Karachi Bomb Blast - 50 Dead - February 5-2010

  • Work-from-home

Don

Administrator
Mar 15, 2007
11,035
14,651
1,313
Toronto, Ca
کراچی کی شاہراہِ فیصل پر شیعہ عزاداروں کی بس کے دھماکے سے نشانہ بننے کے بعد شہر میں جناح ہسپتال کے ایمرجنسی گیٹ کے قریب دھماکے میں دس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ان دو دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچیس ہو گئئ ہے۔




صوبائی وزیر صحت صغیر احمد کا کہنا ہے کہ شاہراہ فیصل اور جناح ہسپتال کے دھماکوں میں تقریبا پچیس افراد ہلاک ہوئے ہیں، ان کے مطابق شاہراہ فیصل پر دھماکے میں بارہ اور جناح ہسپتال کے دھماکے میں تیرہ افراد ہلاک ہوئے جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔
جناح ہپستال کے ایمرجنسی وارڈ کے قریب سے ایک مشکوک ٹیلیویژن بھی برآمد ہوا ہے جس کےبارے میں بم ڈسپوزل سکواڈ کا کہنا ہے کہ اس ٹی وی سیٹ میں بم نصب تھا جسے وہ ناکارہ بنارہے ہیں۔



ادھر جناح ہپستال کے ایمرجنسی وارڈ کے قریب سے ایک مشکوک ٹیلیویژن بھی برآمد ہوا ہے جس کےبارے میں بم ڈسپوزل سکواڈ کا کہنا ہے کہ اس ٹی وی سیٹ میں بم نصب تھا جسے وہ ناکارہ بنارہے ہیں۔
دھماکے کی نوعیت کا تعین نہیں ہوسکا ہے، بم ڈسپوزل اسکواڈ کے انسپیکٹر منیر احمد کا کہنا ہے کہ دونوں دھماکہ خودکش تھے اور معلوم ہوتا ہے کہ دونوں حملے موٹر سائیکل سواروں نے کیے ہیں ۔تاہم سپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے سربراہ ایس پی راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ دونوں دھماکوں میں ریموٹ کنٹرول ڈیوائس استعمال کی گئیں۔




اس سے قبل جناح ہسپتال کے میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر کلیم شیخ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بس دھماکے کے بعد بارہ لاشیں لائی گئی تھیں اور چالیس سے زائد افراد زخمی ہیں۔
دوسرا دھماکہ اس وقت ہوا جب شاہراہِ فیصل پر بس میں ہونے والے دھماکے کے زخمیوں کو جناح ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا۔ اس دھماکے میں کئی افراد زخمی ہوئے ہیں جنھیں دیگر ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا تھا۔ دوسرے دھماکے کے بعد مشتعل افراد نے ہپستال میں حکام کے نعرے بازی کی۔ مختلف تنظیموں نے ان واقعات پر احتجاج اور ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی چہلم پر ہونے والے دھماکوں پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
دوسرا حملے جناح ہسپتال کے گیٹ کے باہر ہوا


اس سے پہلےڈی آئی جی ساؤتھ غلام نبی میمن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ دھماکہ بس کے ساتھ موٹر سائیکل ٹکرانے سے ہوا۔ پولیس ذرائع کے مطابق جس بس کو نشانہ بنایا گیا اس میں شیعہ مسلمان سوار تھےاور ان میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ یہ بس زائرین کو امام حسین کے چہلم کے سلسلے میں برآمد ہونے والے جلوس کی جانب لے جا رہی تھی۔
دوسرے دھماکے کے بعد سندھ کے وزیرِ داخلہ ذوالفقار مرزا نےکہا کہ آج معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا اور ملک کو انتشار کا شکار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ انھوں نے شیعہ رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ ہڑتال کا فیصلہ بدل دیں کیونکہ اس سے حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ذوالفقار مرزا نے کہا کہ جمعہ کو جو کچھ ہوا وہ کھلی دہشت گردی ہے اور افسوسناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو علم تھا کہ ہسپتال میں زخمیوں کو لایا جائے گا چنانچہ دوسرے دھماکے میں ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا۔
جس مقام پر پہلا دھماکہ ہوا ہے وہ شاہراہِ فیصل سے شاہراہِ قائدین کی طرف جانے والا موڑ کہلاتا ہے



دھماکے کے بعد شیعہ عزاداروں نےاحتجاج کی۔ دس محرم کو بھی شیعہ مسلمانوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ عاشورہ کے جلوس میں شریک تھے۔
دھماکے کی اطلاع ملتے ہی کراچی میں کچھ دیر کے لیے مختلف شاہراؤں پر نکلے ہوئے جلوس روک دیے گئے۔
دوسرے دھماکے کے بعد سندھ کے وزیرِ داخلہ ذوالفقار مرزا نے اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں لیکن حکومت کی طرف سے ہلاک شدگان کے لیے پانچ لاکھ جبکہ زخمیوں کے لیے ایک لاکھ فی فرد ادا کیا جائے گا۔
جس مقام پر پہلا دھماکہ ہوا ہے وہ شاہراہِ فیصل سے شاہراہِ قائدین کی طرف جانے والا موڑ کہلاتا ہے۔
دھماکے کی اطلاع ملتے ہیں کراچی میں کچھ دیر کے لیے مختلف شاہراؤں پر نکلے ہوئے جلوس روک دیے گئے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل عاشورہ کے دھماکے میں جنداللہ نامی جہادی گروہ کو ملوث قرار دیا گیا تھا، جو اس سے قبل حکومت کی افغان پالیسی پر کراچی کے کور کمانڈر احسن سلیم حیات پر حملے میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔
 
Top