Kae Ankhen hn JO duaon sy Ab b ..@

  • Work-from-home

mashraki.larka

Super Star
Jun 23, 2010
10,598
4,907
713
36
KHUDA KI BASTI










کئی آنکھیں ہیں جو دعاؤں سے اب بھی نم رہتی ہیں

میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہر روز ایک نئی صبح کو جنم دینے کے لیئے رات کو تاریکی کی کوکھ میں ایک اندھاسفر کرنا پڑتا ہے ۔۔





تب کہیں جاکر نئی صبح کی روشن لکیر اندھیروں کو چیرتی ہوئی جنم لیتی ہے اور لوگ ایک لمبی نیند سے بیدار ہوجاتے ہیں اور اس نئی روشنی کا استقبال ایک نئی امنگ اور شکر کے ساتھ کرتے ہیں ۔۔ اور جیسے جیسے روشنی بڑھتی جاتی ہے سب اپنے اپنے کاموں میں ایسے جٹ جاتے تھے جیسے پرندے اپنی لمبی اڑان کے لیئے پہلے تو صبح کے ستارے کا انتظار کرتے ۔۔ پھر روشنی کے بڑھتے ہی اپنے ٹھکانوں سے اڑ جاتے تھے ۔۔۔ پھر یہاں وہاں اڑتے اڑاتے پورے دن کی مسافت کے بعد اپنے اپنے ٹھکانوں پر انسانوں ہی کی طرح لوٹ آیا کرتے تھے ۔۔ روز کی طرح اپنے گھونسلوں کو جیسا چھوڑ کر جاتے تھے ویسا ہی پا لیا کرتے ہیں ۔۔۔ ایسے ہی انسان بھی اپنے گھروں کو سلامت لوٹ آیا کرتے تھے ۔۔ یہ شاید خوابوں کی باتیں تھیں یا پھر اچھے وقتوں کی ۔۔




واقعی اب ایسی باتیں اچھے وقتوں ہی کی تو باتیں لگا کرتی تھیں جب دنیا میں بھروسے اور اعتبار کا رواج تھا ۔۔ زبان کی وقعت لکھت پڑھت سے کہیں زیادہ تھی ۔۔لوگ ، انسان کو مارنا تو درکنار چیونٹی کو بھی مسلتے ہوئے سو بار اللہ کے غضب سے ڈرتے تھے



۔۔بھولے سو کوئی غلطی ہو بھی جاتی تو اللہ کے حضور رو رو کر اپنا حال برا کر لیتے ۔۔ کفارے اور روزوں کی منتوں تک بات جا پہنچتی اور سکون قلب کے لیئے اللہ کی تسبیح کبھی ہاتھ سے الگ نہ کرتے تھے ۔۔

نہیں جانتی کہ اچھے وقتوں کو جانے کب پر لگ گئے تھے ۔۔ ایسے اڑے جیسے کبھی آئے ہی نہ تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ایک ایک دن میں اتنی برکت ہوتی تھی کہ ایک دوسرے کی خبر گیری کے لیئے ہمیشہ ہی کچھ وقت بچ جایا کرتا تھا ۔۔ ۔۔ تہواروں کو سوغات اور نیکی کا بہانہ سمجھ کر مناتے تھے ۔۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے میرے ابا جی ہم بہن بھائیوں سے دن میں ایک بار ضرور ہی ایک کام اپنے لیئے کروایا کرتے تھے ۔۔ وہ چاہے صرف پانی منگواناہی کیوں نہ ہو ۔۔ امی جی ہمیشہ کہا کرتی کہ بچے پڑھ رہے ہیں میں پانی لا دیتی ہوں ۔۔ تو ابا جی بڑی محبت سے کہتے کہ اگر میں ان سے کام نہیں کہوں گا تو انہیں خدمت کی عادت اور اطاعت کا فلسفہ کیسے سمجھ آئے گا ۔۔





وہ ہمیں سمجھایا کرتے تھے کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ مسلمان ہیں کہ ہمارے اسلام کی ہر بات میں ایک رمز ہے ۔ ہمارے ہر تہوار میں ایک فلسفہ ہے ۔۔ اور وہ فلسفہ صرف ایک دوسرے سے محبت کرنے کا ہے ۔




زکٰوۃ ہو کہ قربانی فلسفہ صرف محبت ہی کا تو تھا ۔۔ اللہ کی محبت میں ا س کے بندوں سے محبت کرنا ۔۔ ان کی ضرورویات کا خیال رکھنا ۔۔ انہیں بھوک سے بچانا ۔۔ ان کی خودداری کا بھرم رکھنا ۔۔ یہی وہ فلسفہ محبت تھا جو کہ ہر عمر میں خوشی اور جینے کا حوصلہ دیتا تھا ۔۔ “ہمیشہ یاد رکھنا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے “ ۔۔۔ ہم سنتے یا نہ سنتے ابا جی کا آخر ی جملہ ہمیشہ یہی ہو اکرتا تھا جو وہ کہتے ہوئے اٹھ جایا کرتے تھے ۔۔۔ ۔۔

میں ہر روز کی طرح آج بھی اس وقت یہی سوچ رہی ہوں کہ دنیا کے مختلف نقشوں میں قید ہونے سے کیا ہم ضابطہ اسلام سے آزاد ہو سکتے ہیں ۔۔ ؟ اس بات پر یقین کے لیئے میرا دل نہیں مانتا ۔۔ ۔۔ صبح و شام یہی پکارتا ہے کہ نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔ ہم جہاں کہیں بھی رہیں جیسے ہمارے دن تہوار نہیں بدلتے ۔۔۔ ویسے ہی ہمارا منصب کبھی نہیں بدل سکتا ۔۔

لیکن ایک بات ضرور تھی جو مجھے بے چین رکھتی تھی ۔۔ جانے کیوں مجھے اس بات کا وہم سا ہو چلا تھا کہ جیسے سارے اچھے وقت گزر گئے تھے ۔۔ انسانوں کو اس کی طمع زر نے آپس میں ہی مقابلوں میں الجھا لیا تھا ۔۔ دنیا دارسا انسان اپنی روح کے تقاضوں سے دورسے دور تک ہوتا جا رہا تھا ۔ ۔۔ علم مسلکی تفرقہ بازی کی نظر ہو گیا تھا ۔۔ اور ہم مسلمان اون کے گولوں کی طرح دنیا کے نقشے پر جا بجا بکھر گئے تھے ۔۔۔ دشمنوں کی بجائے آپس میں ہی ایسے الجھ پڑے کہ ہمیں اپنی اجتماعی شناخت تک یاد نہ رہی ۔

جانے یہ وقت میں بے برکتی ہے یا ہماری بے حسی کہ ہمیں اپنے سوا کسی اور کی غریبی نظر ہی نہیں آ تی ۔۔ اپنے سوا کسی اور کی بھوک ہمیں دکھائی ہی نہیں دیتی ۔۔ دن تہوارتو جیسے اپنا فلسفہ کھو بیٹھے تھے ۔۔ سب سے زیادہ افسوس کی جو بات تھی وہ یہ تھی کہ ہمارے بچوں کی زبانوں پر اول تو ہمارے لیئے کوئی سوال ہی نہیں تھے اور جن بچوں کی زبان پر کچھ سوال تھے بھی تو ہمارے پاس اپنی کم علمی کی وجہ سے اس کے جواب نہیں تھے ۔۔۔

شاید “ہمارے جواب “ ۔۔ اور “ ہمارے اچھے وقت “ اسی وقت کھو گئے تھے جب ہم نے ہدایت کے لیئے قرآن پاک کو جز دان میں لپیٹ کر احتیاط سے گھر کی سب سے اونچی شیلف پر سجا دیا تھا ۔۔جب عبادت اور محبت نے نفسانی دل کے رستے سے خود کو الگ کر لیا تھا ۔۔۔ عید تہواروں میں چھپا اللہ کا پیغام بھلا دیا تھا۔۔ علم سیکھنے کے لیئے اپنی کتابوں کو کھولنا ۔۔اپنے بزرگوں سے صلاح لینا بند کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ اپنے اسلاف جیسا ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔ اور پھر آخر میں جب ہم نے فرقوں میں بٹ کر اپنی اجتماعیت کو بھی کھو دیا تو ہماری سلامتی کے راستے بھی گم ہو گئے ۔۔

آہ ! انسان تو انسان اب پرندوں کے بھی گھونسلے نہ رہے تھے ۔۔۔ صبح جیسا چھوڑ جاتے تھے واپسی پر کبھی ویسا نہیں پاتے تھے ۔۔۔

یہ کیسی وحشت اور دہشت ہے ۔۔ جس سے آج ہر مذہب اور ہر نسل متاثر ہے ۔۔۔
سچ پوچھئے تو یہ بڑی اذیت کا وقت ہے کہ پرانی نسل موروثیت میں نئی نسل کو صرف خود غرضی ۔ مفاد پرستی اور زر پرستی منتقل کر رہی ہے ۔

جانے کیوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ مایوسیاں بڑھ رہی ہیں ۔۔ تیز روشنیوں میں تاریکیاں پل رہی ہیں ۔۔۔ لیکن پھر بھی میر ایقین کہتا ہے کہ یہی وقت دعا کا بھی ہے ۔۔ اور خود سے اپنی غلطیوں کےاعتراف کا بھی ۔۔ مجھے کیوں لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں مصنوعی قہقہوں کی اس دنیا میں کئی آنکھیں ہیں جو دعاؤں سے اب بھی نم رہتی ہیں ۔۔ ان کے پاک آنسو اپنے رب سے دنیا کا امن اور ایمان کی سلامتی مانگتے ہیں ۔۔۔ مجھے لگا جیسے میرے ابا جی نے ہم سب سے ابھی ابھی کہا ہو “ہمیشہ یاد رکھنا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے “۔۔

اس یقین میں جانے کیسا سحر تھا کہ میری نم آنکھیں بھی ہنس پڑی ہیں ۔۔۔ میری امید یں ۔۔ مایوس شب کی تاریک کوکھ کے اندھیروں کو چیرتی ہوئی ایک تازہ حوصلے کے ساتھ نیا جنم لے رہی ہیں ۔۔۔ اور پرندوں کی طرح نیا سفر شروع کر رہی ہیں




 

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!










کئی آنکھیں ہیں جو دعاؤں سے اب بھی نم رہتی ہیں

میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہر روز ایک نئی صبح کو جنم دینے کے لیئے رات کو تاریکی کی کوکھ میں ایک اندھاسفر کرنا پڑتا ہے ۔۔





تب کہیں جاکر نئی صبح کی روشن لکیر اندھیروں کو چیرتی ہوئی جنم لیتی ہے اور لوگ ایک لمبی نیند سے بیدار ہوجاتے ہیں اور اس نئی روشنی کا استقبال ایک نئی امنگ اور شکر کے ساتھ کرتے ہیں ۔۔ اور جیسے جیسے روشنی بڑھتی جاتی ہے سب اپنے اپنے کاموں میں ایسے جٹ جاتے تھے جیسے پرندے اپنی لمبی اڑان کے لیئے پہلے تو صبح کے ستارے کا انتظار کرتے ۔۔ پھر روشنی کے بڑھتے ہی اپنے ٹھکانوں سے اڑ جاتے تھے ۔۔۔ پھر یہاں وہاں اڑتے اڑاتے پورے دن کی مسافت کے بعد اپنے اپنے ٹھکانوں پر انسانوں ہی کی طرح لوٹ آیا کرتے تھے ۔۔ روز کی طرح اپنے گھونسلوں کو جیسا چھوڑ کر جاتے تھے ویسا ہی پا لیا کرتے ہیں ۔۔۔ ایسے ہی انسان بھی اپنے گھروں کو سلامت لوٹ آیا کرتے تھے ۔۔ یہ شاید خوابوں کی باتیں تھیں یا پھر اچھے وقتوں کی ۔۔




واقعی اب ایسی باتیں اچھے وقتوں ہی کی تو باتیں لگا کرتی تھیں جب دنیا میں بھروسے اور اعتبار کا رواج تھا ۔۔ زبان کی وقعت لکھت پڑھت سے کہیں زیادہ تھی ۔۔لوگ ، انسان کو مارنا تو درکنار چیونٹی کو بھی مسلتے ہوئے سو بار اللہ کے غضب سے ڈرتے تھے



۔۔بھولے سو کوئی غلطی ہو بھی جاتی تو اللہ کے حضور رو رو کر اپنا حال برا کر لیتے ۔۔ کفارے اور روزوں کی منتوں تک بات جا پہنچتی اور سکون قلب کے لیئے اللہ کی تسبیح کبھی ہاتھ سے الگ نہ کرتے تھے ۔۔

نہیں جانتی کہ اچھے وقتوں کو جانے کب پر لگ گئے تھے ۔۔ ایسے اڑے جیسے کبھی آئے ہی نہ تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ایک ایک دن میں اتنی برکت ہوتی تھی کہ ایک دوسرے کی خبر گیری کے لیئے ہمیشہ ہی کچھ وقت بچ جایا کرتا تھا ۔۔ ۔۔ تہواروں کو سوغات اور نیکی کا بہانہ سمجھ کر مناتے تھے ۔۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے میرے ابا جی ہم بہن بھائیوں سے دن میں ایک بار ضرور ہی ایک کام اپنے لیئے کروایا کرتے تھے ۔۔ وہ چاہے صرف پانی منگواناہی کیوں نہ ہو ۔۔ امی جی ہمیشہ کہا کرتی کہ بچے پڑھ رہے ہیں میں پانی لا دیتی ہوں ۔۔ تو ابا جی بڑی محبت سے کہتے کہ اگر میں ان سے کام نہیں کہوں گا تو انہیں خدمت کی عادت اور اطاعت کا فلسفہ کیسے سمجھ آئے گا ۔۔





وہ ہمیں سمجھایا کرتے تھے کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ مسلمان ہیں کہ ہمارے اسلام کی ہر بات میں ایک رمز ہے ۔ ہمارے ہر تہوار میں ایک فلسفہ ہے ۔۔ اور وہ فلسفہ صرف ایک دوسرے سے محبت کرنے کا ہے ۔




زکٰوۃ ہو کہ قربانی فلسفہ صرف محبت ہی کا تو تھا ۔۔ اللہ کی محبت میں ا س کے بندوں سے محبت کرنا ۔۔ ان کی ضرورویات کا خیال رکھنا ۔۔ انہیں بھوک سے بچانا ۔۔ ان کی خودداری کا بھرم رکھنا ۔۔ یہی وہ فلسفہ محبت تھا جو کہ ہر عمر میں خوشی اور جینے کا حوصلہ دیتا تھا ۔۔ “ہمیشہ یاد رکھنا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے “ ۔۔۔ ہم سنتے یا نہ سنتے ابا جی کا آخر ی جملہ ہمیشہ یہی ہو اکرتا تھا جو وہ کہتے ہوئے اٹھ جایا کرتے تھے ۔۔۔ ۔۔

میں ہر روز کی طرح آج بھی اس وقت یہی سوچ رہی ہوں کہ دنیا کے مختلف نقشوں میں قید ہونے سے کیا ہم ضابطہ اسلام سے آزاد ہو سکتے ہیں ۔۔ ؟ اس بات پر یقین کے لیئے میرا دل نہیں مانتا ۔۔ ۔۔ صبح و شام یہی پکارتا ہے کہ نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔ ہم جہاں کہیں بھی رہیں جیسے ہمارے دن تہوار نہیں بدلتے ۔۔۔ ویسے ہی ہمارا منصب کبھی نہیں بدل سکتا ۔۔

لیکن ایک بات ضرور تھی جو مجھے بے چین رکھتی تھی ۔۔ جانے کیوں مجھے اس بات کا وہم سا ہو چلا تھا کہ جیسے سارے اچھے وقت گزر گئے تھے ۔۔ انسانوں کو اس کی طمع زر نے آپس میں ہی مقابلوں میں الجھا لیا تھا ۔۔ دنیا دارسا انسان اپنی روح کے تقاضوں سے دورسے دور تک ہوتا جا رہا تھا ۔ ۔۔ علم مسلکی تفرقہ بازی کی نظر ہو گیا تھا ۔۔ اور ہم مسلمان اون کے گولوں کی طرح دنیا کے نقشے پر جا بجا بکھر گئے تھے ۔۔۔ دشمنوں کی بجائے آپس میں ہی ایسے الجھ پڑے کہ ہمیں اپنی اجتماعی شناخت تک یاد نہ رہی ۔

جانے یہ وقت میں بے برکتی ہے یا ہماری بے حسی کہ ہمیں اپنے سوا کسی اور کی غریبی نظر ہی نہیں آ تی ۔۔ اپنے سوا کسی اور کی بھوک ہمیں دکھائی ہی نہیں دیتی ۔۔ دن تہوارتو جیسے اپنا فلسفہ کھو بیٹھے تھے ۔۔ سب سے زیادہ افسوس کی جو بات تھی وہ یہ تھی کہ ہمارے بچوں کی زبانوں پر اول تو ہمارے لیئے کوئی سوال ہی نہیں تھے اور جن بچوں کی زبان پر کچھ سوال تھے بھی تو ہمارے پاس اپنی کم علمی کی وجہ سے اس کے جواب نہیں تھے ۔۔۔

شاید “ہمارے جواب “ ۔۔ اور “ ہمارے اچھے وقت “ اسی وقت کھو گئے تھے جب ہم نے ہدایت کے لیئے قرآن پاک کو جز دان میں لپیٹ کر احتیاط سے گھر کی سب سے اونچی شیلف پر سجا دیا تھا ۔۔جب عبادت اور محبت نے نفسانی دل کے رستے سے خود کو الگ کر لیا تھا ۔۔۔ عید تہواروں میں چھپا اللہ کا پیغام بھلا دیا تھا۔۔ علم سیکھنے کے لیئے اپنی کتابوں کو کھولنا ۔۔اپنے بزرگوں سے صلاح لینا بند کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ اپنے اسلاف جیسا ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔ اور پھر آخر میں جب ہم نے فرقوں میں بٹ کر اپنی اجتماعیت کو بھی کھو دیا تو ہماری سلامتی کے راستے بھی گم ہو گئے ۔۔

آہ ! انسان تو انسان اب پرندوں کے بھی گھونسلے نہ رہے تھے ۔۔۔ صبح جیسا چھوڑ جاتے تھے واپسی پر کبھی ویسا نہیں پاتے تھے ۔۔۔

یہ کیسی وحشت اور دہشت ہے ۔۔ جس سے آج ہر مذہب اور ہر نسل متاثر ہے ۔۔۔
سچ پوچھئے تو یہ بڑی اذیت کا وقت ہے کہ پرانی نسل موروثیت میں نئی نسل کو صرف خود غرضی ۔ مفاد پرستی اور زر پرستی منتقل کر رہی ہے ۔

جانے کیوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ مایوسیاں بڑھ رہی ہیں ۔۔ تیز روشنیوں میں تاریکیاں پل رہی ہیں ۔۔۔ لیکن پھر بھی میر ایقین کہتا ہے کہ یہی وقت دعا کا بھی ہے ۔۔ اور خود سے اپنی غلطیوں کےاعتراف کا بھی ۔۔ مجھے کیوں لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں مصنوعی قہقہوں کی اس دنیا میں کئی آنکھیں ہیں جو دعاؤں سے اب بھی نم رہتی ہیں ۔۔ ان کے پاک آنسو اپنے رب سے دنیا کا امن اور ایمان کی سلامتی مانگتے ہیں ۔۔۔ مجھے لگا جیسے میرے ابا جی نے ہم سب سے ابھی ابھی کہا ہو “ہمیشہ یاد رکھنا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے “۔۔

اس یقین میں جانے کیسا سحر تھا کہ میری نم آنکھیں بھی ہنس پڑی ہیں ۔۔۔ میری امید یں ۔۔ مایوس شب کی تاریک کوکھ کے اندھیروں کو چیرتی ہوئی ایک تازہ حوصلے کے ساتھ نیا جنم لے رہی ہیں ۔۔۔ اور پرندوں کی طرح نیا سفر شروع کر رہی ہیں




:)

Waalaikum assalam WRWB
Itni pyari sharing ki hay aap ne ML bro
Bohat hi zabardast,,,,waqe hi masnoyi qehqaho ki dunya may kuch nam aankhon waale sach aur naram dil log hain jink berya aansu baqi sabko bhi ALLAH k narazgi se bcha laite hain..

Muje aik baat yaad aa rhi hay btana chahungi in fact ye AIk song tha kisi aur language may tha but Uska falsafa is muhavre pe base tha ..."neki kar darya may daal"

Song may ye kaha gya k aik bandey ne neki ki aur darya may daaldi...dusre ne neki ki aur darya may daal di jis jis ne neki ki darya may daal di aur Neki ka aik poora darya ban gya jis may sirf neki ka paani tha ,,wo Darya sumnadar may ja k gira aur Darya se ssumandar ban gya,,,,Den jab suraj ki kitney parri aur evaporation hui to wohi neki ka pani badilon ki shakal ikhtyar kar gya,,,aur jab Barish hui to wo neki aur rehmat k pani ki bairsh thi jo naik logon k saath saath baqi sab pe bhi barsi aur sab ko paak kar diya"

Thanx for beautiful sharing :-bd
 
  • Like
Reactions: mashraki.larka

mashraki.larka

Super Star
Jun 23, 2010
10,598
4,907
713
36
KHUDA KI BASTI

:)

Waalaikum assalam WRWB
Itni pyari sharing ki hay aap ne ML bro
Bohat hi zabardast,,,,waqe hi masnoyi qehqaho ki dunya may kuch nam aankhon waale sach aur naram dil log hain jink berya aansu baqi sabko bhi ALLAH k narazgi se bcha laite hain..

Muje aik baat yaad aa rhi hay btana chahungi in fact ye AIk song tha kisi aur language may tha but Uska falsafa is muhavre pe base tha ..."neki kar darya may daal"

Song may ye kaha gya k aik bandey ne neki ki aur darya may daaldi...dusre ne neki ki aur darya may daal di jis jis ne neki ki darya may daal di aur Neki ka aik poora darya ban gya jis may sirf neki ka paani tha ,,wo Darya sumnadar may ja k gira aur Darya se ssumandar ban gya,,,,Den jab suraj ki kitney parri aur evaporation hui to wohi neki ka pani badilon ki shakal ikhtyar kar gya,,,aur jab Barish hui to wo neki aur rehmat k pani ki bairsh thi jo naik logon k saath saath baqi sab pe bhi barsi aur sab ko paak kar diya"

Thanx for beautiful sharing :-bd
thanks Hoorain ..;)
 
  • Like
Reactions: whiteros

whiteros

'"The queen of kindness''
Super Star
Dec 20, 2011
10,936
3,866
1,313
thanks for sharing{(thx)},,,zabardast point out kia hai
 
Top