پرہیز علاج سے بہتر ہے

  • Work-from-home

Mahen

Alhamdulillah
VIP
Jun 9, 2012
21,845
16,877
1,313
laнore



پچھلے دنوں ہم بیمار ہوئے کیوں ہوئے ؟ کیسے ہوئے ؟ کس سے پوچھ کر ہوئے ؟ اس کا جواب ہم نہیں دے سکتے ۔ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ہم بہت شرمندہ ہیں ۔ ہم سے بہت غلطی ہوئی اور آئندہ اس کا اعادہ نہیں کریں گے ۔ آئندہ ہم بیمار ہوں تو جو چور کی سزا وہ ہماری سزا اور چور کی سزا جو فی زمانہ ہے ، وہ سب کو معلوم ہے ۔ اول تو پکڑا نہیں جاتا ۔ پکڑا جائے تو بخوبی چھوٹ جاتا ہے ۔ بشرطیکہ تھانے دار اچھا ہو اور تھانے دار اچھا نہ ہو تو وکیل اچھا ہو
مدعی لاکھ برا چاہے پہ کیا ہوتا ہے ۔


ہم صلح کل آدمی ہیں ۔ یونہی ذرا منہ پر سوجب سی ہو گئی تھی ۔ وہ بھی کچھ زیادہ نہیں ۔اتنی سوجن تو کسی ملزم بلکہ بے گناہ کے تھانے دار کا ایک تھپڑ کھانے سے ہو جاتی ہے ۔ ہمارے دوست ہمیں ایک حکیم حاذق کے پاس لے گئے ۔ انہوں نے کہا ۔
“بھئی ڈاکٹری کے چکر میں نہ پڑنا ۔ اسپغول استعمال کرو ۔
“ہم نے آکر اسپغول پانی میں بھگویا اور پلٹس کی طرح منہ پر باندھ لی ۔ دو چار دن میں کوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر حکیم صاحب کے پاس گئے ۔ بولے ۔


“ یہ کیا باندھ رکھا ہے ؟“


ہم نے کہا ،“آپ کی حسبِ ہدایت اسپغول ہے ۔“


بولے ،“ ارے ۔(پورا القاب ہم درج نہیں کرتے تاکہ ہماری دل آزاری نہ ہو ) میں نے اسپغول کھانے کو کہا تھا لگانے کو نہیں ۔ تمھار قبض دور ہوتا تو یہ سوجن بھی چلی گئی ہوتی ۔ اب لکھو ۔ ہینگ اور پھٹکری ہم وزن ۔ دن میں دوبار ۔“
ہم نے کہا ،“ کس مقدار میں کھائیں ۔“


فرمایا “ کھایئں نہیں لگائیں ۔لیپ کریں ۔ ضماد فرمائیں اور پرہیز کا خاص خیال رکھیں ۔ کوئی کھٹی چیز نہ کھائیں اور کوئی میٹھی چیز نہ کھائیں ۔تاکید ہے ۔“
ہم نے کہا ،“ انگور تو کھا سکتے ہیں ؟“
سوال بے ضرر تھا لیکن بہت ناراض ہوئے ۔
خیر ہم نے دوا کے ساتھ پرہیز شروع کر دیا ۔ حتیٰ کہ کھٹی ڈکار لینے اور کسی کو میٹھی میٹھی نظروں سے دیکھنےسے بھی خود کو منع کر دیا ۔لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا ۔ہمارا اشارہ اپنی طرف ہے ۔ حکیم صاحب کو تو ہماری بیماری سے معتدبہ فائدہ ہوا ۔وہ افراط زر کے حوالے سے کسی سے دس سے کم کا نوٹ ہی نہ لیتے تھے ۔


یہ دوا کارگر ضرور ہوتی لیکن ہمارے ایک دوست ہمیں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے ۔
ہم نے کہا ۔ “ ہم آپ سے ایک مشورہ کرنا چاہتے ہیں ۔“
بولے ۔“ کرو مشورہ ۔مشورے کی فیس دس روپے ہوگی ۔“
انہوں نے دس روپے جیب میں رکھتے ہوئے کہا ۔
“ میں خود اچھا ڈاکٹر ہوں بلکہ تعلی نہ سمجھو تو بے مثل ڈاکٹر ہوں اور لالچی بھی نہیں ہوں ۔ یہ فیس تو خیر مشورے کی تھی ۔ اب میں سوائے علاج کی فیس اور دواؤں کی قیمت اور خرچہ اشتہارات پیکنگ اور ڈاک خرچ کے تم سے کچھ نہ لوں گا ۔ درویش آدمی ہوں ۔ ڈیفینس سوسائٹی میں دو ہزار گز کے بنگے پر پڑا ہوں ۔یہ دوا لو مسلسل استعمال کرو ‘ ان شاء اللہ تندرست ہو جاؤ گے ۔“


ہم نے کہا “ دو سال میں ؟“
بولے ۔ “ ہاں کوئی سنگین بیماری نہیں ہے ۔ معمولی سوجن ہے ۔ پرہیز البتی ضروری ہے ۔ نمک اور مرچ سے مکمل پرہیز آلو مت کھاؤ ۔ انڈا مت کھاؤ ۔“
ہم نے کہا ۔“ جی اچھا ۔“


چند دن میں اس علاج سے ہمارا جی بھر گیا اور ڈاکٹر صاحب کی جیب ۔اب ایک اور مہربان ملے ‘ وہ ہمیں ایک عامل کامل کے پاس لے گئے ۔ انہوں نے چاند کی چودھویں رات کو الو کے گھونسلے سے بیٹ لانے کو کہا ۔اور ایک زندہ سانڈہ ہماری جیب میں ڈالنے کی کوشش کی کیونکہ وید یعنی آیوویدک علاج بھی کرتے تھے ۔ہم وہاں سے چل دیئے ۔ معلوم ہوا کہ ایک صاحب پانی سے علاج کرتے ہیں ۔ ہندی میں اسے جل چکستا کہتے ہیں ۔ بہت سادہ علاج ہے ۔ مریض کو گردن سے پکڑ کر سات منٹ تک تالاب میں غوطہ دیا جاتا ہے اور مرض رفع ہو جاتا ہے ۔ اگر اس غوطے سے مریض زندہ برآمد ہو تو ۔ ہم موت سے نہیں ڈرتے لیں پانی سے ڈرتے ہیں لہٰذا اس سے بھی کنارا کیا بولے ۔“ اچھا علاج مت کراؤ ۔ پرہیز سنتے جاؤ ۔ پھیکی چیز کوئی نہ کھانا ۔ وہ تمھارے لیے مضر رہے گی ۔ دال منع ، گوشت منع اور سبزی تو بلکل ہی منع ۔“


اپنی بیماری کی حکایت کو ہم مختصر کرتے ہیں ۔ ہومیو پیتھی کرتے لیکن میٹھا منع تھا ۔کھٹا بھی منع تھا ۔ نمک مرچ بھی ہمارے لیے مضر پائے گئے حتٰی کہ پھیکی چیزوں کو بھی ممانعت ہو گئی ۔ اب صرف پینے کو پانی ور کھانے کو ہوا رہ گئی تھی ۔ یہ حال دیکھا تو ہم میں بیماری کی تاب نہ رہی ۔ناچار تندرست ہو گئے ۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔


حکیم اور ڈاکٹر کچھ بھی کہیں ۔ہماری ناقص رائے میں علاج پرہیز سے بہتر ہے ۔ اکثر اوقات علاج پر کم پرہیز پر خرچ بھی زیادہ آتا ہے ۔ کبھی آپ نے سوچا کہ لوگ پرہیز کرنے لگیں تو اس کے کتنے ہولناک نتائج برآمد ہوں ۔نہ ڈاکٹر ، نہ حکیم ، نہ وید ، نہ عامل کامل ، نہ اسپتال ، نہ مطب نہ چین ہیلتھ سینٹر ، نہ انڈونیشیا دوا خانے ، نہ فقیر کی چٹکی ، نہ جوگی کا عطیہ ، نہ دواساز کمپنیاں ، نہ جوشاندے خیساندے ، نہ نیولے نہ سانپ ، نہ سانڈے نہ چھپکلیاں ۔ اس وقت دنیا کی آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ایک بیمار ، ایک معالج۔ ایک چھوٹی سی اقلیت تندرستوں کی بھی ہے لیکن وہ چنداں قابل لحاظ نہیں ۔اگر آدھی آبادی پرہیز کی بدولت بھوکی مرتی ہے ۔ معالج اور دواساز وغیرہ تو کون سی ملک اور قوم کی خدمت ہوئی ؟ یہ ہو تو میڈیکل سائنس کیسے ترقی کرے ، نہ صاحب نہ
 
Top