گناہ صغیرہ کا اصرار (تکرار) بھی کبیرہ ہے

  • Work-from-home

Sumi

TM Star
Sep 23, 2009
4,247
1,378
113
گناہ صغیرہ کا اصرار (تکرار) بھی کبیرہ ہےگناہ صغیرہ کا اصرار (تکرار) بھی کبیرہ ہے
اس سلسلے میں عرض ہے کہ گناہ صغیرہ کی تکرار کبیرہ بننے کا سبب ہوتی ہے۔چونکہ یہ بات مسلّم ہے کہ بار بار گناہ صغیرہ کا مرتکب ہونے پر گناہ کبیرہ کا حکم لاگو ہوتا ہے ۔انشاء اللہ ہم اس بحث کو "گناہ صغیرہ پر اصرار" کے باب میں تفصیل سے بیان کریں گے۔
پس گناہان ِکبیرہ کو مبہم کرنے میں ہی اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت مضمر ہے۔ تا کہ اس کے بندے دوسرے گناہوں سے اجتناب کریں اور گناہان ِ کبیرہ میں ملوّث نہ ہو جائیں اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ چھوٹے گناہوں کو کمتر سمجھنا کبیرہ بننے کا موجب ہوتا ہے چناچہ آگے اس پر روشنی ڈالی جائے گی۔

خرابی میں پڑنا ثواب سے محرومی کا سبب ہے

(یہ بھی اعتراض کا جواب ہو سکتا ہے )گناہان ِصغیرہ کی خرابیوں میں پڑنے سے بندہ ان نیکیوں کے اجروثواب سے محروم رہتا ہے جو کہ گناہانِ صغیرہ کے ترک کرنے پر دیا جاتا ہے ۔چوں کہ ہر وہ عمل جس سے باز رہنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اس میں دینوی یا اخروی کوئی نہ کوئی فساد ضرور ہوتا ہے ۔اس لئے جب کوئی بندہ گناہ ِصغیرہ کا مرتکب ہو جائے تو گناہِ کبیرہ سے دوری کی برکت سے وہ گناہِ صغیرہ بخش دیا جاتا ہے ۔البتہ گناہ کی مقدار جس قدر ہو اسی قدر اس کا دل سیاہ ہو جا تا ہے ۔ البتہ جب باوجودِقدرت کے بڑے گناہ سے اجتناب کرے تو اس کی تلافی ہو سکتی ہے ۔علاوہ برایں جب اللہ کی خوشنودی کے لئے اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ ثواب کا مستحق بھی بنتا ہے ۔
اس بیان سے معلو م ہوا کہ گناہِ صغیرہ کا مرتکب اس گناہ کی خرابیوں سے دنیا یا آخرت میں دوچار ضرور ہو گا۔ اور گناہ ترک کرنے کے ثواب سے بھی محروم رہے گا ۔ شائد اسی مطلب کو ملحوظ رکھ کر معصوم علیہ السلام نے فرمایا ہے :
ھَبْ غَفَرَ اللّٰہُ ذُنُوْبَ الْمُسِیْئِیْنَ فَقَدْ فَاتَھُمْ ثوابَ الْمُحْسِنِیْن
خدا گناہ گاروں کے گناہوں کی مغفرت فرمائے یہ لوگ یقینا اچھے کاموں کے ثواب سے محروم ہو گئے (یعنی ترکِ گناہ کا ثواب حاصل نہ کر سکے۔)

(۲)اھلِ بیت کی طرف رجوع کرنا چاہیے

یہ عنوان بھی دوسرے بہت سے مطالب کی طرح قرآنِ مجید میں مختصر طور پر ذکر ہوا ہے لیکن ان کی تشریح و توضیح حضرت پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نیز ائمہٴ اطہار کے پاکیزہ دلوں میں جو کہ علم و حکمت اور وحی ٴالہٰی کا خزینہ ہیں۔ الہام کے ذریعہ ودیعت فرمائی گئی ہے ۔ اور بندوں کو ان کی طرف مراجعہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ اس بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکَر لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَاُنزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَّفَکَّرُوْنَ
(سورہ ۱۶۔آیت۴۴)
اور تمہارے پاس قرآن نازل کیا ہے جو کہ ذکر ہے تاکہ جو احکام لوگوں کے لئے نازل کئے گئے تم ان سے صاف صاف بیان کر دو تا کہ وہ لوگ خود سے کچھ غور و فکر کریں ۔ اور اسی طرح اہلِ بیت رسولِ خدا کی طرف لازمی طور پر رجوع کرنے کے لئے قرآنِ شریف میں فرماتا ہے:
فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکرِ اِنْ کُنْتُم لَا تَعْلَمُوْنْ (سورہ۱۶۔آیت۴۳)
اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ِذکر سے پوچھو۔

اہل بیت اطہاراہل ذکر کیوں ہیں؟

اس بارے میں بہت سی روایتیں ہمارے پاس موجود ہیں کہ اہل الذکر سے مراد اہل بیت رسول مختار ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مجلس مامون میں جب امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:"ہم اہل الذکر ہیں"۔ علمائے عامّہ اس مجلس میں حاضر تھے ، کہنے لگے، اہل الذکر سے مراد یہودونصاریٰ ہیں اور ذکر کا مطلب توریت و انجیل ہے۔ تو حضرت نے ان کو جواب دیا:
سُبْحانَ اللّٰہِ ھَلْ یَجُوْزُ ذٰلِکَ اِذایَدعُوْنَا اِلٰی دِیْنھِمْ وَیَقُوْلونَ اِنَّھا اَفْضَلُ مِنْ دِیْنِ الْاِسْلَامِ (عیون اخبار الرضا(ع))
"سبحان اللہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اور کیسے جائز ہے کہ خدائے تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دے کہ وہ یہود اور نصاریٰ کے علماء سے رجوع کریں ۔ حالانکہ اگر کوئی رجوع کرے تو ان کے علماء کہیں گے کہ ہمارا دین برحق ہے اور دین اسلام سے بہتر ہے۔ وہ ہمیں اپنے نظریئے کی طرف دعوت دیں گے (کیا آپ اس دعوت کو قبول کریں گے)۔
پس مامون نے عرض کیا، "کیا آپ اپنے دعوے کے اثبات میں قرآن مجید سے کوئی دلیل پیش کر سکتے ہیں؟"
فَقَالَ نَعَمْ۔ اَلذِّکْرُ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ص) وَنَحْنُ اَھْلُہ وَذٰلِکَ بَیْنٌ فِیْ کِتابِ اللّٰہِ تَعَالٰی حَیْثُ یَقُوْلُ فِیْ سُوْرَةٍ الطَّلَاقِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْراً رَّسُوْلاً یَّتْلُوا عَلَیْکُمْ آیاتِ اللّٰہِ مُبَبِّنَات(سورہ طلاق آیہ ۱۰،۱۱)
"فرمایا ، جی ہاں! ذکر سے مراد حضرت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں اور ان کے اہل ہیں۔ اس موضوع ِ بحث کے بارے میں قرآن کی یہ آیت میری دلیل ہے: جو لوگ ایمان لائے ہیں خدا نے ان کی طرف ذکر بھیج دیا ہے کہ وہ رسول ہے جو تمہارے سامنے ہماری واضح آیتیں پڑھتا ہے۔"
علمائے عامہ (اہل سنت) میں سے ایک شہر ستانی ہیں۔ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) اور امیر المٴومنین (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم اہل ذکر ہیں۔ اور بعض دوسری روایتوں میں ہے کہ خدا وند ِ عالم نے کچھ اہم مطالب قرآن مجید میں مختصراً بیان فرمائے ہیں۔ ان کی شرح و تفسیر سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اہل بیت (علیہم السلام) کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے کہ ہر گز اپنے آپ کو ان سے بے نیاز نہ سمجھیں بلکہ ہر وقت علوم ِآل ِ محمد (علیہم السلام) کا نیاز مند سمجھنا چاہیئے اور ہمیشہ ان ذوات ِ مقدسہ کا دامن گیر رہنا چاہیئے۔ یہاں تک کہ ان کی محبت اور ولایت جو کہ حقیقی اور ابدی سعادت ہیں، ہمیں حاصل ہو جائے۔

دوسرے اعتراض کا جواب

مذکورہ روایات اور احادیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمارے آئمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین مصلحت کی بنأ پر گناہان ِ کبیرہ کے شمار اور تعین کے حق میں نہیں تھے۔ یعنی پوچھنے والوں کے جواب میں گناہان کبیرہ مفصل بیان کرنا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ اجمالاً بیان کرنے کی حکمت اور راز پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کبھی کبھار مختصر مگر جامع جملوں میں گناہ کبیرہ کی تعریف فرمائی ہے۔ جیسا کہ صحیحہٴ حلّی میں روایت ہے کہ حضرت صادق آل محمد (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا:
الکَبَائِرُ کُلُّ مَااَوْعَدَاللّٰہُ عَلَیْہِ النّار (کافی)
"گناہان کبیرہ وہ گناہ ہیں (جن کے مرتکب ہو نے والوں کے لیے) اللہ تعالیٰ نے آتش جہنم کا وعدہ کیا ہے۔"

گناہ کبیرہ دوسرے عنوان میں

آئمہ طاہرین (علیہم السلام) کبھی بعض گناہ ِ کبیرہ شمار نہیں کرتے تھے چونکہ ایک گناہ کبیرہ کے ضمن میں دوسرا گناہ کبیرہ بھی آسکتا تھا۔ تو دوسرے گناہ کو ذکر نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ عبید بن زرارہ کی روایت جو کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا : گناہانِ کبیرہ کتاب ِ علی (علیہ السلام) میں سات ہیں۔
الکُفْرُ بِاللّٰہِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَاَکْلُ الرِّبوا بَعْدَ البَیّنَةِ وَاَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ ظُلْماً وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحُفِ وَالتَّعَرُّبُ بَعْدَ الْھِجْرَةِ قَالَ قُلْتُ فھٰذا اَکْبَرُ الْکَبَائِرِ قَالَ نَعْمْ۔ قُلْتُ فَاَکْلُ دِرْھَمٍ مِّنْ مَالِ الْیَتِیْم اَکْبَرُ اَمْ تَرْکُ الصَّلوٰةِ قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ تَرِکُ الصَّلوٰة، قُلْتُ فَمَا عَدَوْتَ تَرْکَ الصَّلوٰةِ فِی الْکَبَائِرِ فَقَالَ (ع) اَیُّ شَیءٍ اَوَّلَ مَا قُلْتُ لَکَ قُلْتُ الْکُفْرَ قَال (ع) فَاِنَّ تَارِکَ الصَّلوٰةِ کَافِرٌ یَعنِی مِنْ غَیْرِ عِلَّةٍ (کتاب کافی۔ وسائل الشیعہ۔ کتاب جہاد)
(۱) اللہ کے وجود سے انکار کرنا (۲) کسی نفس محترم کو قتل کرنا (۳) ماں باپ کا عاق کرنا (۴) سود کھانا واضح ہونے کے بعد( ۵)ظلم و ستم سے مال یتیم کھانا(۶) جنگ (جہاد) سے بھاگ جانا (۷) ہجرت کے بعد جہالت کی طرف پلٹنا۔
میں نے عرض کیا ، کیا یہ سب بڑے گناہوں میں شمار ہیں؟
امام (علیہ السلام) نے فرمایا صحیح ہے۔ پھر میں نے عرض کیا ، ظلم و زیادتی سے مال یتیم کا ایک درہم کھانا بڑا گناہ ہے یا نماز ترک کرنا؟ فرمایا : نماز چھوڑنا نسبتاً بڑا گناہ ہے۔ میں نے پھر پوچھا پھر آپ نے نماز ترک کرنا گناہ کبیرہ میں شمار کیوں نہیں کیا؟ امام (علیہ السلام) نے پوچھا میں نے پہلے کونسا گناہ ِ کبیرہ شمار کیا تھا؟ میں نے عرض کیا ، خدا سے انکار کرنا۔ فرمایا نماز ترک کرنے والا کافر ہے بغیر کسی دلیل کے(کیونکہ تارک الصلوٰة کفر باللہ کے ضمن میں آتا ہے)۔ اس لیے آپ (علیہ السلام) نے ترک نماز کا ذکر نہیں فرمایا۔"
اس بیان سے معلوم ہو کہ معصو م سے ہم تک پہنچی ہوئی احادیث میں مکمل طور پر اور شرح کے ساتھ گناہان کبیرہ کا ذکر نہیں۔ غرض کوئی روایت ایسی نہیں (جو کہ جامع و مانع ہو) جس میں گناہان کبیرہ مکمل طور پر اور شرح کے ساتھ مع تعداد ذکر ہوں اور ہم اعتماد کے ساتھ یہ کہ سکیں کہ ان کے سوا اور کوئی گناہ کبیرہ ہو نہیں سکتا۔
چنانچہ صحیفہٴ حضرت شہزادہ عبدالعظیم الحسنی کا ذکر پہلے ہو چکا۔ اس پر غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ۲۱ گناہان کبیرہ عمروبن عبید کو قرآن مجید سے شمار کر کے بتائے۔ وہ اس سے زیادہ سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور روتے ہوئے باہر نکل گئے۔ اگر سننے کی سکت ہوتی اور صبر سے کام لیتے تو امام (علیہ السلام) مزید ارشاد فرمارہے تھے۔ میں قارئین ِ محترم سے یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہو کہ ہمارا مطلب اس کتاب میں ان گناہوں کی شرح بیان کرنا نہیں جن کا کبائر میں شامل ہونا ثابت اور مسلم ہے۔ اور نہ ہم جو کچھ ذکر کرتے ہیں انہیں پر گناہانِ کبیرہ کا انحصار ہے۔ بلکہ باقی گناہ جن کے بارے میں کبیرہ ہونا ثابت نہیں مبہم اور مختصر اس کتاب میں ہم لکھ رہے ہیں۔ ان گناہوں کا صغیرہ ہونا بھی مسلّم نہیں۔ اس لیے صاحبان ِ تقویٰ پر لازم ہے کہ ان تمام مبہم اور مختصر الذکر گناہوں سے بھی پرہیز کریں کیونکہ امکان ہے کہ واقعی یہی گناہ کبیرہ ہوں اور ہم انہیں ثابت نہ کر سکتے ہوں۔ یہاں تک گناہان ِ کبیرہ کی بحث و بیان شروع کرتے ہیں جن کو صراحتاً بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





الشِّرکُ بِاللّٰہِ



سب سے پہلا گناہ کبیرہ اللہ تعالیٰ پر شرک باندھنا ہے اور اس کے بارے میں حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) و حضرت امیر المٴومنین (علیہ السلام) و حضرت امام جعفر صادق ، حضرت امام موسیٰ کاظم ، حضرت امام علیرضا ، حضرت امام تقی (علیہم السلام) نے واضح ارشادات فرمائے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
اَکْبَرُ الْکَبَائِر الشِرّکُ بِاللّٰہِ (وسائل الشیعہ۔ کتاب جہاد)
"تمام گناہوں سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ پر شرک باندھنا ہے۔ "جس کی دلیل خود خداوند تعالیٰ کا قول ہے کہ فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرِکَ بِہِ وَ یَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ (سورہ ۴۔آیت۵۲)
"یقینا خدا نہیں بخشتا اس کو جس نے اس کا شریک قرار دیا اور شرک کے علاوہ دوسرے گناہوں کی جسے وہ چاہے مغفرت کر دیتا ہے۔"
یعنی اگر کوئی مشرک دنیا سے کوچ کر گیا تو وہ بخشے جانے کے قابل نہیں اور شرک کے علاوہ جسے وہ چاہے مغفرت کا مستحق ہو سکتا ہے۔ اور فرماتا ہے:
اِنَّہ مَنْ یُشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰئہ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ (سورہٴ ۵۔آیہ۷۶)
"بے شک جو کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دے یقینا خدا اس پر بہشت حرام کرتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم قرار دیتا ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیں۔"
مزید ارشاد خدا وندی ہے:
لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (سورہ ۳۱ آیت ۱۳)
ٍ "اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک قرار مت دو بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔"
وَمَنْ یُشْرِک بِاللّٰہِ فَقَدْ اِفْتَریٰ اِثْماً عَظِیْماً (سورہ۴۔آیت۵۲)
"جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک باندھایقینا اس نے جھوٹ باندھااور بڑے گناہ کا مرتکب ہوا۔
جبکہ ہر مسلمان شرک کو مثل روز ِ روشن کے گناہ کبیرہ مانتا ہے تو قرآنی آیات اور معصومین(علیہم السلام) کی روایات کو شرک کا کبیرہ گناہ ہونے کے بارے میں نقل کرنا ضروری نہیں سمجھا مگر جو چیز زیادہ اہم ہے وہ شرک کے معنی اور اس کے مراتب جاننا ہے تا کہ ان تمام گناہوں سے پرہیز کریں۔ چنانچہ پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:
وَاعْبُدُواللّٰہَ وَلَاتُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا (سورہ ۴۔آیت۴۱)
"اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ کرو۔"
واضح ہو کہ مشرک مقابل موحّد اور اس کی ضد ہے۔ چنانچہ توحید دین کا پہلا اصل رکن ہے۔ یہ کئی مراتب پر مشتمل ہے اور اسی طرح شرک کے کئی درجات ہیں:
(۱) توحید اور شرک ذات ِ خدا کے مقام میں۔
(۲) توحید اور شرک صفات ِ خدا کے مقام میں۔
(۳) توحید اور شرک افعال کے مقام میں۔
(۴) توحید اور شرک اطاعتکے مقام میں۔
(۵) توحید اور شرک عبادت کے مقام میں۔
اب اگر توفیق الٰہی شامل حال رہی تو ہر ایک موضوع پر تفصیل سے بیان کریں گے۔
پہلامقام

توحید ذاتِ خدا

یعنی ربّ الارباب کی ذات اقدس کو یکتا تسلیم کرنا کہ وہ قدیم اور ازلی ہے۔ وہ سارے عوالم ِ امکان ، خواہ محسوس ہوں یا غیر محسوس ، سب کی ایجاد کی علّت ہے۔ اور اس مقام میں متعدد علل کو ماننا شرک ہے۔ چنانچہ ثنویہ فرقے قائل ہیں کہ کائنات کے دو برابر کو موجد ہیں۔ اور دونوں قدیم بھی ہیں اور ازلی بھی۔ ایک نیکیوں کا مبدأ ہے جس کا نام یزداں ہے اور جو برائی کا خالق ہے اس کا نام اہرمن ہے۔ اس فرقے کے فاسد عقائد کی تردید کے لیے قرآنی آیات کے واضح دلائل موجود ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِاللّٰہِ (سورہ۶۔آیت۸۰)
"کہدو (اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ)) سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔"
ان کے جواب میں ایک جملہ کافی ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی خالص شر اس عالم میں سرے سے موجود نہیں اور جو کچھ پہلے تھا اور حال میں موجود ہے اور آئندہ وجود میں آنیوالا ہے، سب کا سب خیر ہی خیر ہے ۔یا کم از کم خیر کا پلہ بھاری اور غالب ہے اور شر کی سمت، ہلکی اور مغلوب ہے۔ بہرحال اس مطلب کو تفصیل سے بیان کر یں تو ہم اپنے موضوع ِ کلام سے نکل جائیں گے۔
نصاریٰ بھی مشرک ہیں
عیسائی مذہب تین قدیم اصل یعنی اَبً (باپ یعنی خدا) ، اِبْن(بیٹا یعنی عیسیٰ ) اور رُوحُ الْقُدُس (جبرائیل) کے قائل ہیں اور ہر ایک کے لیے ایک خاصیت اور اثر کے معتقد ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی تردید میں سورہ مائدہ آیة ۷۳ میں فرماتا ہے:
لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ ثالِثُ ثَلاَ ثَةٍ وَّمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلاَّ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۔
"جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ ’اللہ‘ تین میں سے ایک ہے (یعنی الوہیت خدا ، عیسیٰ اور روح القدس کے درمیان مشترک ہیں) وہ یقینا کافر ہوگئے ۔ حالانکہ خدائے یکتا کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں۔ (جو کہ تمام موجودات کا مبدأ ہے)
اسی طرح برہمن مذہب اور بدھ مذہب بھی تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

بت پرستی خدا کو شریک قرار دینا ہے

یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے جو کچھ بت پرست فرقے ساری مخلوقات کی ہر نوع کے لیے ایک پروردگار قرار دیتے ہیں جسے ’ رَبُّ الْنَّوْع‘ کہتے ہیں۔ اس فرقے کا کہنا ہے کہ پانی کے لیے الگ خدا ہے اور ہوا کا خالق الگ ہے۔ ان کے عقائد کی تردید میں اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَم اِللّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ (سورہ۱۲۔آیت۶)
"(ذرا غور کرو کہ) بھلا جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یکتا و زبردست۔"

دوسرا مقام
صفات خدا میں توحید

صفات الٰہی میں توحید سے مراد یہ ہے کہ خدا کی ذاتی صفات جیسے حیات ، علم ، قدرت ، ارادہ، اور ان کی مانند دوسری صفات کو خدائے واحد کا عین جاننا اور جدا نہیں سمجھنا ۔ اس کے سوا یہ صفات مخلوقات کی ذات پر زائد و عارض صفات جاننا اور خدائے یکتا کا فیضان ِ رحمت اور بخشی ہوئی نعمت سمجھنا چاہیئے۔ (مثلاً زید کے لیے حیات و علم و قدرت ذاتی نہیں بلکہ بعد میں عارض ہوا ہے)۔یہاں توحید خداوندی میں شرک کی دو قسمیں ہیں: پہلی یہ کہ صفات الٰہیہ (علم، قدرت و حیات وغیرہ) کو ذات ِ حق سے زائد جانیں۔ اسی صورت میں (جبکہ ذات ِ خداخود قدیم ہے ، اس کی تمام صفات کو بھی قدیم ماننا پڑے گا) پھر تعدد قدماء لازم آتے ہیں۔ چنانچہ یہ عقیدہ (اشاعرہ سے منسوب ہے۔ ان کے اس دعوے کا بطلان اپنی جگہ ثابت ہے۔ یہاں اس کا تذکرہ کرنا ہمارے موضوع سے خارج ہے۔
مخلوقات کی اچھی صفات سب کی سب خدا کی جانب سے ہیں:
اچھی صفات کے تمام مراتب کو جو کہ مخلوق کی طرف نسبت دئیے جاتے ہیں اگر ان سب کو اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم سمجھا جائے تو یہی عین توحید اور حقیقت کے مطابق ہے۔ چنانچہ انبیاء اور آئمہ اطہار (علیہم السلام) کے متعلق ہمارا عقیدہ ہی یہی ہے کہ ان حضرات کا علم و قدرت و عصمت اور دوسرے کمال کے اوصاف مرحمت پروردگار ہیں۔ کوئی ایک صفت بھی وہ ذاتی طور پر نہیں رکھتے تھے بلکہ انہیں جو کچھ ملا ہے وہ سر چشمہٴ فیض سے ملا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ دراصل عالم امکان کے سارے موجودات کا وجود اپنے ذات پر قائم نہیں بلکہ دوسرے کا محتاج ہے۔ اس لیے مخلوقات ممکن اور حادث ہیں۔ سب ایسے اللہ کے محتاج ہیں جو اس کو پیدا کریں۔ اسی طرح کسی فرد کا کسی اچھی صفت سے متصف ہونا ہے۔ اس کے ثانوی کمان ہے اور ذاتی صفات نہیں کہ جنہیں وہ از خود پیدا نہیں کر سکتا۔ بلکہ یقینا وہ رب الأرباب کا محتاج ہوتا ہے۔ اور وہی اسے اپنے ارادہ اور مصلحت کے مطابق اچھی صفات سے مزیّن کرتا اور روزی دیتا ہے۔

کبھی غفلت سے اپنے نفس کا تزکیہ کرتے ہیں:

یہ مطلب ہر ایک عقلمند ، یکتا پرست، اور منصف مزاج کے سامنے بالکل واضح ہے کہ تمام صفات کمالیہ رکھنے والی صرف اور صرف پوردگار عالم کی ذات اقدس ہے۔ لیکن کبھی کبھار بعض یکتا پرست (موحدین) غفلت کی بناء پر مشرکانہ باتیں منہ سے نکالتے ہیں مثلاً اپنی تعریف کے موقع پر کہتے ہیں: "میرا علم، میری قدرت، میرا ارادہ، میری دولت ، میری سوجھ بوجھ، میری طاقت وغیرہ وغیرہ"۔ اس کی بجائے اگر وہ کہتا کہ میرا علم جو اللہ تعالیٰ نے مجھے مرحمت فرمایا ہے۔ میری قدرت جو اللہ نے دی ہے۔ میری دولت جو اللہ کا فضل و امانت ہے، تو درست و مناسب تھا۔ اور یہی حقیقت کے مطابق عین توحید ہوتا۔
لیکن سچا موحد اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ اس کا زبانی اقرار دلی اعتقاد سے متضاد نہ ہو بلکہ ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہو۔ ایسے شخص کی علامت یہ ہے کہ وہ انتہائی شدت سے اپنے خالق کے سامنے تواضع و انکساری سے پیش آتا ہے۔ اور کفران نعمت کی صورت میں نعمت خداوندی کے زوال سے اُسے ہمیشہ ڈر رہتا ہے۔ اور دوسری علامت یہ ہے کہ وہ کسی کی تعریف اور خوشامد سے خوشی محسوس نہیں کرتا۔

پرہیز گار لوگ تعریف سے ڈرتے ہیں:

چنانچہ حضرت امیرالمٴومنین (علیہ السلام) "خطبہٴ ہمام" میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَاِذَازکیٰ اَحَدٌ مِنْھُمْ خَافَ مِمَّا یُقَالُ لَہ فَیَقُوْلُ اَنَا اَعْلَمُ بِنَفْسِی مِنْ غَیْریْ وَرَبِیْ اَعْلَمُ بِیْ مِنْ نَفْسِیْ۔ اللّٰھُمَّ لَاتوٴاخِذْنِیْ بِمَا یَقُوْلُوْنَ وَاجْعَلْنِیْ اَفْضَلَ مِمَّا یَظُنُّونَ وَاغْفِرْ لِیْ مَالَا یَعْلَمُوْنَ (خطبہٴ ھمام۔ نہج البلاغہ)
"جب ان میں سے کوئی کسی کی تعریف کرنے لگے تو جو کچھ اس کے بارے میں کہتے ہیں وہ (پرہیزگار) اس سے ڈرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہوں۔ (من آنم خود دانم) اور میرا پروردگار میرے نفس اور ضمیر کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اس کے بعد درگاہ رب العزّت کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے: اے میرے معبود یہ لوگ جو کچھ میری تعریف میں کہتے ہیں اس کا مجھ سے موٴاخذہ نہ کر۔ تعریف کرنے والا جس نظر سے مجھے دیکھ رہاہے میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ مجھے اس بالاتر قرار دے اور میرے اُن گناہوں کو بخش دے جو میرا مدّاح نہیں جانتا۔
خدا کی صفات میں کوئی بھی شریک نہیں:
ایک شخص موّحد اپنے آپ کو یا کسی اور کو خدائے بے مثل و یکتا کے حمد و ثناء کے استحقاق میں کسی کو کسی طرح شریک قرار دے سکتا ہے جبکہ وہ دن و رات میں کئی مرتبہ کہتا ہو "سُبْحَانَ اللہ" یعنی میں اپنے خدا کو ہر قسم کے شریک و شرکت سے پاک و پاکیزہ سمجھتا ہوں۔ اور وہ بار بار کہتا ہو "اَلْحَمْدُللہ" یعنی حمدو ستائش کے تمام مصادیق اور اقسام صرف پروردگارکے لیے مخصوص ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی حقیقی تعریف کا استحقاق نہیں رکھتا۔
خلاصہ
جبکہ موّحدین یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ خدا کے بغیر کچھ بھی از خود حیثیت نہیں رکھتا اور جو کچھ ملا ہے وہ مالک ِ حقیقی سے ملاہے۔ اور سب کے سب اس ذاتی اور صفاتی لحاظ سے اس کے محتاج ہیں چنانچہ ارشادی باری تعالیٰ ہے:
"یٰاَ یُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلٰی اللّٰہِ وَاللّٰہ ُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْد"
(سورہ۳۵۔آیت۱۵)
"لوگو تم سب کے سب (ہر وقت ) خُدا کے محتاج ہو اور (صرف) خُدا ہی (سب سے ) بے نیاز اور سزاوار حمد وثنا ہے۔"
یہی وجہ ہے کہ یکتا پر ست لوگ اپنی تعریف خود کرنے سے اور دوسروں کی مدح سرائی سے مکمل طور پر پر ہیز کرتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے موحد کی صفات اور خوشامدی کی تعریف سے ڈرنے کے بارے میں جو کچھ فر مایا وہ ابھی ذکر ہوا ۔بلکہ ایسے الفاظ وکلمات سے بھی اجتناب کرنا چاہئے جن سے انسان کی استقلال وبے نیازی اور خود نمائی کا اظہار ہوتا ہو مثلاً " میں فلاں صفت یا کمالیت رکھتا ہوں"۔
حضرت پیغمبر کا ارشاد گرامی

ایک آدمی نے حضرت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بارگاہ عرشِ افتخار میں پہنچ کر دروازہ کٹھکٹھایا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے گھر کے اندر سے دریافت فرمایا"آپ کون ہیں؟"
فَقَالَ اَنا! فَغَضِبَ (ص) مِنْ قَوْلِہِ اَنَا۔ فَخَرَجَ (ص) وَھُوَ یَقُوْلُ مَنِ الْقَائِل اَنَا؟ وَھِیَ لَایُطْلِقُ اِلاَّ بِاللّٰہِ الَّذِی یَقُوْلُ اَنَا الْجَبَّارُ وَاَنَا الْقَھَّارُ (انوارالنعمانیة)
اس نے کہا "میں" پس آنحضرت لفظ "انا" کے استعمال سے غضبناک ہوئے اور گھر سے باہر تشریف لائے اور پوچھا "میں کہنے والا کون تھا؟(جاننا چاہیئے) خداوند عالم کے سوا اور کوئی اس لفظ کا سزا وار نہیں۔وہ اپنے آپ کو کہتا ہے " میں جبا ر ہوں اور میں قہاّ ر ہوں"۔
قارون مشرک ہو گیا
قارون مشرک اس وجہ سے ہوا کہ اس نے کہا:
اِنَّمَا اُوْتِیْتُہ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ
(یہ مال ودولت ) تو مجھے اپنے علم (کیمیا) کی وجہ سے حاصل ہواہے۔ جب قارون نے اپنے آپ کو رزاقیت میں جو کہ صفت خداوندی ہے شریک گردانا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا۔
اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَھْلَکَ مِنْ قَبْلِہِ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ھُوَ اَشَدُّ قُوَّةً وَّاکْثَرُ جَمْعًا
(سورہ۲۸۔آیت۷۸)
کیا قارون نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ اللہ نے اس سے پہلے کے لوگوں کو ہلاک کر ڈالا جو اس سے قوت اور جمعیت میں کہیں بڑھ چڑھ کے تھے۔
اس لئے اگر قارون از خود کسی قسم کی قدرت و طاقت رکھتا تو اپنے آپ کو ہلاکت سے کیوں نہ بچا سکا؟
یہ بدیہی امر ہے کہ علم و قدرت و حیا ت اور دوسرے تمام کمالات جو مخلوق رکھتی ہے وہ کسی کے ذاتی نہیں بلکہ ان کا مبداء قادر مطلق ہے
 
  • Like
Reactions: nrbhayo

yoursks

Always different.., Confirm
VIP
Jul 22, 2008
17,222
8,013
1,113
دعاؤں میں
mashaAllah achi kaawish hai aapki, Allah ta'laa aap ki iss kaawish ko qabool farmaye or ummat-e-muslima ki hidayat ka zariyaa banaye, ameen

jazaakAllah Khair

keep it up
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top