Ikhlaqiat کامل توبہ کی شرائط

  • Work-from-home

intelligent086

Active Member
Nov 10, 2010
333
98
1,128
Lahore,Pakistan


کامل توبہ کی شرائط…!

اللہ ربّ العزت کو توبہ بہت پسند ہے، جو لوگ اسکی بارگاہ میں جھکتے ہیں وہ ان سے محبت کرتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔’’ان اللہ یحب التوابین ‘‘بے شک اللہ ربّ العزت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ایک مسلما ن کی زندگی میں توبہ کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ گنا ہ کرتا ہے، غلطیاں کرتا ہے ،ظلم کرتا ہےلیکن اگر وہ اللہ ربّ العزت کی بارگا ہ میں جھک جاتا ہے اور توبہ کرتا ہے، عاجزی کرتا ہے، روتا ہے، معافی مانگتا ہے تو یقینا ًتوبہ قبول ہوجاتی ہے۔ توبہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر خصوصی انعام ہے، اگر وہ ہماری نافرمانیوں پر سزا دے تب بھی اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام و احسان سے کوئی شخص فائدہ نہ اُٹھائے تو یقینا ًبد نصیبی کی بات ہے ۔ محققین کے نزدیک کامل توبہ کی چند شرائط ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ، انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے جملہ گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ اور تائب ہو کر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرکے دنیا اور آخرت میں عذاب الٰہی سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔

1 ۔ ندامت و شرمندگی

توبہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں، طور طریقوں اور برے اعمال پر شدید پشیمانی اور شرمندگی محسوس کرے، جو کہ درحقیقت برے کاموں سے کنارہ کشی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ندامت کے صحیح ہونے کی علامات میں دل کا نرم ہو جانا اور کثرت سے آنسوؤں کا جاری ہونا ہے کیونکہ جب دل کو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا احساس جکڑلے ،اور بندہ پر عذاب الٰہی کا خوف طاری ہو جائے تو یہ گریہ و زاری کرنے والا اور غم زدہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ’’ندامت ہی توبہ ہے۔‘‘ جمہور محققین کے نزدیک خالص ندامت ہی توبہ کی اصل ہے جو کہ خلوص دل سے کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔

2 ۔ ترک گناہ و معصیت

توبہ کی دوسری شرط ترک گناہ و معصیت ہے۔ برے فعل پر شرمندگی اور پشیمانی کے احساس کے بعد بندے کے دل میں گناہ ترک کرنے کا تہیہ جنم لیتا ہے اور بندہ شرم محسوس کرتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی ایک کمزور اور حقیر ترین مخلوق ہو کر اس کے ساتھ اپنے تعلق بندگی کی حیاء نہ کی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا، یہ احساس ترک گناہ پر منتج ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور گناہ سے ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ گناہ کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے پورے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ’’مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا‘‘ (سورۃ النسائ)۔ اس آیت مبارکہ کے الفاظ بندے کی توجہ اس طرف مبذول کروا رہے ہیں کہ اس کی سابقہ زندگی میں جس قدر بھی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں وہ سچے دل کے ساتھ توبہ کا طلب گار بن کر اپنے گناہوں پر ندامت محسوس کرتے ہوئے گڑگڑا کر اللہ ربّ العزت کی بارگاہ سے عفو و درگزر کی دراخواست کرے۔

3 ۔توبہ پر پختہ رہنے کا عزم

بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پختہ عہد کرے کہ جن نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں کا ارتکاب وہ کر چکا ہے آئندہ یہ اس کی زندگی میں کبھی داخل نہیں ہوں گے، کیونکہ توبہ کی ابدی سلامتی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس قدر اپنے عہد پر پختہ رہتا ہے۔ اس لئے پکا عزم کرے کہ آئندہ یہ گناہ ہر گز نہیں کروں گا۔ اگر شیطان کان میں کہے کہ تو دوبارہ یہ گناہ کرے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ تقوی کا عزم قبولیت توبہ کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اس عزم کو توڑنے کا ارادہ نہ ہو۔بس توبہ کے وقت اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر لیا جائے کہ اے اللہ میں آپ کے بھروسہ پر پکا عزم کرتا ہوں کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا، تو بندہ جب تک گناہوں پر نادم اور تائب رہے گا اللہ تعالیٰ کی رحمت اس پر سایہ فگن رہے گی۔

اس کے علاوہ حقوق العباد میں سے اگر کسی کیساتھ ناانصافی یا ظلم کر بیٹھے تو اولاً اس کے حقوق ادا کرے اور اگر یہ توفیق نہیں پاتا تو پھر اس سے معافی کا خواستگار ہو اور اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کے لئے دست بہ دعا رہے۔آج بدقسمتی سے مذہبی اور دنیوی امور کو علیحدہ علیحدہ پلڑوں میں رکھنے کے باطل طریقہ کار نے ہمارے معاشرے میں نیکی کے تصور کو دھندلا دیا ہے، بیک وقت لوٹ کھسوٹ، ظلم و ناانصافی، حق تلفی اور مفاد پرستی بھی جاری ہے اور عبادت کے ساتھ ساتھ محض لفظی توبہ بھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس منافقانہ طرزِ عمل کی موجودگی میں ترکِ گناہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ حدیث نبوی ہے کہ ’’گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عالم الغیب ہے اس کے علم میں ہے کہ کون اپنی توبہ میں سچا اور کون جھوٹا ہے۔ حقیقی توبہ اسی وقت ہوگی جب توبہ کے بعد گناہ کو بھی مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔

بلاشبہ صحیح توبہ وہی ہے جو انسان کے شب و روز، افعال و اعمال اور حالات و کیفیات کو یکسر بدل کر رکھ دے۔ بندہ عبادت و ریاضت کا پیکر بن جائے اور رضائے الٰہی کا حصول اس کی خواہشات کا مرکزو محور بن جائے۔توبہ اپنے محبوب کے ساتھ پھر سے جڑ جانے کا نام ہے، گناہ نے محبت کی حرمت کو مجروح کیا تو گناہگار احساس گناہ سے بوجھل ہو گیا، محبوب سے شرم آنے لگی، عفو و بخشش کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ہاتھ کانپ گئے، پھر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، ایسی ہی توبہ مقبول ہوتی ہے۔

حقیقی توبہ کے بعد بشری کمزوری کے باعث کسی بندے سے گناہ کا سر زد ہوجانا ممکن ہے لیکن اگر وہ گناہ کرنے کے بعد ستر بار بھی صدق دل سے معافی مانگے تو توبہ قبول ہو گی۔ لہٰذا ان سہل ترین شرائط پر عمل پیرا ہو کر انسان سچی توبہ کی برکات سے دائمی طور پر مستفید ہو سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی اس قلیل زندگی کے ایک ایک لمحے کو نیکیوں سے قیمتی بنائیں اور جلد از جلد اپنے گناہوں سے کامل توبہ کریں اس سے پہلے کہ توبہ کا وقت نہ رہے اور وقت قضاء آجائے۔ اللہ پاک ہمیں سچی و پکی توبہ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے جو اتنی کامل اور اکمل ہو کہ آئندہ کے لیے ہمارے اور گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کردے جتنا مشرق سے مغرب میں ہے،آمین۔
رانا اعجاز
 
Top