واپسی

  • Work-from-home

ROHAAN

TM Star
Aug 14, 2016
1,795
929
613


واپسی

محض ایک ہفتہ باقی تھا اور وہ ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھا تھا۔
حالاں کہ اُس کے بارے میں اُس کے ماتحت کام کرنے والے اور اعلیٰ افسران دونوں رائے رَکھتے تھے کہ وہ لاتعلق ہو کر بیٹھنے والا یا مشکل سے مشکل حالات میں بھی حوصلہ ہارنے والا فرد نہیں، آخری لمحے تک جدوجہد کرتا تھا۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ دوسرا روز ہونے کو تھا اور وہ دفتر سے نہ نکلا تھا۔
اْن دو دنوں میں وہ ایک خط بار بار پڑھ چکا تھا۔
یہ وہ خط تھا جو بہت دِن پہلے اُسے موصول ہوا تھا اور اُسے کھولے بغیر خط کا مضمون جان گیا تھا۔ یہی کہ اْس کے اَباّ نے اْسے گاؤں آنے کو کہا ہو گا اور یہ کہ اُن کی آنکھیں اُسے دِیکھنے کو ترس گئی ہوں گی۔
اُس کا اِرادہ تھا کہ وہ کلوزنگ کے بعد ہی جائے گا۔ لہٰذا کئی روز سے بند لفافہ یونہی اُس کی ٹیبل پر پڑا رہا۔
مگر کل اْسے صبح ہی صبح کھولا اور تب سے اَب تک کئی بار پڑھ چکا تھا۔
اس نے اپنے اِمی جیٹ باس کو فون کر کے شارٹ لیو اور اسٹیشن لیو لے لی اور یوں آج اَڑھائی بجے والی بس سے وہ گاؤں جا رہا تھا۔
اْس کا اِرادہ تھا وہ ویک ایِنڈ اَپنے والدین کے ساتھ گزارے گا، حالاں کہ قبل ازیں وہ چھٹیوں والے دن بھی سرکل افسران کے ساتھ مسلسل دورے کرتا رہا تھا جس کے نتیجے میں ٹارگٹ تک پہنچنے کی امید بندھ چلی تھی۔ جب پہلے روز اُس نے انٹرکام پر متعلقہ سرکل افسر کو بتایا کہ وہ ٹور پر ساتھ نہیں جارہا تو وہ حیران ہوا تھا اور خود اُسے دیکھنے آیا تھا۔
وہ بجھا بجھا سا تھا اور سرکل اَفسر سے کُرید کُرید کر فضل احمد کے بارے میں پوچھتا رہا۔
اْسے بتایا گیا کہ بوڑھے فضل احمد کی حالت سنبھل گئی تھی۔ دِل کا معمولی دورہ تھا اور اب اس کی زِندگی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔
مگر نہ جانے اُسے کیوں یقین نہ آرہا تھا۔
یقین نہ کرنے کی بہ ظاہر کوئی وجہ نہ تھی لیکن کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو ایک لمحے میں مقید کر لیتا ہے۔
وہ بھی ایک ایسے ہی لمحے میں قید تھا۔
وہ لمحہ کہ جب بوڑھا فضل احمد عین دروازے کے بیچ لڑکھڑا کر گر پڑا تھا۔
یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب مالی سال ختم ہونے میں دو اَڑھائی ماہ باقی تھے۔ وہ اَپنی سی کوششیں کر بیٹھا تھا مگر یوں لگتا تھا، مطلوبہ نتائج اس کی دَست رَس سے پرے تھے۔
اْس نے میٹنگ کال کی، تمام متعلقہ اَفسروں کی سرزنش کی تو ہر ایک یہ ثابت کرنے پر تُلا بیٹھا تھا کہ کوتاہی اْس کی جانب سے نہیں ہورہی۔
اس نے نئی حکمت عملی تیار کرنے سے پہلے متعلقہ سرکل افسروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کے ایسے کیسز کی فہرست بنائیں جن کی وصولیاں اِس سال کسی صورت ممکن نہ تھیں۔
فہرستیں دوسرے ہی روز اُس کے میز پر تھیں۔
اْس نے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا اور کچھ غیرمعمولی اِختیارات حاصل کیے جن میں بہ وقت ضرورت پولیس کے تعاون کا حصول بھی شامل تھا۔
اْس کا اِرادہ تھا ان مشکل کیسز کے آپریشن کی خود نگرانی کرے گا۔
ایک مرتبہ پھر سرکل افسروں کو طلب کیا، ہر باقی دار کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کیں اور خدا کا نام لے کر چھاپے مار کر مہم کا آغاز کردیا۔
اْسے باہر نکلتے دیکھ کر سرکل افسروں کے حوصلے بڑھ گئے اور پہلے سے کہیں زیادہ جاں فشانی سے کام کرنے لگے یوں وصولیوں کی شرح بڑھنے لگی مگر وہ ابھی تک مطمئن نہ تھا کہ بڑھوتری کی یہ شرح بہت معمولی تھی۔
اْس کے لیے اصل رکاوٹ بااثر اَفراد تھے یا پھر وہ لوگ جو ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ کچھ کیسز خواتین کے نام پر تھے اور کچھ باقی دار انتہائی ضعیف، معذور یا پھر لاچار تھے۔ ایسے تمام کیسز میں نہ تو اس کے پاس وقت تھا کہ رہن شدہ جائیدادوں کی ڈگری کے لیے طویل قانونی جنگ لڑی جائے اور نہ ہی وہ براہ راست ان لوگوں پر ہاتھ ڈال سکتا تھا۔
اِن حوصلہ شکن حالات میں اْسے ایک باقی دار فضل احمد کے گھر لے جایا گیا۔ اس کیس میں فضل احمد اور اْس کے بیٹے ڈاکٹر شہباز فضل نے مشترکہ طور پر ایک ہیچری لگانے کے لیے قرض لیا تھا۔ ڈاکٹر شہباز فضل کچھ ہی عرصے کے بعد اِنتہائی خاموشی سے ہیچری کی مشینری بیچ کر اور عمارت کو طویل مُدّت کے ٹھیکے پر دینے کے عوض ایک معقول رقم اینٹھ کر ملک سے باہر چلا گیا تھا، جب کہ فضل احمد نہ صرف ضعیف العمر تھا، بل کہ فالج زدہ بھی تھا۔
اْس نے سرکل افسر سے پوچھا:
’’فضل احمد کا بیٹا جو رقم باہر سے بھیجتا ہے، یہ اسے اپنے واجبات کی مد میں کیوں جمع نہیں کراتا؟‘‘
جواب ملا: ’’وہ کچھ نہیں بھیجتا۔‘‘
اْس نے حیرت سے سرکل افسر کو دیکھا اور کہا: ’’تعجب ہے۔‘‘
فضل احمد کا گھر اَندرون شہر تھا۔ گاڑی بڑے چوک تک جاتی تھی۔ وہیں کھڑی کردی گئی۔ وہ دونوں ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں سے پیدل ہی آگے گزرنے لگے۔
’’سر! یہ رہا فضل احمد کا گھر۔‘‘
چلتے چلتے اچانک سرکل افسر نے ایک دو منزلہ عمارت کی جانب انگلی اٹھائی۔
’’گھر تو شان دار ہے‘‘
اْس نے دیکھا تو تبصرہ کیا۔
’’جی ہاں! مگر نچلا حصہ کرائے پر ہے اور فضل احمد کا واحد ذریعہ آمدن بھی یہی ہے۔‘‘
مکان کے پہلو میں تنگ سی لوہے کی سیڑھی بل کھاتی اوپر جاتی تھی۔
وہ دروازے پر تھے۔ کال بیل کے پُش بٹن پر اْس نے انگلی رکھ دی۔ سرکل افسر نے آگے بڑھ کر دروازہ کھٹ کھٹایا اور کہا:
’’بٹن دبا کر اِنتظار کرنا بے کار ہے سر۔ گھنٹی خراب ہے۔‘‘
’’اوہ‘‘
’’میں جب سے آرہا ہوں سر، تب سے ایسے ہی ہے سر۔‘‘
دوسری طرف پہلے کوئی کھانستا ہی چلا گیا پھر کھانسنے کی آواز وہیں ٹکی رہی اور لاٹھی کے گھسیٹنے اور ٹک ٹک کرنے کی آواز دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ دروازے کے پاس آکر آواز رْک گئی اور یوں لگا جیسے کوئی سانس بحال کر رہا ہو۔ تیسری آواز جو اندر سے آئی وہ دروازے پر لگی زنجیر کی تھی جو جھولنے اور رگڑ کھانے سے پیدا ہو رہی تھی۔ دروازہ بھی ’’چوں اوں‘‘ کرتا ہوا کھلا۔ سامنے اِنتہائی ضعیف العمر خاتون لاٹھی کے سہارے بہ مشکل کھڑی تھی۔ سارے چہرے پر یا جھریاں تھیں یا پھر موٹے شیشوں اور ٹوٹی ہوئی کمانی کی میلی کچیلی عینک، جسے ڈوری باندھ کر ناک پر ٹکایا گیا تھا۔ بال روئی کے گالوں جیسے سفید اور کمر ضعیفی نے دوہری کردی تھی۔
اْس نے کپکپاتے ہاتھوں سے عینک کے اوپر اوٹ بنائی، چہرے کو اوپر کیا تو عینک کے شیشوں سے موٹی موٹی آنکھوں نے اْسے پہچاننے کی کوشش کی۔
’’جی‘‘
اَپنی کوشش میں ناکام ہوکر اس نے مختصر سوال کیا۔
’’اماں جی ہمیں فضل احمد سے ملنا ہے اْن کے ذمہ حکومت کا کچھ قرضہ باقی ہے۔‘‘
بڑھیا نے ایک مرتبہ پھر اْسے دیکھنے کی کوشش کی۔ اب کے اس کے چہرے پر تجسس کی بہ جائے پریشانی تھی۔ وہ لڑکھڑاتی دروازے سے ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔
اس لڑکھڑاہٹ میں بڑھاپے اور پریشانی دونوں کا دخل تھا۔ کہنے لگی۔
’’اندر آجاؤ بچے! وہ سامنے کمرے میں پڑا ہے۔‘‘
وہ اَندر داخل ہو گئے۔ بڑھیا نے دروازے کو بند کیا۔ ٹٹول کر زنجیر تلاش کی اور دروازے پر ڈال دی۔ پھر لاٹھی ٹیکتی کمرے کی طرف چل پڑی۔
اندر کا ماحول عجب آسیب زدہ تھا۔ ہر چیز بکھری ہوئی۔ روشنی بھی معقول نہ تھی۔ ایک خاص قسم کی باس بھی چاروں طرف پھیل رہی تھی، کچی کچی اور ناگوار۔ سامنے چارپائی پر ہڈیوں کا ایک پنجر پڑا تھا۔ یقیناً وہی فضل احمد تھا۔ اُسے کھانستے ہوئے بھی دِقت ہو رہی تھی۔ ہمارے گھر میں داخل ہونے کے بعد کھانسنے کے علاوہ اس نے تین مرتبہ اَپنی بیوی کو بلایا تھا۔
’’مل لی آں‘‘
اس نے اندازہ لگایا۔ وہ مریم یا مریاں کَہہ رہا تھا۔ فالج نے ایک پہلو ناکارہ کرنے کے علاوہ اس کی زبان بھی لکنت زدہ کر دی تھی۔
وہ دونوں اس کے قریب پہنچ گئے۔ بوڑھا بے قراری سے بستر پر اُوپر ہی اوپر اُٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر جوں ہی اس نے اْس کے پیچھے سرکل افسر کا چہرہ دیکھا، دھچکے سے بستر میں دھنس کر بے سدھ ہو گیا۔ وہ ساتھ والی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ کمرے میں مزید گہرا سکوت چھا گیا۔
’’یہ ہمارے بڑے افسر ہیں۔‘‘
سرکل افسر نے اُس کا تعارف فضل احمد سے کرایا۔ بوڑھے نے بجھی بجھی آنکھوں سے اُسے دیکھا۔ اُس نے جواباً فائل کھولی۔ اُس میں فضل احمد اور اُس کے بیٹے کے وارنٹ دیکھے اور بے بسی سے فائل بند کردی۔ اسے یہاں آنا بے سود لگا۔ بوڑھا حواس بحال کر چکا تھا مریل سی آواز میں بڑبڑانے لگا۔ اُس نے یونہی ایک سوال پھینک دیا:
’’بزرگو! اب کیا ہوگا؟‘‘
بوڑھے نے اُس کی جانب دیکھا۔ مایوسی کی زردی اُس کے چہرے پر بکھر گئی۔ لکنت زدہ آواز میں کہنے لگا:
’’اب کیا ہونا ہے بچے؟ ہو بھی کیا سکتا ہے؟ اِس سے بڑھ کر تو میں ذلیل و رسوا نہیں ہو سکتا ناں!‘‘
ایک مرتبہ پھر بوڑھا چپ ہوگیا۔
ان خاموش لمحوں کی گونج اُسے صاف سنائی دِے رہی تھی۔ اُس نے اُکتاہٹ سے پہلو بدلا۔ بوڑھے کی کھانسی نے خاموشی کو توڑا۔ جب وہ اچھی طرح کھانس چکا تو اَپنی بیوی کو پکارا:
’’مل لی آں‘‘
مریاں، جو دروازے کے بیچ ہی چوکھٹ پر بیٹھ گئی تھی، کراہنے کے بعد اْٹھی۔ لاٹھی ٹیکتی بوڑھے کی چارپائی کے پائیتانے ہاتھ ٹیک کر کھڑی ہو گئی:
’’بچوں کے لیے چائے بناؤ۔‘‘
اْسے پہلے ہی اُلجھن ہورہی تھی۔ چائے کا سُن کر وہ بے قراری سے اُٹھا اور سختی سے منع کر دیا۔ بوڑھا دوبارہ بے سُدھ لیٹ گیا۔ بڑھیا دائیں کونے میں رَکھے چولہے کے پاس دَھرے موڑھے پر بیٹھ گئی۔
وہ مزید بیٹھنا نہیں چاہتا تھا۔ کہنے لگا:
’’اچھا بزرگو! خدا حافظ، اور ہاں بیٹے کو لکھیں کہ وہ بقایا جات جمع کرانے کا بندوبست کرے ورنہ اس مکان سمیت آپ کی ساری جائیداد نیلام ہوجائے گی۔‘‘
بوڑھا زور سے ہنسا۔ اِس قدر زور سے کہ اْس کی آنکھوں میں سے آنسو نکل آئے پھر اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے سچ مچ رونے لگا۔ دفعتاً رونا موقوف کیا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ اسے تجسس ہوا، نہ جانے بوڑھا کیا کہہ رہا تھا؟ وہ ایک مرتبہ پھر قریب ہوکر بیٹھ گیا اور سماعت بوڑھے کی طرف مبذول کردی۔ فضل احمد اپنے بیٹے کو گالیاں دیتے ہوئے کَہہ رہا تھا:
’’کہتا ہے بچوں کو عین دوراہے میں کیسے چھوڑے، ہم چاہے موت اور زِندگی کے بیچ لٹکتے رہیں۔‘‘
مغلظات کا ایک اور ریلا اُس کے منہ سے بہہ نکلا۔ مریاں پہلی مرتبہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔
’’نہ دے، نہ دے بددعائیں۔ اَپنا خُون ہے، اپنا کلیجہ، دُعا کر خدا اُسے سُکھی رکھے۔ جہاں رہے اﷲ کی امان میں رہے۔ ہمارا کیا ہے۔ ہم قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھے ہیں۔ آج ہیں تو ہیں۔ کل نہیں ہوں گے۔‘‘
اْس نے بوڑھے سے پوچھا:
’’کوئی خط وغیرہ؟‘‘
کہنے لگا:
’’ہاں لکھتا ہے۔ جب ادھر سے دَس بارہ مسلسل لکھ چکتا ہوں تب ایک آدھ سطر میں جواب دے دِیتا ہے۔ کہتا ہے وہاں بہت مصروف ہے۔ ماں کا۔۔۔۔۔ ‘‘
اْس نے فضل احمد سے کہا:
’’آپ اس کا پتا ہی دِے دِیں۔‘‘
’’پتا؟ مگر کیوں؟‘‘
’’ہم اَپنے طور پر اُس سے رابطہ کریں گے۔‘‘
بوڑھا فضل احمد تڑپ کر اُٹھ بیٹھا:
’’ناں بیٹا ناں۔ تم اُسے کسی مشکل میں ڈال دو گے۔ تم اُسے ستاؤ گے۔ سفارت خانے کو لکھو گے۔ ناں بیٹا ناں۔‘‘
بوڑھا پوری طرح حواس میں آکر چوکس ہوگیا تھا۔ اْسے حیرت ہوئی۔ ابھی ابھی وہ اپنے بیٹے سے شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے گالیاں دے رہا تھا اور اب اسے اس کی اتنی فکر تھی کہ وہ ہمیں اس کا پتا تک نہ دینا چاہتا تھا۔
چند ہی روز بعد اسے بتایا گیا کہ فضل احمد کی بیوی جل مری۔ بچاری کھانا پکاتے پکاتے اْٹھی اور لڑکھڑا کر عین چولہے کے اوپر جا گری۔ اُس کی چیخیں سن کر بوڑھا گرتا پڑتا اُس کی جانب لپکا، اسے بچانے کی کوشش کی۔ خود جھلس گیا مگر اُسے بچا نہ سکا۔
اس کا دِل چاہا کہ وہ بوڑھے فضل احمد سے اَفسوس کرنے جائے مگر جا نہ سکا۔
اْس کے لیے ایک ایک دِن قیمتی تھا۔
آخری مہینہ شروع ہوچکا تھا اور منزل تک پہنچنے کی اْمید بھی بندھ چلی تھی۔
ابھی اس واقعے کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ سرکل افسر نے بتایا:
’’ڈاکٹر شہباز فضل آیا ہوا ہے۔‘‘
یقیناً اُسے ماں کے جل مرنے کی خبر ملی ہوگی۔ اس نے اندازہ لگایا۔ اسی لمحے اس نے محسوس کیا کہ اس کے دِل میں ڈاکٹر شہباز کے لیے اِنتہائی نفرت جنم لے چکی تھی۔ جذباتی ہوگیا اور سرکل افسر کو ہدایت کی کہ چھاپا مارنے کے اِنتظامات کیے جائیں۔
مغرب ڈھل چکی تھی۔ اسے یقین تھا وہ گھر میں ہی ہوگا۔
وہ گھر میں ہی تھا۔ دروازہ اُسی نے کھولا اور گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔ وہ اندر داخل ہوگیا ‘ پوچھا:
’’آپ ہی ڈاکٹر شہباز فضل ہیں؟‘‘
’’جی‘‘ وہ کچھ اور پیچھے ہٹا۔
’’آپ حکومت کے نادہندہ ہونے کے سبب مطلوب ہیں۔ یہ رہے آپ کے وارنٹ۔‘‘
اُس نے اُسے وارنٹ دِکھاتے ہوئے کہا۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹا اور کمرے میں گھس گیا۔ اِسی اثنا میں بوڑھا فضل احمد گرتا پڑتا کمرے کے دروازے تک پہنچ چکا تھا۔
’’نہیں بیٹے نہیں۔‘‘
اُس نے دروازے کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔
’’تم اِسے گرفتار نہیں کر سکتے۔‘‘
وہ آگے بڑھا اور کہا۔
’’دیکھیں بابا جی! آپ کار سرکار میں مداخلت نہ کریں۔ آپ ایک طرف ہو جائیں‘‘
اُس نے اَپنا ہاتھ بوڑھے کے ہاتھ پر رکھا۔ بوڑھے کا پورا بدن کپکپانے لگا۔ چہرے کے مسام پسینے سے بھر گئے۔ اس نے بوڑھے کو ایک طرف کرنے کے لیے اُس کے ہاتھ پر دباؤ ڈالا تو وہ چیخنے لگا:
’’مت گرفتار کرو میرے بیٹے کو۔ مجھے لے جاؤ۔ ہاں لے جاؤ مجھے۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
اس کے آگے وہ کچھ نہ بول سکا اور لڑکھڑا کر کٹے ہوئے درخت کی طرح عین دروازے کے بیچ گرگیا۔
اس نے کمرے اندر سہمے ہوئے ڈاکٹر شہباز فضل کو دیکھا پھر اُس کے باپ کے لڑکھڑا کر گرتے وجود پر ایک نظر ڈالی اور واپس پلٹ آیا۔
اِس واقعے کو دوسرا روز ہو چلا تھا۔
اور اُس نے وہ خط جو کئی دِن سے اُس کی ٹیبل پر بند پڑا تھا، اِن دو دِنوں میں کئی بار پڑھ ڈالا تھا۔ اور جب وہ اَڑھائی بجے والی بس سے ایک طویل عرصے بعد اپنے گاؤں ویک اینڈ گزارنے جا رہا تھا تو سب تعجب کا اِظہار کر
رہے تھے۔
 
Top