پہلا حصہ: لاہور سے کویت تک

  • Work-from-home

princeofdhump

Newbie
Mar 14, 2009
101
86
0
119
Not Known
لاہور: علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ پر صبح کے چار بجے تھے لیکن یہاں پر ایک الگ دنیا قائم تھی- ہر طرف ایک عجیب گہماگہمی کا ماحول تھا۔گو گرمیوں کا موسم تھا لیکن ابھی موسم خوشگوار تھا۔ انٹرنیشنل ڈپارچر پر میں بھی کھڑا اُلووُں کی طرح دیدئے گھمارہا تھا۔

میرا پہلا انٹرنیشنل سفر تھا مجھے پڑھائی کی غرض سے لاہور سے لندن جانا تھا۔ میرے پاس پاکستانی پاسپورٹ اور ایک بین الاقوامی ہوائی کمپنی کی ہوائی ٹکٹ موجود تھی۔ ملکی اسلئےنہیں جناب کہہ ہم تو بڑے محبِ وطن تھے اور ہماری پہلی ترجیح بھی یہی تھی کہ قومی ائرلائن سے پرواز کی جائےلیکن قومی ائرلائن والوں کو شائد ہماری محبِ وطنی پر شک تھا لہذہٰ اُنھوں نے ٹکٹ دینے سے صاف انکار کر دیا اور بہانہ (میرے مطابق) کیا تھا کہہ ٹکٹ میسر نہیں۔

مجبوراًکویت ائروئزکا ٹکٹ خریدا (ٹکٹ پلان کے مطابق پہلے کویت جانا تھا ائربس سے پھر وہاں آدہے گھنٹے کا آرام اور پھر وہاں سے ٹرانزٹ کر کے جمبو جیٹ سے لندن جانا تھا) مقررہ دن علیٰ صبح ائر پورٹ پر جا وارد ہوئے۔ گیٹ پر ایف-آئی-اے والوں نے نظروں سے یوں ٹٹولاجیسے ہم واحد مشکوک شخصیت تھے پورے ائر پورٹ پر۔ ہم نے بھی جی کڑا کر کے ٹکٹ اور پاسپورٹ تھما ہی دیا۔ اُن میں سے ایک حضرت نے ناک سکیڑ کر میرے حلیئے پر نظر ڈالی اور وہا ں کچھ بھی قابلِ زکر چیز نہ دیکھ کر تحمکانہ لہجئے میں بولے "اِس کی کاپی ہے؟۔میں نے اِدہراُدہر دیکھا تو کسی کو موجود نہ پا کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ صاحب بہادر ہم سے محو گفتگو ہیں۔ میں نے عرض کیا "جناب کس کی کاپی"؟

ناگوار لہجے میں جواب ملا "پاسپورٹ کی"۔

میرے پاس سے کاپی برآمد ہونے پر اُنھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اندر جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ چونکہ گھر والے میرے باہر جانے کے خلاف تھے لہزٰا ائر پورٹ پر سوائے دائیور کے کوئی نہ تھا جو ہمیں سی آف کہتا. اگلا مرحلہ کسٹم کا تھا باوردی حضرآت نے بکس کھولنے کا حکم دیا اور میرے دبے دبے احتجاج کے باوجود مجھے حکم کی بجا آوری کرنی پڑی۔ پھر دو صاحب لوگ اس طرح بکس کی تلاشی پر پَل پڑے جیسے جناب ہم دنیا کے وہ آخری سمگلر ہیں جنہیں اِن حضرآت نے نہ پکڑا تو یہ انسانیت پر ظلم ہو گا۔ لیکن وہاں کچھ قابِل اعتراز ہوتا تو ملتا۔ تلاشی ختم کر کے بولے "بکس کو بند کرو"۔ میں نے ایک نظر کھلے بکس اور اُس کے اِردگرد پھیلی ہوئی اشیاء پر ڈالی اور ایک نظر اُن آفیسرز پر لیکن وہ یوں لا تعلق کھڑے تھے جیسے اِس ساری کاروائی سے اُن کا یکسر کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ میں نے ایک ہاتھ سے سر پکڑا اور دپ سے فرش پر بیٹھ گیا۔ وجہ یہ تھی کہ پیکنگ میں نے کبھی سرے سے کی ہی نہ تھی۔

میرے آؤبہاؤ اور تاؤ دیکھ کر کسٹم کے صاحبان ایک ایک کر کے رفُو چکر ہو گئے اور میں اپنے آپ کو کوستا ہوا پیکنگ میں مصروف ہو گیا۔ اس مرحلے سے بخیروعفیت گزرنے کے بعد آگے امیگرئیشن کاؤنٹر تھا جہاں موجود ایک محترمہ نے زبردستی مسکرانے کی کو شش کرتے ہوئے ایک نامانوس زبان میں کچھ ارشاد فرمایا۔ چند لمحے غوروفکر کے بعد پتا چلاکہ محترمہ انگریزی میں میرا تعارف مانگ رہی ہیں۔ چنانچہ اس تکلیف دہ مرحلے کے بعد میں آگے بڑھا اور ائرلائن کے کاؤنٹر پر جا پہنچا۔

خیر جناب عالیٰ آخر کار بیگیج کلیرئینس اور لوڈنگ کے بعدہمیں بورڈنگ پاس جاری ہو ہی گیا۔ ہم چونکہ بزنس کلاس میں سفر کرنے والے تھے لہزٰا وی آئی پی لانچ میں ٹھرا دئیے گئے۔تقریباً آدھ گھنٹے بعد جہاز میں بیٹھنے کا حکم ملا۔ بعض حضرات یوں لپکے کہ بےاختیار شادیوں میں روٹی کھلنے کا منظر یاد آگیا۔ حلانکہ سیٹ تو پہلے ہی بکڑ تھی خیر عادت تو عادت ہوتی ہے۔ مکررہ وقت تک انتظارکرنے کے بعد پتا چلا کہ جہاز کسی تکنیکی خرابی کے باعث علیل ہے اور پرواز نہیں کر سکتا۔ ہم نے قسمت اور فضائی کمپنی کو دل میں اتنی رفتارسے سلواتیں سنائیں جتنی رفتار سے جہاز نے پرواز کرنی تھی۔ خیر کہرِدرویش برجانِ درویش۔ سب امیگریشن کی مہروں پر کینسل کی مہریں لگائیں گیئں۔

گھر واپس آنا نہ چاہتے تھےلہزٰا کمپنی کی طرف سے غیر معینہ مرت کیلئے ایک نجی ہوٹل میں ٹھرا دئیے گیئے۔ اخراجات کمپنی کے زمے تھے زاہری بات تھی-لوگوں کو انتظار کی زہمت ہی کیا کم تھی؟ یہ اور بات ہے کہ پیٹو حضرات نے اس آفر سے خوب فائدہ اٹھایا۔

میں ساری رات کا جاگا ہوا تھا موقع پاتے ہی بستر میں جا گھسا۔ ہوش آیا تو نینر میں کمرے کے انٹر کام پر گھنٹی کی سی آواز آئی مجبوراً کال اٹینڑ کی ہوٹل کے استقبالیہ سے کال تھی کہ جناب برکفاسٹ (ناشتہ) کر لیں۔ جواباًمیں نے خوشدلی سے نہ صرف ٹالا بلکہ اشر ضرورت کے بغیر کال سے منع کر دیا۔ دوبارہ ہوش آیا تو پھر وہی گھنٹی کی آواز تھی لپک کر فون اُٹھایا تو کال فضائی کمپنی کی طرف سے تھی۔ اُنھوں نے خوش خبری سنائی کہ شام چھے بجے دوبارہ فلائٹ ہے مزید یہہ کہ کویت میں اب رات کا تھرنا بھی شامل تھا۔

چار بج رہے تھے نہا دہو کر دوبارہ کمپنی کی کوچ میں ہوائی اڈے پہنچ گئے، حسب معمول وہی چہل پہل تھی سب گزشتہ مراحل سے گزرتے ہوئے آخرکار دوبارہ ہوائی جہاز تک جا پہنچےاور پھر معمولی انتظار کے بعد جہاز ٹھیک بارہ گھنٹے بعدوطنِ عزیز سے پرواز کر گیا۔

پرواز سے پہلے اِک جوش سا تھا جو پانی کے اِک بلبلے کی طرح پھٹ گیا۔ اب میں یوں بیٹھا تھا جیسے بھرے شہر میں کسی بچے کا سر پرست کھو گیا ہو اور وہ کسی بھی لمحے پھوٹ کر رو سکتا ہے۔ کھڑکی سے باہر دیکھا تو باہر گہرا اندھیرا اور خاموشی تھی۔ جبکہ اس خاموشی میں جہاز کے انجن کا شور مجھے چراتا ہوا سا لگا۔

اُمید ھے تحریر پسند آ ئے گی۔ باقی کویت سے لندن پھر پو سٹ ہو گی ، اپنی آرا سے مطلع فرمائیں

دعاؤں کا متمنی
 
  • Like
Reactions: goodfrndz

goodfrndz

"A faithful friend is the medicine of life."
VIP
Aug 16, 2008
12,849
4,072
1,113
محبت والا
bohat bohat zbrdast

~~~shukriya~~~

hamarey saath share krney k liye. . . . .


umeed krtey hain k aap aisay hi hamrey saath share krte rahain gey . . .. . InshaAllah







{Nice post Tm}{(pillow fight)}{(pillow fight)}{(pillow fight)}{Nice post Tm}
{Nice post Tm}{(pillow fight)}{(pillow fight)}{(pillow fight)}{Nice post Tm}
{Nice post Tm}{(pillow fight)}{(pillow fight)}{(pillow fight)}{Nice post Tm}​
 
Top