کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

  • Work-from-home
Status
Not open for further replies.

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

سوال:
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ چار امام برحق ہیں مگر تقلید صرف ایک کی کرتے ہیں۔قرآن وحدیث سے جواب دیں کہ امام کس طرح برحق ہیں اور ان کو ماننا کس حد تک جائز ہے ؟
جواب:
اہل اسلام میں ہزاروں لاکھوں امام گزرے ہیں مثلاً صحابہ کرام ﷢ ، تمام صحیح العقیدہ ثقہ تابعین وتبع تابعین اور دیگر آئمہ عظام رحمہ اللہ اجمعین۔ اس وقت دنیا میں آل تقلید کے کئی گروہوں میں سے دو بڑے گروہ ہیں۔
اول:
مذاہب اربعہ میں سے صرف ایک مذہب کی تقلید کرنے والے یہ لوگ امام مالک، ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمد رحہم اللہ کو چار امام کہتے ہیں۔
دوم:
شیعہ یعنی روافض: یہ اہل بیت کے بارہ اماموں کو امام برحق اور معصوم مانتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ اہل سنت کی طرف منسوب تقلیدی مذاہب والے لوگوں کے نزدیک چار اماموں سے مراد مالک بن انس المدنی، ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی الکابلی، محمد بن ادریس الشافعی الہاشمی اور احمد بن حنبل الشیبانی البغدادی رحمہم اللہ ہیں۔
مذکورہ چار اماموں کوبرحق ماننے کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔
نمبر1۔
یہ چاروں حدیث اور فقہ کے بڑے امام تھے۔
عرض ہے کہ امام ابوحنیفہ کےبارے میں جمہور سلف صالحین کااختلاف ہے ، جس کی تفصیل التاریخ الکبیر للبخاری، الکنیٰ للامام مسلم، الضعفاء للنسائی، الکامل لابن عدی، الضعفاء للعقیلی، المجروحین لابن حبان اور میری کتاب �� الاسانید الصحیحہ فی احبار الامام ابی حنیفہ �� میں ہے۔ پانچویں صدی ہجری سے لے کر بعد والے زمانوں میں عام اہل حدیث علماء (محدثین) کے نزدیک امام ابوحنیفہ فقہ کے ایک مشہور امام تھے اور یہی راجح ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا
�� فقيه مشهور�� (تقریب التہذیب: 7153)
یعنی امام ابوحنیفہ مشہور فقیہ تھے۔
امام یزید بن ہارون الواسطی رحمہ اللہ نے فرمایا
��ادركت الناس فما رايت احداً عقل ولا افضل ولا اورع من ابي حنيفة�� (تاریخ بغداد ج13، ص364 وسندہ صحیح)
�� میں نے (بہت سے) لوگوں کو دیکھا ہے لیکن ابوحنیفہ سے زیادہ عقل والا، افضل اور نیک کوئی بھی نہیں دیکھا��

سنن ابی داود کے مصنف امام ابوداود سجستانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"رحم الله مالكاً كان اماماً رحم الله الشافعي كان اماماً رحم الله ابا حنيفة كان اماماً "(الانتقاء لابن عبدالبرص32 وسندہ صحیح ، الاسانید الصحیحہ ص 82)
�� مالک (بن انس) پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے، شافعی پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے، ابوحنیفہ پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے۔��

ان کے علاوہ حکم بن ہشام الثقفی، قاضی عبداللہ بن شبرمہ، شقیق البلخی، عبدالرزاق بن ہمام صاحب المصنف، حافظ ابن عبدالبر اور حافظ ذہبی وغیرہم سے امام ابوحنیفہ کی تعریف وثناء ثابت ہے۔
تنبیہ:
حدیث میں ثقہ ہونا یا نہ ہونا ، حافظے کا قوی ہونا یانہ ہونا یہ علیحدہ مسئلہ ہے جس کی مفصل تحقیق ��الاسانید الصحیحہ�� میں مرقوم ہے۔بطور خلاصہ عرض ہے کہ جمہور محدثین نے (جن کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے) امام صاحب (ابوحنیفہ) پر حافظے وغیرہ کی وجہ سے جرح کی ہے۔
اگر محدثین کرام کے درمیان کسی راوی کےبارےمیں جرح وتعدیل کااختلاف ہو تو ہمارےنزدیک تطبیق نہ ہونے کی صورت میں ہمیشہ جمہور محدثین کوترجیح حاصل ہوتی ہے۔

باقی تینوں امام حدیث میں ثقہ اور فقہ میں امام تھے۔رحمہم اللہ اجمعین
نمبر2۔
اگر چار امام برحق ہونے کا یہ مطلب ہے کہ لوگوں پر ان چار میں سے صرف ایک امام کی تقلید واجب یا جائز ہے تو یہ مطلب کئی وجہ سے باطل ہے۔
وجہ1۔
عربی لغت میں ��بے سوچے سمجھے یا بے دلیل پیروی�� کو تقلید کہتے ہیں۔دیکھیئے القاموس الوحید(ص 1342) اور میری کتاب ��دین میں تقلید کا مسئلہ�� (ص7)
بے دلیل پیروی قرآن مجید کی رو سے ممنوع ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿ولا تقف ماليس لك به علم﴾ (بنی اسرائیل:36)
اور جس کاتجھے علم نہ ہو اس کو پیروی نہ کر۔

اس آیت سےمعلوم ہوا کہ تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
نیز دیکھیئے المستصفیٰ من علم الاصول للغزالی(ج 2،ص 389)، اعلام الموقعین لابن القیم (ج2 ص188) اور الرد علی من اخلد الی الارض للسیوطی(ص 125، 130)
وجہ2۔
رسول اللہﷺ کی کسی حدیث میں آئمہ اربعہ میں سے صرف ایک امام کی تقلید کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔لہذا مروجہ تقلید بدعت ہے۔اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اورہر بدعت گمراہی ہے۔(صحیح مسلم:868، دارالسلام،2005)
وجہ3۔
صحابہ کرام﷢ سے مروجہ تقلید ثابت نہیں بلکہ بعض صحابہ﷢ سے صراحتاً تقلید کی ممانعت ثابت ہے۔مثلاً سیدنا عبداللہ بن مسعود﷜نے فرمایا:
دین میں تقلید نہ کرو۔(السنن الکبریٰ للبیہقی ج2، ص10، وسندہ صحیح ، دین میں تقلید کا مسئلہ ص35)
سیدنا معاذ بن جبل﷜ نے فرمایا:
رہا عالم کی غلطی کا مسئلہ تو اگر وہ سیدھے راستے پر بھی ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔الخ (کتاب الزہد للامام وکیع بن الجراح ج1 ص299، 300 ح71 وسندہ حسن)
وجہ4۔
اس پر اجماع ہے کہ مروجہ تقلید ناجائز ہے۔دیکھیئے النبذۃ الکافیۃ فی احکام اصول الدین الابن حزم (ص71)، الرد علی من اخلد الی الارض للسیوطی(ص 131، 132) اور دین میں تقلید کا مسئلہ (ص34، 35)
وجہ5۔
تابعین کرام میں سے کسی سے بھی مروجہ تقلید ثابت نہیں بلکہ ممانعت ثابت ہے۔مثلاً امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
یہ لوگ تجھے رسول اللہ ﷺ کی جو حدیث بتائیں تو اسے پکڑ لو اور جو بات وہ اپنی رائے سے کہیں اسے کوڑے کرکٹ پر پھینک دو۔(مسند الدارمی ج1 ص67 ح206 وسندہ صحیح)
حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
لوگوں میں سےہر آدمی کی بات آپ لےبھی سکتے ہیں اور رد بھی کرسکتے ہیں سوائے نبی کریمﷺ کے (یعنی آپﷺ کی ہر بات لینا فرض ہے) (الاحکام لابن حزم ج2 ص 293 وسندہ صحیح)
ابراہیم نخفی رحمہ اللہ کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا قول پیش کیا تو انہوں نے فرمایا :
رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید بن جبیر کے قول کا کیا کرو گے۔؟ (الاحکام لابن حزم ج2 ص293 وسندہ صحیح)
وجہ6۔
لوگوں کے مقرر کردہ ان چاروں سے بھی مروجہ تقلید کا جواز یا وجوب ثابت نہیں بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا
"ولا تقلدوني" (آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم ص 51 وسندہ حسن)
�� اور تم میری تقلید نہ کرو۔��
مزید عرض ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی اور دوسروں کی تقلید سےمنع فرمایا تھا۔دیکھیئے مختصر المزنی( ص1)
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا
اپنے دین میں تو ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر۔(مسائل ابی داؤد ص277)
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ ��ممانعت صرف مجتہدین کےلیے ہے�� بے دلیل ہونے کی وجہ سے باطل اور مردود ہے۔
وجہ7۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
اےیعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔(تاریخی یحیٰ بن معین، روایۃ الدوری ج2 ص607)
مشہور ثقہ راوی قاضی حفص بن غیاث النخعی الکوفی نے فرمایا:

"كنت أجلس الي أبي حنيفة فأسمعه يفتي في المسئلة الواحدة بخمسة أقاويل في اليوم الواحد فلما رأيت ذلك تركته وأقبلت علي الحديث" (کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل:316 وسندہ صحیح)
��میں ابوحنیفہ کے پاس بیٹھتا تھا تو ایک دن میں ہی انھیں ایک مسئلے کے بارے میں پانچ اقوال کہتےہوئےسنتا ، جب میں نے یہ یکھا تو انہیں ترک کردیا (یعنی چھوڑ دیا) اورحدیث (پڑھنے) کی طرف متوجہ ہوگیا��

حفص بن غیاث سے اس روایت کےراوی عمر بن حفص بن غیاث ثقہ تھے۔دیکھیئے کتاب الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم (ج2 ص103 ت 544 نقلہ عن ابیہ ابی حاتم الرازی قال : کوئی ثقۃ ) ان پر جرح مردود ہے۔ عمر بن حفص کے شاگرد ابراہیم بن سعید الجوہری ابو اسحاق ثقہ ثبت تھے۔دیکھیئے تاریخ بغداد(ج6 ص93 ت 3127)ان پر ابن خراش رافضی کی جرح مردود ہے۔ ابراہیم الجوہری رحمہ اللہ اس روایت میں منفرد نہیں بلکہ احمد بن یحیٰ بن عثمان نے ان کی متابعت تامہ کررکھی ہے۔دیکھیئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی (ج2 ص 789)
اگر احمد بن یحیٰ بن عثمان کا ذکر کاتب کی غلطی نہیں توعرض ہے کہ یعقوب بن سفیان سے مروی ہے کہ میں نے ہزار اور زیادہ اساتذہ سے حدیث لکھی ہے اور سارے ثقہ تھے۔الخ (تہذیب الکمال ج1 ص46، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، اختصار ابن منظور ج3 ص105)
تاریخ دمشق کامذکورہ ترجمہ نسخۂ مطبوعہ میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس قول کی سند مل نہ سکی اور یہ قول اختصار کےساتھ تاریخ بغداد (ج4 ص199، 200 وسندہ صحیح) وغیرہ میں موجود ہے۔واللہ اعلم نیز دیکھیئے التنکیل لما فی تانیب الکوثری من الاباطیل (ج1 ص24)
وجہ8۔
بعد کے علماء نے بھی مروجہ تقلید سےمنع فرمایاتھا مثلاً امام ابومحمد القاسم بن محمد بن القاسم القرطبی رحمہ اللہ نے مقلدین کےرد پر ایک کتاب لکھی ۔دیکھیئے سیر اعلام النبلاء (ج13 ص 339)
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نےکہا :
اور تقلید حرام ہے۔(النبذۃ الکافیۃ فی احکام اصول الدین ص70)
عینی حنفی نے کہا :
پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کاارتکاب کرتا ہے اورہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔(البنایہ شرح الہدایہ ج1 ص 317)
وجہ9۔
دین اسلام میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ کی تقلید کرنے والے پر امام شافعی وغیرہ کی تقلید حرام ہے۔
وجہ10۔
مروجہ تقلید کی وجہ سے امت میں بڑا انتشار اور اختلاف ہوا ہے۔مثلاً دیکھیئے الفوائد البہیہ (ص 152، 153)، میزان الاعتدال (ج4 ص52)، فتاویٰ البزازیہ (ج4 ص112) اوردین میں تقلید کا مسئلہ (ص89، 90)
مزید تفصیل کےلیے اعلام الموقعین وغیرہ بہترین کتابوں کامطالعہ کرنا مفید ہے۔
درج بلا جواب کاخلاصہ یہ ہے کہ فقیہ ہونے کے لحاظ سے چاروں امام اور دوسرے ہزاروں لاکھون ثقہ صحیح العقیدہ امام برحق تھے۔مگر دین میں مروجہ تقلید کسی ایک کی بھی جائز نہیں اور لوگوں پر یہ فرض ہے کہ سلف صالحین کےفہم کی روشنی میں قرآن وحدیث اور اجماع پر عمل کریں اور مروجہ تقلیدی مذاہب سے اپنے آپ کو دور رکھیں کیونکہ ان تقلیدی مذاہب کے اماموں کی پیدائش سےپہلے اہل سنت کامذہب دنیا مین موجود تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
ابو حنیفہ ، مالک ، شافعی اور احمد بن حنبل کے پیدا ہونے سے پہلے اہل سنت وجماعت کامذہب قدیم وشمہور ہے کیونکہ یہ صحابہ کا مذہب ہے۔(منہاج السنۃ ج1 ص256)

 

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

سوال:
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ چار امام برحق ہیں مگر تقلید صرف ایک کی کرتے ہیں۔قرآن وحدیث سے جواب دیں کہ امام کس طرح برحق ہیں اور ان کو ماننا کس حد تک جائز ہے ؟
جواب:
اہل اسلام میں ہزاروں لاکھوں امام گزرے ہیں مثلاً صحابہ کرام ﷢ ، تمام صحیح العقیدہ ثقہ تابعین وتبع تابعین اور دیگر آئمہ عظام رحمہ اللہ اجمعین۔ اس وقت دنیا میں آل تقلید کے کئی گروہوں میں سے دو بڑے گروہ ہیں۔
اول:
مذاہب اربعہ میں سے صرف ایک مذہب کی تقلید کرنے والے یہ لوگ امام مالک، ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمد رحہم اللہ کو چار امام کہتے ہیں۔
دوم:
شیعہ یعنی روافض: یہ اہل بیت کے بارہ اماموں کو امام برحق اور معصوم مانتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ اہل سنت کی طرف منسوب تقلیدی مذاہب والے لوگوں کے نزدیک چار اماموں سے مراد مالک بن انس المدنی، ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی الکابلی، محمد بن ادریس الشافعی الہاشمی اور احمد بن حنبل الشیبانی البغدادی رحمہم اللہ ہیں۔
مذکورہ چار اماموں کوبرحق ماننے کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔
نمبر1۔
یہ چاروں حدیث اور فقہ کے بڑے امام تھے۔
عرض ہے کہ امام ابوحنیفہ کےبارے میں جمہور سلف صالحین کااختلاف ہے ، جس کی تفصیل التاریخ الکبیر للبخاری، الکنیٰ للامام مسلم، الضعفاء للنسائی، الکامل لابن عدی، الضعفاء للعقیلی، المجروحین لابن حبان اور میری کتاب �� الاسانید الصحیحہ فی احبار الامام ابی حنیفہ �� میں ہے۔ پانچویں صدی ہجری سے لے کر بعد والے زمانوں میں عام اہل حدیث علماء (محدثین) کے نزدیک امام ابوحنیفہ فقہ کے ایک مشہور امام تھے اور یہی راجح ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا
�� فقيه مشهور�� (تقریب التہذیب: 7153)
یعنی امام ابوحنیفہ مشہور فقیہ تھے۔
امام یزید بن ہارون الواسطی رحمہ اللہ نے فرمایا
��ادركت الناس فما رايت احداً عقل ولا افضل ولا اورع من ابي حنيفة�� (تاریخ بغداد ج13، ص364 وسندہ صحیح)
�� میں نے (بہت سے) لوگوں کو دیکھا ہے لیکن ابوحنیفہ سے زیادہ عقل والا، افضل اور نیک کوئی بھی نہیں دیکھا��

سنن ابی داود کے مصنف امام ابوداود سجستانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"رحم الله مالكاً كان اماماً رحم الله الشافعي كان اماماً رحم الله ابا حنيفة كان اماماً "(الانتقاء لابن عبدالبرص32 وسندہ صحیح ، الاسانید الصحیحہ ص 82)
�� مالک (بن انس) پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے، شافعی پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے، ابوحنیفہ پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے۔��

ان کے علاوہ حکم بن ہشام الثقفی، قاضی عبداللہ بن شبرمہ، شقیق البلخی، عبدالرزاق بن ہمام صاحب المصنف، حافظ ابن عبدالبر اور حافظ ذہبی وغیرہم سے امام ابوحنیفہ کی تعریف وثناء ثابت ہے۔
تنبیہ:
حدیث میں ثقہ ہونا یا نہ ہونا ، حافظے کا قوی ہونا یانہ ہونا یہ علیحدہ مسئلہ ہے جس کی مفصل تحقیق ��الاسانید الصحیحہ�� میں مرقوم ہے۔بطور خلاصہ عرض ہے کہ جمہور محدثین نے (جن کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے) امام صاحب (ابوحنیفہ) پر حافظے وغیرہ کی وجہ سے جرح کی ہے۔
اگر محدثین کرام کے درمیان کسی راوی کےبارےمیں جرح وتعدیل کااختلاف ہو تو ہمارےنزدیک تطبیق نہ ہونے کی صورت میں ہمیشہ جمہور محدثین کوترجیح حاصل ہوتی ہے۔

باقی تینوں امام حدیث میں ثقہ اور فقہ میں امام تھے۔رحمہم اللہ اجمعین
نمبر2۔
اگر چار امام برحق ہونے کا یہ مطلب ہے کہ لوگوں پر ان چار میں سے صرف ایک امام کی تقلید واجب یا جائز ہے تو یہ مطلب کئی وجہ سے باطل ہے۔
وجہ1۔
عربی لغت میں ��بے سوچے سمجھے یا بے دلیل پیروی�� کو تقلید کہتے ہیں۔دیکھیئے القاموس الوحید(ص 1342) اور میری کتاب ��دین میں تقلید کا مسئلہ�� (ص7)
بے دلیل پیروی قرآن مجید کی رو سے ممنوع ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿ولا تقف ماليس لك به علم﴾ (بنی اسرائیل:36)
اور جس کاتجھے علم نہ ہو اس کو پیروی نہ کر۔

اس آیت سےمعلوم ہوا کہ تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
نیز دیکھیئے المستصفیٰ من علم الاصول للغزالی(ج 2،ص 389)، اعلام الموقعین لابن القیم (ج2 ص188) اور الرد علی من اخلد الی الارض للسیوطی(ص 125، 130)
وجہ2۔
رسول اللہﷺ کی کسی حدیث میں آئمہ اربعہ میں سے صرف ایک امام کی تقلید کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔لہذا مروجہ تقلید بدعت ہے۔اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اورہر بدعت گمراہی ہے۔(صحیح مسلم:868، دارالسلام،2005)
وجہ3۔
صحابہ کرام﷢ سے مروجہ تقلید ثابت نہیں بلکہ بعض صحابہ﷢ سے صراحتاً تقلید کی ممانعت ثابت ہے۔مثلاً سیدنا عبداللہ بن مسعود﷜نے فرمایا:
دین میں تقلید نہ کرو۔(السنن الکبریٰ للبیہقی ج2، ص10، وسندہ صحیح ، دین میں تقلید کا مسئلہ ص35)
سیدنا معاذ بن جبل﷜ نے فرمایا:
رہا عالم کی غلطی کا مسئلہ تو اگر وہ سیدھے راستے پر بھی ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔الخ (کتاب الزہد للامام وکیع بن الجراح ج1 ص299، 300 ح71 وسندہ حسن)
وجہ4۔
اس پر اجماع ہے کہ مروجہ تقلید ناجائز ہے۔دیکھیئے النبذۃ الکافیۃ فی احکام اصول الدین الابن حزم (ص71)، الرد علی من اخلد الی الارض للسیوطی(ص 131، 132) اور دین میں تقلید کا مسئلہ (ص34، 35)
وجہ5۔
تابعین کرام میں سے کسی سے بھی مروجہ تقلید ثابت نہیں بلکہ ممانعت ثابت ہے۔مثلاً امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
یہ لوگ تجھے رسول اللہ ﷺ کی جو حدیث بتائیں تو اسے پکڑ لو اور جو بات وہ اپنی رائے سے کہیں اسے کوڑے کرکٹ پر پھینک دو۔(مسند الدارمی ج1 ص67 ح206 وسندہ صحیح)
حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
لوگوں میں سےہر آدمی کی بات آپ لےبھی سکتے ہیں اور رد بھی کرسکتے ہیں سوائے نبی کریمﷺ کے (یعنی آپﷺ کی ہر بات لینا فرض ہے) (الاحکام لابن حزم ج2 ص 293 وسندہ صحیح)
ابراہیم نخفی رحمہ اللہ کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا قول پیش کیا تو انہوں نے فرمایا :
رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید بن جبیر کے قول کا کیا کرو گے۔؟ (الاحکام لابن حزم ج2 ص293 وسندہ صحیح)
وجہ6۔
لوگوں کے مقرر کردہ ان چاروں سے بھی مروجہ تقلید کا جواز یا وجوب ثابت نہیں بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا
"ولا تقلدوني" (آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم ص 51 وسندہ حسن)
�� اور تم میری تقلید نہ کرو۔��
مزید عرض ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی اور دوسروں کی تقلید سےمنع فرمایا تھا۔دیکھیئے مختصر المزنی( ص1)
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا
اپنے دین میں تو ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر۔(مسائل ابی داؤد ص277)
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ ��ممانعت صرف مجتہدین کےلیے ہے�� بے دلیل ہونے کی وجہ سے باطل اور مردود ہے۔
وجہ7۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
اےیعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔(تاریخی یحیٰ بن معین، روایۃ الدوری ج2 ص607)
مشہور ثقہ راوی قاضی حفص بن غیاث النخعی الکوفی نے فرمایا:

"كنت أجلس الي أبي حنيفة فأسمعه يفتي في المسئلة الواحدة بخمسة أقاويل في اليوم الواحد فلما رأيت ذلك تركته وأقبلت علي الحديث" (کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل:316 وسندہ صحیح)
��میں ابوحنیفہ کے پاس بیٹھتا تھا تو ایک دن میں ہی انھیں ایک مسئلے کے بارے میں پانچ اقوال کہتےہوئےسنتا ، جب میں نے یہ یکھا تو انہیں ترک کردیا (یعنی چھوڑ دیا) اورحدیث (پڑھنے) کی طرف متوجہ ہوگیا��

حفص بن غیاث سے اس روایت کےراوی عمر بن حفص بن غیاث ثقہ تھے۔دیکھیئے کتاب الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم (ج2 ص103 ت 544 نقلہ عن ابیہ ابی حاتم الرازی قال : کوئی ثقۃ ) ان پر جرح مردود ہے۔ عمر بن حفص کے شاگرد ابراہیم بن سعید الجوہری ابو اسحاق ثقہ ثبت تھے۔دیکھیئے تاریخ بغداد(ج6 ص93 ت 3127)ان پر ابن خراش رافضی کی جرح مردود ہے۔ ابراہیم الجوہری رحمہ اللہ اس روایت میں منفرد نہیں بلکہ احمد بن یحیٰ بن عثمان نے ان کی متابعت تامہ کررکھی ہے۔دیکھیئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی (ج2 ص 789)
اگر احمد بن یحیٰ بن عثمان کا ذکر کاتب کی غلطی نہیں توعرض ہے کہ یعقوب بن سفیان سے مروی ہے کہ میں نے ہزار اور زیادہ اساتذہ سے حدیث لکھی ہے اور سارے ثقہ تھے۔الخ (تہذیب الکمال ج1 ص46، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، اختصار ابن منظور ج3 ص105)
تاریخ دمشق کامذکورہ ترجمہ نسخۂ مطبوعہ میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس قول کی سند مل نہ سکی اور یہ قول اختصار کےساتھ تاریخ بغداد (ج4 ص199، 200 وسندہ صحیح) وغیرہ میں موجود ہے۔واللہ اعلم نیز دیکھیئے التنکیل لما فی تانیب الکوثری من الاباطیل (ج1 ص24)
وجہ8۔
بعد کے علماء نے بھی مروجہ تقلید سےمنع فرمایاتھا مثلاً امام ابومحمد القاسم بن محمد بن القاسم القرطبی رحمہ اللہ نے مقلدین کےرد پر ایک کتاب لکھی ۔دیکھیئے سیر اعلام النبلاء (ج13 ص 339)
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نےکہا :
اور تقلید حرام ہے۔(النبذۃ الکافیۃ فی احکام اصول الدین ص70)
عینی حنفی نے کہا :
پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کاارتکاب کرتا ہے اورہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔(البنایہ شرح الہدایہ ج1 ص 317)
وجہ9۔
دین اسلام میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ کی تقلید کرنے والے پر امام شافعی وغیرہ کی تقلید حرام ہے۔
وجہ10۔
مروجہ تقلید کی وجہ سے امت میں بڑا انتشار اور اختلاف ہوا ہے۔مثلاً دیکھیئے الفوائد البہیہ (ص 152، 153)، میزان الاعتدال (ج4 ص52)، فتاویٰ البزازیہ (ج4 ص112) اوردین میں تقلید کا مسئلہ (ص89، 90)
مزید تفصیل کےلیے اعلام الموقعین وغیرہ بہترین کتابوں کامطالعہ کرنا مفید ہے۔
درج بلا جواب کاخلاصہ یہ ہے کہ فقیہ ہونے کے لحاظ سے چاروں امام اور دوسرے ہزاروں لاکھون ثقہ صحیح العقیدہ امام برحق تھے۔مگر دین میں مروجہ تقلید کسی ایک کی بھی جائز نہیں اور لوگوں پر یہ فرض ہے کہ سلف صالحین کےفہم کی روشنی میں قرآن وحدیث اور اجماع پر عمل کریں اور مروجہ تقلیدی مذاہب سے اپنے آپ کو دور رکھیں کیونکہ ان تقلیدی مذاہب کے اماموں کی پیدائش سےپہلے اہل سنت کامذہب دنیا مین موجود تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
ابو حنیفہ ، مالک ، شافعی اور احمد بن حنبل کے پیدا ہونے سے پہلے اہل سنت وجماعت کامذہب قدیم وشمہور ہے کیونکہ یہ صحابہ کا مذہب ہے۔(منہاج السنۃ ج1 ص256)




جزاکم اللہ خيرا واحسن الجزاء في الدنيا و الآخرا
 
  • Like
Reactions: lovelyalltime

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313

نمبر1۔
یہ چاروں حدیث اور فقہ کے بڑے امام تھے۔
عرض ہے کہ امام ابوحنیفہ کےبارے میں جمہور سلف صالحین کااختلاف ہے ، جس کی تفصیل التاریخ الکبیر للبخاری، الکنیٰ للامام مسلم، الضعفاء للنسائی، الکامل لابن عدی، الضعفاء للعقیلی، المجروحین لابن حبان اور میری کتاب �� الاسانید الصحیحہ فی احبار الامام ابی حنیفہ �� میں ہے۔ پانچویں صدی ہجری سے لے کر بعد والے زمانوں میں عام اہل حدیث علماء (محدثین) کے نزدیک امام ابوحنیفہ فقہ کے ایک مشہور امام تھے اور یہی راجح ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا
�� فقيه مشهور�� (تقریب التہذیب: 7153)
یعنی امام ابوحنیفہ مشہور فقیہ تھے۔
امام یزید بن ہارون الواسطی رحمہ اللہ نے فرمایا
��ادركت الناس فما رايت احداً عقل ولا افضل ولا اورع من ابي حنيفة�� (تاریخ بغداد ج13، ص364 وسندہ صحیح)
�� میں نے (بہت سے) لوگوں کو دیکھا ہے لیکن ابوحنیفہ سے زیادہ عقل والا، افضل اور نیک کوئی بھی نہیں دیکھا��

سنن ابی داود کے مصنف امام ابوداود سجستانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"رحم الله مالكاً كان اماماً رحم الله الشافعي كان اماماً رحم الله ابا حنيفة كان اماماً "(الانتقاء لابن عبدالبرص32 وسندہ صحیح ، الاسانید الصحیحہ ص 82)
�� مالک (بن انس) پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے، شافعی پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے، ابوحنیفہ پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے۔��

ان کے علاوہ حکم بن ہشام الثقفی، قاضی عبداللہ بن شبرمہ، شقیق البلخی، عبدالرزاق بن ہمام صاحب المصنف، حافظ ابن عبدالبر اور حافظ ذہبی وغیرہم سے امام ابوحنیفہ کی تعریف وثناء ثابت ہے۔
تنبیہ:
حدیث میں ثقہ ہونا یا نہ ہونا ، حافظے کا قوی ہونا یانہ ہونا یہ علیحدہ مسئلہ ہے جس کی مفصل تحقیق ��الاسانید الصحیحہ�� میں مرقوم ہے۔بطور خلاصہ عرض ہے کہ جمہور محدثین نے (جن کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے) امام صاحب (ابوحنیفہ) پر حافظے وغیرہ کی وجہ سے جرح کی ہے۔
اگر محدثین کرام کے درمیان کسی راوی کےبارےمیں جرح وتعدیل کااختلاف ہو تو ہمارےنزدیک تطبیق نہ ہونے کی صورت میں ہمیشہ جمہور محدثین کوترجیح حاصل ہوتی ہے۔

باقی تینوں امام حدیث میں ثقہ اور فقہ میں امام تھے۔رحمہم اللہ اجمعین

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
اےیعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔(تاریخی یحیٰ بن معین، روایۃ الدوری ج2 ص607)
مشہور ثقہ راوی قاضی حفص بن غیاث النخعی الکوفی نے فرمایا:

"كنت أجلس الي أبي حنيفة فأسمعه يفتي في المسئلة الواحدة بخمسة أقاويل في اليوم الواحد فلما رأيت ذلك تركته وأقبلت علي الحديث" (کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل:316 وسندہ صحیح)
��میں ابوحنیفہ کے پاس بیٹھتا تھا تو ایک دن میں ہی انھیں ایک مسئلے کے بارے میں پانچ اقوال کہتےہوئےسنتا ، جب میں نے یہ یکھا تو انہیں ترک کردیا (یعنی چھوڑ دیا) اورحدیث (پڑھنے) کی طرف متوجہ ہوگیا��

حفص بن غیاث سے اس روایت کےراوی عمر بن حفص بن غیاث ثقہ تھے۔دیکھیئے کتاب الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم (ج2 ص103 ت 544 نقلہ عن ابیہ ابی حاتم الرازی قال : کوئی ثقۃ ) ان پر جرح مردود ہے۔ عمر بن حفص کے شاگرد ابراہیم بن سعید الجوہری ابو اسحاق ثقہ ثبت تھے۔دیکھیئے تاریخ بغداد(ج6 ص93 ت 3127)ان پر ابن خراش رافضی کی جرح مردود ہے۔ ابراہیم الجوہری رحمہ اللہ اس روایت میں منفرد نہیں بلکہ احمد بن یحیٰ بن عثمان نے ان کی متابعت تامہ کررکھی ہے۔دیکھیئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی (ج2 ص 789)
اگر احمد بن یحیٰ بن عثمان کا ذکر کاتب کی غلطی نہیں توعرض ہے کہ یعقوب بن سفیان سے مروی ہے کہ میں نے ہزار اور زیادہ اساتذہ سے حدیث لکھی ہے اور سارے ثقہ تھے۔الخ (تہذیب الکمال ج1 ص46، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، اختصار ابن منظور ج3 ص105)
تاریخ دمشق کامذکورہ ترجمہ نسخۂ مطبوعہ میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس قول کی سند مل نہ سکی اور یہ قول اختصار کےساتھ تاریخ بغداد (ج4 ص199، 200 وسندہ صحیح) وغیرہ میں موجود ہے۔واللہ اعلم نیز دیکھیئے التنکیل لما فی تانیب الکوثری من الاباطیل (ج1 ص24)
)


امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان پر نقد

عرض ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہ و ارضاہ کی شخصیت قدماء اہل علم میں محل نزاع رہی ہے کچھ علماء نے بعض مسائل کی بنیاد پر ان پر جرح کی ہے حضرت امام سے متعلق بعض ناروا چیزیں معاصرانہ چشمک کی وجہ سے بعض کتابوں میں منقول ہوگئی ہیں ، دوسری طرف کچھ لوگوں نے ان کے بارے میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ قولا نہیں تو عملا ان کی معصومیت کا عقیدہ رکھ لیا ہے اور ان کے فضائل میں حدیثیں گھڑ لیں ہیں ، یہ دونوں رائیں مردود اور انصاف پسند اہل علم کے نزدیک قابل رد ہیں ، امام موصوف کے بارے میں عادلانہ رائے یہ ہے کہ وہ اہل سنت وجماعت کے اماموں میں سے ایک بہت بڑے امام ، کتا ب وسنت کے پابند اور دین اسلام کے ایک بہت بڑے خادم اور اس کی طرف سے دفاع کرنے والے عالم ہیں ، نہ غلطیوں سے مبرا ہیں اور نہ ہی فسق وفجور اور کفر وبدعت کے داعی ہیں،{ دیکھئے معیا ر حق کا مقدمہ از شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی }

چنانچہ کتب تراجم وتاریخ و سیر کے عصر تدوین وتمحیص میں اہل سنت و جماعت کے معتبر اور قابل اعتماد علماء کا اس پر اتفاق ہے ، چھٹی و ساتویں صدی ہجری اور اس کے بعد لکھی جانے والی معتبر تاریخی کتابوں کا جس شخص نے بھی مطالعہ کیا ہوگا وہ اس حقیقت کا اعتراف کرے گا ۔

میں یہاں چند حوالے نقل کرتا ہوں :
[۱] امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں وکان امام ورعا ، عالما عاملا ، متعبدا، کبیر الشان لا یقبل جوائز السلطان بل یتجرد وینکسب ۔ {1/168}
آپ ایک پرہیزگار ، باعمل عالم ، عبادت گزار اور بڑے عظیم شان والے امام ہیں ، بادشاہوں کے انعامات قبول نہ کرتے بلکہ خود تجارت اور اپنی روزی کماتے ۔

یہی امام ذہبی اپنی مشہور کتاب سیر اعلام النبلاء کے تقریبا پندرہ صفحات پر امام صاحب کا ذکر خیر کیا ہے اور آپ کے ذم میں ایک حرف بھی نقل نہیں کیا بلکہ ذم کی طرف اشارہ تک نہیں کیا کہ امام موصوف پر لوگوں نے کچھ کلام کیا ہے ، پھر آخر میں لکھتے ہیں :
" وقال الشافعی : الناس فی الفقہ عیال علی ابی حنیفہ قلت : الامامۃ فی الفقہ و دقائقہ مسلمۃ الی ھذا لامام و ھذا امر لا شک فیہ ، ولیس یصح فی الاذھان شیئ، اذا احتاج النھار الی دلیل وسیرتہ تحتمل ان تفرد فی مجلدین رضی اللہ عنہ ورحمہ توفی شھیدا سقیا فی سنۃ خمسین ومائۃ ولہ سبعون سنۃ "۔{ السیر :6/403 }

امام شافعی فرماتے ہیں کہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے خوشہ چیں ہیں ، میں کہتا ہوں کہ فقہ اور فقہ کے دقیق مسائل کا استنباط اس امام کے بارے میں امر مسلم ہے ، یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے [پھر امام ذہبی عربی کا ایک شعر لکھتے ہیں جس کا ترجمہ ہے ] اگر دن کو وجود بھی دلیل پیش کرنے کا محتاج ہوتو ایسے ذہن رکھنے والوں کے نزدیک کوئی چیزصحیح نہیں ہوسکتی ، امام موصوف کی سیرت ایسی ہے کہ اسے دو جلدوں میں مرتب کی جائے اللہ تعالی ان سے راضی ہو اور ان پر رحم کرے ،سن۱۵۰ھ میں زہر دے کر انہیں شہید کردیا گیا ، اس وقت ان کی عمر ستر سال تھی ۔

[۲] امام ذہبی کے ہم عصر ایک اور امام جو تفسیر وحدیث اور تاریخ میں معروف خاص عام ہیں ، میری مراد حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ سے ہے وہ اپنی مشہور کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں :
" فقیہ العراق و احد أئمۃ الاسلام و السادۃ الاعلام و احد أرکان العلماء و احد أئمۃ الاربعۃ اصحاب المذاھب المتبوعۃ " ۔
عراق کے فقیہ ، ائمہ اسلام میں سے ایک ، اسلام کے سرداروں اور جوئی کے لوگوں میں سے ایک ، علماء میں سے ایک اہم بڑی شخصیت ، چار متبوعہ مذاہب سے ایک کے امام ۔
پھر تقریبا ایک صفحہ پر امام موصوف کی تعریف میں اہل علم کے اقوال نقل کئے ہیں{ البدایہ :10/110 }

[۳] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تہذیب التھذیب کے تقریبا چار صفحات پر امام موصوف کا ذکر خیر کیا ہے اور ان کے ذم میں ایک لفظ بھی نقل نہیں کیا بلکہ آخر میں لکھتے ہیں :
" ومناقب الامام ابو حنیفہ کثیرۃ حدا فرضی اللہ عنہ و أسکنہ الفردوس " آمین
امام ابوحنیفہ کے مناقب بہت زیادہ ہیں اللہ تعالی آپ سے راضی ہو اور جنت الفردوس میں جگہ دے ،{ تھذیب التھذیب :10/102}

واضح رہے کہ یہ تینوں بزرگ جن کا ذکر کیا گیا ان میں سے کوئی بھی حنفی نہیں ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کے سامنےوہ تمام اقوال تفصیل کے ساتھ تھے جن سے امام ابو حنیفہ کی تنقیص وتوہین ثابت ہوئی ہے لیکن ان بزرگوں کا ان اقوال کی طرف اشارہ تک نہ کرنا بلکہ ان تمام باتوں کو بالکل ہی گول کرجانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان محققین کے نزدیک وہ اقوال امام صاحب ، ان کے علم ، ورع اور تقوی کے شایان شان نہیں ہیں ۔

[۴] حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی امام ابو حنیفہ کو اپنی کتاب طبقات الحفاظ سے پانچویں طبقہ میں رکھا ہے اور ان کے ذم میں ایک لفظ بھی نقل نہیں کیا ہے،{ طبقات الحفاظ :80-81 } ۔

[۵] بلکہ حسن اتفاق یہ دیکھئے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک مختصر سی کتاب طبقات المحدثین میں لکھی ہے جس میں بڑے بڑے محدثین اور حفاظ حدیث کے نام کی فہرست رکھی ہے ، لکھتے ہیں : " فھذہ مقدمۃ فی ذکر اسماء اعلام حملۃ الآثار النبویہ "{ المعین طبقات المحدثین ،ص:17 }

اس کتاب میں محدثین کے کل ستائیس طبقات ہیں جن میں چوتھے طبقے کا عنوان ہے ، طبقۃ الاعمش و ابی حنیفہ ، پھر اس طبقہ کے محدثین عظام میں امام ابو حنیفہ کا بھی نام درج ہے ۔ {ص:51-57 } ۔

[۶] امام ابن خلکان رحمہ اللہ ساتویں صدی ہجری کے مشہور امام و مؤرخ ہیں انہوں نے بھی اپنی مشہور کتاب وفیات الاعیان کے تقریبا دس صفحوں پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر خیر کیا ، چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں :" وکان عالما عاملا زاھدا عابدا ، ورعا تقیا ، کثیر الخشوع دائم التفرع الی اللہ تعالی " { 5/406 }
" وہ عالم باعمل تھے ، پرہیزگار و عبادت گزار تھے ، متقی اور صاحب ورع بزرگ تھے ، ہمیشہ خشوع و خضوع اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے " ۔
پورے ترجمے میں ایک لفظ بھی ذم میں نقل نہیں کیا ہے بلکہ لکھتے ہیں کہ کاشکہ وہ اقوال جو خطیب بغدادی نے امام موصوف کے مثالب میں نقل کیا ہے نہ لکھے ہوتے تو بہتر تھا ۔
اس طرح اگر اگلے پچھلے اہل علم کے اقوال نقل کئے جائیں تو موضوع بہت طویل ہوجائے گا ، ہم نے یہاں صرف پانچ اہل علم کے حوالے نقل کئے ہیں جو اہل سنت وجماعت کے معتبر اور قابل اعتماد ناقدین فن ہیں خاص کر ابتدا کے تین حضرات کے اقوال وتحقیق پر حدیث کی تصحیح و تضعیف کی بنیاد رکھی جاتی ہے ، اب ان حضرات کا امام موصوف کے ذم و تنقیص کا ایک لفظ بھی نقل نہ کرنا بلکہ ان کی طرف اشارہ تک نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اقوال اس لائق ہیں کہ انہیں طاق نسیان پر رکھ کر اس پر بھول کا دبیز پردہ ڈال دیا جائے ۔ واللہ اعلم ۔

یہی منہج ہمارے ہند وپاک کے کبار علمائے اہلحدیث کا رہا ہے اور اپنے اساتذہ کو بھی ہم نے اس نہج پر چلتے پایا ہے چنانچہ شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب معیار حق میں امام حنیفہ رحمہ اللہ کو اپنا پیشوا مجتہد ، متبع سنت اور متقی و پرہیزگار لکھتے ہیں ۔ {ص:29 }

امام عصر علامہ محمد ابراہیم سیالکوٹی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب تاریخ اہل حدیث میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ بڑے خوبصورت اور عمدہ انداز میں کرتے ہیں ، اہل حدیث کو اس کا مطالعہ کرلینا چاہئے ، علامہ سیالکوٹی رحمہ اللہ امام موصوف کی طرف دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں : " حالانکہ آپ اہل سنت کے بزرگ امام ہیں اور آپ کی زندگی اعلی درجے کے تقوے اور تورع پر گزری جس سے کسی کو انکار نہیں "،{ تاریخ اہل حدیث ،ص:77 }

اس کے بعد ان تمام الزامات کی تردید کی ہے جو امام پر لگائے جاتے ہیں اور ائمہ فن کے اقوال بھی نقل کئے ہیں اس میں سب سے پہلے نمبر پر امام ابو حنیفہ کو رکھا ہے اور تقریبا بارہ صفحات پر آپ کی سیرت لکھی ہے ،{ص:54تا 65 }

۲- سابق امیر جمعیت اہل حدیث پاکستان علامہ محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ اپنے گہرے علم ، باریک بینی اور توازن طبع کے لحاظ سے بہت مشہور ہیں ، جن لوگوں نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں ، ان کی بعض اردو کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں ہوا ہے ، وہ اپنی کتاب فتاوی سلفیہ میں لکھتے ہیں : " جس قدر یہ زمین [زمین کوفہ ]سنگلاخ تھی اسی قدر وہاں اعتقادی اور عملی اصلاح کے لئے ایک آئینی شخص حضرت امام ابو حنیفہ تھے جن کی فقہی موشگافیوں نے اعتزال و تجمم کے ساتھ رفض وتشیع کو بھی ورطہٴحیرت میں ڈال دیا ۔ اللھم ارحمہ واجعل الجنۃ الفردوس ماواہ ،{ فتاوی سلفیہ ،ص:143 }

۳- عصر حاضر میں علامہ البانی رحمہ اللہ کا حدیث وفقہ میں جو مقام ہے اور علمائے اہل حدیث کے نزدیک ان کی جو اہمیت ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ، علامہ مرحوم جہاں ایک طرف حفظ و ضبط کے لحاظ سے امام موصوف پر کلام کرتے ہیں وہیں ان کی علمیت ، صلاح وتقوی سے متعلق جو کچھ امام ذہبی نے نقل کیا ہے اس سے مکمل موافقت ظاہر کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں :
" ولذلک ختم الامام الذھبی فی سیر النبلاء :5/288/1 ، بقولہ وبہ نختم : قلت : الامامۃ فی الفقہ و دقائقہ مسلمۃ الی ھذا الامام وھذا امر لا شک فیہ ،لیس یصح فی الاذھان شیئ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اذا احتاج النھار الی اللیل ۔{ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :1/167 }

یہاں یہ امر بھی قابل اشارہ ہے کہ ہمارے ہندوپاک کے بعض اہل علم نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پرکلام کیا ہے جیسے حال میں مولانا رئیس احمد ندوی رحمہ اللہ ۔

اس سلسلہ میں گزارش یہ ہے کہ :
اولا : اگر بعض اہل علم نے امام صاحب سے متعلق کوئی ایسی بات کہی ہے تو ان کے مقابل جمہور علمائے اہل حدیث جو ان سے زیادہ علم رکھنے والے اوران سے گہری نظر رکھنے والے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقام کو زیادہ سمجھنے والے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ان الزامات سے بری قرار دیا ہے جیسے شیخ الکل اور علامہ میں سیالکوٹی رحمہم اللہ جمیعا ۔

ثانیا : مولانا رئیس ندوی رحمہ اللہ نے مستقلا اور بالمقصد امام صاحب رحمہ اللہ پر کلام نہیں کیا اور نہ عوام کے سامنے امام موصوف کے عیوب بیان کرتے پھرتے تھے بلکہ ان کی تحریر تو دیوبندی حضرات کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں غلو اور اہلحدیثوں پر امام صاحب پر توہین کے الزام کا رد عمل ہے جس سے مولانا مرحوم کا مقصد یہ بتلانا تھا کہ :

اتنی نہ بڑھا پاکی واماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ اہل علم کا علمی مجالس میں کسی موضوع کو چھڑنا اور معنی رکھتا ہے اور اسے حدیث مجالس اور کم علم وکم سمجھ اور کم تجربہ لوگوں کے سامنے بیان کرنا دوسرا معنی رکھتا ہے ۔
حتی کہ میری رائے میں حضرت مولانا رئیس احمد ندوی رحمہ اللہ اگر وہی اسلوب اختیار کئے ہوتے جو علامہ عبد الرحمن معلمی یمانی رحمہ اللہ نے التبکیل میں استعمال کیا ہے تو بہتر ہوتا ۔
ذرا غور کریں کہ ہم جیسے معمولی علم رکھنے والے طالبان علم کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر ایک طرف امام صاحب پر کسی وجہ سے بعض اہل علم نے کلام کیا ہے تو دوسری طرف دوسرے اہل علم نے انکی مدح سرائی بھی کی ہے جسے کتب سیر میں دیکھا جاسکتا ہے ، اب صرف ایک طرف کی بات کو لے لینا اور باقی باتوں کو چھوڑ دینا تحقیق و انصاف سے گری ہوئی بات ہے ، خاص کر امام موصوف رحمہ اللہ کی طرف منسوب بہت سی باتیں محل نظر ہیں علی سبیل المثال خلق القرآن سے متعلق امام موصوف سے دونوں قسم کی روایتیں منوقل ہیں ایک طرف یہ نقل کیا جاتا ہے کہ امام صاحب خلق قرآن کے قائل تھے { واضح رہے کہ اس کم علم کی تحقیق میں یہ روایتیں صحیح نہیں ہیں } اور دوسری طرف یہ منقول ہے کہ امام صاحب خلق قرآن کے قائل نہیں تھے بلکہ اسے بدعت اور کفر قرار دیتے تھے جیسا کہ فقہ اکبر اور عقیدہ طحاویہ وغیرہ میں مذکور ہے ، اب سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس ان متضاد راویوں کو پرکھنے کا معیار کیاہے ؟ جب کہ ہم دیکھتے ہیں امام ذہبی ، امام ابن کثیر اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ جیسے ناقدین فن ان باتوں سے قطعا اعراض کرتے آئے ہیں بلکہ امام ابن تیمیہ اور امام ذہبی رحمہما اللہ وغیرہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو سلف کے عقیدے پر مانتے ہیں ۔
اس لئے طالبان علوم شرعیہ سے میری گزارش ہے کہ اپنے علم کو پختہ بنانے ، تزکیہ نفس اور ذہنی تربیت پر خصوصی توجہ دیں اور اہل علم کے عیوب اور ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنے سے پرہیز کریں اور یاد رکھیں کہ علماء نے کہا ہے کہ " لحوم العلماء مسمومۃ " علماء کا خون زہر آلود ہے ، نیز تاریخ شاہد ہے کہ جن لوگوں نے جذبات اور ناتجربہ کاری اور اپنے کو عوام مِں ظاہر کرنے کی غرض سے علماء حق پر انگلی اٹھائی ہے اللہ تعالی نے ان کے علم کی برکت کو محو کردیا ہے ، ایسے لوگوں کو امام سخاوی رحمہ اللہ کی کتاب الاعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق یہ چند سطریں اس لئے تحریر کی گئیں کہ بہت سے جذباتی اور نوجوان اہلحدیث دعاۃ سے متعلق سننے میں آتا ہے کہ وہ امام موصوف سے متعلق بدزبانی ہی نہیں بلکہ بدعقیدگی میں مبتلا ہیں حتی کہ ان میں سے بعض تو امام موصوف کو " رحمہ اللہ " کہنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امام صاحب کو مسلمان نہیں سمجھتے { حاشا للہ } مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں ایسے لوگ خود ہی رحمت الہی سے محروم نہ ہوجائیں ، علامہ میر سیالکوٹی لکھتے ہیں :
" ہر چند کہ میں سخت گنہگار ہوں ، لیکن یہ ایمان رکھتا ہوں اور اپنے اساتذہ جناب ابو عبد اللہ عبیدہ اللہ غلام حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی اور جناب مولانا حافظ عبد المنان صاحب مرحوم محدث وزیر آبادی کی صحبت وتلقین سے یہ بات یقین کے رتبے تک پہنچ چکی ہے کہ بزرگان دین خصوصا حضرات ائمہ متبوعین سے حسن عقیدت نزول برکات کا ذریعہ ہے،{ تاریخ اہل حدیث :95 }

واللہ اعلم وصلی اللہ علی نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ختم شدہ
از : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
شیخ عبدالقادر جیلانی رھمہ اللہ اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ خود مقلد تھے
کیونکہ آپ صرف قرآن اور حدیث کو مانتے ہیں اور تقلید جس کی بھی ہو اس کو نا جائز اور حرام سمجھتے ہیں..
اب زرا ہمت کیجئے اور فتوی لگائیے ان پہ بدعت ار حرام کا.
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ مسلکی طور پر اصولا و فروعا حنبلی تھے اور حنبلی بھی ایسے جو دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کا خاتمہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب پر کرے۔
چنانچہ انہیں کے مذہب پر فقہ کی تعلیم دیتے تھے ،جیسا کہ مشہور حنبلی امام موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہم شیخ عبد القادر کی خدمت میں ان کی زندگی کے آخری ایام میں پہنچے شیخ نے ہمیں اپنے مدرسے میں ٹھہرایا وہ ہمارا خاص خیال رکھتے تھے کبھی تو وہ اپنے بیٹے یحی کو بھیجتے کہ ہمارے لئے چراغ جلائے، کبھی وہ خود اپنے گھر سے ہمارے لئے کھانا بھیجتے، فرض نمازوں میں وہی ہماری امامت کرتے، صبح کے وقت میں انکے سامنے زبانی مختصر خرقی {فقہ حنبلی کی مشہور کتاب} پڑھتا {جسکی وہ شرح کرتے} اور شام کو حافظ عبد الغنی ہدایہ نامی کتاب {فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ہدایہ مولفہ ابو الخطاب} پڑھتے۔ [السیر ۲۰/۴۴۲، شذرات الذہب ۴/۱۹۹]۔
علم فقہ و اصول میں آپ کے بعض مشہور اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:
ابوسعد المخرمی حنبلی متوفی ۵۱۳ھ، ابوالخطاب الکلوباذی حنبلی متوفی ۵۱۰ھ، اور ابو الوفا ابن عقیل حنبلی ۵۱۳ھ۔ اس وقت بغداد میں یہ تینوں حضرات فقہِ حنبلی کے اساطین فن سمجھے جاتے تھے۔ حتی کہ مذہب حنبلی کے اصول و فروع اور علم خلافیات میں پوری دست رس حاصل کی بلکہ اپنے تمام ہم عصروں پر سبقت لے گئے۔ اور اپنے اساتذہ کے بعد آپ ہی بغداد میں فقہ حنبلی کے مرجع ٹھہرے۔ [ذیل الطبقات ۲۹۰/۱]۔
مذہب حنبلی کے اس قدر پابند اور اس کے لئے اتنے زیادہ متعصب تھے کہ ایک بار یہاں تک کہہ گئے جو شخص امام احمد کے عقیدے کا حامل نہ ہو اور اس کی اتباع نہ کرے وہ اللہ کا ولی ہوہی نہیں سکتا۔ [ذیل الطبقات ۱/۲۹۸، شذرات الذہب ۴/۱۰۰]۔
يقول الإمام القدوة العلامة المفسرالمحدث الحافظ الحجة الفقيه المحقق الصوفي الزاهد الوَرِع سراج الهند ومسندالوقت وسيدالطائفة الشيخ الشاه ولي الله الدهلوي رحمة الله عليه
{{ باب ـ تاكيد الأخذ بهذه المذاهب الأربعة والتشديد فى تركها والخروج عنها }}
اعلم ان فى الأخذ بهذه المذاهب الأربعة مصلحة عظيمة ، وفى الأعراض عنها كلها مفسدة كبيرة ، ونحن نبين ذالك بوجوه ،
أحــــدهــــا " ان الأمة اجتمعت على ان يعتمدوا على السلف فى معرفة الشريعة ، فالتابعون اعتمدوا فى ذالك على الصحابة ، وتبع التابعون اعتمدوا على التابعين ،
وهكذا فى كل طبقة اعتمد العلماء على مَن قبلهم ، والعقل يدل على حسن ذالك ، لأن الشريعة لاتعرف الا بالنقل والإستنباط ، والنقل لايستقيم الابأن تأخذ كل طبقة عمن قبلها بالإتصال ، ولابد فى الإستنباط من ان يعرف مذاهب المتقدمين لئلا يخرج عن أقوالهم فيخرق الإجماع ، ويبني عليها ، ويستعين فى ذالك كل بمن سَبقه ، لأن جميع الصناعات كالصرف والنحو والطب والشعر والحدادة والنجارة والصياغة لم تتيسر لأحد الا بملازمة أهلها ، وغيرذالك نادر بعيد لم يقع وان كان جائزا فى العقل ، واذا تعين الإعتماد على أقاويل السلف فلابد من ان يكون أقوالهم التي يعتمد عليها مروية بالإسناد الصحيح ، أومُدونة فى كتب مشهورة ، وان يكون مخدومة بأن يبين الراجح من محتملاتها ، ويخصص عمومها فى بعض المواضع ، ويقيد مطلقها فى بعض المواضع ، ويجمع المختلف منها ، ويبين علل أحكامها ، والا لم يصح الإعتماد عليها ، وليس مذهب فى هذه الأزمنة المتأخرة الا هذه المـذاهب الأربعـة ، اللهم الا مذهب الإمامية والزيدية وهم أهل البدعة لايجوزالإعتماد على أقاويلهم ٠
وثـانـيـهــا " قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اتبعوا السوادالأعظم ،
ولما اندرست المذاهب الحقة ، الا هذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم ، والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم ٠
وثـالـثـهــا " ان الزمان لما طال وبعد العهد ، وضيعت الأمانات ، لم يجزان يعتمد على أقوال علماء السوء من القضاة الجورة والمفتين التابعين لأهوائهم حتى ينسبوا مايقولون الى بعض من اشتهرمن السلف بالصدق والديانة والأمانة اما صريحا أودلالة وحفظ قوله ذالك ، ولاعلى على قول مَن لاندري هل جمع شروط الإجتهاد أو لا ، فاذا رأينا العلماء المحققين فى مذاهب السلف عسى ان يصدقوا فى تخريجاتهم على أقوالهم واستنباطهم من الكتاب والسنة ، وأما اذا لم نرمنهم ذالك فهيهات ، الخ
{ عقدالجيد في أحكام الإجتهاد والتقليد ، ص 39 ، 40 ، الناشردارالفتح }
حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه نے باب اس عنوان سے قائم کیا ، یعنی مذاهب اربعہ کولینے ان پرعمل کرنے کی تاکید اور مذاهب اربعہ کو چهوڑنے اوران سے نکلنے کی تشدید کے بیان میں ،
پهرحضرت شاه صاحب رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ خوب جان لو کہ ان چاروں مذاهب
{ حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، } کواخذ کرنے ( ان کولینے اوران پرعمل کرنے ) میں بڑی عظیم مصلحت ہے ، اوران چارمذاهب سے اعراض کرنے میں یعنی مذاهب اربعہ کو چهوڑنے میں بڑا فساد ہے ، اورهم اس کوکئ وجوهات سے بیان کرتے ہیں ،
1 = ایک یہ کہ امت نے اجماع واتفاق کرلیا ہے اس بات پرکہ شریعت کے معلوم کرنے میں سلف پراعتماد کریں ، پس تابعین نے (شریعت کی معرفت میں ) صحابه کرام پراعتماد کیا ، اورتبع تابعین نے تابعین پراعتماد کیا ، اوراسی طرح ہرطبقے ( اورہرزمانہ ) میں علماء نے اپنے اگلوں پراعتماد کیا ، اورعقل بهی اس ( طرزعمل ) کی حسن وخوبصورتی پردلالت کرتی ہے ، اس لیئے کہ شریعت کی معرفت وپہچان نہیں ہوسکتی مگرنقل اوراستنباط کے ساتهہ ، اور نقل درست وصحیح نہیں ہوسکتی مگراس طرح کہ هرطبقہ پہلوں ( سلف ) سے اتصال کے ساتهہ اخذ (حاصل ) کرے ، اور استنباط میں ضروری ہے کہ متقدمین ( پہلوں ) کی مذاهب کو پہچانے ، تاکہ ان کے اقوال سے نکل کر خارق اجماع یعنی اجماع کو توڑنے والا نہ ہوجائے ، اوراس پربنیاد رکهے اوراس بارے میں جوپہلے گذر چکے ( یعنی سلف صالحین )ان سے استعانت کرے ،
اس لیئے تمام صناعتیں جیسے صرف ، اورنحو ، اورطب ، اورشعر ، اور لوہاری کا کام ، اوربڑهئ ( فرنیچر کا کام ) ، اورسناری ( وغیره جتنے بهی فنون ہیں ) حاصل نہیں ہوسکتے ، مگران (فنون وامور) کے ماہرلوگوں کی صحبت کولازم پکڑنے سے ، اوربغیر( ماہرلوگوں کی صحبت ) کے ان (فنون وامور) کا حاصل ہوجانا واقع نہیں ہے نادر اوربعید ہے اگرچہ عقلا جائزہے ،
اور جب سلف کے اقوال پر (شریعت کی معرفت میں ) میں اعتماد متعین ہوگیا ، تواب ضروری ہے کہ ان کے وه اقوال جن پراعتماد کیا جاتا ہے وه صحیح سند کے ساتهہ مَروی هوں ، یا کتب مشہوره میں جمع (ومحفوظ ) ہوں ، اورجو محتملات ہیں ان میں راجح کوبیان کردیا جائے ، اورعموم کو بعض مقامات پرخاص کیاجائے ، اوربعض مواضع میں مطلق کومقید کیاجائے ، اورمختلف فیہ میں جمع کیاجائے ، اوراحکام کی علتیں بیان کی جائیں ، ورنہ ( اگر یہ صفات نہ هو ) تواس پراعتماد صحیح نہیں ہے ، اوراس اخیرزمانے میں کوئ مذهب اس صفت کے ساتهہ ( متصف ) نہیں ہے ، سوائے ان مذاهب اربعہ کے ،
ہاں مذهب امامية اور زيدية بهى ہیں لیکن وه اہل بدعت ہیں ان کے اقوال پراعتماد جائزنہیں هے
حضرت شــاه ولـی الله ألدهـلوي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
مجهے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے یہ وصیت کی گئ ، یہ الہام ہوا کہ میں مذاهب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کروں ، اورمجهے یہ وصیت کی ان چار مذاهب سے باهرنہ نکلوں ، حالانکہ حضرت شــاه صاحب رحمہ الله درجہ اجتہاد پرفائزتهے ، حضرت شــاه صاحب رحمہ الله یہی بات خود فرماتے ہیں کہ
واستفدتُ منه ( صلى الله عليه وسلم ) ثلاثة أمورخلاف ماكان عندي ، وما كان طبعي يميل اليها أشد ميل فصارت هذه الإستفادة من براهين الحق تعالى علي ،
الى ان قال : وثانيها الوصية بالتقليد لهذه المذاهب الأربعة لا أخرج منها ٠ { فيوضُ الحرَمَين ، ص 64 ، 65 ، }اور حضرت شــاه صاحب رحمہ الله اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ​
مجهے حضور صلى الله عليه وسلم نے سمجهایا کہ مذهب حنفی سنت کے سب سے زیاده موافق ومطابق طریقہ ہے ،
وعرفني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن فى المذهب الحنفي طريقة أنيقة هي أوفق الطرُق بالسنة المعرُوفة التي جمعت ونقحت في زمان البخاري وأصحابه ٠ { فيوضُ الحرَمَين ، ص 48
ب اس کے برعکس ان مسائل میں سلفی اور وهابی مسلک کے امام شیخ ابن عبدالوهاب کا مسلک ان کے بالکل مخالف ہے۔
الشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب فرماتے ہیں کہ
أصولُ الدين .(.عقائد.). میں ہمارا مذهب أهلُ السنة والجماعة کا ہے ،اورطریقہ همارا سلف والا ہے اور وه یہ کہ ہم صفات کی آیات واحادیث کا اقراراس کے ظاہرپرکرتے ہیں ،اورفروعی مسائل میں ہم الإمام أحمد بن حنبل کے مذهب پرہیں ،اورأئمہ أربعہ .(.امام أبوحنیفہ ،امام شافعی ، امام أحمد بن حنبل ، امام مالک. ). میں سےکسی امام کی تقلید کرنے والوںپرہم کوئی انکار.(. وطعن واعتراض.). نہیں کرتے ، اورہم اجتہاد مطلق کے اہل ومستحق بهی نہیں ہیں اورنہ ہم .(. وهابی وسلفی.). میں سے کوئی اجتہاد مطلق کا دعوی کرتا ہے ، الخ۔
چند سطورکے بعد فرمایا کہ
ہمارے نزدیک امام ابن القیم اوران کے شیخ .(. ابن تیمیہ.). أهل السنة میں سے حق کے امام ہیں ، اوران کی کتابیں ہمارے نزدیک مستند کتابیں ہیں ، لیکن ہم ہرمسئلہ میں ان .(.امام ابن القیم اورامام ابن تیمیہ.) .کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ سوائے ہمارے نبی محمد صلى الله عليه وسلم ـ کے ہرکسی کا قول لیا بهی جاتا ہے اورچهوڑا بهی جاتا ہے ، لہذا ہم نے کئی مسائل میں ان دونوں .(.امام ابن القیم اورامام ابن تیمیہ.). کی مخالفت کی ہے جوکہ ایک معلوم بات ہے ، مثلا انہی مسائل میں سےایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقوں کا مسئلے میں ہم أئمہ أربعہ .(.امام أبوحنیفہ ،امام شافعی ، امام أحمد بن حنبل ، امام مالک.). کی پیروی کرتے ہیں ،.(. یعنی ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں ، یہی أئمہ أربعہ اورجمہورأمت کا اوریہی شیخ ابن عبدالوهاب اوراس کے پیروکاروں کا مسلک هے .) .الخ۔
اسی طرح شیخ محمد بن عبد الوهاب اپنے عقیده میں فرماتے ہیں کہ
وأقر بكرامات الأولياء ومالهم من المكاشفات
اورمیں كرامات الأولياء اوران کے مكاشفات کا اقرارکرتا ہوں،
ولاأكفر أحداً من المسلمين بذنب ولاأخرجه من دائرة الإسلاماورمیں کسی گناه کی وجہ سے مسلمانوں میں سے کسی کی تکفیرنہیں کرتا اورنہ میں اس کو دائره اسلام سے خارج کرتا ہوں ۔
اصل عبارات بحواله درج ذيل ہيں،’’ رأي علماء أهل السنة في المسئلة‘‘
قال الشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب:
مذهبنا في أصول الدين مذهب أهل السنة والجماعة ، وطريقتنا طريقة السلف وهي أننا نقر آيات لصفات وأحاديثها على ظاهرها . ونحن أيضاً في الفروع على مذهب الإمام أحمد بن حنبل ،ولا ننكر على من قلد أحد الأئمة الأربعة ، ولا نستحق مرتبة الاجتهاد المطلق ، ولا أحد لدينا يدعيهاإلا أننا في بعض المسائل إذا صح لنا نص من كتاب أو سنة غير منسوخ ولا مخصص ولا معارض بأقوى منه وقال به أحد الأئمة الأربعة أخذنا به وتركنا المذهب كإرث الجد والإخوة فإنا نقدم الجد بالإرث وإن خالف مذهب الحنابلة . ولا مانع من الاجتهاد في بعض المسائل دون بعض ، فلا مناقضة لعدم دعوى الاجتهاد ، وقد سبق جمع من أئمة الذاهب الأربعة إلى اختيارات لهم في بعض المسائل مخالفين للمذهب الملتزمين تقليد صاحبه . ثم إنا نستعين على فهم كتاب الله بالتفاسير المتداولة المعتبرة ،ومن أجلها لدينا تفسير ابن جرير ومختصره لا بن كثير الشافعي وكذا البغوي والبيضاوي والخازن والحداد والجلالين وغيرهم .وعلى فهم الحديث بشروح الأئمة المبرزينكالعسقلاني والقسطلاني على البخاري والنووي على مسلم والمناوي على الجامع الصغير ،ونحرص على كتب الحديث خصوصاً الأمهات الست وشروحها ونعتني بسائر الكتب في سائر الفنون أصولاً وفروعاً وقواعد وسيراً ونحواً وصرفاً وجميع علوم الأمة . هذا وعندنا أن الإمام ابن القيم وشيخه إماما حق ٍ من أهل السنة وكتبهم عندنا من أعز الكتب إلا أنا غير مقلدين لهما في كل مسألة ، فإن كل أحد يؤخذ من قوله ويترك إلا نبينا محمداً ـ صلى الله عليه وسلم ـ ومعلوم مخالفتنا لهما في عدة مسائلمنها طلاق الثلاث بلفظ واحد في مجلس ، فإنا نقول به تبعاً للأئمة الأربعة !!
الدرر السنية .(.30،31. /1.).
قال الشيخ لما سأله أهل القصيم عن عقيدته :
وأقر بكرامات الأولياء ومالهم من المكاشفات
ولاأكفر أحداً من المسلمين بذنب ولاأخرجه من دائرة الإسلام
.(.الدرر السنية 13/30/27/1) الطبعة السادسة
خطیب بغدادی بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں. خطیب بغدادی کا مکمل حوالہ درج ذیل ہے.
اما الاحکام الشرعیہ فضربان:احدھمایعلم ضرورۃمن دین الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کالصلوٰت الخمس والزکوٰۃ وصوم شھر رمضان والحج وتحریم الزناوشرب الخمرومااشبہ ذلک فھذا لایجوز التقلید فیہ لان الناس کلھم یشترکون فی ادراکہ والعلم بہ فلامعنی للتقید فیہ وضرب آخر لایعلم الابالنظر والاستدلال کفروع العبادات والمعاملات والفروج والمناکحات وغیرذلک من الاحکام فھذا یسوغ فیہ التقلید بدلیل قول اللہ تعالیٰ فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون ولانالومنعناالتقلید فی ھذہ المسائل التی ھی من فروع الدین لاحتاج کل احد ان یتعلم ذلک وفی ایجاب ذلک قطع عن المعایش وھلاک الحرث والماشیۃ فوجب ان یسقط
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی۔ جلد2/ص67/68)
اور شرعی احکام کی دو قسمیں ہیں ایک وہ احکام ہیں جن کا جزودین ہونا بداہتا ثابت ہے مثلا پانچ نمازیں، زکوٰۃ ۔۔۔۔۔۔۔ رمضان کے روزے ، حج , زنا اورشراب نوشی کی حرمت اور اسی جیسے دوسرے احکام تو اس قسم میں تقلید جائز نہیں کیونکہ ان چیزوں کا تمام لوگوں کو علم ہوتا ہی ہے لہذا اس میں تقلید کے کوئی معنی نہیں اوردوسری وہ قسم ہے جس کا علم فکر ونظر اوراستدلال کے بغیر نہیں ہو سکتا جیسے عبادات ومعاملات اور شادی بیاہ کے فروعی مسائل۔
اس قسم میں تقلید درست ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے پوچھ لو ، نیز اس لئے کہ اگر ہم دین کے ان فروعی مسائل میں تقلید کو ممنوع قرار دیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہر شخص باقاعدہ علوم دین کی تحصیل میں لگ جاوے اور لوگوں پر اس کو واجب کرنے سے زندگی کی تمام ضروریات برباد ہو جائیں گی اور کھیتیوں اورمویشیوں کی تباہی لازم آئے گی لہذا ایسا حکم نہیں دیا جا سکتا۔
 

Toobi

dhondo gy molko molko milnay k nae,nayab hum..
Hot Shot
Aug 4, 2009
17,252
11,897
1,313
39
peshawar
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان پر نقد

عرض ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہ و ارضاہ کی شخصیت قدماء اہل علم میں محل نزاع رہی ہے کچھ علماء نے بعض مسائل کی بنیاد پر ان پر جرح کی ہے حضرت امام سے متعلق بعض ناروا چیزیں معاصرانہ چشمک کی وجہ سے بعض کتابوں میں منقول ہوگئی ہیں ، دوسری طرف کچھ لوگوں نے ان کے بارے میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ قولا نہیں تو عملا ان کی معصومیت کا عقیدہ رکھ لیا ہے اور ان کے فضائل میں حدیثیں گھڑ لیں ہیں ، یہ دونوں رائیں مردود اور انصاف پسند اہل علم کے نزدیک قابل رد ہیں ، امام موصوف کے بارے میں عادلانہ رائے یہ ہے کہ وہ اہل سنت وجماعت کے اماموں میں سے ایک بہت بڑے امام ، کتا ب وسنت کے پابند اور دین اسلام کے ایک بہت بڑے خادم اور اس کی طرف سے دفاع کرنے والے عالم ہیں ، نہ غلطیوں سے مبرا ہیں اور نہ ہی فسق وفجور اور کفر وبدعت کے داعی ہیں،{ دیکھئے معیا ر حق کا مقدمہ از شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی }
چنانچہ کتب تراجم وتاریخ و سیر کے عصر تدوین وتمحیص میں اہل سنت و جماعت کے معتبر اور قابل اعتماد علماء کا اس پر اتفاق ہے ، چھٹی و ساتویں صدی ہجری اور اس کے بعد لکھی جانے والی معتبر تاریخی کتابوں کا جس شخص نے بھی مطالعہ کیا ہوگا وہ اس حقیقت کا اعتراف کرے گا ۔
میں یہاں چند حوالے نقل کرتا ہوں :
[۱] امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں وکان امام ورعا ، عالما عاملا ، متعبدا، کبیر الشان لا یقبل جوائز السلطان بل یتجرد وینکسب ۔ {1/168}
آپ ایک پرہیزگار ، باعمل عالم ، عبادت گزار اور بڑے عظیم شان والے امام ہیں ، بادشاہوں کے انعامات قبول نہ کرتے بلکہ خود تجارت اور اپنی روزی کماتے ۔
یہی امام ذہبی اپنی مشہور کتاب سیر اعلام النبلاء کے تقریبا پندرہ صفحات پر امام صاحب کا ذکر خیر کیا ہے اور آپ کے ذم میں ایک حرف بھی نقل نہیں کیا بلکہ ذم کی طرف اشارہ تک نہیں کیا کہ امام موصوف پر لوگوں نے کچھ کلام کیا ہے ، پھر آخر میں لکھتے ہیں :
" وقال الشافعی : الناس فی الفقہ عیال علی ابی حنیفہ قلت : الامامۃ فی الفقہ و دقائقہ مسلمۃ الی ھذا لامام و ھذا امر لا شک فیہ ، ولیس یصح فی الاذھان شیئ، اذا احتاج النھار الی دلیل وسیرتہ تحتمل ان تفرد فی مجلدین رضی اللہ عنہ ورحمہ توفی شھیدا سقیا فی سنۃ خمسین ومائۃ ولہ سبعون سنۃ "۔{ السیر :6/403 }
امام شافعی فرماتے ہیں کہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے خوشہ چیں ہیں ، میں کہتا ہوں کہ فقہ اور فقہ کے دقیق مسائل کا استنباط اس امام کے بارے میں امر مسلم ہے ، یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے [پھر امام ذہبی عربی کا ایک شعر لکھتے ہیں جس کا ترجمہ ہے ] اگر دن کو وجود بھی دلیل پیش کرنے کا محتاج ہوتو ایسے ذہن رکھنے والوں کے نزدیک کوئی چیزصحیح نہیں ہوسکتی ، امام موصوف کی سیرت ایسی ہے کہ اسے دو جلدوں میں مرتب کی جائے اللہ تعالی ان سے راضی ہو اور ان پر رحم کرے ،سن۱۵۰ھ میں زہر دے کر انہیں شہید کردیا گیا ، اس وقت ان کی عمر ستر سال تھی ۔
[۲] امام ذہبی کے ہم عصر ایک اور امام جو تفسیر وحدیث اور تاریخ میں معروف خاص عام ہیں ، میری مراد حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ سے ہے وہ اپنی مشہور کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں :
" فقیہ العراق و احد أئمۃ الاسلام و السادۃ الاعلام و احد أرکان العلماء و احد أئمۃ الاربعۃ اصحاب المذاھب المتبوعۃ " ۔
عراق کے فقیہ ، ائمہ اسلام میں سے ایک ، اسلام کے سرداروں اور جوئی کے لوگوں میں سے ایک ، علماء میں سے ایک اہم بڑی شخصیت ، چار متبوعہ مذاہب سے ایک کے امام ۔
پھر تقریبا ایک صفحہ پر امام موصوف کی تعریف میں اہل علم کے اقوال نقل کئے ہیں{ البدایہ :10/110 }
[۳] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تہذیب التھذیب کے تقریبا چار صفحات پر امام موصوف کا ذکر خیر کیا ہے اور ان کے ذم میں ایک لفظ بھی نقل نہیں کیا بلکہ آخر میں لکھتے ہیں :
" ومناقب الامام ابو حنیفہ کثیرۃ حدا فرضی اللہ عنہ و أسکنہ الفردوس " آمین
امام ابوحنیفہ کے مناقب بہت زیادہ ہیں اللہ تعالی آپ سے راضی ہو اور جنت الفردوس میں جگہ دے ،{ تھذیب التھذیب :10/102}
واضح رہے کہ یہ تینوں بزرگ جن کا ذکر کیا گیا ان میں سے کوئی بھی حنفی نہیں ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کے سامنےوہ تمام اقوال تفصیل کے ساتھ تھے جن سے امام ابو حنیفہ کی تنقیص وتوہین ثابت ہوئی ہے لیکن ان بزرگوں کا ان اقوال کی طرف اشارہ تک نہ کرنا بلکہ ان تمام باتوں کو بالکل ہی گول کرجانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان محققین کے نزدیک وہ اقوال امام صاحب ، ان کے علم ، ورع اور تقوی کے شایان شان نہیں ہیں ۔
[۴] حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی امام ابو حنیفہ کو اپنی کتاب طبقات الحفاظ سے پانچویں طبقہ میں رکھا ہے اور ان کے ذم میں ایک لفظ بھی نقل نہیں کیا ہے،{ طبقات الحفاظ :80-81 } ۔
[۵] بلکہ حسن اتفاق یہ دیکھئے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک مختصر سی کتاب طبقات المحدثین میں لکھی ہے جس میں بڑے بڑے محدثین اور حفاظ حدیث کے نام کی فہرست رکھی ہے ، لکھتے ہیں : " فھذہ مقدمۃ فی ذکر اسماء اعلام حملۃ الآثار النبویہ "{ المعین طبقات المحدثین ،ص:17 }
اس کتاب میں محدثین کے کل ستائیس طبقات ہیں جن میں چوتھے طبقے کا عنوان ہے ، طبقۃ الاعمش و ابی حنیفہ ، پھر اس طبقہ کے محدثین عظام میں امام ابو حنیفہ کا بھی نام درج ہے ۔ {ص:51-57 } ۔
[۶] امام ابن خلکان رحمہ اللہ ساتویں صدی ہجری کے مشہور امام و مؤرخ ہیں انہوں نے بھی اپنی مشہور کتاب وفیات الاعیان کے تقریبا دس صفحوں پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر خیر کیا ، چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں :" وکان عالما عاملا زاھدا عابدا ، ورعا تقیا ، کثیر الخشوع دائم التفرع الی اللہ تعالی " { 5/406 }
" وہ عالم باعمل تھے ، پرہیزگار و عبادت گزار تھے ، متقی اور صاحب ورع بزرگ تھے ، ہمیشہ خشوع و خضوع اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے " ۔
پورے ترجمے میں ایک لفظ بھی ذم میں نقل نہیں کیا ہے بلکہ لکھتے ہیں کہ کاشکہ وہ اقوال جو خطیب بغدادی نے امام موصوف کے مثالب میں نقل کیا ہے نہ لکھے ہوتے تو بہتر تھا ۔
اس طرح اگر اگلے پچھلے اہل علم کے اقوال نقل کئے جائیں تو موضوع بہت طویل ہوجائے گا ، ہم نے یہاں صرف پانچ اہل علم کے حوالے نقل کئے ہیں جو اہل سنت وجماعت کے معتبر اور قابل اعتماد ناقدین فن ہیں خاص کر ابتدا کے تین حضرات کے اقوال وتحقیق پر حدیث کی تصحیح و تضعیف کی بنیاد رکھی جاتی ہے ، اب ان حضرات کا امام موصوف کے ذم و تنقیص کا ایک لفظ بھی نقل نہ کرنا بلکہ ان کی طرف اشارہ تک نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اقوال اس لائق ہیں کہ انہیں طاق نسیان پر رکھ کر اس پر بھول کا دبیز پردہ ڈال دیا جائے ۔ واللہ اعلم ۔
یہی منہج ہمارے ہند وپاک کے کبار علمائے اہلحدیث کا رہا ہے اور اپنے اساتذہ کو بھی ہم نے اس نہج پر چلتے پایا ہے چنانچہ شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب معیار حق میں امام حنیفہ رحمہ اللہ کو اپنا پیشوا مجتہد ، متبع سنت اور متقی و پرہیزگار لکھتے ہیں ۔ {ص:29 }
امام عصر علامہ محمد ابراہیم سیالکوٹی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب تاریخ اہل حدیث میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ بڑے خوبصورت اور عمدہ انداز میں کرتے ہیں ، اہل حدیث کو اس کا مطالعہ کرلینا چاہئے ، علامہ سیالکوٹی رحمہ اللہ امام موصوف کی طرف دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں : " حالانکہ آپ اہل سنت کے بزرگ امام ہیں اور آپ کی زندگی اعلی درجے کے تقوے اور تورع پر گزری جس سے کسی کو انکار نہیں "،{ تاریخ اہل حدیث ،ص:77 }
اس کے بعد ان تمام الزامات کی تردید کی ہے جو امام پر لگائے جاتے ہیں اور ائمہ فن کے اقوال بھی نقل کئے ہیں اس میں سب سے پہلے نمبر پر امام ابو حنیفہ کو رکھا ہے اور تقریبا بارہ صفحات پر آپ کی سیرت لکھی ہے ،{ص:54تا 65 }
۲- سابق امیر جمعیت اہل حدیث پاکستان علامہ محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ اپنے گہرے علم ، باریک بینی اور توازن طبع کے لحاظ سے بہت مشہور ہیں ، جن لوگوں نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں ، ان کی بعض اردو کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں ہوا ہے ، وہ اپنی کتاب فتاوی سلفیہ میں لکھتے ہیں : " جس قدر یہ زمین [زمین کوفہ ]سنگلاخ تھی اسی قدر وہاں اعتقادی اور عملی اصلاح کے لئے ایک آئینی شخص حضرت امام ابو حنیفہ تھے جن کی فقہی موشگافیوں نے اعتزال و تجمم کے ساتھ رفض وتشیع کو بھی ورطہٴحیرت میں ڈال دیا ۔ اللھم ارحمہ واجعل الجنۃ الفردوس ماواہ ،{ فتاوی سلفیہ ،ص:143 }
۳- عصر حاضر میں علامہ البانی رحمہ اللہ کا حدیث وفقہ میں جو مقام ہے اور علمائے اہل حدیث کے نزدیک ان کی جو اہمیت ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ، علامہ مرحوم جہاں ایک طرف حفظ و ضبط کے لحاظ سے امام موصوف پر کلام کرتے ہیں وہیں ان کی علمیت ، صلاح وتقوی سے متعلق جو کچھ امام ذہبی نے نقل کیا ہے اس سے مکمل موافقت ظاہر کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں :
" ولذلک ختم الامام الذھبی فی سیر النبلاء :5/288/1 ، بقولہ وبہ نختم : قلت : الامامۃ فی الفقہ و دقائقہ مسلمۃ الی ھذا الامام وھذا امر لا شک فیہ ،لیس یصح فی الاذھان شیئ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اذا احتاج النھار الی اللیل ۔{ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :1/167 }​
یہاں یہ امر بھی قابل اشارہ ہے کہ ہمارے ہندوپاک کے بعض اہل علم نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پرکلام کیا ہے جیسے حال میں مولانا رئیس احمد ندوی رحمہ اللہ ۔
اس سلسلہ میں گزارش یہ ہے کہ :
اولا : اگر بعض اہل علم نے امام صاحب سے متعلق کوئی ایسی بات کہی ہے تو ان کے مقابل جمہور علمائے اہل حدیث جو ان سے زیادہ علم رکھنے والے اوران سے گہری نظر رکھنے والے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقام کو زیادہ سمجھنے والے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ان الزامات سے بری قرار دیا ہے جیسے شیخ الکل اور علامہ میں سیالکوٹی رحمہم اللہ جمیعا ۔
ثانیا : مولانا رئیس ندوی رحمہ اللہ نے مستقلا اور بالمقصد امام صاحب رحمہ اللہ پر کلام نہیں کیا اور نہ عوام کے سامنے امام موصوف کے عیوب بیان کرتے پھرتے تھے بلکہ ان کی تحریر تو دیوبندی حضرات کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں غلو اور اہلحدیثوں پر امام صاحب پر توہین کے الزام کا رد عمل ہے جس سے مولانا مرحوم کا مقصد یہ بتلانا تھا کہ :
اتنی نہ بڑھا پاکی واماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ اہل علم کا علمی مجالس میں کسی موضوع کو چھڑنا اور معنی رکھتا ہے اور اسے حدیث مجالس اور کم علم وکم سمجھ اور کم تجربہ لوگوں کے سامنے بیان کرنا دوسرا معنی رکھتا ہے ۔
حتی کہ میری رائے میں حضرت مولانا رئیس احمد ندوی رحمہ اللہ اگر وہی اسلوب اختیار کئے ہوتے جو علامہ عبد الرحمن معلمی یمانی رحمہ اللہ نے التبکیل میں استعمال کیا ہے تو بہتر ہوتا ۔
ذرا غور کریں کہ ہم جیسے معمولی علم رکھنے والے طالبان علم کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر ایک طرف امام صاحب پر کسی وجہ سے بعض اہل علم نے کلام کیا ہے تو دوسری طرف دوسرے اہل علم نے انکی مدح سرائی بھی کی ہے جسے کتب سیر میں دیکھا جاسکتا ہے ، اب صرف ایک طرف کی بات کو لے لینا اور باقی باتوں کو چھوڑ دینا تحقیق و انصاف سے گری ہوئی بات ہے ، خاص کر امام موصوف رحمہ اللہ کی طرف منسوب بہت سی باتیں محل نظر ہیں علی سبیل المثال خلق القرآن سے متعلق امام موصوف سے دونوں قسم کی روایتیں منوقل ہیں ایک طرف یہ نقل کیا جاتا ہے کہ امام صاحب خلق قرآن کے قائل تھے { واضح رہے کہ اس کم علم کی تحقیق میں یہ روایتیں صحیح نہیں ہیں } اور دوسری طرف یہ منقول ہے کہ امام صاحب خلق قرآن کے قائل نہیں تھے بلکہ اسے بدعت اور کفر قرار دیتے تھے جیسا کہ فقہ اکبر اور عقیدہ طحاویہ وغیرہ میں مذکور ہے ، اب سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس ان متضاد راویوں کو پرکھنے کا معیار کیاہے ؟ جب کہ ہم دیکھتے ہیں امام ذہبی ، امام ابن کثیر اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ جیسے ناقدین فن ان باتوں سے قطعا اعراض کرتے آئے ہیں بلکہ امام ابن تیمیہ اور امام ذہبی رحمہما اللہ وغیرہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو سلف کے عقیدے پر مانتے ہیں ۔
اس لئے طالبان علوم شرعیہ سے میری گزارش ہے کہ اپنے علم کو پختہ بنانے ، تزکیہ نفس اور ذہنی تربیت پر خصوصی توجہ دیں اور اہل علم کے عیوب اور ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنے سے پرہیز کریں اور یاد رکھیں کہ علماء نے کہا ہے کہ " لحوم العلماء مسمومۃ " علماء کا خون زہر آلود ہے ، نیز تاریخ شاہد ہے کہ جن لوگوں نے جذبات اور ناتجربہ کاری اور اپنے کو عوام مِں ظاہر کرنے کی غرض سے علماء حق پر انگلی اٹھائی ہے اللہ تعالی نے ان کے علم کی برکت کو محو کردیا ہے ، ایسے لوگوں کو امام سخاوی رحمہ اللہ کی کتاب الاعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق یہ چند سطریں اس لئے تحریر کی گئیں کہ بہت سے جذباتی اور نوجوان اہلحدیث دعاۃ سے متعلق سننے میں آتا ہے کہ وہ امام موصوف سے متعلق بدزبانی ہی نہیں بلکہ بدعقیدگی میں مبتلا ہیں حتی کہ ان میں سے بعض تو امام موصوف کو " رحمہ اللہ " کہنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امام صاحب کو مسلمان نہیں سمجھتے { حاشا للہ } مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں ایسے لوگ خود ہی رحمت الہی سے محروم نہ ہوجائیں ، علامہ میر سیالکوٹی لکھتے ہیں :
" ہر چند کہ میں سخت گنہگار ہوں ، لیکن یہ ایمان رکھتا ہوں اور اپنے اساتذہ جناب ابو عبد اللہ عبیدہ اللہ غلام حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی اور جناب مولانا حافظ عبد المنان صاحب مرحوم محدث وزیر آبادی کی صحبت وتلقین سے یہ بات یقین کے رتبے تک پہنچ چکی ہے کہ بزرگان دین خصوصا حضرات ائمہ متبوعین سے حسن عقیدت نزول برکات کا ذریعہ ہے،{ تاریخ اہل حدیث :95 }
واللہ اعلم وصلی اللہ علی نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ختم شدہ
از : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
jazakAllah khair...
is say ziada or koe kia bataye ga...khuda pak bs hidayat day sab mosalmano ko ameen
 

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
عرض ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہ و ارضاہ کی شخصیت
auzubillah astaghfirullah
aap log itna gir jaoge ek imam ka makham sahaba ke barabar karoge auzubillah
aap logon ki asaliat ab sab ke saamne hy kis tarah ap apne imam ko raziallahu anhu keh rahe ho

@Zee Leo @hoorain @Don @RedRose64 kya is tarah se sahaba ke makham ke barabar kisi aur koi tehrana sahi hy ye aap loog nazar dalen shukria
 
  • Like
Reactions: Detective

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
auzubillah astaghfirullah
aap log itna gir jaoge ek imam ka makham sahaba ke barabar karoge auzubillah
aap logon ki asaliat ab sab ke saamne hy kis tarah ap apne imam ko raziallahu anhu keh rahe ho

@Zee Leo @hoorain @Don @RedRose64 kya is tarah se sahaba ke makham ke barabar kisi aur koi tehrana sahi hy ye aap loog nazar dalen shukria

Asalam o alikum to all muslims
Muslim sahib sab se pehli baat k ye mazmun aik AHLEHADEES maqssod alhasan faizi sahib ka hay....
aor doosri baat k waqye raziallah sirf sahabh karam(rs) k sath likhna chahye lakin ksi aalim k sath raziallah likhny se kiya wo sahabi(Rs) k barabar ho jata hay???????
ye itraaz mujh pe na keejye kyun k mien ne to sirf yahan pesh kiya hay aor sath likhny waly ka naam bhi waziah bata diya hay aap ja k ksi ahelhadees pe keejye k unhun ne imam abu haneefa(RA) k sath raziALLAH likh diya......
 

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
Asalam o alikum to all muslims
Muslim sahib sab se pehli baat k ye mazmun aik AHLEHADEES maqssod alhasan faizi sahib ka hay....
aor doosri baat k waqye raziallah sirf sahabh karam(rs) k sath likhna chahye lakin ksi aalim k sath raziallah likhny se kiya wo sahabi(Rs) k barabar ho jata hay???????
ye itraaz mujh pe na keejye kyun k mien ne to sirf yahan pesh kiya hay aor sath likhny waly ka naam bhi waziah bata diya hay aap ja k ksi ahelhadees pe keejye k unhun ne imam abu haneefa(RA) k sath raziALLAH likh diya......

bhai sahab wo ahle hadees ho ya deobnadi muje us se kch lena nahi, yahan aap ne ye share kia tu my aap se hi puch raha hun aur kia my bataon deobnadion ki kitaben jis me abu hanifa ke sath kitna ghulu kia gaya hy ?

bhai mujhe na cheren my sbr se kaam le raha hun phir my bolunga tu phir raasta nahi bachega

aap asli ibarat scan karke pesh karo tab maloom hoga ye unhone kaha hy ya apne khud likha hy

my ne kayi threads me aap se guzarish ki hai lehja sambhalen apna lekin lagta hy aap chahte hy my b aap jaise baat karun aur my ne kayi threads me guftugu ki dawat bhi di hy apko good muslim bhai k sath lekin aap gol kar jaa rahe hy kia baat hy ?????????????
 
  • Like
Reactions: Detective

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
Asalam o alikum to all muslims

muslim sahib mien ne koun si ghalat baat ki jis ki wajah se aap ko burra laga?????
mien ne to jawab diya hay k ye topic mera nien balk aik aalim ka hay jis k naam k sath mien ne pesh kiya
aor ye baat sahi hay k RAZIALLAH sirf sahabah kram(Rs) k sath likhna chahye.......
lakin aap har baat ka pni marzi se ghalat matlab lety hain jis ka jawab diya jaye to aap ko burra lagta hay..
agar molana ne imam sahib(RA) k sath raziallah likh diya jo k nien likhna chahye tha to kiya es se MAAZALLAH imam sahib(RA) sahabha karam(RS) k barabar ho gye hain?????????
ye baat aap ne apny zehan se bana li jiysa k pehly bhi aap kar chuky hain..
Good Muslim bahi k sath baat karny se kis ne inkaar kiya hay lakin un se baat karny se pehly lovely ko jawab dena zaruri tha es liye lovely ki post ka jawab diya.
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
Asalam o alikum to all muslims

muslim sahib mien ne koun si ghalat baat ki jis ki wajah se aap ko burra laga?????
mien ne to jawab diya hay k ye topic mera nien balk aik aalim ka hay jis k naam k sath mien ne pesh kiya
aor ye baat sahi hay k RAZIALLAH sirf sahabah kram(Rs) k sath likhna chahye.......
lakin aap har baat ka pni marzi se ghalat matlab lety hain jis ka jawab diya jaye to aap ko burra lagta hay..
agar molana ne imam sahib(RA) k sath raziallah likh diya jo k nien likhna chahye tha to kiya es se MAAZALLAH imam sahib(RA) sahabha karam(RS) k barabar ho gye hain?????????
ye baat aap ne apny zehan se bana li jiysa k pehly bhi aap kar chuky hain..
Good Muslim bahi k sath baat karny se kis ne inkaar kiya hay lakin un se baat karny se pehly lovely ko jawab dena zaruri tha es liye lovely ki post ka jawab diya.
phir wohi baat, aap se baat karna to waqt ka zaya lag raha hy
bhai sahab my ne asli ibarat asli kitab se wo page scan karke pesh karne ko kaha jahan ye molvi ne abu hanifa ke nam ke sath raziallahu anhu likha hy lekin aap ne ye baat ko chera hi nahi bas dusri baton me lag gaye

mujhe koi matlab nahi ap kya jawab de rahe ho lovely bhai ko aur dikh bhi raha hy ke aap kya jawab de rahe ho

aap mere sath sirf meri baat kijie, aur jab bhi aap tayar ho jaen good muslim bhai ke sath gufutugu ke liye jo ke aap nahi hone wale aise lag raha hy phr bhi ho gaye to ettela dedena shukria
 
  • Like
Reactions: lovelyalltime

Toobi

dhondo gy molko molko milnay k nae,nayab hum..
Hot Shot
Aug 4, 2009
17,252
11,897
1,313
39
peshawar
jub say ap logo k lie apk jalli molla qabilay ehtarm hogaye tab say....(sa)
apk quran or hadees pay amal to manay talaq salasa walay tread may he dek lie tay(sa)
 

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
jub say ap logo k lie apk jalli molla qabilay ehtarm hogaye tab say....(sa)
apk quran or hadees pay amal to manay talaq salasa walay tread may he dek lie tay(sa)
apke qalandar bhai to wahan se bhag gaye muhallat bhi khatam abhi tak na ata hy na pata
apki haqeeqat se my waqif hun deen apke lie mazakh hy

aur mera har thread ye gawah hy ke my sirf aur sirf quran aur hadees se hi apni baat karta hun aap ki tarah mullaon ki nahi[DOUBLEPOST=1349082182][/DOUBLEPOST]
رسول اللہ ﷺ جس بات کا حکم دیں اس پر عمل کیا جائے اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے رکا جائے۔
وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالٰی سخت عذاب والا ہے۔ (سورۃ الحشر ،آیت 7)
جو کام رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں نہیں کیا وہ کام اپنی مرضی سے کر کے اللہ کے رسول (ﷺ) سے آگے نہ بڑھا جائے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ
ترجمہ: اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالٰی سننے والا، جاننے والا ہے۔(سورۃ الحجرات ،آیت 1)
 

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
Asalam o alikum to all muslims

muslim sahib mien ne koun si ghalat baat ki jis ki wajah se aap ko burra laga?????
mien ne to jawab diya hay k ye topic mera nien balk aik aalim ka hay jis k naam k sath mien ne pesh kiya
aor ye baat sahi hay k RAZIALLAH sirf sahabah kram(Rs) k sath likhna chahye.......
lakin aap har baat ka pni marzi se ghalat matlab lety hain jis ka jawab diya jaye to aap ko burra lagta hay..
agar molana ne imam sahib(RA) k sath raziallah likh diya jo k nien likhna chahye tha to kiya es se MAAZALLAH imam sahib(RA) sahabha karam(RS) k barabar ho gye hain?????????
ye baat aap ne apny zehan se bana li jiysa k pehly bhi aap kar chuky hain..
Good Muslim bahi k sath baat karny se kis ne inkaar kiya hay lakin un se baat karny se pehly lovely ko jawab dena zaruri tha es liye lovely ki post ka jawab diya.
bhai kia apki lovelyalltime se koi zati dushmani hai? k ap sb ko nazarandaz kr dete hain or apni hr post mai lovelyalltime ko tanqeed ka nishana bnate hain,
muje ye btaye k kia quran ksi makhsoos maslak k lye hai? Quran or hadees pr amal krne wala hr shakhs ba amal ahlehadees hai, to ap hr us shakhs ko nishana bnaye jo quran or hadees pr amal krta hai, apki hr post mai aik jumla lazmi hota hai k lovely ahlehadees hai,
jb ap achi tarah se jante hain k hm ghair muqallid hain to phir kyon ap hme kitabon k hawale dete hain k is ne aisa kaha hai us ne aisa kaha hai,
ap hr bar hr forum ki tarah mera sawal gol krdia or yahan b uska jawab nhi dia jb ap k pas jawab nhi hota to ap ya to topic change kr lete hain ya phir ulta hm se hi sawal pooch lete hain magar hm to jawab dedete hain lekin ap phir b hmre sawalon ka jawab nhi dete.
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
bhai kia apki lovelyalltime se koi zati dushmani hai? k ap sb ko nazarandaz kr dete hain or apni hr post mai lovelyalltime ko tanqeed ka nishana bnate hain,
muje ye btaye k kia quran ksi makhsoos maslak k lye hai? Quran or hadees pr amal krne wala hr shakhs ba amal ahlehadees hai, to ap hr us shakhs ko nishana bnaye jo quran or hadees pr amal krta hai, apki hr post mai aik jumla lazmi hota hai k lovely ahlehadees hai,
jb ap achi tarah se jante hain k hm ghair muqallid hain to phir kyon ap hme kitabon k hawale dete hain k is ne aisa kaha hai us ne aisa kaha hai,
ap hr bar hr forum ki tarah mera sawal gol krdia or yahan b uska jawab nhi dia jb ap k pas jawab nhi hota to ap ya to topic change kr lete hain ya phir ulta hm se hi sawal pooch lete hain magar hm to jawab dedete hain lekin ap phir b hmre sawalon ka jawab nhi dete.

Asalam o alikum to all muslims
chalo shukar hay k aap ne ye to tasleem kiya k aap ghair muqalid hain..
jab koi firqa sahi nahin hay jiysa k hanfi, hambli, malaki, shaafi, deobandi, brelvi to ghair muqalid kiyse theek ho gye???
aor books k hawaly deny ki baat hay to ye aap apny ulama ki ghaltyu se jaan churrany ki baat kar rahi hain.
theek hay hum aap ko aap k ghair muqalid ulama ki ghaltyu ki hawaly nahin dety to aap kis muunh se apny dalayel main ulama k hawaly deti hain jabk aap to un ko manty hi nahin blk sirf quran aor hadees ko manti hain????????

theek hay aap bhi ulama k hawaly na dain mie bhi nahin deta baat barabar ho jaye gi.
meri lovely se koi zaati dushmani nahin hay balk ikhtelaf hay aor es wajah se nien k wo quran aor hadees ki baat karta hay blk es wajah se hay k wo har baar bila wajah ahnaf ko badnaam karny ki koshish karta hay.
lovely ahnaf ko khatme nabuwat ka munkir kehta hay aor ye aap bhi janti hain k khatme nabuwat ka munkir muslim nahin hay..
ab aap bataow k lovely sahi hay ya ghalat??????
aap bhi ghair muqalid hain aor lovely bhi to kiya aap bhi lovely se itefaaq karti hain???
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

Fitna e Dil

Newbie
Apr 22, 2012
47
46
318
اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں یہ بھی دیا ہے جس کو اکثر دوست نظر انداز کر دیتے ہیں
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا
میری سنت اور خلفاء راشدینؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں، مضبوط پکڑو اور میری اور ان کی سنت کو اپنی داڑھوں سے مظبوط پکٹر۔ اور دین میں نئی نئی باتوں سے احتراز کرو کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی
(ابوداؤد، مسند احمد ج4، ابن ماجہ، مشکوۃ وغیرہ)
اس حدیث میں شیخین کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ان سے دلیل طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا گیا اسی کو تقلید کہتے ہیں۔ اس مضمون کی دیگر احادیث مندرجہ ذیل ہیں
2
حضرت حزیفہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ میں کب تک تم میں زندہ رہوں گا لہزا تم میرے بعد ابو بکرؓ اور عمرؓ کی اقتداء کرنا
(ترمذی جلد2، ابن ماجہ، مستدرک، مشکوۃ)
3
آنحضرت ﷺ نے فرمایا
میں تمہارے لئے اس لس چیز پر راضی ہوں جس چیز کو تمہارے لے عبداللہ ابن مسعود پسند کریں
مستدرک جلد3
4
حضرت معاذؓ بن جبل ہمارے پاس یمن میں امیر منتخب ہو کر آئے۔ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ ایک شخص کی وفات ہوچکی ہے اور اس کی ایک لڑکی اور ایک پہن موجود ہے اس کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟ تو حضرت معاذؓ نے اس میت کو ترکہ نصف لڑکی کو اور آدھا اس کی پہن کو دیا
(بخاری جلد 2)
5
حضرت جبیرؓ بن مطعم سے روایت ہے کہ ایک عورت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اور آپ سے کوئی چیز دریافت فرمائی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پھر کسی وقت آنا۔(آپ اس وقت پیمار تھے)۔ اس عورت نے عرض کیا کہ اگر میں پھر کسی وقت آؤں۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہین اور آپ کو نا پاؤں یعنی اگر آپ کی وفات ہوجائے تو پھر کیا کروں؟ آنھضرت ﷺ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ تو ابو بکرؓ کے پاس آنا
(بخاری جلد1، مسلم جلد 2)
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں یہ بھی دیا ہے جس کو اکثر دوست نظر انداز کر دیتے ہیں
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا
میری سنت اور خلفاء راشدینؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں، مضبوط پکڑو اور میری اور ان کی سنت کو اپنی داڑھوں سے مظبوط پکٹر۔ اور دین میں نئی نئی باتوں سے احتراز کرو کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی
(ابوداؤد، مسند احمد ج4، ابن ماجہ، مشکوۃ وغیرہ)
اس حدیث میں شیخین کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ان سے دلیل طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا گیا اسی کو تقلید کہتے ہیں۔ اس مضمون کی دیگر احادیث مندرجہ ذیل ہیں
2
حضرت حزیفہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ میں کب تک تم میں زندہ رہوں گا لہزا تم میرے بعد ابو بکرؓ اور عمرؓ کی اقتداء کرنا
(ترمذی جلد2، ابن ماجہ، مستدرک، مشکوۃ)
3
آنحضرت ﷺ نے فرمایا
میں تمہارے لئے اس لس چیز پر راضی ہوں جس چیز کو تمہارے لے عبداللہ ابن مسعود پسند کریں
مستدرک جلد3
4
حضرت معاذؓ بن جبل ہمارے پاس یمن میں امیر منتخب ہو کر آئے۔ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ ایک شخص کی وفات ہوچکی ہے اور اس کی ایک لڑکی اور ایک پہن موجود ہے اس کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟ تو حضرت معاذؓ نے اس میت کو ترکہ نصف لڑکی کو اور آدھا اس کی پہن کو دیا
(بخاری جلد 2)
5
حضرت جبیرؓ بن مطعم سے روایت ہے کہ ایک عورت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اور آپ سے کوئی چیز دریافت فرمائی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پھر کسی وقت آنا۔(آپ اس وقت پیمار تھے)۔ اس عورت نے عرض کیا کہ اگر میں پھر کسی وقت آؤں۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہین اور آپ کو نا پاؤں یعنی اگر آپ کی وفات ہوجائے تو پھر کیا کروں؟ آنھضرت ﷺ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ تو ابو بکرؓ کے پاس آنا
(بخاری جلد1، مسلم جلد 2)


حدیث
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔(ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)
اگر کسی نیک و متقی شخص کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مخالف آجائے تو ؟
تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بڑوں اور بزرگوں کی عزت کا حکم دیا ہے اور کسی کی قربانیاں اور عبادات اس بات کا تقاضا نہیں کرتیں کہ اب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر اس کی بات کو لے لیا جائے ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا نسخہ لیکر آئے اور کہا اے اللہ کے رسول یہ تورات کا نسخہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے تو انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور متغیر ہونے لگا تو حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا گم کریں تجھ کو گم کرنیوالیاں!کیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف نہیں دیکھتا !تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے غضب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب سے ‘ میں اللہ کے رب ہونے ‘ اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسی فاتبعتموہ و تر کتمونی لضللتم عن سوا ءالسبیل ولو کان موسی حیا و ادرک نبوتی لا تبعنی ۔(مشکوة)
”اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جا ن ہے اگر موسیٰ علیہ السلام تمہارے لئے ظاہر ہو جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرتے تو تم سیدھی راہ سے بھٹک جاتے اور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت پاتے تو میری ہی پیر وی کرتے “۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی بات کو لے لیا جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ دیا جائے تو یہ گمراہی ہے ۔
عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ عیسائی تھے وہ رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سورة توبہ کی تلاوت فرما رہے تھے یہاں تک کہ آپ جب اس آیت پر پہنچے ۔اتخذوااحبارھم ورھبانھم ارباب من دون اللہ ۔( سورة التوبہ آیت 31)۔”ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا ہے“ ۔
تو عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ہم انکی عبادت تو نہیں کرتے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !تمہارے علماءاوردرویش جس چیزکو حرام کر دیتے حالانکہ اللہ نے اسے حلال کیا ہوتا تو کیاتم اسے حرام نہیں جانتے تھے اور جس چیز کو اللہ نے حرام کیا ہوتا لیکن وہ حلال کر دیتے تو کیا تم اسے حلال نہیں جانتے تھے ؟
میں (عدی) نے کہا ہاں تو آپ نے فرمایا یہی ان کی عبادت ہے ۔(ترمذی)۔
مروان بن حکم سے روایت ہے کہ : میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے پاس بیٹھا تھا ، انہوں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک کہتے ہوئے سنا تو حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اس سے منع فرمایا ، اس پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا :
بلى ، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي بهما جميعا ، فلم أدع رسول الله صلى الله عليه وسلم لقولك
میں آپ کے قول کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو نہیں چھوڑ سکتا ۔النسائی ، كتاب الحج ، لمواقیت ، باب : القران
(حدیث "حسن" ہے)
وہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کا دورِ خلافت تھا اور اپنے دورِ خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو حکماً اس بات سے منع کیا تھا کہ عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک نہ پکاریں ( جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کو پہلے اس کا علم نہ تھا) ، لیکن حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے آپ (رضی اللہ عنہ) کے قول کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
chalo shukar hay k aap ne ye to tasleem kiya k aap ghair muqalid hain..
کیا میں نے کبھی کہا ہے آپ سے کہ میں مقللد ہوں؟؟؟ کیوں میں تو شروع سے ہی تقلید کے خلاف بولتی آئ ہوں
jab koi firqa sahi nahin hay jiysa k hanfi, hambli, malaki, shaafi, deobandi, brelvi to ghair muqalid kiyse theek ho gye???
اگر کوئی حنفی ہے تو امام ابو حنیفہ کا مقللد ہے اگر شافعی ہے تو وہ امام شافعی کا مقللد ہے اگر حنبلی ہے امام حنبل کا مقللد ہے، اگر مالکی ہے تو وہ امام مالک کا مقللد ہے اور یہ چاروں حق پر ہیں بقول آپ کے، لیکن اگر کوئی امام الانبیا کی اتباع کرنے والا ہے تو وہ غیر مقللد ہے اور آپ کے نزدیک وہ گمراہ ہے ، اب اگر آپکی نظر میں قرآن اور حدیث پر عمل کرنے والا غیر مقللد کوئی فرقہ ہے تو کیا کہا جا سکتا ہے بھائی
aor books k hawaly deny ki baat hay to ye aap apny ulama ki ghaltyu se jaan churrany ki baat kar rahi hain.
.آپ نے جب جب ہمیں کسی بھی عالم کی غلطی کے بارے میں بتایا ہم نے ہر دفعہ آپ سے یہی کہا کہ دنیا کا کوئی بھی انسان ہو اگر وہ قرآن اورحدیث کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے ردد کر دیا جاۓ
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا سورہ الاحزاب ٣٦
theek hay hum aap ko aap k ghair muqalid ulama ki ghaltyu ki hawaly nahin dety to aap kis muunh se apny dalayel main ulama k hawaly deti hain jabk aap to un ko manty hi nahin blk sirf quran aor hadees ko manti hain????????
theek hay aap bhi ulama k hawaly na dain mie bhi nahin deta baat barabar ho jaye gi.
اچھا میرے بھائی مجھے یہ بتایے کہ اگر کوئی عالم قرآن اور حدیث کے مطابق بات کرتا ہے اور ہم اس کی بات کو پیش کرتے ہیں تو کیا یہ اس کی تقلید ہے؟؟؟ تقلید تو کسی کی بات کو بلا دلیل مان لینے کا نام ہے.. قرآن اور حدیث کے دلائل سے کی گئی بات کو ماننا یا اسکا حوالہ دینا تقلید نہیں ہے.بلکہ قرآن اور حدیث کی ہی اتباع ہے. کہ جس طرح آپکا کوئی عالم آپکو امام ابو حنیفہ کا قول بتایگا اور آپ اس پر عمل کریں گے تو آپ یہ ہر گز نہیں مانیں گے کہ یہ اس عالم کی تقلید ہے بلکہ آپ اپنے آپ کو امام ابو حنیفہ کا مقللد ہی کہیں گے، اسی طرح اگر کوئی دلائل سے بات کرتا ہے تو اسکی بات کو تسلیم کرنا سنّت کی اتباع ہے نہ کہ اس عالم کی.
lovely ahnaf ko khatme nabuwat ka munkir kehta hay aor ye aap bhi janti hain k khatme nabuwat ka munkir muslim nahin hay..
ab aap bataow k lovely sahi hay ya ghalat??????
aap bhi ghair muqalid hain aor lovely bhi to kiya aap bhi lovely se itefaaq karti hain???
مسلمان ہونے کے لیے صرف زبان سے کہ دینا کے قرآن مجید الله کا کلام ہے محمّد الله کے رسول ہیں سچا مسلمان تو وہ ہے جو دل سے تسلیم کرے کہ قرآن مجید الله کا کلام ہے محمّد الله کے بندے اور رسول ہیں، اور الله اور اس کے رسول کے آگے کسی کا فرمان قابل قبول نہیں ہے، جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ الحشر ٧
[DOUBLEPOST=1349166180][/DOUBLEPOST]
اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں یہ بھی دیا ہے جس کو اکثر دوست نظر انداز کر دیتے ہیں
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا
میری سنت اور خلفاء راشدینؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں، مضبوط پکڑو اور میری اور ان کی سنت کو اپنی داڑھوں سے مظبوط پکٹر۔ اور دین میں نئی نئی باتوں سے احتراز کرو کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی
(ابوداؤد، مسند احمد ج4، ابن ماجہ، مشکوۃ وغیرہ)
اس حدیث میں شیخین کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ان سے دلیل طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا گیا اسی کو تقلید کہتے ہیں۔ اس مضمون کی دیگر احادیث مندرجہ ذیل ہیں
2
حضرت حزیفہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ میں کب تک تم میں زندہ رہوں گا لہزا تم میرے بعد ابو بکرؓ اور عمرؓ کی اقتداء کرنا
(ترمذی جلد2، ابن ماجہ، مستدرک، مشکوۃ)
3
آنحضرت ﷺ نے فرمایا
میں تمہارے لئے اس لس چیز پر راضی ہوں جس چیز کو تمہارے لے عبداللہ ابن مسعود پسند کریں
مستدرک جلد3
4
حضرت معاذؓ بن جبل ہمارے پاس یمن میں امیر منتخب ہو کر آئے۔ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ ایک شخص کی وفات ہوچکی ہے اور اس کی ایک لڑکی اور ایک پہن موجود ہے اس کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟ تو حضرت معاذؓ نے اس میت کو ترکہ نصف لڑکی کو اور آدھا اس کی پہن کو دیا
(بخاری جلد 2)
5
حضرت جبیرؓ بن مطعم سے روایت ہے کہ ایک عورت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اور آپ سے کوئی چیز دریافت فرمائی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پھر کسی وقت آنا۔(آپ اس وقت پیمار تھے)۔ اس عورت نے عرض کیا کہ اگر میں پھر کسی وقت آؤں۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہین اور آپ کو نا پاؤں یعنی اگر آپ کی وفات ہوجائے تو پھر کیا کروں؟ آنھضرت ﷺ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ تو ابو بکرؓ کے پاس آنا
(بخاری جلد1، مسلم جلد 2)
آپ کی بیان کی گئی حدیث نمبر ١ میں ہے کہ میری سنت اور خلفاء راشدینؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں
اب آپ مجھے یہ بتایے کہ ہدایت یافتہ کسے کہا جاتا ہے؟؟؟
یہاں وہی بات آ جاتی ہے کے جیسے میں نے اوپر کہا ہے کہ:
کسی بھی انسان کی بات جو کہ دلائل کے ساتھ ہو اسکو تسلیم کرنا سنّت کی اتباع ہے اس شخص کی تقلید نہیں.
قرآن اور حدیث میں جہاں بھی لفظ آیا ہے اتباع اور اطاعت کا لفظ ہے... اور شریعت محمدیہ میں لفظ ’’تقلید‘‘ کسی بھی معنی میں اچھا نہیں سمجھا گیا ہے

اللہ تعالٰی کی اطاعت اور رسول کی اتباع کا حکم قرآن میں ہے.... شریعت محمدیہ نے کسی بھی شخصیت کی تقلید کا حکم نہیں دیا
آپ لولی آل ٹائم کی بیان کردہ حدیث کو پڑھیے اور بتایں کہ
سیدنا عمر بن الخطاب نے ایک جلیل القدر صحابی اور اپنے والد کی گستاخی کی ہے یا نبی کریمﷺ کی اتباع؟؟؟
 

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,085
1,313
31
Karachi,PK
کیا میں نے کبھی کہا ہے آپ سے کہ میں مقللد ہوں؟؟؟ کیوں میں تو شروع سے ہی تقلید کے خلاف بولتی آئ ہوں

اگر کوئی حنفی ہے تو امام ابو حنیفہ کا مقللد ہے اگر شافعی ہے تو وہ امام شافعی کا مقللد ہے اگر حنبلی ہے امام حنبل کا مقللد ہے، اگر مالکی ہے تو وہ امام مالک کا مقللد ہے اور یہ چاروں حق پر ہیں بقول آپ کے، لیکن اگر کوئی امام الانبیا کی اتباع کرنے والا ہے تو وہ غیر مقللد ہے اور آپ کے نزدیک وہ گمراہ ہے ، اب اگر آپکی نظر میں قرآن اور حدیث پر عمل کرنے والا غیر مقللد کوئی فرقہ ہے تو کیا کہا جا سکتا ہے بھائی

.آپ نے جب جب ہمیں کسی بھی عالم کی غلطی کے بارے میں بتایا ہم نے ہر دفعہ آپ سے یہی کہا کہ دنیا کا کوئی بھی انسان ہو اگر وہ قرآن اورحدیث کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے ردد کر دیا جاۓ
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا سورہ الاحزاب ٣٦
اچھا میرے بھائی مجھے یہ بتایے کہ اگر کوئی عالم قرآن اور حدیث کے مطابق بات کرتا ہے اور ہم اس کی بات کو پیش کرتے ہیں تو کیا یہ اس کی تقلید ہے؟؟؟ تقلید تو کسی کی بات کو بلا دلیل مان لینے کا نام ہے.. قرآن اور حدیث کے دلائل سے کی گئی بات کو ماننا یا اسکا حوالہ دینا تقلید نہیں ہے.بلکہ قرآن اور حدیث کی ہی اتباع ہے. کہ جس طرح آپکا کوئی عالم آپکو امام ابو حنیفہ کا قول بتایگا اور آپ اس پر عمل کریں گے تو آپ یہ ہر گز نہیں مانیں گے کہ یہ اس عالم کی تقلید ہے بلکہ آپ اپنے آپ کو امام ابو حنیفہ کا مقللد ہی کہیں گے، اسی طرح اگر کوئی دلائل سے بات کرتا ہے تو اسکی بات کو تسلیم کرنا سنّت کی اتباع ہے نہ کہ اس عالم کی.
مسلمان ہونے کے لیے صرف زبان سے کہ دینا کے قرآن مجید الله کا کلام ہے محمّد الله کے رسول ہیں سچا مسلمان تو وہ ہے جو دل سے تسلیم کرے کہ قرآن مجید الله کا کلام ہے محمّد الله کے بندے اور رسول ہیں، اور الله اور اس کے رسول کے آگے کسی کا فرمان قابل قبول نہیں ہے، جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ الحشر ٧
[DOUBLEPOST=1349166180][/DOUBLEPOST]
آپ کی بیان کی گئی حدیث نمبر ١ میں ہے کہ میری سنت اور خلفاء راشدینؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں
اب آپ مجھے یہ بتایے کہ ہدایت یافتہ کسے کہا جاتا ہے؟؟؟
یہاں وہی بات آ جاتی ہے کے جیسے میں نے اوپر کہا ہے کہ:
کسی بھی انسان کی بات جو کہ دلائل کے ساتھ ہو اسکو تسلیم کرنا سنّت کی اتباع ہے اس شخص کی تقلید نہیں.
قرآن اور حدیث میں جہاں بھی لفظ آیا ہے اتباع اور اطاعت کا لفظ ہے... اور شریعت محمدیہ میں لفظ ’’تقلید‘‘ کسی بھی معنی میں اچھا نہیں سمجھا گیا ہے
اللہ تعالٰی کی اطاعت اور رسول کی اتباع کا حکم قرآن میں ہے.... شریعت محمدیہ نے کسی بھی شخصیت کی تقلید کا حکم نہیں دیا
آپ لولی آل ٹائم کی بیان کردہ حدیث کو پڑھیے اور بتایں کہ
سیدنا عمر بن الخطاب نے ایک جلیل القدر صحابی اور اپنے والد کی گستاخی کی ہے یا نبی کریمﷺ کی اتباع؟؟؟
:-bd :-bd :-bd .
 
Status
Not open for further replies.
Top