Lahore ki Dawaten

  • Work-from-home

Don

Administrator
Mar 15, 2007
11,035
14,651
1,313
Toronto, Ca
لاہور کی دعوتوں پر’دہشتگردی کا سایہ‘


محمد الیاس خان






لاہور میں مخصوص انداز کی دعوتیں پاکستان کے کسی دوسرے شہر سے قدرے مختلف تصور کی جاتی ہیں


شراب کےگلاس ایک خاص ترتیب سے میز پر رکھے جا رہے تھے اور کچھ ملازم ہال کے اندر فرنیچر رکھنے میں مصروف تھے۔ یہ سب تیاریاں پاکستان کے ثقافتی مرکز مانے جانے والے شہر لاہور کے علاقے گلبرگ کے ایک گھر کے عقبی صحن میں اختتام ہفتہ کی دعوت کے لیے کی جا رہی تھیں۔
تاہم اس موقع پر میزبان کچھ پریشان نظر آ رہے تھے۔ نام نہ بتانے کی شرط پر ایک میزبان نے کہا ان دنوں آپ کو کچھ زیادہ ہی محتاط ہونا پڑتا ہے کہ کن لوگوں کو مدعو کیا گیا اور کون سے لوگ دعوت میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں جن کی وجہ سے دعوت کے بارے میں باہر کوئی معلومات جائیں کیونکہ آپ کے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں اس طرح کی دعوتیں پسند نہیں ہیں۔
لاہور میں اس مخصوص انداز کی دعوتیں پاکستان کے کسی دوسرے شہر سے قدرے مختلف تصور کی جاتی ہیں۔ جن میں ایک ساتھ نمایاں فنکار، بڑی کاروباری شخصیات، میڈیا مالکان، بیورکریٹس اور سیاست دان شامل ہوتے ہیں۔ تاہم مسلح مذہبی گروہوں کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ ایسی دعوتوں کی لیے ایک خطرہ بنتا جا رہا ہے جن میں وسکی کے رسیا اور نیم عریاں رقصائیں موجود ہوتی ہیں ۔
ان دنوں آپ کو کچھ زیادہ ہی محتاط ہونا پڑتا ہے کہ کن لوگوں کو مدعو کیا گیا اور کون سے لوگ دعوت میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں جن کی وجہ سے دعوت کے بارے میں باہر کوئی معلومات جائیں کیونکہ آپ کے ارد گر ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں اس طرح کی دعوتیں پسند نہیں ہیں۔
میزبان


لاہور میں صرف ایک ماہ کے اندر عسکریت پسندوں کے دو حملوں کے بعد صورتحال زیادہ سنگین ہو گئی ہے۔ اسی وجہ سے داخلی دروازے پر سکیورٹی کے زیادہ سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ مہمانوں کے کیمروں پر نظر رکھی جا رہی ہے جن کی وجہ سے میزبان کو کچھ زیادہ ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ دعوت کے میزبان کے مطابق گذشتہ کچھ سالوں کے دوران ایسی پارٹیوں میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
لاہور کا مشہور رفیع پیر تھیٹر کچھ عرصہ قبل تک شہری اور دیہی مراکز اور بیرون ملک درجنوں براہ راست شوز کا انعقاد کیا کرتا تھا لیکن اب سکیورٹی کی خراب صورتحال کی وجہ سے کسی نئے پروگرام کی منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی ہے۔رفیع پیر تھیٹر کے ایک مالک عمران پیرزادہ نے کہا کہ ان حالات میں صورتحال خراب سے خراب ہوتی جا رہی اور فنکاروں اور موسیقاروں کی بڑی تعداد بھی بے روزگار ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف گزشتہ سال رفیع پیر تھیٹر نے مختلف پروگرامز کے لیے ایک سو پچاس سے دو سو ہنر مندوں کو روزگار فراہم کیا تھا ان میں فنکار، ڈانسرز ، تکنیکی عملہ اور پتلی تماشہ کرنے والے شامل تھے۔ تاہم اب یہ سب بے روزگار ہو چکےہیں ۔
فنکاروں کے لیے بدترین وقت جنرل ضیاالحق کا دور تھا باوجود اس کے کہ اس کے بعد آنے والی جمہوری حکومتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کے چند اسلام پسند عناصر کے ہاتھوں میں کھیلتی رہیں۔
عمران پیرزادہ


عمران پیرزادہ کے مطابق سکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے ناظرین کی تعداد میں کمی آئی ہے اور دوسری جانب براہ راست شوز میں سرمایہ کاری کرنے والے اجتناب کر رہے ہیں۔
سنگر انیقہ علی نے حال ہی میں ایک میوزک البم ریلز کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ میوزک البم کا افتتاح ایک بے یقینی اور برے دور میں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میوزک البم کی افتتاحی تقریب اچھی تھی لیکن اس کا موازنہ تین چار سال قبل ہوئی ان افتتاحی تقریبات سے نہیں کیا جا سکتا تھا جن میں وہ شامل تھیں۔ اور اب موسیقی اور آرٹ اور کلچر کے حوالے سے آنے والی خبروں نئے آنے والے فنکاروں کے لیے اچھی نہیں ہیں۔
لیکن ابھی بھی لوگ مایوس نہیں ہیں ان میں لاہور کےرہنے والے موسیقار یوسف صلاح الدین بھی شامل ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کرنے والے افراد بغیر کسی روک ٹوک کے فرار ہونے میں کامیاب گئے تو اس سے لاہور کے شہریوں میں مایوسی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔تاہم مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے کے بعد جس طرح شہریوں نے پولیس کی مدد کی اس سے ایک امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔
موسیقی اور آرٹ اور کلچر کے حوالے سے آنے والی خبروں نئے آنے والے فنکاروں کے لیے اچھی نہیں ہیں


عمران پیرزادہ سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ گزشتہ دنوں تھیٹر میلے کے دوران دہشت گردی کیا ان کے تیس سالہ کیرئیر کا بدترین واقعہ تھا تو اس پر ان کا جواب نفی میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں جب بھی اس طرح کی قوتوں نے جنم لیا تو فن اور موسیقی ان کاپہلا نشانہ بنے۔ جبکہ پاکستان میں پہلے اس طرح کے واقعات متعدد بار ہو چکے ہیں۔ ان کے خیال میں فنکاروں کے لیے بدترین وقت جنرل ضیاالحق کا دور تھا باوجود اس کے کہ اس کے بعد آنے والی جمہوری حکومتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کے چند اسلام پسند عناصر کے ہاتھوں میں کھیلتی رہیں۔
عمران پیرزادہ اور یوسف صلاح الدین دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ شدت پسندی کی یہ لہر ایک وقت کے بعد خودبخود ختم ہو جاتی ہے لیکن لاہور میں رہنے والے ایک سینئر صحافی عظمت عباس کا کہنا ہے کہ حالیہ مذہبی شدت پسندی دنیا کو اپنا بدترین رخ دکھائے بغیر ختم نہیں ہو گی جیسا کہ وہ ضلع سوات میں ناچ گانا کرنے والی خواتین کو دکھا چکی ہے۔ اس پیشہ کی مخالفت کرنے والے افراد نے ان میں سے ایک خاتون کا سر قلم کر چکے ہیں لیکن ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز اور جدید شہر لاہور میں ابھی یہ دور نہیں آیا ہے۔
 
Top