یتیم سے حسن سلوک

  • Work-from-home

selfish_man

Senior Member
Oct 14, 2013
779
213
43
29
karachi
یتیم سے حسن سلوک


یتیم بچہ کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں تیئس مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اُن کے اموال کی حفاظت اور اُن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اُن کے ساتھ زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنے والے پر وعید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo‘‘

القرآن، النساء، 4 : 10

کیونکہ یتیم ہونا انسان کا نقص نہیں بلکہ منشائے خداوندی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اُس نے اپنے محبوب ترین بندے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالتِ یتیمی میں پیدا فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت سے بھی پہلے وصال فرما چکے تھے۔ پھر چھ سال کی عمر میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ بھی انتقال فرما گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس کیفیت کا ذکر قرآن حکیم میں یوں کیا ہے :

’’(اے حبیب!) کیا اُس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اُس نے (آپ کو معزز و مکرم) ٹھکانا دیاo‘‘

القرآن، الضحي، 93 : 6

پھر اس دُرِّ یتیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتامیٰ کی محبت، ان کے ساتھ شفقت و حسنِ سلوک اور اِحسان برتنے کی نہایت اعلی مثالیں قائم کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتامیٰ کی اچھی کفالت کرنے والے کو جنت کی خوش خبری دی اور اُن کے حقوق پامال کرنے والے کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔ قرآن حکیم کہتا ہے :

’’سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo‘‘

القرآن، الضحي، 93 : 9

ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور بری چیز کو عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو، یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہےo‘‘

القرآن، النساء، 4 : 2

اسی طرح دیگر مقامات پر فرمایا :

’’اور آپ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں : اُن (کے معاملات) کا سنوارنا بہتر ہے، اور اگر اُنہیں (نفقہ و کاروبار میں) اپنے ساتھ ملا لو تو وہ بھی تمہارے بھائی ہیں، اور اﷲ خرابی کرنے والے کو بھلائی کرنے والے سے جدا پہچانتا ہے۔‘‘

القرآن، البقرة، 2 : 220

’’اور یتیموں کی (تربیۃً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو اور ان کے مال فضول خرچی اور جلدبازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو اور حساب لینے والا اﷲ ہی کافی ہےo‘‘

القرآن، النساء، 4 : 6

’’اور (یتیموں سے معاملہ کرنے والے) لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو (مرتے وقت) ان بچوں کے حال پر (کتنے) خوفزدہ (اور فکرمند) ہوتے، سو انہیں (یتیموں کے بارے میں) اﷲ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور (ان سے) سیدھی بات کہنی چاہئےo بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo‘‘

القرآن، النساء، 4 : 9، 10

’’اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘

القرآن، الانعام، 6 : 152

’’کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہےo تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور اُنہیں حق سے محروم رکھتا ہے)o اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)o‘‘

القرآن، الماعون، 107 : 1 - 3

’’یہ بات نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتےo اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہوo اور وراثت کا مال سمیٹ کر خود ہی کھا جاتے ہو (اس میں سے اَفلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے)o اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہوo‘‘

القرآن، الفجر، 89 : 17 - 20

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک ہو۔‘‘

ابن ماجه، السنن، 2 : 1213، رقم : 3679

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ ۔ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الطلاق، باب العان، 5 : 2032، 2237، رقم : 4998، 5659



حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کو عذاب نہیں دے گا جس نے یتیم پر شفقت کی، اس کے ساتھ نرمی سے گفتگو کی، اور معاشرے کے محتاجوں و کمزوروں پر رحم کیا، اور جس نے اﷲ تعالیٰ کے طرف سے ہونے والی عطا کے وجہ سے اپنے پڑوسی پر ظلم نہ کیا۔ پھر فرمایا : اے اُمتِ محمدی! قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف سے صدقہ قبول نہیں کرے گا جس نے غیروں پر صدقہ کیا حالانکہ اُس کے اپنے رشتہ دار اُس کے صدقہ کے محتاج تھے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اﷲ تبارک و تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔‘‘

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں :

’’جس کو کسی یتیم کے مال کا ولی بنایا گیا تو اُسے چاہیے کہ وہ اُس مال سے تجارت کرے اور اُس کو یونہی پڑا نہ رہنے دے مبادا زکوٰۃ ادا کرتے کرتے وہ مال ختم ہوجائے۔‘‘

بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 2​
 
Top