پندرہ ماہ15 سے شوہر لاپتا

  • Work-from-home

Blue-Black

chai-mein-biscuit
TM Star
May 27, 2014
1,921
607
1,213
KARACHI
1609756262223.png

پندرہ ماہ15 سے شوہر لاپتا ہو تو نکاحِ ثانی کا حکم
سوال

ایک عورت کا شوہر 15 ماہ سے لاپتا ہے، شوہر کا تعلق افغانستان سے ہے، 15 ماہ پہلے کافی پریشانی کی حالت میں افغانستان گیا تھا, اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں، اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ شوہر افغانستان جاتا رہا، لیکن وہاں پہنچ کر اطلاع وغیرہ کرتا تھا، اس بار کوئی اطلاع نہیں اور نہ ہی اس کے والدین کا فون لگ رہا ہے, اس کے دوستوں کو بھی اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں، یہاں شوہر کا کوئی رشتہ دار وغیرہ بھی نہیں ہے، یہاں کرائے کے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا، اب عورت اسی گھر میں خود کرایہ ادا کر رہی ہے، جاتے ہوئے پانچ ہزار روپے چھوڑ گیا تھا اور پانچ بچے ہیں۔
پوچھنا یہ ہے کہ یہ خاتون دوسری شادی کر سکتی ہے؟ کیوں کہ بچوں کا پالنا مشکل ہورہا ہے یا انتظار کرے تو کتنا عرصہ کرے؟
وضاحت: (1)سخت مجبوری کی حالت ہے، شوہر نے جانے سے پہلے صرف پانچ ہزار روپے چھوڑے تھے، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑا، مجبوری کی وجہ سے عورت کسی غیر قانونی کام یا بدکاری وغیرہ میں بھی مبتلا ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ سخت مجبوری ہے ، ایک تو بچوں کی پرورش کا مسئلہ ہے اور دوسرا یہ کہ عورت جوان ہے .
(2)شوہر کے ٹھکانے کا بالکل پتا نہیں ہے، نہ گھر کا، نہ علاقے کا اور شہر کا کوئی پتا ہے، اس کے دوستوں سے رابطہ کیا ہے تو انہیں بھی اس کے بارے میں کوئی علم نہیں، نہ تو شوہر کے جینے کا پتا ہے اور نہ مرنے کا پتاہے۔

جواب

شوہر کے غائب ہوجانے کی صورت میں اگر بیوی کے لیے پاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہ ہو تو عورت عدالت میں مقدمہ دائر کرے،عدالت سرکاری تعاون سے تحقیقات کرنے کے بعد ایک سال کی مدت مقرر کرے، سال گزرنے پر بھی شوہر نہ آئے تو عدالت فسخِ نکاح کا فیصلہ کردے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد عدتِ وفات (حاملہ نہ ہونے کی صورت میں چار ماہ دس دن اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضعِ حمل یعنی بچہ کی پیدائش) گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔
اور اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے پہلے شوہر سے بدستور قائم رہےگا، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛ اس لیے دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی لازم ہوگی۔ اور اگر اس خاتون کی دوسرے نکاح کی رخصتی بھی ہو گئی ہو تو پہلے شوہر کو اس کے ساتھ
صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک وہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس صورت میں عورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ عدالت میں دعویٰ تفریق بوجہ مفقود الخبری شوہر دائر کرے، حاکم بعد تحقیقات ایک سال کی مدت انتظار کے لیے مقرر کردے، اگر اس عرصہ میں زوجِ غائب نہ آئے تو نکاح فسخ کردے، تاریخِ فسخ سے عدت گزار کر دوسرا نکاح کرلے۔ ایک سال کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے، ذرائعِ رسل ورسائل کا وسیع ہونا اس شرط کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ذرائع کی وسعت اس امر کو لازم ہے کہ گم شدہ شوہر کا پتا معلوم ہوجائے کہ وہ زندہ ہے کہ نہیں،آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے متعلق معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، تمام ذرائع استعمال کرلیے جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیا جاتاہے، لیکن بعد میں فیصلہ غلط ہوتاہے۔
غرض یہ کہ ایک سال کی مدت اس مصلحت کے لیے ہے کہ امکانی حد تک شوہر کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچاجائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم‘‘​
 

ROHAAN

TM Star
Aug 14, 2016
1,795
929
613
View attachment 114632
پندرہ ماہ15 سے شوہر لاپتا ہو تو نکاحِ ثانی کا حکم


سوال


ایک عورت کا شوہر 15 ماہ سے لاپتا ہے، شوہر کا تعلق افغانستان سے ہے، 15 ماہ پہلے کافی پریشانی کی حالت میں افغانستان گیا تھا, اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں، اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ شوہر افغانستان جاتا رہا، لیکن وہاں پہنچ کر اطلاع وغیرہ کرتا تھا، اس بار کوئی اطلاع نہیں اور نہ ہی اس کے والدین کا فون لگ رہا ہے, اس کے دوستوں کو بھی اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں، یہاں شوہر کا کوئی رشتہ دار وغیرہ بھی نہیں ہے، یہاں کرائے کے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا، اب عورت اسی گھر میں خود کرایہ ادا کر رہی ہے، جاتے ہوئے پانچ ہزار روپے چھوڑ گیا تھا اور پانچ بچے ہیں۔
پوچھنا یہ ہے کہ یہ خاتون دوسری شادی کر سکتی ہے؟ کیوں کہ بچوں کا پالنا مشکل ہورہا ہے یا انتظار کرے تو کتنا عرصہ کرے؟
وضاحت: (1)سخت مجبوری کی حالت ہے، شوہر نے جانے سے پہلے صرف پانچ ہزار روپے چھوڑے تھے، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑا، مجبوری کی وجہ سے عورت کسی غیر قانونی کام یا بدکاری وغیرہ میں بھی مبتلا ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ سخت مجبوری ہے ، ایک تو بچوں کی پرورش کا مسئلہ ہے اور دوسرا یہ کہ عورت جوان ہے .
(2)شوہر کے ٹھکانے کا بالکل پتا نہیں ہے، نہ گھر کا، نہ علاقے کا اور شہر کا کوئی پتا ہے، اس کے دوستوں سے رابطہ کیا ہے تو انہیں بھی اس کے بارے میں کوئی علم نہیں، نہ تو شوہر کے جینے کا پتا ہے اور نہ مرنے کا پتاہے۔

جواب

شوہر کے غائب ہوجانے کی صورت میں اگر بیوی کے لیے پاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہ ہو تو عورت عدالت میں مقدمہ دائر کرے،عدالت سرکاری تعاون سے تحقیقات کرنے کے بعد ایک سال کی مدت مقرر کرے، سال گزرنے پر بھی شوہر نہ آئے تو عدالت فسخِ نکاح کا فیصلہ کردے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد عدتِ وفات (حاملہ نہ ہونے کی صورت میں چار ماہ دس دن اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضعِ حمل یعنی بچہ کی پیدائش) گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔
اور اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے پہلے شوہر سے بدستور قائم رہےگا، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛ اس لیے دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی لازم ہوگی۔ اور اگر اس خاتون کی دوسرے نکاح کی رخصتی بھی ہو گئی ہو تو پہلے شوہر کو اس کے ساتھ
صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک وہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس صورت میں عورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ عدالت میں دعویٰ تفریق بوجہ مفقود الخبری شوہر دائر کرے، حاکم بعد تحقیقات ایک سال کی مدت انتظار کے لیے مقرر کردے، اگر اس عرصہ میں زوجِ غائب نہ آئے تو نکاح فسخ کردے، تاریخِ فسخ سے عدت گزار کر دوسرا نکاح کرلے۔ ایک سال کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے، ذرائعِ رسل ورسائل کا وسیع ہونا اس شرط کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ذرائع کی وسعت اس امر کو لازم ہے کہ گم شدہ شوہر کا پتا معلوم ہوجائے کہ وہ زندہ ہے کہ نہیں،آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے متعلق معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، تمام ذرائع استعمال کرلیے جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیا جاتاہے، لیکن بعد میں فیصلہ غلط ہوتاہے۔
غرض یہ کہ ایک سال کی مدت اس مصلحت کے لیے ہے کہ امکانی حد تک شوہر کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچاجائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم‘‘​
mashallah.gif

28ugsb6.png
 

sonofaziz

TM Star
Dec 28, 2015
1,044
679
1,213
Karachi
View attachment 114632
پندرہ ماہ15 سے شوہر لاپتا ہو تو نکاحِ ثانی کا حکم


سوال


ایک عورت کا شوہر 15 ماہ سے لاپتا ہے، شوہر کا تعلق افغانستان سے ہے، 15 ماہ پہلے کافی پریشانی کی حالت میں افغانستان گیا تھا, اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں، اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ شوہر افغانستان جاتا رہا، لیکن وہاں پہنچ کر اطلاع وغیرہ کرتا تھا، اس بار کوئی اطلاع نہیں اور نہ ہی اس کے والدین کا فون لگ رہا ہے, اس کے دوستوں کو بھی اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں، یہاں شوہر کا کوئی رشتہ دار وغیرہ بھی نہیں ہے، یہاں کرائے کے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا، اب عورت اسی گھر میں خود کرایہ ادا کر رہی ہے، جاتے ہوئے پانچ ہزار روپے چھوڑ گیا تھا اور پانچ بچے ہیں۔
پوچھنا یہ ہے کہ یہ خاتون دوسری شادی کر سکتی ہے؟ کیوں کہ بچوں کا پالنا مشکل ہورہا ہے یا انتظار کرے تو کتنا عرصہ کرے؟
وضاحت: (1)سخت مجبوری کی حالت ہے، شوہر نے جانے سے پہلے صرف پانچ ہزار روپے چھوڑے تھے، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑا، مجبوری کی وجہ سے عورت کسی غیر قانونی کام یا بدکاری وغیرہ میں بھی مبتلا ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ سخت مجبوری ہے ، ایک تو بچوں کی پرورش کا مسئلہ ہے اور دوسرا یہ کہ عورت جوان ہے .
(2)شوہر کے ٹھکانے کا بالکل پتا نہیں ہے، نہ گھر کا، نہ علاقے کا اور شہر کا کوئی پتا ہے، اس کے دوستوں سے رابطہ کیا ہے تو انہیں بھی اس کے بارے میں کوئی علم نہیں، نہ تو شوہر کے جینے کا پتا ہے اور نہ مرنے کا پتاہے۔

جواب

شوہر کے غائب ہوجانے کی صورت میں اگر بیوی کے لیے پاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہ ہو تو عورت عدالت میں مقدمہ دائر کرے،عدالت سرکاری تعاون سے تحقیقات کرنے کے بعد ایک سال کی مدت مقرر کرے، سال گزرنے پر بھی شوہر نہ آئے تو عدالت فسخِ نکاح کا فیصلہ کردے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد عدتِ وفات (حاملہ نہ ہونے کی صورت میں چار ماہ دس دن اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضعِ حمل یعنی بچہ کی پیدائش) گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔
اور اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے پہلے شوہر سے بدستور قائم رہےگا، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛ اس لیے دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی لازم ہوگی۔ اور اگر اس خاتون کی دوسرے نکاح کی رخصتی بھی ہو گئی ہو تو پہلے شوہر کو اس کے ساتھ
صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک وہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس صورت میں عورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ عدالت میں دعویٰ تفریق بوجہ مفقود الخبری شوہر دائر کرے، حاکم بعد تحقیقات ایک سال کی مدت انتظار کے لیے مقرر کردے، اگر اس عرصہ میں زوجِ غائب نہ آئے تو نکاح فسخ کردے، تاریخِ فسخ سے عدت گزار کر دوسرا نکاح کرلے۔ ایک سال کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے، ذرائعِ رسل ورسائل کا وسیع ہونا اس شرط کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ذرائع کی وسعت اس امر کو لازم ہے کہ گم شدہ شوہر کا پتا معلوم ہوجائے کہ وہ زندہ ہے کہ نہیں،آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے متعلق معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، تمام ذرائع استعمال کرلیے جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیا جاتاہے، لیکن بعد میں فیصلہ غلط ہوتاہے۔
غرض یہ کہ ایک سال کی مدت اس مصلحت کے لیے ہے کہ امکانی حد تک شوہر کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچاجائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم‘‘​
جزاك اللهُ‎
 
Top