چڑیل

  • Work-from-home

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113

چڑیل-احمد ندیم قاسمی



جی ہاں ہے تو عجیب بات مگر بعض باتیں سچی بھی ہوتیں ہیں ، دن بھر وہ برساتی نالوں میں چقماقی کے جھولیاں چنتی ہے اور رات کو انہیں آپس میں بجاتی ہے، اور جس اسے چنگاریاں جھڑنے لگتی ہیں تو زور زور سے ہنستی ہے، اور پھر اس کی ہنسی شدید ہونے لگتی ہے، تو ہم پر رحمتیں برسا خوتون، تو آسمان پر ستارے گنکنے لگتے ہیں ، جھیل کی سطح پر چمٹے ہوئے چاند کو لطیف جھونکے لا تعداد دنوں کی قطاروں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور ہوائیں گھنی پریوں میم سے سمت سمٹ اور لچک لچک کر نکلتی ہوئی گنگنانے لگتی ہیں ، اور یہ گنگناہٹ سنسناتے ہوئے سناتے کا روپ دھار کر پہاڑیوں اور وادیوں پر مسلط ہو جاتی ہے، اور صرف تبھی ٹوٹتی ہے جب پو پھٹتے گلابی کنکروں سے پٹی ہوئی ڈھیریوں پر ایک سایہ سا منڈ لانے لگتا ہے۔
اول اول جب وہ ان ڈھیریوں پر آئی تو چیت کے مہینے کی ایک رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی، آسمان پر بادلوں کی جنگ جاری تھی، اور برساتی نالے گرج رہے تھے، کسی کھوہ میں ایک گڈریا دبکا بیٹھا تھا، یہ قریب سے گزری تو چڑیل چڑیل پکارتا چیختا چلاتا کنکر اڑاتا اندھیرے میں جذب ہو گیا، دوسرے روز چرواہوں نے بہت دور سے اسے ڈھیریوں پر چقماق چنتے ہوئے دیکھا تو گڈرئیے کے واویلا میں سچائی کی رمق نظر آئی۔، گھروں کے صدر دروازوں پر تعویذ لٹکائے گئے،دہقانوں کے چھپروں کے اردگرد پیر جی کا دم کیا ہوا پانی چھڑکا جانے لگا، اور نمبر دار نے مولوی جی کو دین وسط میں بٹھا کر کہا کہ تین مرتبہ قرآن مجید پڑھ کر چھو کرو اور پیٹ بھر حلوہ۔۔۔۔ سنتا سنگھ جوار راولپنڈی کے سفادوں کا حال سن کر گھر کی چار دیواری میں بند ہو گیا تھا ،باہر آیا، اور مکان کے قفل پر سیندور چھڑک کر اندر بھاگ گیا اور لالہ چومی لال نے اڑوس پڑوس کے پنڈتوں کو فوراً جمع کیا اور ایک بھجن منڈلی قائم کر لی، ہو حق کے ورد اور رام رام کے جاپ سے گاؤں بھڑوں کے چھتے کی طرح سر سرانے لگا، اس روز مدرسہ بھی بند رہا، کیوں کہ گائنوں نے اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو کلیجیوں میں سے چمٹائے رکھا اور اور مدرسے کے برآمدے میں بیٹھ کر چڑی کی باتیں کرتے رہے۔
مگر چند ہی دنوں کے بعد مراد نے گاؤں میں یہ خبر پھیلا دی کہ وہ چڑیل نہیں ، چڑیل نہیں ، مولوی جی نے پوچھا تھا،’’ ارے بھئی تمہیں کیا معلوم کہ سکندر اعظم کے زمانے میں کالی ڈھیری کی ایک چوٹی پر ایک ہندوستانی چڑیل نے ایک یونانی کی کھوپڑی توڑ کر اس کا گودا نگل لیا تھا، جب سے اس ڈھیری پر کسی نے قدم نہیں رکھا اور اکثر دیکھا گیا ہے، کہ طوفانی راتوں میں ڈھیری پر دئیے جلتے ہیں اور تالیاں بجتی ہیں اور ڈراؤنے قہقہوں کی آوازیں آتی ہیں ، دادا سے پوچھ لو۔‘‘
دادا جسے قرآن مجید کی کئی آیتوں سے لے کر ابابیلوں کی چونچ اور گدھ کی آنکھوں کے مرکب سے ایک اکسیری سرمے کا نسخہ تک یاد تھا، بولا کون نہیں جانتا کوئی ماں کا لال کالی ڈھیری پر چڑھ کر تو دکھائے، کہتے ہیں کہ اکبر بادشاہ دلی سے صرف اس لئے یہاں آیا تھا کہ اس چوٹی کا راز معلوم کرے مگر مارے ڈر کے پلٹ گیا تھا۔
مراد بولا ’’میری بات بھی تو سنو۔‘‘
’’ہاں ہاں بھئی‘‘ دادا نے کہا ۔ ’’سچ مچ مراد کی بات بھی تو سنو، ہمارے تمہارے جیسا نادان تو نہیں کہ سنی سنائی ہانک دے کا پڑھا لکھا ہے انگریز کو اردو پڑھاتا رہا ہے فوج میں ۔۔۔۔کہو بھئی مراد’’
اور مراد بولا ’’وہ چڑیل نہیں بلکہ بلا کی خوبصورت عورت ہے اتنے لمبے بال اور گھنے بال ہیں اس کے معلوم ہوتا ہے اس کے بدن پر گاڑھے دھوئیں کا ایک لہراتا ہوا سا خول چڑھا ہوا ہے، اور رنگ تو اس غضب کا ہے کہ چاندی کی کرنوں کی ایسی کی تیسی، آنکھیں بادامی ہیں پتھر کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھے تو چٹخا دے، پلکیں اتنی لمبی اور ایسی شان سے مڑی ہوئی جیسے تیر کمان ۔۔۔۔۔اور‘‘ دادا ‘‘۔۔۔۔کہتے جاؤ۔۔۔۔کہتے جاؤ‘‘۔۔۔دادا مسکرا رہا تھا، مولوی جی تسبیح پر سینکڑا خمت کرا لیا تھا، اور مراد بولا۔۔۔۔’’دادا۔۔۔۔اس کی دونوں ابروؤں کے درمیان ایک نیلی سی بندیا بھی۔ ‘‘
ارے دادا جیسے سنبھل کر بیٹھ گیا اور مولوی جی نے تسبیح کو مٹھی میں مروڑ کر ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا۔
’’میں نہیں کہتا تھا کہ وہ کالی ڈھیری کی چڑیل ہے، جس نے یونانی سپاہی کی کھوپڑی کا گودا نکال تھا، یہ ماتھے کی بندیا یا ہندو عورت ہی کا نشان تو ہے، خدا لگتی کہوں گا مراد‘‘۔۔۔۔دادا بولا۔۔۔’’مولوی جی کی بات جچ رہی ہے، نفل پڑھو شکرانے کے کہ بچ کر آئے‘‘ ’’ہو۔۔۔۔نہیں وہ چڑیل نہیں ‘‘، مراد کی آواز میں اعتماد تھا، ’’اگر وہ چڑیلیں ایسی ہیں تو میں ابھی کالی ڈھیری پر جانے کیلئے تیار ہوں ۔۔۔ مگر دادا۔۔۔۔میرا دل کہتا کہ وہ چڑیل نہیں ۔‘‘
’’تو پھر کون ہے آخر؟‘‘ دادا نے لوگوں کی آنکھوں میں دبکے ہوئے سوالوں کو زبان سے ادا کر دیا، ’’ہو گی کوئی‘‘ مراد بولا ’’مگر میں سچ کہتا ہوں کہ ایران میں بھی دیکھا اور عراق میں اور مصر میں بھی کہیں کشمیری سیب کی سی رنگت تھی تو کہیں چنبیلی کی سی لیکن گندم کا ساندی کنارے ریت کا سا، سنہری سنہری، یہ ہمارے ہندوستان میں ہی ملتا ہے۔‘‘
’’ہندوستان میں اور بھی تو بہت کچھ ہے‘‘ نمبر دار کا بیٹا رحیم جو لاہور کے ایک کالج میں پڑھتا تھا، اور ایسٹر کی چھٹیاں گزرانے گاؤں میں آیا تھا، بھاری بھاری کتابوں کی اوٹ سے بولا، ’’یہاں بنگلا کے گلے سڑے ڈھانچے بھی ہیں اور بہادر کے یتیم اور سارے ہندوستان کی وہ بیوائیں بھی ہیں جب کے آبرو کے رکھوالوں پر مشرق و مغرب کے میدانوں میں گدھوں ، مچھلیوں اور کیڑوں نے ضیافتیں اڑائیں اور جن کے لہو کی پھوار نے فاشزم کا فانسو بجایا اور جن کے خون کی حدت نے کئی اور کافور شمعیں روشن کیں اور پھر ہندوستان میں تمہارا امر تسر راولپنڈی اور ملتان بھی تو ہیں ، جہاں صرف اس لئے عورتوں کی آبرو ریزی کی جار ہی ہے کہ ان کے ماتھے پر نیلی سی بندیاں ہے اور جہاں بچوں کو۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’نہیں نہیں بھئی۔ دادا ابو کے بچوں کو نہیں بچوں کو ابھی تک کسی نے کچھ نہیں کہا۔
 
Top