ہجرت مدینہ:

  • Work-from-home

Sumi

TM Star
Sep 23, 2009
4,247
1,378
113
ہجرت مدینہ:

مدینہ منورہ میں جب اسلام اور مسلمانوں کو ایک پناہ مل گئی۔ تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ ء کرام کو عام اجازت دے دی کہ وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہجرت کی اس کے بعد یکے بعد دیگرے دوسرے لوگ بھی مدینہ روانہ ہونے لگے۔ جب کفار قریش کو پتہ چلا تو انہوں نے روک ٹوک شروع کردی۔ مگر چھپ چھپ کر لوگوں نے ہجرت کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بہت سے صحابہ ء کرام مدینہ منورہ چلے گئے صرف وہی حضرات مکہ میں رہ گئے جو یا تو کافروں کی قید میں تھے یا اپنی مفلسی کی وجہ سے مجبور تھے۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو چونکہ ابھی تک خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم نہیں ملا تھا اس لئے آپ مکہ ہی میں مقیم رہے اور حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہا کو بھی آپ نے روک لیا تھا لٰہذا یہ دونوں شمع نبوت کے پروانے بھی آپ ہی کے ساتھ مکہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔


کفار کانفرنس:

جب مکہ کے کافروں نے یہ دیکھ لیا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور مسلمانوں کے مددگار مکہ سے باہر مدینہ میں بھی ہوں گے اور مدینہ جانے والے مسلمانوں کو انصار نے اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔ تو کفار مکہ کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) بھی مدینہ چلے جائیں اور وہاں سے اپنے حامیوں کی فوج لے کر مکہ پر چڑھائی نہ کر دیں چنانچہ اس خطرہ کا دروازہ بند کرنے کے لئے کفار مکہ نے اپنے دارالندوہ ( پنجائت گھر ) میں ایک بہت بڑی کانفرنس منعقد کی اور یہ کفارمکہ کا ایسا زبردست نمائندہ اجتماع تھا کہ مکہ کا کوئی بھی ایسا دانشور اور بااثر شخص نہ تھا جو اس کانفرنس میں شریک نہ ہوا ہو۔ خصوصیت کے ساتھ ابو سفیان، ابوجہل، عتبہ، جبیر بن مطعم، نضر بن حارث، ابو النجتری زمعہ بن اسود، حکیم بن حزام ، امیہ بن خلف وغیرہ وغیرہ تمام سرداران قریش اس مجلس میں موجود تھے۔ شیطان لعین بھی کمبل اوڑھے ایک بزرگ شیخ کی صورت میں آگیا۔ قریش کے سرداروں نے نام و نسب پوچھا تو بولا کہ میں “ شیخ نجد “ ہوں اس لئے اس کانفرنس میں آگیا ہوں کہ میں تمہارے معاملہ میں اپنی رائے بھی پیش کردوں۔ یہ سن کر قریش کے سرداروں نے ابلیس کو بھی اپنی کانفرنس میں شریک کر لیا۔ اور کانفرنس کی کاروائی شروع ہوئی جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا معاملہ پیش ہوا تو ابوالنجتری نے یہ رائے دی کہ ان کو کسی کوٹھری میں بند کرکے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دو اور ایک سوراخ سے کھانا پانی ان کو دے دیا کرو۔ شیخ نجدی ( شیطان ) نے کہا کہ یہ رائے اچھی نہیں ہے خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے ان کو کسی مکان میں قید کردیا تو یقیناً ان کے جانثار اصحاب کو اس کی خبر لگ جائے گی اور وہ اپنی جان پر کھیل کر ان کو قید سے چھڑا لیں گے۔
ابوالاسود ربیعہ بن عمر و عامری نے یہ مشورہ دیا کہ ان کو مکہ سے نکال دو۔ تاکہ یہ کسی دوسرے شہر میں جاکر رہیں اس طرح ہم کو ان کے قرآن پڑھنے اور ان کی تبلیغ اسلام سے نجات مل جائے گی۔ یہ سن کر شیخ نجدی نے بگڑ کر کہا کہ تمہاری اس رائے پر لعنت۔ کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ
محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) کے کلام میں کتنی مٹھاس اور تاثیر و دل کشی ہے؟ خدا کی قسم! اگر تم لوگ ان کو شہربدر کرکے چھوڑ دو گے تو یہ پورے ملک عرب میں لوگوں کو قرآن سنا سنا کر تمام قبائل عرب کو اپنا تابع فرمان بنا لیں گے اور پھر اپنے ساتھ ایک عظیم لشکر کو لے کر تم پر ایسی یلغار کر دیں گے کہ تم ان کے مقابلہ سے عاجز و لاچار ہو جاؤ گے اور پھر بجز اس کے کہ تم ان کے غلام بن کر رہو کچھ بنائے نہ بنے گی۔ اس لئے ان کو جلا وطن کرنے کی تو بات ہی مت کرو۔
ابوجہل بولا کہ صاحبو! میری ذہن میں ایک رائے ہے جو اب تک کسی کو نہیں سوجھی یہ سن کر سب کے کان کھڑے ہوگئے اور سب نے بڑے اشتیاق کے ساتھ پوچھا کہ کہیے وہ کیا ہے؟ تو ابوجہل نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک مشہور بہادر تلوار لے کر اٹھ کھڑا ہو اور سب یکبارگی حملہ کرکے
محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) کو قتل کر ڈالیں۔ اس تدبیر سے خون کرنے کا جرم تمام قبیلوں کے سر پر رہے گا ظاہر ہے کہ خاندان بنو ہاشم اس خون کا بدلہ لینے کے لئے تمام قبیلوں سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھ سکتے۔ لٰہذا یقیناً وہ خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم لوگ مل جل کر آسانی کے ساتھ خون بہا کی رقم ادا کر دیں گے۔ ابوجہل کی یہ خونی تجویز سن کر شیخ نجدی مارے خوشی کے اچھل پڑا اور کہا کہ بےشک یہ تدبیر بالکل درست ہے اس کے سوا اور کوئی تجویز قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ تمام شرکاء کانفرنس نے اتفاق رائے سے اس تجویز کو پاس کر دیا اور مجلس شورٰی برخاست ہو گئی۔ اور ہر شخص یہ خوفناک عزم لے کر اپنے اپنے گھر چلا گیا۔ خدا وند قدوس نے قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت میں اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
واذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخر جوک و یمکرون و یمکراللہ واللہ خیر الماکرین۔
“( اے محبوب یاد کیجئے ) جس وقت کفار آپ کے بارے میں خفیہ تدبیر کر رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا قتل کر دیں یا شہر بدر کر دیں یہ لوگ خفیہ تدبیر کر رہے تھے اور اللہ کی پوشیدہ تدبیر سب سے بہتر ہے۔ “
اللہ تعالٰی کی خفیہ تدبیر کیا تھی؟ اگلےصفحے پر اس کا جلوہ دیکھئے کہ کس طرح اس نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی اور کفار کی ساری اسکیم کو کس طرح اس قادر قیوم نے تہس نہس فرما دیا۔
( ابن ہشام )


ہجرت رسول کا واقعہ:

جب کفار
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قتل پر اتفاق کر کے کانفرنس ختم کر چکے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تو حضرت جبریل امین علیہ السلام رب العالمین کا حکم لے کر نازل ہو گئے کہ اے محبوب! آج رات کو آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جائیں۔ چنانچہ عین دوپہر کے وقت حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا کہ سب گھر والوں کو ہٹا دو کچھ مشورہ کرنا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان یہاں آپ کی اہلیہ ( حضرت عائشہ ) کے سوا اور کوئی نہیں ہے ( اس وقت حضرت عائشہ سے حضور کی شادی ہو چکی تھی ) حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو بکر اللہ تعالٰی نے مجھے ہجرت کی اجازت فرما دی ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے بھی ہمراہی کا شرف عطا فرمایئے۔ آپ نے ان کی درخواست منظور فرما لی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چار مہینے سے دو اونٹنیاں ببول کی پتی کھلا کھلا کر تیار کی تھیں کہ ہجرت کے وقت سواری کے کام آئیں گی۔ عرض کیا کہ یارسول اللہ! ان میں سے ایک اونٹنی آپ قبول فرما لیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ قبول ہے مگر میں اس کی قیمت دوں گا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بادل ناخواستہ فرمان رسالت سے مجبور ہو کر اس کو قبول کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تو اس وقت بہت کم عمر تھیں لیکن اس کی بڑی بہن حضرت بی بی اسماء رضی اللہ تعالٰی عنہا نے سامان سفر درست کیا اور توشہ دان میں کھانا رکھ کر اپنی کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کئے۔ ایک سے توشہ دان کو باندھا اور دوسرے سے مشک کا منہ باندھا یہ وہ قابل فخر شرف ہے جس کی بنا پر ان کو “ ذات النطاقین “ ( دو پٹکے والی ) کے معزز لب سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک کافر کو جس کا نام “ عبداللہ بن اریقط “ تھا جو راستوں کا ماہر تھا راہ نمائی کے لئے اجرت پر نوکر رکھا اور ان دونوں اونٹنیوں کو اس کے سپرد کرکے فرمایا کہ تین راتوں کے بعد وہ ان دونوں اونٹنیوں کو لے کر “ غارثور “ کے پاس آجائے یہ سارا نظام کر لینے کے بعد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے مکان پر تشریف لائے۔ ( بخاری ج1 ص 553 تا 554 باب ہجرت النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )

</b>
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top