی صورت میں نماز قضا پڑھی جا سکتی ہے یا یہ کہ اس ملازمت کو چھوڑنا پڑے جس کا وہ محتاج ہے‘ اس کے لئے نماز کا وقت پر ادا کرنا واجب ہے یا ڈیوٹی کا ادا کرنا ضروری ہو گا؟
جواب: اگر ملازمت کو جاری رکھنا اس مسلمان کے لئے باعث مجبوری ہے تو جیسے بھی ممکن ہو سکے اس شخص کو بروقت نماز کی ادائیگی بجا لانا ضروری ہے‘ اگرچہ اسے رکوع اور سجدہ میں اشارہ کرنا پڑے۔ لیکن یہ ایک فرضی صورت ہے‘ جو عام حالات میں قابل قبول نہیں ہے۔ مسلمان کو چاہئے کہ وہ خدا سے ڈرے اور اپنے واجبی فرائض کی ادائیگی میں کوئی عذر تلاش نہ کرے۔
ایک مسلمان کو ایسی ملازمت اختیار کرنا چاہئے جس سے وہ اپنے شرعی اور واجب حقوق جو دین کا ستون ہیں‘ سے غافل نہ رہے اور اللہ کے احکام کو بروقت اپنے پیش نظر رکھے۔
قرآن حکیم میں فرمان خداوندی ہے:
ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لا یحتسب
(سورئہ طلاق‘ ۲)
"اور جو خدا سے ڈرے گا اس کے لئے نجات کی صورت نکال دے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا‘ جہاں سے اسے وہم بھی نہ ہو گا۔"
مسئلہ (۸۷): یورپین ممالک کی کمپنیوں اور فاؤنڈیشنوں میں مسلمان بھی ملازمت کرتے ہیں۔ ان دفاتر اور عمارتوں کی ملکیت کے بارے میں یہ کچھ نہیں جانتے کہ یہ ناجائز ہیں یا جائز۔ اس قسم کے دفاتروں اور عمارتوں میں ایک مسلمان کے لئے نماز پڑھنے اور اس کے پانی سے وضو کرنے کا کیا حکم ہے؟
اگر ان جگہوں پر کسی بناء پر نماز ادا کی جا سکے تو گزشتہ پڑھی گئی نمازوں کے بارے میں کیا حکم شرعی ہو گا؟
جواب: جب تک اس بات کے بارے مکمل یقین نہ ہو کہ یہ غصب شدہ ہے‘ جس کا مال محترم ہے‘ ان جگہوں پر نماز کی ادائیگی کرنا اور وہاں کے پانی سے وضو کرنا جائز ہے۔ اگر نماز کی ادائیگی کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ دفتر یا عمارت غصبی ہے تو نماز گزار کی نماز پر اس کا کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ اس کی نماز صحیح شمار ہو گی۔
مسئلہ (۸۸): اگر کوئی مسلمان کسی مردار کے چمڑے کے بنے ہوئے بیلٹ یا بٹوے کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے اور دوران نماز یا نماز کی ادائیگی کے بعد اور قضا ہونے سے پہلے یا قضا ہونے کے بعد اسے یاد آ جائے تو ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لئے شرعی فریضہ کیا ہو گا؟
جواب: اگر بیلٹ یا بٹوے کے چمڑے کے بارے یہ معلوم نہ ہو سکے کہ یہ پاک جانور یعنی جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو‘ تو اس کے ساتھ پڑھی گئی نماز درست ہو گی‘ لیکن اگر یہ احتمال ضعیف ہو اور نماز گزار بھی اس شرعی حکم کے بارے میں جاہل تھا اور دوران نماز متوجہ ہو تو اسے فوراً اتار دے‘ اس کی نماز صحیح ہو گی۔ یہی حکم اس نماز گزار کے لئے ہے جو اس صورت حال کو بھول گیا ہو اور اسے نماز کے دوران یاد آ جائے۔ ہاں! البتہ یہ نماز گزار اس صورت حال کو اپنی لاپرواہی اور تغافل کی وجہ سے نہ بھولا ہو‘ اگر لاپرواہی کی وجہ سے بھولا ہوا ہے تو احتیاط واجب کے طور پر اپنی نماز کو دوبارہ دہرائے یا اس کی قضا بجا لائے۔
مسئلہ (۸۹): موجودہ دور میں جو مردوں کے لئے پتلونیں عام ہیں‘ ان میں غیر اسلامی ممالک میں بنی ہوئی جینز کی پتلون پر چمڑے کا ایک ٹکڑا لگا ہوا ہوتا ہے جس پر کمپنی کا نام درج ہوتا ہے اور اگر یہ معلوم نہیں کہ چمڑے کا یہ ٹکڑا شرعی طریقے سے ذبح کئے گئے جانور کا ہے یا غیر شرعی طریقے سے ذبح کئے گئے جانور کا‘ کیا اس پتلون میں نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب: اس پتلون میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
مسئلہ (۹۰): کیا کلون لگا کر نماز کی ادائیگی درست ہے اور کیا کلون پاک ہے؟
جواب: جی ہاں! کلون پاک ہے۔
مسئلہ (۹۱): کیا کنکریٹ کے بنے ہوئے بلاک اور ٹائل پر سجدہ کرنا جائز ہو گا؟
جواب: جی ہاں! یہ سجدہ صحیح ہو گا۔
مسئلہ (۹۲): جائے نمازوں کی بعض اقسام پٹرولیم کی تیار کردہ ہوتی ہیں‘ کیا ان پر سجدہ کرنا جائز ہے؟
جواب: پٹرولیم سے بنی ہوئی ان جائے نمازوں پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔
مسئلہ (۹۳): کیا خالی‘ صاف کاغذ اور ٹشو پیپر پر سجدہ جائز ہے؟ جبکہ ہم یہ نہیں جانتے کہ ان کے بنیادی اجزاء کیا ہیں‘ ان پر سجدہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: کاغذ کے بارے میں اگر یہ معلوم ہو کہ یہ کپاس‘ پٹ سن یا ایسی ہی کسی چیز سے بنا ہوا ہے تو اس کاغذ پر سجدہ کرنا جائز ہے۔
لیکن ٹشو پیپر کے لئے یہ حکم نہیں ہے‘ کیونکہ اس کے بارے میں یقین حاصل کرنا بہت ضروری ہے کہ اس کے بنیادی اجزاء پاک ہیں یا نہیں۔ جب تک ان کے بارے میں معلوم نہ ہو جائے‘ اس وقت تک ٹشو پیپر پر سجدہ جائز نہیں ہے۔
مسئلہ (۹۴): بعض اوقات کیسٹ کے ذریعے قاری سے سجدہ والی آیت سنی جاتی ہے‘ کیا اس صورت میں سننے والے کے لئے بھی سجدئہ قرآن واجب ہو گا؟
جواب: اس صورت میں سجدہ واجب نہیں ہو گا۔
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top