پان اور ذبیحہ
ہمارے ہاں کے ایک بزرگ ایک روز جنیوا کے ہوٹل کے باہر کی سیر کر رہے تھے اور پان کی پچکاریاں مار رہے تھے کہ کچھ بچوں نے دیکھ لیا اور پولیس کو رپورٹ کی کہ ایک شخص خون تھوک رہا ہے۔ فورا کانسٹیبل آئے اور کہا کہ چلو ہسپتال۔ وہ بہت بھنائے اور انگریزی میں عذر کرنے لگے کہ میں تو یہ ہوں، وہ ہوں۔ مجھے تم جیل نہیں بھجوا سکتے، لیکن جنیوا کے کانسٹیبل انگریزی کیا جانیں؟ اتفاق سے ایک بھلے مانس کا گزر ادھر سے ہوا اور انہوں نے صورتحال سمجھی اور سمجھائی اور ان سے کہا کہ پانوں کی ڈبیا نکال کر انہیں دکھائیے۔ بڑی مشکل سے چھٹکارا ہوا، لیکن ہوٹل والوں نے ان کے غسل خانے کو بھی رنگین پایا تو بڑے جزبر ہوئے۔ یہاں تک تو انہوں نے برداشت کیا، لیکن ایک روز ان بزرگ کو شک ہوا کہ یہ گوشت جو ہوٹل والے دیتے ہیں شاید ذبیحہ نہیں۔ انہوں نے ہوٹل والوں سے کہا، "اپنا باورچی خانہ دکھائیے۔"
سارا دودھ کی تازہ سفید تھا۔ انہوں نے کہا، "کوئی مرغی لاؤ۔"
وہ سمجھے کہ سوئیزرلینڈ کی مرغیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک پلی ہوئی مرغی لا کر انہوں نے دی۔ قریب ہی چاقو پڑا تھا۔ انہوں نے اللہ اکبر کہہ کر اس کی گردن پر پھیر دیا۔ وہ پھڑپھڑا کر ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ لیکن ادھ کٹی گردن کی چھینٹوں سے سبھی کے کپڑے گلنار ہو گئے۔ باورچی خانہ بھی رنگین ہو گیا۔ یورپ میں خود مرغی یا کوئی جانور ذبح کرنا جرم ہے، یہاں بھی وہ اپنی حیثیت کا حوالہ دے کر چھوٹے، لیکن بعد میں ہوٹل والے پاکستانی کو انکار کر دیتے تھے کہ ہمارے ہاں کمرہ نہیں ہے۔
سارا دودھ کی تازہ سفید تھا۔ انہوں نے کہا، "کوئی مرغی لاؤ۔"
وہ سمجھے کہ سوئیزرلینڈ کی مرغیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک پلی ہوئی مرغی لا کر انہوں نے دی۔ قریب ہی چاقو پڑا تھا۔ انہوں نے اللہ اکبر کہہ کر اس کی گردن پر پھیر دیا۔ وہ پھڑپھڑا کر ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ لیکن ادھ کٹی گردن کی چھینٹوں سے سبھی کے کپڑے گلنار ہو گئے۔ باورچی خانہ بھی رنگین ہو گیا۔ یورپ میں خود مرغی یا کوئی جانور ذبح کرنا جرم ہے، یہاں بھی وہ اپنی حیثیت کا حوالہ دے کر چھوٹے، لیکن بعد میں ہوٹل والے پاکستانی کو انکار کر دیتے تھے کہ ہمارے ہاں کمرہ نہیں ہے۔