Barish

  • Work-from-home

Amjad1iqbal

Newbie
Oct 5, 2008
25
24
0
بارش قطرہ قطرہ سمندرکااصل مظاہرہ دیکھنے کے لۓ آپ کو مون سون کی بارشوں کا انتظار کرنا پژتا ہے جب بارش ہوتی ہے تو چھوٹی چھوٹی نالیوں میں طغیانی آجاتی ہے اور وہ ندی نالوں کی شکل اختتیار کر لتیں ہیں ان کے ملاپ سے سژکیں دریاؤں کی گزرگاہوں میں تبدیل ہو جاتیں ہیں اور ان دریاؤں کے ملنے سے شہر ایک بحر بیکراں کا روپ درھار لیتا ہےاور اس کے بعدپانی پانی ہر جگہ پانیw کا منظر ہوتا ہےویسے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اتنا پانی ہونے کے باوجود ہمارے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر جھگژا کیوں رہتا ہے۔


ہمارے ہاں ایک گھنٹہ بارش ہو جاۓتو ایک ماہ تک اس کے آثار رہتے ہیں اگر آپ سیاح ہیں یا کافی عرصہ بعد بیرون ملک سے پاکستان تشریف لاۓ ہیں آپ کو ہر گھر کے سامنے ایک تالاب نظر آۓاور ہر تالاب میں درجن درجن بھر بچے کھیلتے نظر آئیں تو آپ بڑے فخر اور یقین کے ساتھ یہ بیان دے سکتے ہیں


'لگتا ہے چند دن قبل بارش ہوئ ہے'


مگر ٹھہریۓ! کہیں ایسا نہ ہو کے آپ کی ذہانت حکمت اور فلسفہ درھرے کا درھرا رہ جاۓیہ بیان دینے سے قبل اس بات کا اطمینان کر لے کہیں واسا تو اس شہر پر مہربان نہیں ہے۔


بارش سے قبل ہمارے گلی کوچوں میں مٹی ، ڈھول بن کر اڑتی ہےاور بارش کے بعد مٹی اور پانی کا آمیزہ جیسے بعض لوگ کیچڑ اور باز لوگ چکڑکہتے ہیں اڑتا ہےبڑے بوڑھےاور خاص طور پر نمازی حضرات اس آمیزے سے اپنے کپڑوں کو بچانے کی ناکام کوشش کرکے اپنے آپ کوپرہیزگار اور معزز ثابت کر رہے ہوتے ہیں۔


علامہ اقبال نے واقعی سچ کہا ہے


ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقیhhhhh


ہمارے ملک کی مٹی اتنی چکنی ہے کے کیا کہنے اس میں ذرا سا نم مل جاۓتو ایسا بہترین کیچڑ بنتا ہے کہ دنیابھر میں جس کی کوئ مثال نہیں ملتی۔میرے پاس ٹھکیدار حضرات کے لۓایک تجویز ہے کہ اگر وہ قلیل سے سیمنٹ اور لا متناہی ریت کی بجاۓ کیچڑ یعنی مٹی اور پانی کا آمیزہ استعمال کرے تو نہ صرف عمارتیں مضبوط ہو گی بلکہ خرچ بھی کم آۓ گایعنی کم خرچ بالانشین۔


یہی نہیں آپ کے پاؤں میں بوٹ ہو یا پشاوری چپل ،سادہ چپل ہو یا ہوائ چپل ہو آپ نے شلوار قمیض ہو یا پینٹ شرٹ ،دوہتی کرتا ہو یا تھری پیس کیچڑ کی نظر میں سب برابر ہیں۔آپ چند لمحے چہل قدمی کرے آپ کے پاؤں کی ایڑھی سےسر کی چوٹی تک ایک تصویر ابھرے گی اور ایسا معلوم ہو گا کہ کسی بچے نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے


مگر بارش کے بعد باہر چہل قدمی کرنے کی صورت میں نقصان کی تمام تر ذمہ داری آپ پر عائدہو گی یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے پاؤں وفا نہ کرے اور آپ کینوس بننے کی بجاۓ پینٹ میں لتھڑے ہوۓ برش کی طرح کیچڑ سے برآمد ہو اور اگر ابھی تک آپ کے ہاتھ پاؤں سلامت ہو تو لوگوں سے مدد امید نہ رکھے اور لوگوں کو ہنسنے کا زیادہ موقع نہ دے اور سیدھا گھر کا رستہ لیں۔


ہمیں انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت کرنے میں کیچڑ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے جیسا کہ آپ کو معلوم ہے امریکی بغیر ثبوت کے کوئ بات کرتے ہیں پہلے ہر بات کی تحقیق کرتے ہیں پھر کسی نتیجے پر پہچنتے ہیں ہمارے انتہا پسند اور دہشت گرد ہونے کے متعلق ثبوت ملاحظہ فرماۓجیسا کہ ہر کہانی میں بے شمار اتفاقات ہوتے ہیں اس میں بھی ہو گے اس ضمن میں آپ کو پریشان ہونے کی ضرروت نہیں


امریکہ والوں نے امریکی مسلمان کو پاکستان بھیجا تا کہ وہ ہمارے خلاف ثبوت جمع کر سکے اتفاق وہ امریکی مسلمان بھی ہم پاکستانی مسلمانوں کی طرح جمعہ کی جمعہ مسجد میں جاتا تھا وہ جس مسجد میں بھی جاتا مولوی حضرات جمعہ کے خطبات میں امریکا اور اسرائیل کی بربادی کے لۓ دعائیں مانگ رہے ہوتے تھے خیر یہ دعائیں ہم اس دن سے مانگ رہے جس دن اسرائیل معرض وجود میں آیا اور امریکہ نے پہلی مرتبہ عراق پر حملہ کیا کیونکہ


سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے


مگر معذرت کے ساتھ ان دعاؤں کا کو ئ مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا


دیواروں پر امریکہ مردہ باد کے نعرے لکھے ہوتے ویسے تو یہ ثبوت بھی ہمیں انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت کرنے کے لۓ کافی تھے مگر رہی سہی کسر کیچڑ نے پوری کر دی اتفاق سے انہی دنوں با رشیں شروع ہو گئ اور بارش کے بعد ہر طرف کیچڑ پھیل گیا اتفاق سے امریکی کو ہوائ چپل پہننے کا بڑا شوق تھا جب وہ ہوائ چپل پہن کر کیچڑ بھری گلیوں میں چلتا تو کیچڑ اڑ اڑ کر اس کے سر گردن اور کمر پر لگتا اس نے باربار مڑ کر دیکھا مگر اسے کوئ مشکوک آدمی نظر نہ آیا جس کے ہاتھ کیچڑ سے بھرے ہو مگر لوگ اس مصیبت کی گھڑی میں اس سے ہمدردی کرنے کی بجاۓ اس پر ہنس رہے تھے اب تو اسے یقین ہو گیا تھا کہ پاکستانی کیچڑ اچھال اچھال کر نہ صرف نشانہ بازی کی مشق کر رہےتھے بلکہ اس کی تذلیل بھی کر رہے تھے ۔


پھر کیا ہونا تھا وہ پہلی فلائٹ سے امریکہ پہنچا اور ساری داستان من و عن مرچ مسالہ لگا کر امریکی حکام کو سنا دی ان شواہد اور بیانات کی روشنی میں کسی کے لۓ بھی یہ فیصلہ دینا مشکل بات نہیں کہ پاکستانی قوم ایک انتہا پسند اور دہشت گرد قوم ہے


یوں تو کیچڑ کے اور بھی فوائدو نقصانات ہیں مگر مجھے کیچڑ کا بیان یہاں ختم کر دینا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ حضرات اس مضمون کو کیچڑ کے فوائدو نقصانات سمجھ بیٹھے اور بچے امتحانی نقطہ نظر سے اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے رٹہ لگانا شروع کر دےبارش کے بعد کیچڑ کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے مثلا احمد فراز کا یہ شعر بارش کے بعد کے حالات کی عکاسی کرتا ہے


‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏دیو ار کیا گری میرے کچے مکان کی


‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏ل وگوں نے اس کے بیچ سے رستہ بنا لیا


دیہاتوں ،قصبوں اور کچی بستیوں میں یہ مناظر عام نظر آتے ہیں مگر لوگ اسی صورت میں رستہ بناتے ہیں اگر آپ دیوار تعمیر نہیں کرتےاور دیوار گرنے کی تمام ذمہ داری ہمسایوں پر عائد کی جاتی ہے جیسا کہ انڈیا یا افغانستان میں غبارہ بھی پھٹ جا‎ۓ تو ذمہ داری پاکستان پر عائد کی جاتی ہےالزامات کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں فلاں کے گھر سے پانی ہماری دیوار کی بنیادوں میں داخل ہوا فلاں نے گلی میں مٹی ڈالوائ ہوئ ہے جس کی وجہ پانی جمع ہو کر ہماری دیوار کی بنیادوں میں داخل ہوا اور دیوار زمیں بوس ہو گئ حیرت کی بات ہے کہ اس معاملے میں معمار حضرات کے فن تعمیر پر کوئ روشنی نہیں ڈالی جاتی اور یوں خواتین کے درمیان لڑائ کی ابتدا مندرجہ بالا الزامات سے ہوتی ہے مگر فریقین پانی ،بنیادوں اور زمین بوس دیوار کو بھول کر ایک دوسرے کے شجرہ نصب تک پہنچ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی سوانح عمری کے اہم واقعات پر روشنی ڈالنا شروع کر دیتی ہیں دیکھتے ہی دیکھتےگلیوں چھتوں،ادھ کھلے دروازوں اور کھڑکیوں بچے اور خواتین نظر آرھی ہوتیں ہیں جو حسین موسم سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ دونو ں گھروں کے بارے میں اپنی معلومات خاصہ میں اضافہ کر رہی ہوتی ہیں یہ لڑائیاں زیادہ تر زبانی کلامی ہوتی ہیں اور مخالفین فا صلے پر ہونے کے باعث ہاتھا پائ سے گریز کرتے ہیں اور ان کی پوزیشنز کچھ اس طرح سے ہوتی ہے ایک اپنی سڑھیوں پر کھڑی ہے تو دوسری صحن میں،ایک دیوار کے سہارے کھڑی ہے تو دوسری چارپائ پر، خیر پوزیشن کوئ بھی ہو ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونا شرط ہے لڑائ ختم کروانے کی کسی کو خاص جلدی نہیں ہوتی کیونکہ ایسی لڑائیاں دیہاتوں میں مرغوں اور کتوں کی بعد تفریع کا اہم ترین ذریع ہیں۔


بارش شروع ہوتے ہی کچھ گھروں کو ریڈ زون قرار دے دیا جاتا ہے اور ان گھروں کے سربراہ ایمر جینسی کا اعلان کر دیتے ہیں مرد حضرات چھتوں کے اوپر مٹی سے بھرے تھال اور خواتین گھر کے برتن اٹھاۓکمروں کے اندر اپنی پوزیشن سنبھال لیتیں ہیں پھر اس طرح کی آوازیں سنائ دیتی ہیں کپڑوں کے صندوق کے اوپر چھت ٹپک رہی ہے


مسہری پر پانی گر رہا ہے


بستر بھیگ رہے ہیں


العرض تھالوں کی مٹی اور گھر کے برتن ختم ہو جاتے ہیں مگر چھت کے سوراخ ختم نہیں ہوتے


فرض کریں اگر بارش میں پانی کی بجاۓ معدنی تیل برستا تو امریکہ والے دنیا کے تمام بادلوں پر قبضہ کر لیتے ۔واقعی تیل انمول دولت ہے


ہمارے گلی کوچے جو بارش کے بعد تالاب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ان کے پانی میں ایک معجزاتی اثر کہ بدبو ہی نہیں آتی ہے میں جب یہ صورت حال دیکھتا ہو تو مجھے وہ لطیفہ یاد آ جاتا ہے


ایک لڑکی تھی اس کی شادی ایسے گھر میں ہو گئ جو گندے پانی کے جوہڑ کے پاس تھا گھر میں ہر وقت بدبو سمائ رہتی تھی وہ بیچاری اس بو سے بہت تنگ تھی ہر وقت کہتی رہتی کس مصیبت میں پھنس گئ ہوں چند دن گزرے تو وہ بھی اس کی عادی ہو گئ اب وہ بدبو اس کے تن بدن میں رس بس چکی تھی اسے وہ بدبو محسوس نہ ہوتی تو اس نے اپنی ساس سے کہا دیکھی میری کرامات میرے آنے سے تمہارے گھر کی بد بو ختم ہو گئ ہے ۔


بارش کے لۓ دعا مانگنے کے بے شمار مقاصد اور طریقے ہیں مگر وہ شریف شخص جس کے لۓ مہمان وبال جان بن چکے ہوتے ہیںجب اسے کسی مہمان کے آنے کی خوشخبری ملتی ہے بو وہ کچھ اس طرح سے دعا مانگتا ہے ۔


اے ابر کرم آج اتنا برس اتنا برس کہ کوئ آ نہ سکے
 
Top