پرمیشر سنگھ- احمد ندیم قاسمی
حصہ دوم
ایک روز اختر کو تیز بخار آگیا۔ پرمیشر سنگھ وید کے پاس چلا گیا اور اس کے جانے کے کچھ دیر بعد اس کی بیوی پڑوسن سے پسی ہوئی سونف مانگنے چلی گئی۔ اختر کو پیاس لگی۔
’’پانی‘‘ اس نے کہا، کچھ دیر بعد لال لال سوجی سوجی آنکھیں کھولیں ۔ ادھر ادھر دیکھا اور پانی کا لفظ ایک کراہ بن کر اس کے حلق سے نکلا۔ کچھ دیر کے بعد وہ لحاف کو ایک طرف جھٹک کر اٹھ بیٹھا۔ امر کور سامنے دہلیز پر بیٹھی کھجور کے پتوں سے چنگیر بنا رہی تھی۔ ۔ ۔ ’’پانی دے!‘‘ اختر نے اسے ڈانٹا۔ امر کور نے بھنویں سکیڑ کر اسے گھور کر دیکھا اور اپنے کام میں جٹ گئی۔ اب کے اختر چلایا۔ ۔ ۔ ’’پانی دیتی ہے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ پانی دے ورنہ ماروں گا‘‘۔ ۔ ۔ امر کور نے اب کے اس کی طرف دیکھا ہی نہیں ۔ بولی۔ ۔ ۔ ’’مار تو سہی۔تو کرتارا نہیں کہ میں تیری مار سہہ لوں گی۔ میں تو تیری بوٹی بوٹی کر ڈالوں گی۔‘‘ اختر بلک بلک کر رو دیا۔ اور آج اس نے مدّت کے بعد اپنی اماں کو یاد کیا۔ پھر جب پرمیشر سنگھ دوا لے آیا اور اس کی بیوی بھی پسی ہوئی سونف لے کر آ گئی تو اختر نے روتے روتے بری حالت بنا لی تھی اور وہ سسک سسک کر کہہ رہا تھا۔ ’’ہم تو اب اماں پاس چلیں گے۔ یہ امر کور سور کی بچی تو پانی بھی نہیں پلاتی۔ ہم تو اماں پاس جائیں گے۔‘‘ پرمیشر سنگھ نے امر کور کی طرف غصے سے دیکھا۔ وہ رو رہی تھی اور اپنی ماں سے کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ ’’کیوں پانی پلاؤں ؟ کرتارا بھی تو کہیں اسی طرح پانی مانگ رہا ہو گا کسی سے۔ کسی کو اس پر ترس نہ آئے تو ہمیں کیوں ترس آئے اس پر۔ ۔ ۔ ہاں ‘‘۔
پرمیشر سنگھ اختر کی طرف بڑھا اور اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
’’یہ بھی تو تمھاری ماں ہے بیٹے۔‘‘
’’نہیں ‘‘ اختر بڑے غصے سے بولا۔’’یہ تو سکھ ہے۔ میری اماں تو پانچ وقت نماز پڑھتی ہے اور بسم اللہ کہہ کر پانی پلاتی ہے۔‘‘
پرمیشر سنگھ کی بیوی جلدی سے ایک پیالہ بھر کر لائی تو اختر نے پیالے کو دیوار پر دے مارا اور چلایا۔ ’’تمھارے ہاتھ سے نہیں پئیں گے۔‘‘
’’یہ بھی تو مجھی سور کی بچی کا باپ ہے۔‘‘ امر کور نے جل کر کہا۔
’’تو ہوا کرے‘‘ اختر بولا۔ ۔ ۔ ’’تمھیں اس سے کیا۔‘‘
پرمیشر سنگھ کے چہرے پر عجیب کیفیتیں دھوپ چھاؤں سی پیدا کر گئیں ۔ وہ اختر کے مطالبے پر مسکرایا بھی اور رو بھی دیا۔ پھر اس نے اختر کو پانی پلایا۔ اس کے ماتھے کو چوما۔ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا، اسے بستر پر لٹا کر اس کے سر کو ہولے ہولے کھجاتا رہا اور کہیں شام کو جا کر اس نے پہلو بدلا۔ اس وقت اختر کا بخار اتر چکا تھا اور وہ بڑے مزے سے سو رہا تھا۔
آج بہت عرصے کے بعد رات کو پرمیشر سنگھ بھڑک اٹھا اور نہایت آہستہ سے بولا۔
’’اری سنتی ہو؟۔ ۔ ۔ سن رہی ہو؟ یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘
بیوی نے پہلے تو اسے پرمیشر سنگھ کی پرانی عادت کہہ کر ٹالنا چاہا مگر پھر ایک دم ہڑبڑا کر اٹھی اور امر کور کی کھاٹ کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے ہولے ہولے ہلا کر آہستہ سے بولی۔ ۔ ۔ ’’بیٹی!‘‘
’’کیا ہے ماں ؟‘‘ امر کور چونک اٹھی۔
اور اس نے سرگوشی کی۔ ’’سنو تو۔ سچ مچ کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘
یہ ایک ثانیے کا سناٹا بڑا خوف ناک تھا۔ امر کور کی چیخ اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی اور پھر اختر کی چیخ خوف ناک تر تھی۔
’’کیا ہوا بیٹا‘‘ پرمیشر سنگھ تڑپ کر اٹھا اور اختر ی کھاٹ پر جا کر اسے چھاتی سے بھینچ لیا۔ ’’ڈر گئے بیٹا۔‘‘
’’ہاں ‘‘ اختر لحاف میں سے سر نکال کر بولا۔ ’’کوئی چیز چیخی تھی۔‘‘
’’امر کور چیخی تھی‘‘ پرمیشر سنگھ نے کہا۔ ۔ ۔ ’’ہم سب یوں سمجھے جیسے کوئی چیز یہاں قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘
’’میں پڑھ رہا تھا‘‘ اختر بولا۔
اب کے بھی امر کور کے منہ سے ہلکی چیخ نکل گئی۔
بیوی نے جلدی سے چراغ جلا دیا اور امر کور کی کھاٹ پر بیٹھ کر وہ دونوں اختر کو یوں دیکھنے لگیں جیسے وہ ابھی دھواں بن کر دروازے کی جھریوں میں سے باہر اڑ جائے گا اور باہر سے ایک ڈراؤنی آواز آئے گی۔ ’’میں جن ہوں میں کل رات پھر آ کر قرآن پڑھوں گا۔‘‘
’’کیا پڑھ رہے تھے بھلا؟‘‘ پرمیشر سنگھ نے پوچھا۔
’’پڑھوں ؟‘‘ اختر نے پوچھا۔