نواز شریف ’حتمی‘ بات چیت کے لیے دبئی روان

  • Work-from-home

Don

Administrator
Mar 15, 2007
11,035
14,651
1,313
Toronto, Ca
مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’اگرجج بحال نہ ہوئے تو پاکستان اور جمہوریت یہ سب،
اللہ نہ کرے خواب بن کر رہ جائیں گے۔

پاکستان کے معزول ججوں کی بحالی پر مذاکرات کے لیے مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف دبئی روانہ ہوگئے ہیں جہاں وہ بدھ کو پیپلز پارٹی کے شریک چئر مین آصف علی زرداری سے ملاقات کر رہے ہیں۔
دبئی روانگی سے پہلے لاہور کے علامہ اقبال ائر پورٹ پر میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے اتحاد کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس اتحاد میں دراڑ نہ آئے لیکن کچھ طاقتیں اس اتحاد کے خلاف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو اس اتحاد کو ختم کرنا چاہتے ہیں وہ وہی ہیں جوپاکستان کے دشمن ہیں، عدلیہ کو توڑنے والے ہیں۔انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ پاکستان کے عوام نے ووٹ دیا ہے تبدیلی کے لیے اور اس شخص کو نکالنے کے لے جس نے اس ملک سے آٹا ختم کر دیا اور لوگوں کو بے روزگار کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس ایک شخص نے محض اپنے اقتدار کی خاطر آئین توڑا پارلیمنٹ توڑ دی ،عدلیہ ختم کی، ججوں کو گرفتار کیا اس شخص کو قوم کیسے معاف کرسکتی ہے؟
میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ پاکستان کے معاملات ملک کےاندر کی ہی حل کرنا چاہتے تھے لیکن یہ اتنا اہم معاملہ ہے کہ وہ اپنی اس خواہش کو نظر انداز کر کے بیرون ملک جا رہے ہیں۔

کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے میاں نواز شریف اب خود آصف علی زرداری بات کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد مستقبل کا لائحۂ عمل طے کیا جائے گا۔


پرویز رشید

انہوں نے کہا کہ وہ اعلان مری کی صورت میں قوم کے سامنے اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں جس کے تحت عدلیہ کوایک سادہ قرارداد کے ذریعے دو نومبر والی پوزیشن پر بحال کیا جانا ہے اور اس کے لیے آخری تاریخ تیس اپریل ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ مری معاہدے پر مکمل عملدرآمد کیا جائے ورنہ عوام غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے۔ جب نواز شریف سے پوچھا گیا کہ اگر انہیں اتحاد اور ججوں کی بحالی میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو ان کا فیصلہ کیا ہوگا، تو ان کا کہنا تھا کہ اگر جج بحال ہونگے تو پاکستان قائم و دائم رہے گا اور اگر انہیں بحال نہ کیا گیا تو ’پاکستان اور جمہوریت یہ سب اللہ نہ کرے خواب و خیال بن کر رہے جائیں گے۔‘

نواز شریف اور آصف زرداری نے مری معاہدے پر دستخط کیے تھے
انہوں نے کہا ’ہم نے آصف زرداری اور پیپلز پارٹی سے جو اتحاد کیا تھا اس کا ایک ہی نکتہ تھا کہ ججوں کو بحال کیا جائے، میں نے اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں مانگا، مسلم لیگ نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا تھا بلکہ یہ قوم کا معاملہ ہے اور اسے قوم کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔‘
مسلم لیگ نون کے ترجمان پرویز رشید نے بتایا کہ مسلم لیگ نون نے یکم مئی کو لاہور میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی کا مشترکہ اجلاس بلا لیا ہے اور اگر کل ججوں کو بحال نہ کیا گیا تو پرسوں مسلم لیگ اپنے جوابی اقدام کا اعلان کر دے گی۔
اسلام آباد سے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے نمائندے اعجاز مہر لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی مسلم لیگ (ن) کا ایک وفد ججوں کی بحالی کا طریقۂ کار طے کرنے کے لیے آصف علی زرداری سے مذاکرات کرنے دبئی گیا تھا اور ان کی بات چیت کی بظاہر ناکامی کے بعد اچانک میاں نواز شریف نے دبئی جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
سوموار کو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان ججوں کی بحالی کے مسئلہ پر دبئی میں مذاکرات کے دو دور ہوئے جو کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے۔ان مذاکرات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت آصف علی زرداری نے کی جبکہ مسلم لیگ نون کے وفد کی سربراہی میاں شہباز شریف کر رہے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ تیس اپریل ججوں کی بحالی کی قرار داد پارلیمان میں پیش کی جائے۔ بصورت دیگر انہوں نے وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
پرویز رشید کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے میاں نواز شریف اب خود آصف علی زرداری بات کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد مستقبل کا لائحۂ عمل طے کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) چار جماعتی حکومت اتحاد کی پیپلز پارٹی کے بعد دوسری بڑی جماعت ہے اور چوبیس رکنی وفاقی کابینہ میں نو اہم وزارتیں مسلم لیگ (ن) کے پاس ہیں۔
وکلاء کے ایک سرکردہ نمائندے جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا ہے کہ تیس اپریل تک ججوں کی عدم بحالی کی صورت میں وکلاء برادری مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کرے گی۔
دریں اثناء پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے دبئی میں ایک پاکستانی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ معطل شدہ ججوں کی بحالی عدلیہ میں اصلاحات کے ایک پیکج کی تحت عمل میں لائی جائے گی۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ معطل شدہ ججوں کی بحالی کے بعد سپریم کورٹ کے موجودہ جج بھی کام کرتے رہیں گے۔
آئینی پیکج کی تیاری اور اس کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بارے میں آصف علی زرداری نے وقت کا تعین کرنے سے انکار کر دیا تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس سارے عمل میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔
 
Top