پیغمبر اکرم کا نسب

  • Work-from-home

Sumi

TM Star
Sep 23, 2009
4,247
1,378
113
پیغمبر اکرمؐ کا نسب مبارک
پیغمبر اکرم کا نسب

رسولِ خدا کا تعلق خاندانِ ہاشم اور قبیلہ قریش سے ہے۔ جزیرہ نما عرب میں تین سو ساٹھ قبیلے آباد تھے۔ ان میں قریش شریف ترین قبیلہ تھا۔ ماہرین نسب کی اصطلاح میں حضرت نضر بن کنانہ کی نسل ہی کو قریش کہا جاتا تھا جو کہ آنحضرت کے بارہویں جدامجد تھے۔
آپ کے چوتھے جد اعلیٰ حضرت قصیٰ بن کلاب کا شمار قبیلہ قریش کے سربرآوردہ افراد میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ہی کعبہ کی تولیت اور کنجی قبیلہ ”خزاعہ“ کے چنگل سے نکالی تھی۔ انہوں نے ہی حرم کے مختلف حصوں میں اپنے قبیلے کے افراد کو آباد کیا اور کعبہ کی تولیت سنبھالی تھی۔(۲)
مورخ یعقوبی لکھتا ہے:
قصیٰ بن کلاب وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قبیلہ قریش کو عزت و آبرو مندی بخشی اور اس کی عظمت و ناموری کو آشکار کیا۔
قبیلہ قریش میں خاندانِ ہاشم سب سے زیادہ نجیب و شریف شمار ہوتا تھا۔
رسولِ خدا کے آباؤ اجداد
مورخین نے آنحضرت کے آباؤ اجداد میں حضرت عدنان تک اکیس پشت کے نام بیان کیے ہیں اور ترتیب ذیل اسماء پر سب متفق الرائے ہیں۔
حضرت عبداللہ، حضرت عبدالمطلب، حضرت ہاشم، حضرت عبدمناف، حضرت قیس، حضرت کلاب، حضرت مرہ، حضرت کعب، حضرت لوی، حضرت غالب، حضرت مہر، حضرت مالک، حضرت نضر، حضرت کنانہ، حضرت خزیمہ، حضرت مدرکہ، حضرت الیاس، حضرت مضر، حضرت نزار، حضرت معد اور حضرت عدنان۔
حضرت عدنان سے اوپر حضرت ابراہیم تک اور حضرت ابراہیم خلیل سے حضرت آدم صفی اللہ تک کی ترتیب کے بارے میں اختلاف ہے۔ اس سلسلے میں پیغمبر اکرم کی روایت بھی بیان کی گئی ہے۔
اذا بلغ نسبی الی عدان فامسکوا
”جب میرے نسب کے بارے میں حضرت عدنان تک پہنچ جاؤ تو ٹھہر جاؤ۔“
اب ہم مختصر طور پر آپ کے آباؤ اجداد میں سے بعض کا حال بیان کریں گے۔
حضرت عبدمناف
حضرت قصیٰ کے عبدالدار، عبدمناف، عبدالعزی اور عبد قصیٰ چار فرزند تھے۔ جن میں حضرت عبدمناف سب سے زیادہ شریف اور محترم و بزرگ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت عبدمناف کا اصل نام ”مغیرہ“ تھا۔ انہیں اپنے والد محترم کے نزدیک نیز لوگوں کے درمیان خاص مرتبہ حاصل تھا۔ وہ بہت زیادہ سخی اور وجیہ انسان تھے۔ اسی وجہ سے انہیں ”فیاض“ اور ”قمرالبطحا“ کے القاب سے نوازا گیا۔ پرہیزگاری، خوش خلقی، نیک چلن اور صلہ رحم جیسے اوصاف ان کی زندگی کا شعار تھے۔
ان کی نظر میں دنیوی مقامات و مراتب ہیچ تھے، مگر اہل انصاف لوگوں سے حسد بھی نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ کعبہ کے تمام عہدے اور مناصب ان کے بھائی عبدالدار کے دست اختیار میں تھے مگر انہیں اپنے بھائی سے کوئی پرخاش نہیں تھی۔
حضرت ہاشم
حضرت قصیٰ کے فرزند مکہ سے متعلق معاملات اور کعبہ کی تولیت کا انتظام کسی اختلاف کے بغیر انجام دیتے رہے۔ مگر ان کی وفات کے بعد عبدالدار اور عبدمناف کے لڑکوں کے درمیان کعبہ کے عہدوں کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔ بالآخرفیصلہ اس بات پر ہوا کہ کعبہ کی تولیت اور دارالندوہ کی صدارت عبدالدار کے فرزندوں کے پاس ہی رہے اور حاجیوں کو پانی پلانے نیز ان کی پذیرائی حضرت عبدمناف کے لڑکوں کی تحویل میں دے دی جائے۔ حضرت عبدمناف کے فرزندوں میں یہ عہد حضرت ہاشم کے سپرد کیا گیا۔
حضرت ہاشم اور ان کے بھائی عبدالشمس ایک ساتھ پیدا ہوئے تھے، پیدائش کے وقت دونوں کے بدن ایک دوسرے سے پیوست تھے۔ جس وقت انہیں ایک دوسرے سے جدا کیا گیا تو دونوں کا خون زمین پر بہہ گیا اور عربوں نے اس واقعہ کو سخت بدشگوفی خیال کیا۔
اتفاق سے یہ بدشگوفی صحیح ثابت ہوئی اور حضرت ہاشم اور عبدالشمس کے لڑکوں میں ہمیشہ ہی کشمکش اور لڑائی رہی۔
عبدالشمس کا لڑکا امیہ پہلا شخص تھا جس نے حضرت ہاشم کی مخالفت شروع کی۔ اس نے جب فرزندانِ عبدمناف میں سے حضرت ہاشم میں عزت و شرف اور بزرگواری جیسے اوصاف پائے تو ان سے حسد کرنے لگا اور اپنے چچا کے ساتھ چشمک اور مخالفت پر اتر آیا۔ چنانچہ یہیں سے بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان مخالفت اور دشمنی شروع ہوئی، جو ظہورِ اسلام کے بعد بھی جاری رہی۔
حضرت ہاشم اس فرض کو انجام دینے میں جو ان کے ذمہ تھا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی حج کا زمانہ شروع ہوتا تو وہ قبیلہ قریش کی پوری طاقت و قوت اور تمام وسائل اور امکانات کو حجاج بیت اللہ کی خدمت کے لیے بروئے کار لاتے، اور زمانہ حج کے دوران جس قدر پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی اسے فراہم کرتے تھے۔
لوگوں کی خاطرداری، مہمان نوازی اور حاجت مندوں کی مدد کرنے میں وہ بے مثال یکتائے زمانہ تھے، اسی وجہ سے انہیں ”سیدالبطحا“ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔
حضرت ہاشم کے پاس اونٹ کافی تعداد میں تھے، چنانچہ جس سال اہل مکہ قحط و خشک سالی شکار ہوئے تو انہوں نے اپنے بہت سے اونٹ قربان کر دیئے اور اس طرح لوگوں کے لیے کھانے کا سامان فراہم کیا۔
حضرت ہاشم نے جو اختراعات کیں اور نمایاں کام انجام دیئے ان میں سے ان کا ایک کارنامہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے قریش کی محدود کاروباری منڈیوں کو جاڑوں اور گرمیوں کے موسم میں تجارتی سفروں کے ذریعے وسعت دی اور اس منطقے کی اقتصادی زندگی میں حرکت پیدا کی۔
حضرت ہاشم نے بیس یا پچیس سال کی عمر میں تجارتی سفروں کے درمیان ”غزہ“ نامی مقام پر انتقال کیا۔
حضرت عبدالمطلب
حضرت ہاشم کی وفات کے بعد ان کے بھائی ”مطلب“ کو قبیلہ قریش کا سردار مقرر کیا گیا، اور جب ان کی وفات ہوگئی تو ان کے فرزند حضرت ”شیبہ“ کو، کہ جنہیں لوگ عبدالمطلب کہتے تھے، قریش کی سرداری سپرد کی گئی۔
حضرت عبدالمطلب اپنے ذاتی کمالات و فضائل اور اوصاف کی بناء پر لوگوں میں بہت محبوب تھجے اور خاص حیثیت کے مالک تھے۔ وہ عاجز اور مجبور لوگوں کے حامی اور ان کے پشت و پناہ تھے۔ ان کی جود و بخشش کا یہ عاتم تھا کہ ان کے دستر خوان سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ پرندے اور حیوانات بھی فیضیاب ہوتے تھے، اسی وجہ سے انہیں ”فیاض“ کا لقب دیا گیا تھا۔
رسولِ خدا کے دادا بہت ہی دانشمند و بردبار شخص تھے۔ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو اخلاق کی بلندی، جور و ستم سے کنارہ کشی، برائیوں سے بچنے اور پست باتوں سے دور رہنے کی تعلیم دیتے تھے۔ ان کا یہ قول تھا کہ ظالم آدمی اپنے کیے کی سزا اسی دنیا میں پاتا ہے اور اگر اسے اپنے کیے کا بدلہ اس دنیا میں نہیں ملتا تو آخرت میں یہ صلہ اسے ضرور ملے گا۔
اپنے اس عقیدے کی بنا پر انہوں نے اپنی زندگی میں نہ کبھی شراب کو ہاتھ لگایا، نہ کسی بے گناہ کو قتل کیا اور نہ ہی کسی برے کام کی طرف رغبت کی، بلکہ اس کے برخلاف نیک کاموں کی ایسی روایات قائم کیں جن کی دین اسلام نے بھی تائید کی۔ ان کی قائم کردہ بعض روایات درج ذیل ہیں:
باپ کی کسی زوجہ کو بیٹے کے لیے حرام کرنا۔
مال و دولت کا ہر سال پانچواں حصہ (خمس) راہ خدا میں خرچ کرنا۔
چاہ زمزم کا ”سقایتہ الحاج“ نام رکھنا۔
قتل کے بدلے سو اونٹ بطور خون بہا ادا کرنا۔
کعبہ کے گرد سات مرتبہ طواف کرنا۔
تاریخ کی کتابوں میں ان کی قائم کردہ دیگر روایات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
منت مان لینے کے بعد اسے پورا کرنا، چور کا ہاتھ کاٹنا، لڑکیوں کے قتل کی ممانعت اور مذمت، شراب و زنا کو حرام قرار دینے کا حکم جاری کرنا اور برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف نہ کرنا وغیرہ۔
واقعہ عام الفیل
حضرت عبدالمطلب کے عہد میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک واقعہ ”عام الفیل“ تھا۔ اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ یمن کے حکمران ابرہہ نے اس ملک پر اپنا تسلط برقرار کرنے کے بعد یہ محسوس کیا کہ اس کی حکومت کے گرد و نواح میں آباد عرب کی خاص توجہ کعبہ پر مرکوز ہے اور وہ ہر سال کثیر تعداد میں اس کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔
اس نے سوچا کہ عربوں کا یہ عمل اس کے نیز ان حبشی لوگوں کے لیے جو یمن اور جزیرہ نما عرب کے دیگر مقامات پر آباد ہیں کوئی مصیبت پیدا نہ کر دے۔ چنانچہ اس نے یمن میں ”قیس“ نام کا بہت بڑا گرجا تیار کیا اور تمام لوگوں کو وہاں آنے کی دعوت دی تاکہ کعبہ جانے کی بجائے لوگ اس کے بنائے ہوئے کلیسا میں زیارت کی غرض سے آئیں۔ اس کے اس اقدام کو لوگوں نے ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ بعض نے تو اس کے کلیسا کی بے حرمتی بھی کی۔
لوگوں کے اس رویے سے ابرہہ کو سخت طیش آگیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ ان کے اس جرم کی پاداش میں کعبہ کا وجود ہی ختم کر دے گا۔ اس مقصد کے تحت اس نے عظیم لشکر تیار کیا جس میں جنگجو ہاتھی پیش پیش تھے۔ چنانچہ پورے جنگی ساز و سامان سے لیس ہو کر وہ مکہ کی جانب روانہ ہوا۔ سردار قریش حضرت عبدالمطلب اور دیگر اہل شہر کو جب ابرہہ کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے شہر خالی کر دیا اور نتیجے کا انتظار کرنے لگے۔
جنگی ساز و سامان سے لیس اور طاقت کے نشے میں چور جب ابرہہ کا لشکر کعبہ کی طرف بڑھا تو ابابیل جیسے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی منقاروں اور پنجوں میں کنکریاں لے کر اس کے لشکر پر چھا گئے اور انہیں ان پر برسانا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے ان کے جسم ایسے چور چور ہو گئے جیسے چبایا ہوا بھوسا۔
یہ واقعہ بعثت سے چالیس سال قبل پیش آیا، چنانچہ عربوں نے اس واقعے سے ہی اپنی تاریخ شروع کر دی جو رسول خدا کے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کے عہد تک جاری رہی اور واقعات اسی سے منسوب کیے جانے لگے۔
قابل ذکر باتیں
ابرہہ کا حملہ اگرچہ مذہبی محرک کا ہی نتیجہ تھا مگر اس کا سیاسی پہلو یہ تھا کہ سرزمین عرب پر سلطنت روم کا غلبہ ہو جائے ا لیے اس کی اہمیت مذہبی پہلو سے کسی طرح بھی کم نہ تھی۔ ابرہہ کا مکہ اور حجاز کے دیگر شہروں پر قابض ہو جانا سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے روم جیسی عظیم طاقت کی اہم فتح و کامرانی تھی، کیونکہ یہی ایک ایسا طریقہ تھا جسے بروئے کار لاکر شمال عرب کو جنوب عرب سے متصل کیا جاسکتا تھا۔ اس طرح پورے جزیرہ نما عرب پر حکومت روم کا غلبہ و تسلط ہوسکتا تھا۔ نیز اس کا استعمال ایران پر حملہ کرنے کے لیے فوجی چھاؤنی کے طور پر کیا جاسکتا تھا۔
خداوند تعالیت کے حکم سے معجزہ کی شکل میں ابرہہ کے لشکر کی جس طرح تباہی و بربادی ہوئی اس کی تائید قرآن مجید اور الہ بیت علیہ السلام کی ان روایات سے ہوتی ہے جو ہم تک پہنچی ہیں۔ قرآن مجید کے سورہ فیل میں ارشاد ہے:
الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیلoالم یجعل کیدھم فی تضلیل وارسل علیھم طیرا ابابیلoترمیھم بحجارة من سجیل فجعلھم کعصف ماکونo
”تم نے دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا اس نے ان کی تدبیر کو اکارب نہیں کر دیا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے، جو ان پر پتھر پھینک رہے تھے، پھر ان کا یہ حال کر دیا جیسے (جانوروں) کا کھایا ہوا بوسا۔“
جو لوگ اس واقعہ کی توجیہ پیش کرتے ہیں کہ اس سال مکہ چیچک کی بیماری ابرہہ کے سپاہیوں میں مکھیوں اور مچھروں کے ذریعے پھیلی اور ان کی ہلاکت کا باعث ہوئی، بعض وہ مسلمان جو خود کو روشن فکر خیال کرتے ہیں وہ بھی مغرب کے مادہ پرستوں کے ہم خیال ہوگئے ہیں، قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ بعض مسلم مورخین اور مفسرین بھی اس مغرب پرستی کا شکار ہوگئے ہیں۔
ابرہہ کے لشکر کی شکست اور خانہ کعبہ کو گزند نہ پہنچنے کے باعث قریش پہلے سے بھی زیادہ مغرور و متکبر ہوگئے چنانچہ حرام کاموں کے کرنے، اخلاقی پستیوں کی جانب جانے اور ان لوگوں پر ظلم و ستم روا رکھنے میں جو حرم کے باہر آباد تھے ان کی گستاخیاں اور دراز دستیاں پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئیں۔ وہ برملا کہنے لگے کہ ہم ہی آل ابراہیم ہیں، ہم ہی پاسبان حرم ہیں، ہم ہی کعبہ کے اصل وارث ہیں، ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ جاہ و مرتبت میں عربوں کے درمیان کوئی ہمارا ہم پلہ نہیں ہے۔
ان نظریات کی بناء پر انہوں نے حج کے بعض احکام جو حرم کے باہر انجام دیئے جاتے ہیں جیسے عرفہ میں قیام، قطعی ترک کر دیئے۔ ان کا حکم تھا کہ ان زائرین بیت اللہ کو جو حج یا عمرہ کی نیت سے آتے ہیں یہ حق نہیں ہے کہ اس کھانے کو کھائیں جسے وہ اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ یا اپنے کپڑے پہن کر خانہ کعبہ کا طواف کریں۔
حضرت عبداللہ
حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے حضرت عبداللہ تھے کہ جنہیں رسول خدا کے والد ہونے کا فخر حاصل ہو۔ وہ حضرت ابوطالب، امیر المومنین علی علیہ السلام کے والد اور زبیر ایک ہی ماں یعنی حضرت فاطمہ کے بطن سے تھے۔ حضرت عبداللہ اپنے والد کی نظروں میں دوسرے بھائیوں کے مقابل زیادہ قدر و منزلت تھی، جس کی وجہ ان کے ذاتی اوصاف اور معنوی کمالات تھے۔ اس کے علاوہ دانشوروں اور کاہنوں نے بھی یہ پیشین گوئی کی تھی کہ ان کی نسل سے ایسا فرزند پیدا ہوگا جسے پیغمبری کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ اس خوشخبری کی تائید و تصدیق اس خاص تابانی سے ہوتی تھی جو حضرت عبداللہ کے چہرے سے عیاں تھی۔
حضرت عبدالمطلب نے اپنے جواں سال فرزند حضرت عبداللہ کے لیے طائفہ بنی زہرہ کے سردار حضرت وہب بن عبدمناف کی دختر نیک اختر حضرت آمنہ سے رشتہ مانگا۔ اور انہیں اپنے فرزند دلبند کے حبالہ نکاح میں لے آئے۔ اس شادی خانہ آبادی کا حاصل و ثمرہ حضرت محمد کا وجود مسعود تھا اور یہی وہ ذات گرامی ہے جسے بعد میں خاتم الانبیاء کہا گیا۔
حضرت آمنہ سے شادی کرنے کے بعد حضرت عبداللہ تجارتی قافلے کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے۔ سفر سے واپسی پر شہر یثرب میں بیمار ہوگئے اور اس بیماری کی وجہ سے وہیں ان کا انتقال ہوگیا اور اسی شہر میں انہیں دفن کیا گیا۔
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top