PaKiSTaN Kaa MaTLaB Kia???

  • Work-from-home

mohtarum

Newbie
Mar 31, 2007
334
126
0
48
پاک و ہند کی فضائوں نے جب " پاکستان کا مطلب کیا " کا نعرہ پہلی بار سنا ہو گا تو اسے بھی پاک و ہند کی محکوم مسلمانوں کی طرح اسے بھی یقین کامل ہو گیا ہو گا کہ اب پاکستان کے حصول کو کوئی بھی نہیں روک پائے گا ۔ پاکستان کے حصول کے فوراً بعد یہاںاسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق عدل اور انصاف پر مبنی اسلامی نظام کا قیام بھی جلد عمل میں آ جائے گا جہاں نہ صرف سب برابر ہونگے بلکہ ہر فردکو زندگی گزارنے کا باعزت مقام بھی حاصل ہو جائے گا ۔ لیکن افسوس صد افسوس کے اکسٹھ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی عام پاکستانی کبھی روٹی کپڑے اور مکان کے جال میں پھنسا تو کبھی اسلامی نظام و شریعت اور حسبہ بل کے نفاذ کے چکر میں دھوکا کھا گیا کبھی گھاس کھا کر عزت کے ساتھ جینے کی باتوں میں آیا تو کبھی عیاش حکمرانوں کے لئے گئے قرضوں کا بوجھ اتارنے کیلئے پاکستانی بچے اور بڑے بوڑھیوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے اپنے ہاتھ دھو ڈالے تو کبھی اپنی سرزمین پاک سے دہشت گردوں کے ناپاک قدموں سے نجات دلانے کے وعدوں کے سبب سب کچھ دائو پر لگا دیا ۔


پاکستان کے مطلب کو یہاں کے مطلب پرست حکمرانوں جاگیر داروں اشرافیہ اور بیوروکریسی نے نہ صرف اپنے اپنے مطلبکیلئے استعمال کیا بلکہ ہر دور میں اپنی من مانی کی اور ان نعروں کی آڑ میں چھپے اپنے مقاصد پورے کرتے رہے ۔ جبکہ اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے یہاں نہ کچھ کیا جا سکتا اور نہ ہی ان جھوٹے حکمرانوں نے کچھ کیا ۔ حکمرانوں کے ان جھوٹے اور روز افزوں بدلتے وعدوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کا نوجوان محظ اپنی دلی تسکین کیلئے کبھی e-mail تو کبھی SMS کے ذریعے "پاکستان "کے نام کو عجیب عجیب معنی دے رہے ہیں ۔ اور شاید اس میں حقیقت بھی نظر آتی ہے اور جو کچھ اس طرح ہے ۔
P..................... Pistal
A............... Atombom
K.......... Kalashankov
I.......... ILam Ki Kami
S.... Sarkon pe Zulam
T............. Trafic Jam
A.....Awam Parashan
N.... No Electricity etc
پستول ایٹم بم اور علم کی بات کی جائے تو وطن عزیز میں پستول گردی کا کلچر کا آغاز لیاقت علی خان کی شہادت سے ہوا ۔ جب کہ اس کا باقاعدہ آغاز آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ اور سندھ کے ایک جاگیر دار نے کیا تھا جس نے ایف ایس ایف کے نام پر ذاتی محافظوں کی فوج بنائی اس سے پہلے کے حکمرانوں کو شراب کی لت نے مارا تھا لیکن اس کے بعد آنے والے نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر پاکستانی عوام کو بیوقوف بنایا ۔ سوشلزم کی پرچار کرنے والے اس لیڈر نے نیشنلائزیشن کے نام پر تعلیمی اداروں کو بھی سرکاری تحویل میں لیا لیکن اس نے ملک کے حکمرانوں متوسط طبقے اور غریب طبقے کی تعلیمی نظام کیلئے کچھ نہیں کیا اور یوں ایلیٹ کلاس پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں حکمرانی کیلئے تعلیم حاصل کرتے رہے متوسط طبقے سے کلرکوں اور بابوئوں کی بھرتی کا سلسلہ جاری رہا ۔ جب کہ غریب طبقہ مدرسہ میں مولوی بن کر نکلتا رہا جسے اس کے بعد آنیوالے حکمران نے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا اور اس کے نام پر جہاد کی نت نئی تشریحات نکلتی رہی ۔



یہ اعزاز اسی جاگیردار کو حاصل ہے کہ اس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا بھوکی ننگی اور قرضوں پر چلنے والی اس قوم کو ایٹمی صلاحیت اس نے دی سیلف ڈیفنس کے نام پر اس کے ہاتھ میں اسلحہ تو دے دیا لیکن اس قوم کو خودداری نہیں دی اس کے ساتھ بھوکی ننگی قوم کے لئے کچھ نہیں کیا اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ایک شخص روڈی کیلئے خوار ہو رہا ہو اور دوسرا شخص آ کر اس کو کلاشنکوف دے کہ اگر کوئی بدمعاشی کرے تو اس اسلحہ کو استعمال کرو اور اپنا دفاع کرو ۔ حالانکہ بھوکے کو روٹی کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ اسلحہ کی۔


کلاشنکوف کلچر اور سڑکوں پر ظلم کا آغاز کرنیوالے اور گیارہ سال تک اسلامی نظام کے نام پر من مانی کرنے والے پاکستانی لیڈر نے سرخ ریچھ کا مقابلہ کرنے کیلئے نہ صرف افغانوں کو تیار کروایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سرحد کے پختونوں کو بھی جہاد کے نام پر مروایا اسی کے دور میں نہ صرف بم دھماکوں کا آغاز ہوا بلکہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اسی نے لسانی گروہی اور مذہبی تنظیموں کو سپورٹ کیا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج سندھ سمیت سرحد پنجاب اوربلوچستان میں مختلف تنظیمیں ہاتھ پائوں نکال رہیں ہیں اور سڑکوں پر ظلم کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ اس کا کریڈٹ اسی شہید کو جاتا جس نے اپنے اور ایک دوسرے ساتھی کو جنہیں خاموش مجاہد کہا جاتا ہے۔ خود تو مردمومن کا اعزاز حاصل کیا دوسرے کے بچوں کو جہاد کے نام پہ مروا کر ان کے لئے مقبرے جب کہ اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلا کر جہاد کے نام پر آنے والے ڈالروں سے شوگر گھی کی ملیں تعمیر کیں۔


بجلی کی کمی اور ٹریفک جام کا مسئلہ گذشتہ ایک دہائی سے جاری ہے لیکن گذشتہ دو سالوں سے یہ سلسلہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے نئے سال کا آغاز بھی کچھ اس طرح ہوا جس کے باعث عوام پریشان ہو کر ہائے آٹا ہائے بجلی اور ہائے حکومت کے نعرے لگا رہی ہے جس کا حکومت بھی کوئی نوٹس نہیں لے رہی سو ان حالات میں لفظ پاکستان کا مطلب تبدیل ہو کر اگر ایسا لکھا جائے جیسے اوپر ذکر کیا گیا تو اس کو کہا جائے عوام کی پریشانی فرسٹیشن یا کچھ اور ۔ سب سے اہم بات کہ عوام کو بھی اس لفظ اور نعرے سے اب کوئی غرض نہیں رہا کیونکہ جب پیٹ خالی اور جیب قرضوں کے جیب تلے دبی ہو تو مذہب کا خیال کیسے آ سکتا ہے ۔

 
Top