پرمیشر سنگھ- احمد ندیم قاسمی حصہ دوم

  • Work-from-home

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113

پرمیشر سنگھ- احمد ندیم قاسمی
حصہ دوم


ایک روز اختر کو تیز بخار آگیا۔ پرمیشر سنگھ وید کے پاس چلا گیا اور اس کے جانے کے کچھ دیر بعد اس کی بیوی پڑوسن سے پسی ہوئی سونف مانگنے چلی گئی۔ اختر کو پیاس لگی۔
’’پانی‘‘ اس نے کہا، کچھ دیر بعد لال لال سوجی سوجی آنکھیں کھولیں ۔ ادھر ادھر دیکھا اور پانی کا لفظ ایک کراہ بن کر اس کے حلق سے نکلا۔ کچھ دیر کے بعد وہ لحاف کو ایک طرف جھٹک کر اٹھ بیٹھا۔ امر کور سامنے دہلیز پر بیٹھی کھجور کے پتوں سے چنگیر بنا رہی تھی۔ ۔ ۔ ’’پانی دے!‘‘ اختر نے اسے ڈانٹا۔ امر کور نے بھنویں سکیڑ کر اسے گھور کر دیکھا اور اپنے کام میں جٹ گئی۔ اب کے اختر چلایا۔ ۔ ۔ ’’پانی دیتی ہے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ پانی دے ورنہ ماروں گا‘‘۔ ۔ ۔ امر کور نے اب کے اس کی طرف دیکھا ہی نہیں ۔ بولی۔ ۔ ۔ ’’مار تو سہی۔تو کرتارا نہیں کہ میں تیری مار سہہ لوں گی۔ میں تو تیری بوٹی بوٹی کر ڈالوں گی۔‘‘ اختر بلک بلک کر رو دیا۔ اور آج اس نے مدّت کے بعد اپنی اماں کو یاد کیا۔ پھر جب پرمیشر سنگھ دوا لے آیا اور اس کی بیوی بھی پسی ہوئی سونف لے کر آ گئی تو اختر نے روتے روتے بری حالت بنا لی تھی اور وہ سسک سسک کر کہہ رہا تھا۔ ’’ہم تو اب اماں پاس چلیں گے۔ یہ امر کور سور کی بچی تو پانی بھی نہیں پلاتی۔ ہم تو اماں پاس جائیں گے۔‘‘ پرمیشر سنگھ نے امر کور کی طرف غصے سے دیکھا۔ وہ رو رہی تھی اور اپنی ماں سے کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ ’’کیوں پانی پلاؤں ؟ کرتارا بھی تو کہیں اسی طرح پانی مانگ رہا ہو گا کسی سے۔ کسی کو اس پر ترس نہ آئے تو ہمیں کیوں ترس آئے اس پر۔ ۔ ۔ ہاں ‘‘۔
پرمیشر سنگھ اختر کی طرف بڑھا اور اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
’’یہ بھی تو تمھاری ماں ہے بیٹے۔‘‘
’’نہیں ‘‘ اختر بڑے غصے سے بولا۔’’یہ تو سکھ ہے۔ میری اماں تو پانچ وقت نماز پڑھتی ہے اور بسم اللہ کہہ کر پانی پلاتی ہے۔‘‘
پرمیشر سنگھ کی بیوی جلدی سے ایک پیالہ بھر کر لائی تو اختر نے پیالے کو دیوار پر دے مارا اور چلایا۔ ’’تمھارے ہاتھ سے نہیں پئیں گے۔‘‘
’’یہ بھی تو مجھی سور کی بچی کا باپ ہے۔‘‘ امر کور نے جل کر کہا۔
’’تو ہوا کرے‘‘ اختر بولا۔ ۔ ۔ ’’تمھیں اس سے کیا۔‘‘
پرمیشر سنگھ کے چہرے پر عجیب کیفیتیں دھوپ چھاؤں سی پیدا کر گئیں ۔ وہ اختر کے مطالبے پر مسکرایا بھی اور رو بھی دیا۔ پھر اس نے اختر کو پانی پلایا۔ اس کے ماتھے کو چوما۔ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا، اسے بستر پر لٹا کر اس کے سر کو ہولے ہولے کھجاتا رہا اور کہیں شام کو جا کر اس نے پہلو بدلا۔ اس وقت اختر کا بخار اتر چکا تھا اور وہ بڑے مزے سے سو رہا تھا۔
آج بہت عرصے کے بعد رات کو پرمیشر سنگھ بھڑک اٹھا اور نہایت آہستہ سے بولا۔
’’اری سنتی ہو؟۔ ۔ ۔ سن رہی ہو؟ یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘
بیوی نے پہلے تو اسے پرمیشر سنگھ کی پرانی عادت کہہ کر ٹالنا چاہا مگر پھر ایک دم ہڑبڑا کر اٹھی اور امر کور کی کھاٹ کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے ہولے ہولے ہلا کر آہستہ سے بولی۔ ۔ ۔ ’’بیٹی!‘‘
’’کیا ہے ماں ؟‘‘ امر کور چونک اٹھی۔
اور اس نے سرگوشی کی۔ ’’سنو تو۔ سچ مچ کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘
یہ ایک ثانیے کا سناٹا بڑا خوف ناک تھا۔ امر کور کی چیخ اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی اور پھر اختر کی چیخ خوف ناک تر تھی۔
’’کیا ہوا بیٹا‘‘ پرمیشر سنگھ تڑپ کر اٹھا اور اختر ی کھاٹ پر جا کر اسے چھاتی سے بھینچ لیا۔ ’’ڈر گئے بیٹا۔‘‘
’’ہاں ‘‘ اختر لحاف میں سے سر نکال کر بولا۔ ’’کوئی چیز چیخی تھی۔‘‘
’’امر کور چیخی تھی‘‘ پرمیشر سنگھ نے کہا۔ ۔ ۔ ’’ہم سب یوں سمجھے جیسے کوئی چیز یہاں قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘
’’میں پڑھ رہا تھا‘‘ اختر بولا۔
اب کے بھی امر کور کے منہ سے ہلکی چیخ نکل گئی۔
بیوی نے جلدی سے چراغ جلا دیا اور امر کور کی کھاٹ پر بیٹھ کر وہ دونوں اختر کو یوں دیکھنے لگیں جیسے وہ ابھی دھواں بن کر دروازے کی جھریوں میں سے باہر اڑ جائے گا اور باہر سے ایک ڈراؤنی آواز آئے گی۔ ’’میں جن ہوں میں کل رات پھر آ کر قرآن پڑھوں گا۔‘‘
’’کیا پڑھ رہے تھے بھلا؟‘‘ پرمیشر سنگھ نے پوچھا۔
’’پڑھوں ؟‘‘ اختر نے پوچھا۔
 

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113
’’ہاں ہاں ‘‘ پرمیشر سنگھ نے بڑے شوق سے کہا۔
اور اختر قُل ہو اللہ اَحَد پڑھنے لگا۔ کُفواً اَحَد پر پہنچ کر اس نے اپنے گریبان میں چھوکی اور پھر پرمیشر سنگھ کی طرف مسکراتے ہوئے بولا۔ ۔ ۔ ’’تمھارے سینے میں بھی چھو کر دوں ؟‘‘
’’ہاں ہاں ‘‘ پرمیشر سنگھ نے گریبان کا بٹن کھول دیا اور اختر نے چھو کر دی۔ اب کے امر کور نے بڑی مشکل سے چیخ پر قابو پایا۔
پرمیشر سنگھ بولا۔ ۔ ۔ ’’کیا نیند نہیں آتی تھی؟‘‘
’’ہاں ‘‘ اختر بولا۔ ۔ ۔ ’’امّاں یاد آ گئی۔ اماں کہتی ہے، نیند نہ آئے تو تین بار قُل ہو اللّٰہ پڑھو نیند آ جائے گی، اب آ رہی تھی، پر امر کور نے ڈرا دیا۔‘‘
’’پھر سے پڑھ کر سو جاؤ‘‘ پرمیشر سنگھ نے کہا۔ ۔ ۔ ’’روز پڑھا کرو۔ اونچے اونچے پڑھا کرو اسے بھولنا نہیں ورنہ تمھاری اماں تمھیں مارے گی۔ لو اب سو جاؤ۔‘‘ اس نے اختر کو لٹا کر اسے لحاف اوڑھا دیا۔ پھر چراغ بجھانے کے لیے بڑھا تو امر کور پکاری۔ ۔ ۔ ’’نہیں ، نہیں بابا۔ بجھاؤ نہیں ۔ ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’جلتا رہے، کیا ہے؟‘‘ بیوی بولی۔
اور پرمیشر سنگھ دیا بجھا کر ہنس دیا۔ ۔ ۔ ’’پگلیاں ‘‘ وہ بولا۔ ۔ ۔ ’’گدھیاں ۔‘‘
رات کے اندھیرے میں اختر آہستہ آہستہ قل ھو اللّٰہ پڑھتا رہا۔ پھر کچھ دیر بعد ذرا ذرا سے خراٹے لینے لگا۔ پرمیشر سنگھ بھی سو گیا اور اس کی بیوی بھی۔ مگر امر کور رات بھر کچی نیند میں ’’پڑوس‘‘ کی مسجد کی اذان سنتی رہی اور ڈرتی رہی۔
اب اختر کے اچھے خاصے کیس بڑھ آئے تھے۔ ننھے سے جوڑے میں کنگھا بھی اٹک جاتا تھا۔ گاؤں والوں کی طرح پرمیشر سنگھ کی بیوی بھی اسے کرتارا کہنے لگی تھی اور اس سے خاصی شفقت سے پیش آتی تھی مگر امر کور اختر کو یوں دیکھتی تھی جیسے وہ کوئی بہروپیا ہے اور ابھی وہ پگڑی اور کیس اتار کر پھینک دے گا اور قُل ہو اللّٰہ پڑھتا ہوا غائب ہو جائے گا۔
ایک دن پرمیشر سنگھ بڑی تیزی سے گھر آیا اور ہانپتے ہوئے اپنی بیوی سے پوچھا۔
’’وہ کہاں ہے؟‘‘
’’کون؟ امر کور؟‘‘
’’نہیں ۔‘‘
’’کرتارا؟‘‘
’’نہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘ پھر کچھ سوچ کر بولا۔ ۔ ۔ ’’ہاں ہاں وہی کرتارا۔‘‘
’’باہر کھیلنے گیا ہے۔ گلی میں ہو گا۔‘‘
پرمیشر سنگھ واپس لپکا۔ گلی میں جا کر بھاگنے لگا۔ باہر کھیتوں میں جا کر اس کی رفتار اور تیز ہو گئی۔ پھر اسے دور گیان سنگھ کے گنوں کی فصل کے پاس چند بچے کبڈی کھیلتے نظر آئے۔ کھیت کی اوٹ سے اس نے دیکھا کہ اختر نے ایک لڑکے کو گھٹنوں تلے دبا رکھا ہے۔ لڑکے کے ہونٹوں سے خون پھٹ رہا ہے مگر کبڈی کبڈی کی رٹ جاری ہے۔ پھر اس لڑکے نے جیسے ہار مان لی۔ اور جب اختر کی گرفت سے چھوٹا تو بولا۔ ۔ ۔ ’’کیوں بے کرتارو! تو نے میرے منھ پر گھٹنا کیوں مارا ہے؟‘‘
’’اچھا کیا جو مارا‘‘ اختر اکڑ کر بولا اور بکھرے ہوئے جوڑے کی لٹیں سنبھال کر ان میں کنگھا پھنسانے لگا۔
’’تمھارے رسول نے تمھیں یہی سمجھایا ہے؟‘‘ لڑکے نے طنز سے پوچھا۔
اختر ایک لمحے کے لیے چکرا گیا۔ پھر سوچ کر بولا۔ ۔ ۔ ’’اور کیا تمھارے گُرو نے تمھیں یہی سمجھایا ہے؟‘‘
’’مُسلّا‘‘ لڑکے نے اسے گالی دی۔
’’سکھڑا‘‘ اختر نے اسے گالی دی۔
سب لڑکے اختر پر ٹوٹ پڑے مگر پرمیشر سنگھ کی ایک ہی کڑک سے میدان صاف تھا۔ اس نے اختر کی پگڑی باندھی اور اسے ایک طرف لے جا کر بولا۔ ۔ ۔ ’’سنو بیٹے! میرے پاس رہو گے کہ اماں کے پاس جاؤ گے۔ ۔ ۔ ؟‘‘
اختر کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ کچھ دیر تک پرمیشر سنگھ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا پھر مسکرانے لگا اور بولا۔ ۔ ۔ ’’اماں پاس جاؤں گا۔‘‘
’’اور میرے پاس نہیں رہو گے؟‘‘
پرمیشر سنگھ کا رنگ یوں سُرخ ہو گیا جیسے وہ رو دے گا۔
’’تمھارے پاس بھی رہوں گا؟‘‘ اختر نے معمے کا حل پیش کر دیا۔ پرمیشر سنگھ نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور وہ آنسو جو مایوسی نے آنکھوں میں جمع کیے تھے، خوشی کے آنسو بن کر ٹپک پڑے۔ وہ بولا۔ ۔ ۔ ’’دیکھو بیٹے!۔ ۔ ۔ اختر بیٹے آج یہاں فوج آ رہی ہے یہ فوجی تمھیں مجھ سے چھیننے آ رہے ہیں ، سمجھے؟ تم کہیں چھپ جاؤ۔ پھر جب وہ چلے جائیں گے نا، تو میں تمھیں لے آؤں گا۔‘‘
پرمیشر سنگھ کو اس وقت دور غبار کا ایک پھیلتا ہوا بگولہ دکھائی دیا۔ مینڈ پر چڑھ کر اس نے لمبے ہوتے ہوئے بگولے کو غور سے دیکھا اور اچانک تڑپ کر بولا۔ ۔ ۔ ’’فوجیوں کی لاری آ گئی۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ مینڈ پر سے کود پڑا اور گنے کے کھیت کا پورا چکر کاٹ گیا۔
’’گیا نے، او گیان سنگھ!‘‘ وہ چلایا۔ گیان سنگھ فصل کے اندر سے نکل آیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں درانتی اور دوسرے ہاتھ میں تھوڑی سی گھاس تھی۔ ۔ ۔ پرمیشر سنگھ اسے الگ لے گیا، اسے کوئی بات سمجھائی پھر دونوں اختر کے پاس آئے۔ گیان سنگھ نے فصل میں سے ایک گنا توڑ کر درانتی سے اس کے پتے کاٹے اور اسے اختر کے حوالے کر کے بولا۔ ۔ ۔ ’’آؤ بھائی کرتارے تم میرے پاس بیٹھ کر گنا چوسو جب تک یہ فوجی چلے جائیں ۔ اچھا خاصا بنا بنایا خالصہ ہتھیانے آئے ہیں ۔ ہونہہ!‘‘۔ ۔ ۔ پرمیشر سنگھ نے اختر سے جانے کی اجازت مانگی۔ ۔ ۔ ’’جاؤں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
اور اختر نے دانتوں میں گنے کا لمبا سا چھلکا جکڑے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی۔ اجازت پا کر پرمیشر سنگھ گاؤں کی طرف بھاگ گیا۔ بگولا گاؤں کی طرف بڑھا آ رہا تھا۔
گھر جا کر اس نے بیوی اور بیٹی کو سمجھایا۔ پھر بھاگم بھاگ گرنتھی جی کے پاس گیا۔ ان سے بات کر کے ادھر ادھر دوسرے لوگوں کو سمجھاتا پھیرا۔ اور جب فوجیوں کی لاری دھرم شالہ سے ادھر کھیت میں رک گئی تو سب فوجی اور پولیس والے گرنتھی جی کے پاس آئے۔ ان کے ساتھ علاقے کا نمبردار بھی تھا۔ مسلمان لڑکیوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوتی رہی۔ گرنتھی جی نے گرنتھ صاحب کی قسم کھا کر کہہ دیا کہ اس گاؤں میں کوئی مسلمان لڑکی نہیں ’’لڑکے کی بات دوسری ہے۔‘‘ کسی نے پرمیشر سنگھ کے کان میں سرگوشی کی اور آس پاس کے سکھ پرمیشر سنگھ سمیت زیر لب مسکرانے لگے۔ پھر ایک فوجی افسر نے گاؤں والوں کے سامنے ایک تقریر کی۔ اس نے مامتا پر بڑا زور دیا جو ان ماؤں کے دلوں میں ان دنوں ٹیس بن کر رہ گئی تھی جن کی بیٹیاں چھن گئی تھیں اور ان بھائیوں اور شوہروں کی پیار کی بڑی دردناک تصویر کھینچی جن کی بہنیں اور بیویاں ان سے ہتھیا لی گئی تھیں ۔ ۔ ۔ ’’اور مذہب کیا ہے دوستو۔‘‘ اس نے کہا تھا۔ ۔ ۔ ’’دنیا کا ہر مذہب انسان کو انسان بننا سکھاتا ہے اور تم مذہب کے نام لے کر انسان کو انسان سے لڑا دیتے ہو۔ ان کی آبرو پر ناچتے ہو اور کہتے ہو ہم سکھ ہیں ، ہم مسلمان ہیں ۔ ۔ ۔ ہم واہگورو جی کے چیلے ہیں ، ہم رسول کے غلام ہیں ۔‘‘
تقریر کے بعد مجمع چھٹنے لگا۔ فوجیوں کے افسر نے گرنتھی جی کا شکریہ ادا کیا۔ ان سے ہاتھ ملایا اور لاری چلی گئی
 

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113

سب سے پہلے گرنتھی جی نے پرمیشر سنگھ کو مبارک باد دی۔ پھر دوسرے لوگوں نے پرمیشر سنگھ کو گھیر لیا اور اسے مبارک باد دینے لگے لیکن پرمیشر سنگھ لاری آنے سے پہلے حواس باختہ ہو رہا تھا تو اب لاری جانے کے بعد لُٹا لُٹا سا لگ رہا تھا۔ پھر وہ گاؤں سے نکل کر گیان سنگھ کے کھیت میں آیا۔ اختر کو کندھے پر بٹھا کر گھر میں لے آیا۔ کھانا کھلانے کے بعد اسے کھاٹ پر لٹا کر کچھ یوں تھپکا کہ اسے نیند آ گئی۔ پرمیشر سنگھ دیر تک کھاٹ پر بیٹھا رہا۔ کبھی داڑھی کھجاتا اور ادھر ادھر دیکھ کر پھر سوچ میں بیٹھ جاتا۔ پڑوس کی چھت پر کھیلتا ہوا ایک بچہ اچانک اپنی ایڑی پکڑ کر بیٹھ گیا اور زار زار رونے لگا۔ ’’ہائے اتنا بڑا کانٹا اتر گیا پورے کا پورا۔‘‘ وہ چلایا اور پھر اس کی ماں ننگے سر اوپر بھاگی۔ اسے گود میں بٹھا لیا پھر نیچے بیٹی کو پکار کر سوئی منگوائی۔ کانٹا نکالنے کے بعد اسے بے تحاشا چوما اور پھر نیچے جھک کر پکاری۔ ۔ ۔ ’’ارے میرا دوپٹہ تو اوپر پھینک دینا۔ کیسی بے حیائی سے اوپر بھاگی چلی آئی۔‘‘
پرمیشر سنگھ نے کچھ دیر بعد چونک کر بیوی سے پوچھا۔
’’سنو کیا تمھیں کرتارا اب بھی یاد آتا ہے۔‘‘
’’لو اور سنو‘‘ بیوی بولی اور پھر ایک دم چھاجوں رو دی۔ ۔ ۔ ’’کرتارا تو میرے کلیجے کا ناسور بن گیا ہے پرمیشرے!‘‘
کرتارے کا نام سن کر ادھر سے امر کور اٹھ کر آئی اور روتی ہوئی ماں کے گھٹنے کے پاس بیٹھ کر رونے لگی۔
پرمیشر سنگھ یوں بدک کر جلدی سے اٹھ بیٹھا جیسے اس نے شیشے کے برتنوں سے بھرا ہوا طشت اچانک زمین پر دے مارا ہو۔
شام کے کھانے کے بعد وہ اختر کو انگلی سے پکڑے باہر دالان میں آیا اور بولا۔ ’’آج تو دن بھر خوب سوئے ہو بیٹا۔ چلو آج ذرا گھومنے چلتے ہیں ۔ چاندنی رات ہے۔‘‘
اختر فوراً مان گیا۔ پرمیشر سنگھ نے اسے کمبل میں لپیٹا اور کندھے پر بٹھا لیا۔ کھیتوں میں آ کر وہ بولا۔ ’’یہ چاند جو پورب سے نکل رہا ہے نا بیٹے، جب یہ ہمارے سر پر پہنچے گا تو صبح ہو جائے گی۔‘‘
اختر چاند کی طرف دیکھنے لگا۔
’’یہ چاند جو یہاں چمک رہا ہے نا۔ یہ وہاں بھی چمک رہا ہو گا۔ تمھاری اماں کے دیس میں ۔‘‘
اب کے اختر نے جھک کر پرمیشر سنگھ کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔
’’یہ چاند ہمارے سر پر آئے گا تو وہاں تمھاری اماں کے سر پر بھی ہو گا۔‘‘
اب کے اختر بولا ’’ہم چاند دیکھ رہے ہیں تو کیا اماں بھی چاند کو دیکھ رہی ہو گی؟‘‘
’’ہاں پرمیشر سنگھ کی آواز میں گونج تھی۔ ۔ ۔ ’’چلو گے اماں کے پاس؟‘‘
’’ہاں ‘‘ اختر بولا۔ ۔ ۔ ’’پر تم جاتے نہیں ، تم بہت برے ہو، تم سکھ ہو۔‘‘
پرمیشر سنگھ بولا۔ ۔ ۔ ’’نہیں بیٹے، آج تو تمھیں ضرور ہی لے جاؤں گا۔ تمھاری اماں کی چٹھی آئی ہے۔ وہ کہتی ہے میں اختر بیٹے کے لیے اداس ہوں ۔‘‘
’’میں بھی تو اداس ہوں ۔‘‘ اختر کو جیسے کوئی بھولی ہوئی بات یاد آ گئی۔
’’میں تمھیں تمھاری اماں ہی کے پاس لیے جا رہا ہوں ۔‘‘
’’سچ۔ ۔ ۔ ؟‘‘ اختر پرمیشر سنگھ کے کندھے پر کودنے لگا اور زور زور سے بولنے لگا۔ ۔ ۔ ’’ہم اماں پاس جا رہے ہیں ۔ پر موں ہمیں اماں پاس لے جائے گا۔ ہم وہاں سے پرموں کو چٹھی لکھیں گے۔‘‘
پرمیشر سنگھ چپ چاپ روئے جا رہا تھا۔ آنسو پونچھ کر اور گلا صاف کر کے اس نے اختر سے پوچھا۔
’’گانا سنو گے؟‘‘
’’ہاں ‘‘
’’پہلے تم قرآن سناؤ۔‘‘
’’اچھا‘‘ اور اختر قُل ہو اللّٰہ پڑھنے لگا، کفواً اَحَد پر پہنچ کر اس نے اپنے سینے پر چھو،کی اور بولا۔ ۔ ۔ ’’لاؤ تمھارے سینے پر بھی چھو، کر دوں ۔‘‘
رک کر پرمیشر سنگھ نے گریبان کا ایک بٹن کھولا اور اوپر دیکھا۔ اختر نے لٹک کر اس کے سینے پر چھوٗ کر دی اور بولا۔ ۔ ۔ ’’اب تم سناؤ۔‘‘
پرمیشر سنگھ نے اختر کو دوسرے کندھے پر بٹھا لیا۔ اسے بچوں کا کوئی گیت یاد نہیں تھا۔ اس لیے اس نے قسم قسم کے گیت گانا شروع کیے اور گاتے ہوئے تیز تیز چلنے لگا۔ اختر چپ چاپ سنتا رہا۔
بنتو داس سر بن ورگا جے
بنتو دا منہ ورگا جے
بنتو دالک چترا جے
لوکو
بنتو دا لک چترا
’’بنتو کون ہے؟‘‘ اختر نے پرمیشر سنگھ کو ٹوکا۔
پرمیشر سنگھ ہنسا پھر ذرا وقفے کے بعد بولا۔ ۔ ۔ ’’میری بیوی ہے نا۔ امر کور کی ماں ۔ اس کا نام بنتو ہے۔ امر کور کا نام بھی بنتو ہے۔ تمھاری اماں کا نام بھی بنتو ہی ہو گا۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘ اختر خفا ہو گیا۔ ۔ ۔ ’’وہ کوئی سکھ ہے؟‘‘
پرمیشر سنگھ خاموش ہو گیا۔
چاند بہت بلند ہو گیا تھا۔ رات خاموش تھی، کبھی کبھی گنے کے کھیتوں کے آس پاس گیدڑ روتے اور پھر سناٹا چھا جاتا۔ اختر پہلے تو گیدڑوں کی آواز سے بہت ڈرا، مگر پرمیشر سنگھ کے سمجھانے سے بہل گیا اور ایک بار خاموشی کے طویل وقفے کے بعد اس نے پرمیشر سنگھ سے پوچھا۔ ۔ ۔ ’’اب کیوں نہیں روتے گیدڑ؟‘‘ پرمیشر سنگھ ہنس دیا۔ پھر اسے ایک کہانی یاد آ گئی ۔ یہ گُرو گوبند سنگھ کی کہانی تھی۔ لیکن اس نے بڑے سلیقے سے سکھوں کے ناموں کو مسلمانوں کے ناموں میں بدل دیا اور اختر ’’پھر؟پھر؟‘‘ کی رٹ لگاتا رہا اور کہانی ابھی جاری تھی، جب اختر ایک دم بولا۔ ’’ارے چاند تو سر پر آگیا!‘‘
پرمیشر سنگھ نے بھی رک کر اوپر دیکھا۔ پھر وہ قریب کے ٹیلے پر چڑھ کر دور دیکھنے لگا اور بولا۔ ۔ ۔ ’’تمھاری اماں کا دیس جانے کدھر چلا گیا۔‘‘
وہ کچھ دیر ٹیلے پر کھڑا رہا۔ جب اچانک کہیں دور سے اذان کی آواز آنے لگی اور اختر مارے خوشی کے یوں کودا کہ پرمیشر سنگھ اسے بڑی مشکل سے سنبھال سکا۔ اسے کندھے پر سے اتار کر وہ زمین پر بیٹھ گیا اور کھڑے ہوئے اختر کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ۔ ۔ جاؤ بیٹے، تمھیں تمھاری اماں نے پکارا ہے۔ بس تم اس آواز کی سیدھ میں ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’شش!‘‘ اختر نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور سرگوشی میں بولا۔
’’اذان کے وقت نہیں بولتے۔‘‘
’’پر میں تو سکھ ہوں بیٹے!‘‘ پرمیشر سنگھ بولا۔
’’شش‘‘ اب کے اختر نے بگڑ کر اسے گھورا۔
 

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113

اور پرمیشر سنگھ نے اسے گود میں بٹھا لیا۔ اس کے ماتھے پر ایک بہت طویل پیار دیا اور اذان ختم ہونے کے بعد آستینوں سے آنکھیں رگڑ کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
’’میں یہاں سے آگے نہیں آؤں گا۔ بس تم۔ ۔ ۔ ‘‘
’’کیوں ۔ ۔ ۔ ؟ کیوں نہیں آؤ گے۔ ۔ ۔ ؟ اختر نے پوچھا۔
’’تمھاری اماں نے چٹھی میں یہی لکھا ہے کہ اختر اکیلا آئے۔‘‘
پرمیشر سنگھ نے اختر کو پھسلایا۔ ۔ ۔ ’’بس تم سیدھے چلے جاؤ۔ سامنے ایک گاؤں آئے گا۔ وہاں جا کر اپنا نام بتانا کرتارا نہیں اختر، پھر اپنی ماں کا نام بتانا۔ اپنے گاؤں کا نام بتانا اور دیکھو، مجھے ایک چٹھی ضرور لکھنا۔‘‘
’’لکھوں گا‘‘ اختر نے وعدہ کیا۔
’’اور ہاں تمھیں کرتارا نام کا کوئی لڑکا ملے نا، تو اسے ادھر بھیج دینا۔‘‘
’’اچھا‘‘ پرمیشر سنگھ نے ایک بار پھر اختر کا ماتھا چوما اور جیسے کچھ نگل کر بولا۔
’’جاؤ!‘‘
اختر چند قدم چلا مگر پلٹ آیا۔ ۔ ۔ ’’تم بھی آ جاؤ نا۔‘‘
’’نہیں بھئی!‘‘ پرمیشر سنگھ نے اسے سمجھایا۔ ۔ ۔ ’’تمھاری اماں نے چٹھی میں یہ نہیں لکھا۔‘‘
’’مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘ اختر بولا۔
’’قرآن کیوں نہیں پڑھتے؟‘‘ پرمیشر سنگھ نے مشورہ دیا۔
’’اچھا‘‘ بات سمجھ میں آ گئی اور وہ قُل ہو اللّٰہ کا ورد کرتا ہوا جانے لگا۔
نرم نرم پو افق کے دائرے پر اندھیرے سے لڑ رہی تھی اور ننھا سا اختر دور دھندلی پگڈنڈی پر ایک لمبے تڑنگے سکھ جوان کی طرح تیز تیز جا رہا تھا۔ پرمیشر سنگھ اس پر نظریں گاڑے ٹیلے پر بیٹھا رہا اور جب اختر کا نقطہ فضا کا ایک حصہ بن گیا تو وہاں سے اتر آیا۔
اختر ابھی گاؤں کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ دو سپاہی لپک کر آئے اور اسے روک کر بولے۔ ’’کون ہو تم؟‘‘
’’اختر۔‘‘
وہ یوں بولا جیسے ساری دنیا اس کا نام جانتی ہے۔
’’اختر!‘‘ دونوں سپاہی کبھی اختر کے چہرے کو دیکھتے اور کبھی اس کی سکھوں کی سی پگڑی کو۔ پھر ایک نے آگے بڑھ کر اس کی پگڑی جھٹکے سے اتار لی تو اختر کے کیس کھل کر ادھر ادھر بکھر گئے۔
اختر نے بھنا کر پگڑی چھین لی اور پھر ایک ہاتھ سے سر کو ٹٹولتے ہوئے وہ زمین پر لیٹ گیا اور زور زور سے روتے ہوئے بولا۔ ۔ ۔ ’’میرا کنگھا لاؤ۔ تم نے میرا کنگھا لے لیا ہے۔ دے دو ورنہ میں تمھیں ماروں گا۔‘‘
ایک دم دونوں سپاہی دھپ سے زمین پر گرے اور رائفل کو کندھوں سے لگا کر جیسے نشانہ باندھنے لگے۔
’’ہالٹ۔‘‘
ایک پکارا جیسے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ پھر بڑھتے ہوئے اجالے میں انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ایک نے فائر کر دیا۔ اختر فائر کی آواز سے دہل کر رہ گیا اور سپاہیوں کو ایک طرف بھاگتا دیکھ کر وہ بھی روتا چلاتا ہوا ان کے پیچھے بھاگا۔
سپاہی جب ایک جگہ جا کر رُکے تو پرمیشر سنگھ اپنی ران پر کس کر پٹی باندھ چکا تھا مگر خون اس کی پگڑی کی سیکڑوں پرتوں میں سے بھی پھوٹ آیا۔ اور وہ کہہ رہا تھا۔ ۔ ۔ ’’مجھے کیوں مارا تم نے، میں تو اختر کے کیس کاٹنا بھول گیا تھا؟ میں اختر کو اس کا دھرم واپس دینے آیا تھا یارو۔‘‘
اور اختر بھاگا آ رہا تھا اور اس کے کیس ہوا میں اڑ رہے تھے۔
 
Top