آج ہمارا معاملہ الٹا ہوگیا ہے، آج اگر ہم دین کی کوئی بات کرتے ہیں تو اس میں عموماً اصلاح والی باتیں مفقود ہوتی ہیں۔ بلکہ عموماً ان باتوں میں یا تو فرقہ واریت کے اندر مبتلا ہوجاتے ہیں کبھی سیاست پر گفتگو چھیڑ دی جاتی ہے یا کبھی ایسے نظریاتی مسائل پر گفتگو شروع ہوجاتی ہے جن کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں دین سے ناواقفیت اتنی عام ہوگئی ہے کہ پہلے دین کی جو باتیں چھوتے بچوں کو معلوم ہوتی تھیں آج بڑے بڑے پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ افراد کو معلوم نہیں ہیں۔ اور ان کو یہ بتایا جائے کہ یہی دین کی بات ہے تو اجنبیت اور حیرت سے پوچھتے ہیں کہ اچھا یہ بھی دین کی بات ہے۔