وہی ٹوٹی ہوئی کشتی ہماری
وہی ٹہھرا ہوا دیرا ہمارا
کہیں جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا
ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاق
ہمارے ساتھ ہے سایہ ہمارا
احمد مشتاقؔ
کہیں جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا
ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاق
ہمارے ساتھ ہے سایہ ہمارا
احمد مشتاقؔ